قرآن ِ حکیم کی وساطت سے اللہ کے نور (جمال) کی گواہی دنیائے انسانیت کو صادق و مصدوق پیغمبر ﷺ سے ملی ہے۔ قرآن کریم میں کئی آیات خالقِ کائنات کے نور کی یہ توضیح کرتی ہیں کہ وہ جمال جو اَزل سے ابد تک ساری کائنات پر محیط ہو گا۔ اس نور کی شان صحیفۂ رُبانی میں یوں بیان کی گئی ہے:اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں ایک چراغ ہو۔ یہ چراغ ایک فانوس میں ہو اور یہ فانوس ایسا ہو جیسے ایک ستارہ موتی کی طرح چمکتا ہوا جو زیتون کے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو، جو نہ شرقی ہے نہ غربی قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے خواہ اسے آگ نہ چھوئے۔ نور پر نور۔ اللہ اپنے نور کی جسے چاہے رہنمائی عطا فرمائے۔ یہ مثالیں اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔(النور۳۵)۔ آیۂ نور، جس کی تفسیر و ترجمہ امام غزالیؒ سے عبداللہ یوسف علی تک نہایت حسن و خوبی کے ساتھ کیا ہے، رفیع الشان لفظی و معنوی لطافتوں کا مرقع ہے۔خالقِ کائنات کے نور کی تجلّیات ہمیں شعرائے کرام کے حمدیہ کلام میں چمکتی دمکتی ملتی ہیں، پھر اہلِ سخن نے اس نور السمٰوات والارض کی لامحدود وسعتوں میں غوطہ زن ہوتے ہوئے اپنی ادبی علامات، تمثیلات، تشبیہات، استعارات اور رمز و کنایہ سے کائناتِ سخن کو حسن و جمالِ ہنر اور افکارِ لعل و گہر سے مالامال کیا ہے۔یہی نور ہمیں قرآنِ حکیم کی ان آیات میں ملتا ہے جن میں اللہ کی وحدانیت کا تذکرہ ہے یا وہ آیات جن میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کو بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ الحشر کی آیات نمبر۲۳ تا ۲۴ پر غور فرمائیے:وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ غائب و حاضر کا علم رکھتا ہے۔ وہی بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہےo وہ اللہ ہی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بادشاہِ حقیقی، نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب، اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا، سب سے بڑا ہو کر رہنے والا، پاک ہے اللہ اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں o وہ اللہ ہی ہے تخلیق کا منصوبہ بنانے والا پھر نافذ کرنے والا، صورت گری کرنے والا، اسی کے لیے ہیں سب بہترین اور حسن و جمال کے حامل نام۔ اس کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اور وہ زبردست اور بڑی حکمت والا ہے۔(سورۃ الحشر)۔حسن و جمال کے وہ تمام انداز ان آیات کے ایک ایک لفظ میں مضمر ہیں جن کا حامل خدائے ارض و سماوات ہے۔ اسی جمال کی صفات ہمیں دنیا کی جملہ چیزوں میں ملتی ہیں، چاہے وہ انسان ہو یا حیوان، نباتات ہوں یا جمادات، مائعات ہوں یا باد و بخارات، ہر شے میں اسی کا رنگ چمکتا ہے۔ اسی لیے تو کہہ دیا ہے:کہہ دو کہ ہم نے خدا کا رنگ اختیار کر لیا ہےاور اللہ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۳۸)گویا خالقِ مطلق کا حسن و جمال ہی سب سے افضل ہے اور اس کے بعد دنیا کی ہر چیز سے بہتر جمال رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے۔ خود رسولِ اکرمﷺ نے فرما دیا ہے: مومن کی فراست سے ڈرو اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔(ابنِ کثیر)۔’’اللہ کے نور کے ہزاروں مظاہر ہیں۔ جدھر نظر اُٹھا کر دیکھئے اس کے جلووں کی بہار ہے۔ اس کے نور و جمال سے یہ عالم لبریز ہے۔ اس دنیا میں رسولِ اکرمﷺ سب سے زیادہ با جمال ہیں۔ حضرت ابنِ مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’الٰہی جس طرح تو نے میری تخلیق کو خوب صورت بنایا ہے، اسی طرح میرے اخلاق کو اچھا اور حسین بنا دے۔ ‘‘(رواہ احمد)۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ دُعا رسولِ اکرمﷺ عموماً آئینہ دیکھنے کے موقع پر کیا کرتے تھے۔ آپؐ تو اس کائنات میں اپنی تخلیق کے لحاظ سے سب سے زیادہ افضل وپُرجمال ہیں۔ آپؐ کے جمال کے متعلق قرآن حکیم میں سراجاً منیراً کہا گیا ہے۔ یہ بھی اللہ کے نور کا ظہور ہے۔ اسی جمال کے نظارے علامہ اقبال جیسے مفکر شاعر نے کائنات کے مظاہر میں دیکھے ہیں، جو جمالِ فکر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی کتابِ مبین اور ارشاداتِ نبویؐ سے پایا ہے، اس کو اپنے کلام میں اَحسن طریقے سے پیش کر دیا ہے۔یہ کائناتی حسن و جمال ہمیں قرآن کریم کی آیات میں بکھرا ہوا ملتا ہے اور جب ہم اقبالؔ کے آہنگ اور اسلوبِ نگارش پر عمیق نگاہ دوڑاتے ہیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ اُن پر قرآن کریم کا اثر ہے۔ یہی حسن و جمال اقبالؔ کو بے قرار کر دیتا ہے، پھر وہ دیوانہ وار سرزمینِ حجاز کی جانب اسی جمال کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ا سی کے توسط سے وہ سالارِ حجاز صلی ا للہ علیہ و سلم کا جمال کیا ایک جھلک پانے کی سعیٔ مشکور کرتے ہیں۔ یہ جمالِ مصطفیٰ ؐ اُن کی آرزوؤں کا مرکز بن جاتا ہے۔ ان کے نزدیک مدینہ منورہ وہ آشیانہ ہے جس میں طائرِ رُوح کو سکون و آرام ملتا ہے۔ ان کے لبوں پر ایسے نغمے تڑپنے لگتے ہیں جن میں عشقِ مصطفیٰﷺ کا نور جلوہ افروز ہوتا ہے۔ ان کے خیالات میں صاحبِ لوح و قلم، تاجدارِ مدینہ، سیّد ابرارﷺ کے حسن و جمال کی ضیائیں دمکتے لگتی ہیں۔ مدحت کے گلزارِ صداقت کے تر و تازہ گلاب نکہتیں بکھیرنے لگتے ہیں۔ ان کے ذہن و دل میں روحانی نور و سرور ضو فشاں ہو جاتا ہے۔ وہ دشتِ کاظمہ کے چمکتے ذرّوں اور گلشنِ طیبہ کے چٹکتے غنچوں سے ہم کلام ہو جاتے ہیں۔ اقبالؔ کے ہاں یہ حسن و جمال خدائے لم یزل کی ایک اور تخلیق میں بھی نمودار ہوتا ہے۔ وہ تخلیق اس کائنات کی سب سے عظیم شخصیت ہے جس کے لیے یہ سارا جہان تخلیق کیا گیا ہے۔ جس کے حسن و جمال کو خود خالقِ مطلق بھی افضل و اعلیٰ قرار دیتا ہے۔ اسی حُسن کو سراجاً منیراً کے لقب سے نوازتا ہے۔ اسی کا ذکر اپنے ذکر کے ساتھ جوڑ کر کرتا ہے۔ قرآن میں ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘ بھی تو اسی جمال کو ظاہر کرتا ہے اور اسی جمال پر خود خالقِ کائنات اور اس کے نورانی فرشتے ہمہ و قت صلوٰۃ و سلام بھیجتے ہیں، اسی جمال کے لیے اہلِ ایمان کو حکم ہوتا ہے کہ صلّوا علیہ وسلّموا تسلیماً۔ گویا ہر مدحت، ہر ثنا اور ہر طرح کی فضیلت اسی جمال کے لیے ہے، جو خدا کے بعد دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہے۔ شاہ عبدالعزیز کا یہ مصرع حسن و جمالِ مصطفیٰﷺ کا کس قدر پُر مغز اور پُر معنی اظہار ہے ع بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
علامہ اقبالؔ جمالِ محسنِ انسانیتﷺ کے شیدائی ہیں۔ یہ نور انھیں عشقِ رسولِ کریمﷺ میں ملتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ’’ذاتِ محمدﷺ کائناتِ ہستی کا مقصد و مدّعا اور لُبِ لباب ہے۔ حسنِ ازل انسانی صورت میں ہی ذاتِ اقدس میں جلوہ گر ہوا ہے۔ جس طرح عالم ِمادی کو آفتاب سے روشنی حاصل ہوتی ہے ،اسی طرح عالم معانی کو سراجِ منیر اور آفتابِ عالم تاب کی ضیا پاشیاں منور کرتی ہیں۔ پوری کائنات اسی طرح اس جوہرِ اصلی کے گرد گھومتی ہے جس طرح ذوق و شوق عشق (جمال) کے مرکزی موضوع کے گرد گھومتی ہے ۔ اقبالؔ نے جمالیاتِ سرورِ کائناتﷺ کے مختلف رنگ ہائے جمال اپنے مخصوص عشقیہ انداز میں (فارسی اشعار میں) بھی پیش کیے ہیں۔ ان کا یہ اسلوب نعت کی روایت سے ہٹ کر ہے مگر نعت کی انقلابی خصوصیت میں جمالِ احمد مجتبیٰﷺ کے غنچے چٹکتے ملتے ہیں۔’’ مثنوی اسرار و رموز‘‘ میں ’’عرضِ حال بحضور رحمت للعالمین ﷺ‘‘ کے ابتدائی اشعار جب کہ’’ مثنوی پس چہ باید کر د‘‘ کی نظم ’’در حضور رسالت مآبﷺ‘‘ ‘‘کا آغاز بھی حسن و جمال کی ایک نئی کیفیت سے منور ہے۔ یہی نہیں جب اقبالؔ نے ’’پیامِ مشرق‘‘ جرمن کے مشہور حکیم گوئٹے کی تصنیف ’’مغربی دیوان‘‘ کے جواب میں مرتب کی تو گوئٹے کی مشہور نظم ’’نغمۂ محمد ؐ‘‘ کا آزاد ترجمہ ’’جوئے آب‘‘ کے نام سے کیا۔ دراصل ’’جوئے آب‘‘ کنایہ ہے ذاتِ محمدی ﷺ کے لیے، گوئٹے سے کہتے ہیں :محمد عربی ؐ کا وجود جو کہکشاں کی مانند درخشاں ہے، اس کائنات کے حق میں بارانِ رحمت ہے، کیوں کہ اس کی بدولت یہ کائنات سرسبز و درخشاں ہو گئی۔ ذاتِ محمدیﷺ میں جلوہ گر ہونے سے پہلے آغوشِ حق میں محوِ خواب تھی لیکن آپؐ چوں کہ سراپا رحمت ہیں، اس لیے آپؐ کی شانِ رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ دنیا میں تشریف لائے، آپؐ کے وجود کی برکت سے مردے (سنگریزے) زندہ (نغمہ سرا) ہو گئے۔ آپ کی تعلیم (ذات) آئینہ کی طرح شفاف اور پاکیزہ ہے۔ یہ ساری نظم رموز و کنایات سے لبریز ہے۔ جمالِ محسنِ انسانیتﷺ کے مختلف رنگوں کی کہکشاں سجائی گئی ہے۔ پھر علامہ اقبالؔ نے اس جوئے آب کی رخشندگی کے مختلف روپ گہوارۂ سحاب، چشمِ شوق، آغوشِ کوہ سار، بحرِ بے کراں، درخود بیگانہ، صد جوئے دشت، دریائے پُر خروش، تنگنائے کوہ و دمن وغیرہ کنایوں سے دکھائے ہیں جن میں ذاتِ محمدیﷺ کے حسن و جمال کی بوقلمونی قلب و نظر کو مسحور کرتی ہے۔جمالِ رسالتِ مآبﷺ کے تذکار سیرت کی کتابوں میں گہر ہائے گراں مایہ بن کر چمکتے اور پھولوں کی طرح مہکتے ملتے ہیں۔ خصوصاً حضورﷺ کی ولادتِ با سعادت کے حالات کی تحریری کاوشوں میں جب آفتابِ نو بہار کی طلعتِ طلوع کا ذکر آتا ہے تو انوارِ محمدیﷺ کی ضیائیں مشرق و مغرب کو منور کرتی ہیں۔ تجلیاتِ نبوت کی ضو فشانی سے قبل جمالِ مصطفیﷺ کی ایک پوری تاریخ مضمر ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کے خاندانی حسن و جمال کا ایک گلستان ہے جو رنگارنگ پھولوں کی رعنائی سے چمکتا دمکتا ہے۔ یہ سلسلۂ نسب، بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق، توحیدِ خداوندی کے عَلم بردار پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے منسلک ہے، جنہوں نے شمس و قمر کی ضیاؤں کو تاریکی کی چادر میں گم ہوتے دیکھ کر اُس کے خالق کو اپنا خدا تسلیم کیا اور ارض و سماوات میں اس کے جلال و جمال سے متاثر ہو کر وحدانیت کا نغمہ الاپا۔ یہی خلیلِ ربانی، خواجۂ دوسرا، مخزنِ اسرارِ ربانی ؐ کے جدِّ امجد ہیں جن کے جمالِ فکر نے ربِّ کائنات سے استدعا کی:اے ہمارے رب! اور مبعوث فرما ان میں ایک رسول ان ہی میں سے جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیوں اور دلوں کو پاک کرے۔ بے شک تو ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے۔ (البقرۃ: ۱۲۹)
یہ دُعائے خلیل ؑ مستجاب ہوئی۔حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ نورِ نبوت اُن کے فرزند ارجمند حضرت اسمٰعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کو منتقل ہوا۔ پھر رحمتِ عالمﷺ کے خاندان کو سرفراز کرتا ہوا آخر ختم الرّسل، ہادیِ کل صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ بابرکات میں نمودار ہوا۔ حضورﷺ کے پر دادا حضرت ہاشم اپنے جمالِ منصب حاجیوں کی میزبانی کی وجہ سے باوقار ہوئے، پھر حضرت عبدالمطلب کو یہی جمالِ منصب ملا تو سردارِ مکّہ کہلائے۔ آپ بے حد خوب صورت اور عظیم شخصیت تھے۔ جود و سخاوت کا فراواں جمال پایا تھا ،لہٰذا فیاض کہلائے۔ ہاتھی والوں کا واقعہ بھی ان کی زندگی میں پیش آیا جو سرورِ کونینﷺ کی پیدائش سے ۵۰۔ ۵۵ دن پہلے پیش آیا۔جمال کا یہ سلسلہ رواں دواں رہا یہاں تک کہ یہ حسن و جمالِ سیرت آپؐ کے والد ِمحترم حضرت عبداللہ پر سایہ فگن ہوا، حضرت عبداللہ، عبدالمطلب کے با جمال و با کمال فرزندارجمند تھے۔ سب سے زیادہ خوب صورت، پاک دامن اور چہیتے بیٹے تھے، سیرت و صورت منزّہ و مطہر مگر یہ حُسنِ مہر و ماہ شباب ہی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔آخر وہ وقتِ سعید بھی آن پہنچا جب پیغمبر آخرالزماں، سیّد المرسلین، رحمۃ للعالمینﷺ کا مکہ میں حیسن وجمیل ظہور ہوا۔ آپ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ کی گود میں جمالِ احمدﷺ ضو فشاں ہوا۔ حضرت آمنہ آپ کی پیدائش سے قبل خواب میں دیکھا کرتی تھیں کہ ایک نور کا سیلاب اُن کے اندر سے نکلا ہے، جس نے ہر چیز کو منور کر دیا ہے، یہاں تک کہ شام کے محلّات بھی روشن ہو گئے۔ یہی تو جمالِ کریم و مکرم، عظیم و معظم، محلل و محرم، علیہم و معلم صلی اللہ علیہ و سلم ہے، جس کا منتظر سارا جہاں تھا۔ ہاشمی خانوادے کی خواتین حضرت آمنہ کی خبرگیری کے لیے آئیں تو یوں محسوس کرتیں کہ آمنہ نور میں نہائی بیٹھی ہیں۔ ولادت کی بھیگتی شب پُرنور تھی، صبح صادق کا ستارہ چمک اُٹھا، غنچے چٹکنے لگے، کوہسار و میدان مہکنے لگے، خوش نوا پرندے چہکنے لگے، بادِ سحر گہی اٹکھیلیاں کرنے لگی، شبنم کے موتی دمکنے لگے، نکہتِ عنبر پھیلنے لگی، سارا عالم بقعۂ نور بن گیا۔ یوں محسوس ہونے لگا سچ مچ جنت الفردوس سرزمینِ بطحا پر اُتر آئی ہے بلکہ روایات بتاتی ہیں قصر کسریٰ کے چودہ کنگرے زمین بوس ہو گئے۔ آتش کدۂ فارس بجھ گیا۔
جمالِ مصطفیٰﷺ کی مبارک آمد د شتِ عرب کے ذرّوں کو جگمگانے لگی، جنت کو شرمانے لگا، شمس و قمر کو چندھیانے لگی، نغمۂ توحید ِالٰہی سنانے لگی، کفر و شرک کے پہاڑ ڈگمگانے لگے، صداقت کا اُجالا مسکرانے لگا، صبحِ سعادت کا آغاز ہوا اور صحنِ گلستانِ مکہ مسرتوں کی بارش سے نہانے لگا۔جمالِ رحمت عالمﷺ کی تابانیاں دارِ عبداللہ میں چراغاں کرنے لگیں، قلب و آغوشِ آمنہ کو فروزاں کرنے لگیں۔ حضرت آمنہ فرماتی ہیں: ’’اس وقت میں نے ایک عظیم نور دیکھا جو پھیلتا ہی جا رہا ہے‘‘ یہی تو جمالِ خیر الوریٰﷺ ہے جو جہانِ ویراں کو گلزار بنانے والا ہے، عروسِ گیتی کو مینائیں دینے والا ہے۔حضرت آمنہ نے اس ظہورِ جمالِ محمدیؐ کی اطلاع عبدالمطلب کو پہنچائی تو وہ شاداں و فرحاں تشریف لائے۔ مظہرِ لطف و عطا، کانِ حیا، نجم الہدیٰ ؐ کو اُٹھا کر خانۂ کعبہ میں لے آئے۔اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور دُعا کی، جمالِ نومولود پر نگاہ پڑی، پکار اُٹھے محمد، حسین و جمیل اور بے حد وحساب معانیوں سے لبریز اسمِ گرامی رکھا۔ ’’ساری دنیا میں آپؐ کے( حُسنِ وجود کی) تعریف کی جائے گی‘‘ یہ جمالِ مصطفیٰ ؐکا خانۂ کعبہ میں پہلا داخلہ تھا، اسی نسبت سے یہ گھر توحید کا مرکز بنے گا، نورِ ربّ کائنات کی تجلیات یہاں سے سارے عالم میں پھیلیں گی اور جمالِ محرمِ کبریائے ربّ ودود بھی اخلاقِ انسانیت کو جگمگائے گا۔ اسی کی کاوشوں سے حرمِ کعبہ تجلی گاہِ خالقِ کون و مکاں بن جائے گا اور باطل کی آلائشوں اور کفر و شرک کی ظلمتوں سے پاک ہو جائے گا اور جمالِ سیرتِ اقدس سارے جن و انس کو منزل دکھائے گا۔دستورِ عرب کے مطابق یہ درّ یتیم قبیلہ سعد بن بکر میں آغوشِ حلیمہ میں نور و جمال بن کر چمکنے لگا۔ قحط زدہ علاقے میں برکات کا ابرِ کرم برسنے لگا۔ دودھ کی نہریں بہنے لگیں، سرسبز و شاداب فصلیