پروفیسرعطاء الرحمٰن
سائنس کے میدان میں ایجادات کے درخت لگانے میں نہ صرف سائنس داں اپنا اہم کردار اد ا کررہے ہیں بلکہ مختلف کمپنیاں بھی جدت سے بھر پور چیزیں متعارف کروارہی ہیں ۔ اب تک کیا کچھ ایجا دہوچکا ہے ،ذیل میں چند کے بارے میں تذکرہ ہے ۔
ڈیجیٹل اساتذہ : اکثر طلباء لیکچرز کے دوران انتہائی بے لطفی محسوس کرتے ہیں۔ اس کی وجہ اساتذہ کا لیکچر دینے کا انداز یا پڑھایا جانے والا مواد ہوتا ہے یا پھر دونوں عوامل مل کر لیکچر کو بے لطف بناد یتے ہیں۔ ٹیکنالوجی نے اس کا حل بھی تلاش کرلیا ہے ۔ ڈیجیٹل استاد دوران لیکچر طالب علموں کے موڈ کا اندازہ لگاکر فوراً تدریس کے انداز میں تبدیلی کرکے ان کی دلچسپی لیکچر کی طرف مبذول کروالے گا۔ اس ٹیکنالوجی کو Auto Teacher کا نام دیا گیا ہے،یونیورسٹی آف نارٹرے ڈیم کے نفسیات کے اسسٹنٹ پروفیسر سڈنی ڈی ملو، یونیورسٹی آف Menuphisکے ڈاکٹر آرٹ گریزر اور MIT کے ایک ساتھی نے مل کر تیار کی ہے۔ سسٹم طلباء سے مختلف سوال کرے گا اور جواب سے ان کی جذباتی حالت اور ان کی معلومات کا اندازہ کیا جائے گا۔ تدریس کو مزید دلچسپ بنانے کے لیے تصاویر، اینی میشن اور simulation کا استعمال کیا جائے گا۔ ابتدا میں اس سسٹم کو مختلف نظریات، تنقیدی فکر، کمپیوٹر لٹریسی اور نیوٹن کی طبیعیات کی تدریس کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
عمارتوں کے اندر اڑنے والا جہاز :
آسٹریلوی کمپنی D-Dalusنے ایک نئی قسم کا ہوائی جہاز تیار کیا ہے جو عمارتوں کے اندر سے بغیر ٹکرائو کے باآسانی گذر جائیں گے ،کیونکہ ان میں کسی قسم کے نازک یا کمزور آلات نہیں لگے ہوئے ہیں۔ یہ فضا میں عمودی انداز میں اوپر اٹھ سکتے ہیں اور کسی بھی سمت میں کسی بھی زاویے سے سفر بھی کرسکتے ہیں، کیوں کہ ان میں جامدپر Fix Wingیا Rotor نصب نہیں ہیں۔ اس کے بجائے ان میں گھومنے والے ٹربائن Rotating Turbine لگائے گئے ہیں جو ان کے راستے پر ان کو بالکل درست سمت میں کنٹرول کرتے ہیں۔ ان میں نصب Sense and aviod نظام ان کو دیواروں اور دوسری اشیاء سے ٹکرائو سے محفوظ رکھتا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ ان کو دھماکہ کرنے کے لیے بطور ڈرون استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ راہداریوں اور کمروں میں سے گذرتے ہوئے ان سے دوسرے کام بھی لیے جاسکتے ہیں۔
اُڑنے والی بائی سائیکل :
نجی کمپنی کے ایک گروپ نے اُڑنے والی بائی سائیکل تیار کی ہے ۔اس کو ’’ایف بائیک ‘‘ کانام دیا گیا ہے ۔اس میں بجلی سے چلنے والے propeller ایک ہلکے دھاتی فریم نصب کئے گئے ہیں ۔ بجلی سے چلنے والے چھ Driven Propeller سائیکل کو عمودی طور پر اوپر اٹھائیں گے اور اس وقت تک سائیکل فضا میں اڑتی رہے گی جب تک اس کی بیٹری کام کرتی رہے گی۔ اس میں Cross bar کے نیچے لیتھیم اور پولی مرکی بیٹریاں نصب کی گئی ہیں۔ ایف بائیک کاگائیرو اسکوپ ایکسلرومیٹر کے ساتھ نصب کیا جائے گا جو کہ اس کی پرواز کو نہ صرف استحکام دے گا بلکہ ہموار اڑان اور نرمی کے ساتھ لینڈنگ کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ حفاظتی نکتہ نظر سے سائیکل سوار کے لیے ایک خاص سیٹ بنائی گئی ہے، جس میں لگی پٹیاں اس کو سیٹ کے ساتھ باندھ لیں گی۔
فلاینگ مشین : ماہرین نے پرندوں کی اڑان کو دیکھتے ہوئےدنیا کی پہلی اُرنے والی مشین تیار کی ہے جو کہ انسان کوبھی اپنے ساتھ اُڑا سکتی ہے ۔یہ مشین یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنس کے bionik innovations centrum اور نیدر لینڈ کی یونیورسٹی آف Groningenکے شعبہ ocean system نے مل کر یہ مشین تیار کی ہے ۔اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو فضا سے تصاویربنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس کی وجہ ان کی شاندار پرواز اور جھولنے (Hovering) صلاحیت ہیں۔ اب وہ دن دور نہیں ہے جب آپ ایسے ہوائی جہاز میں سفر کررہے ہوں گے جو دور دراز پرواز کرنے کے لیے اپنے پر فضا میں پھڑپھڑائے گا۔
اڑنے والے ننھے روبوٹس : یونیورسٹی آف پینی سلوانیہ میں قائم جنرل روبوٹس آٹومیشن، سنسنگ اینڈپرسیپشن (GRASP) لیبارٹری امریکا اور یورپ میں قائم کئی لیبارٹریوں میں سے ایک ہے ،جہاں مستقبل کی جنگوں کو کنٹرول کرنے کے لیے تیزی سے پیش رفت جاری ہے۔اس سلسلے میں ریموٹ کنٹرول روبوٹ تیار کئے ہیں جو غول کی شکل میں اُڑتے ہوئے جائیں گے اور دشمن کے علاقوں میں عصبی گیس خارج کریں گے یا پھر وہاں سے قیمتی اطلاعات لے کرواپس آجائیں گے۔ لاکھوں اُڑتے ہوئے پرندے جو کہ ریموٹ کنٹرول ہوں گے، ہزاروںمیل دور دشمن کے علاقوں میں جاکر دشمن کی فوج کو ہلاک کردیں گے۔
اُڑنے والی ذاتی گاڑیاں : چین میںاُڑنے والی ذاتی گاڑیاں بازار میں آچکی ہیں،جبکہ یورپی یونین، یورپ کے بڑے شہروں میں سڑکوں پر ٹریفک کے اژدھام کا حل تلاش کرنے لیے بڑے پیمانے پر اڑنے والی گاڑیوں کی تیار ی کررہی ہے ۔ذاتی فضائی کاروں یا Personal Aerial Vehiclus (PAV) پروگرام کو اس سال 6.2ملین امریکی ڈالر کی رقم فراہم کی گئی ہے۔ PAVs کو ابتداء میں چھوٹے فاصلوں مثلاً گھر سے آفس تک فاصلے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ 2000فیٹ سے نیچے پرواز کریں گی، تاکہ عام فضائی ٹریک میں دخل اندازی نہ کریں۔ Tubingers جرمنی کے میکس پلاک انسٹی ٹیوٹ برائے بائیلوجیکل سائبر نیٹکس کے پروفیسر Hesnrich Bulthoff کے مطابق یورپی یونین کی امداد کو نئی ٹیکنالوجی کی تیاری میں استعمال کیا جائے گا،تاکہ اس نظام کومستقل چلنے والا نظام بنایا جاسکے۔ سیکورٹی مقاصد کے لیے بعض ہوائی راستوں کو شہری ٹریک سے بالکل دور رکھا جائے گا۔
Hover بائیک : Hover craft جہاز پانی کی سطح سے صرف ایک یا دو منٹ اوپر ہوتے ہیں۔ اب آسٹریلیا کے ایک تخلیق کار کربس میلوئے نے اڑنے والی موٹر سائیکل تیار کی ہے۔ یہ Hover bike زمین سے کئی ہزار فیٹ کی بلندی پر سفر کرے گی۔ یہ Hover bike کیولر Reinforced کاربن فائبر سے تیار کی گئی ہے۔ اس میں نالی دار گھومنے والے دھکامار (Propeller) لگے ہوئے ہیں جو اس کو فضاء میں پرواز کرتے ہوئے173میل فی گھنٹے کی رفتار فراہم کرتے ہیں۔
انٹرنیٹ ہم میں سے اکثر لوگوں کی روزمرہ کی ضرورت بن چکا ہے، تاہم سڑکوں پر سفرکرتے ہوئے اکثر وائرلیس انٹرنیٹ کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ اب جاپانی مشروب کی کمپنی نے ایک اچھوتا تصور پیش کیا ہے جو بھی ان کی vending مشین کے قریب کھڑا ہوگا ،اسے فری انٹرنیٹ کی سہولت فراہم ہوجائے گی۔ اس میں کسی قسم کے پاس ورڈ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ 30منٹ استعمال کے بعد اس کی مدت ختم ہونے کے بعد آپ کو ایک دفعہ پھر login کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ اس کے ساتھ ہی جب آپ اس مشین کی قریب کھڑے ہوکر انٹرنیٹ استعمال کریں گے تو آپ کو پیاس محسوس ہوگی اور آپ ان کا مشروب خریدنے کی خودبخود ضرورت محسوس کریں گے۔
مختصر ترین ہتھیلی (پام وین) کا ا سکینر :
جاپان کے کمپیوٹرسرور اور اسٹوریج ڈیوائس سازی کے معروف ادارے نے دنیا کا مختصر ترین ہتھیلی (پام وین ) کا اسکینر ایجاد کیا ہے ۔ بائیو میٹرک ا سکینر کے مختلف موبائل مصنوعات مثلاً ٹیبلٹ کمپیوٹرز میں وسیع پیمانے پر استعمال ہونے کی توقع ہے۔ اس کی وجہ درستگی اور سائز (جسامت) ہے،جس سے اس کو بہترین سیکورٹی میسر آئے گی۔ اس کے استعمال کنندہ کو یہ فائدہ ہوگا کہ یہ ہاتھ کی لکیروں اور ہاتھ کے نقش کا پرنٹ فاصلے سے لے سکے گا۔بغیرچھوئے Plam vein authentication سسٹم نہ صرف ہتھیلی میں موجود رگوں کی ساخت کی شناخت کرے گا جو کہ عام طور پر خالی آنکھ سے نظر نہیں آتیں بلکہ انگلیوں کی ساخت کو بھی شناخت کرے گا اور پھر اس کی مرکب Composit تصویر تشکیل دے کر استعمال کنندہ کی شناخت کرسکے گا۔لہٰذا یہ اسپتالوں اور دوسرے عوامی مقامات کے لیے انتہائی کارآمد ہے ۔
خون سے انسانی آنکھ کی بافتوں کی نمو :
اسٹیم سیل کے ذریعے علاج تیزی سے مقبول ہورہا ہے۔ اس سے قبل اسٹیم سیل کو جنین (Embryo) سے حاصل کیا جاتا تھا (جس کی وجہ سے یہ انتہائی متنازعہ تھا) یا پھر مریض کی ریڑھ کی ہڈی کے گودے Bone Marrow سے حاصل کیا جانے لگا، مگر اب مریض کی جلد یا خون سے ایک قسم کے اسٹیم سیل (Induced Pluripotent stem cell) بنائے جاسکتے ہیں۔ یہ خاص اسٹیم سیل بعدازاں دل، گردے یا دوسری اقسام کی بافتوں (ٹشوز) میں تبدیل ہوسکتے ہیں۔بالغ افراد میں نابینا پن کی ایک اہم وجہ آنکھ کے پردے ( Retina )پر بیماریوں Mascular degeneration and pigmentosaکا ظہور ہے۔انحطاط Degeneration کے اس عمل کو بعض دوائوں کی مدد سے سست کیا جاسکتاہے۔اب اس کا ایک حل آنکھ کے پردے کی نئی بافتوں کی پیدائش ہے۔ امریکی یونیورسٹی آف وسکوسن میڈیسن کے سائنسدان اسٹیم سیل کی مدد سے انسانی آنکھ کے ٹشوز اُگانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اسٹیم سیل ایک مریض کے خون کے سفید ذرّات سے حاصل کئے گئے، اس کے بعد ان خلیات کو Reprogramed(ری پروگرامنگ پروٹین کے حامل پلازمڈز کو استعمال کرتے ہوئے تاکہ خون کے سفید ذرات کو متاثر Infectکیا جاسکے) کیا گیا ۔ اس کے بعد اس کو انسانی آنکھ کے پردے کی بافتوں میں تبدیل ہونے پر مائل کیا گیا۔ اس عمل کی مدد سے مستقبل میں آنکھ کے پردوں کے ٹشوز کو ٹرانسپلانٹ کرنے میں مدد ملے گی اوریہ ٹشوز اُسی مریض کے خون سے حاصل کئے جائیں گے۔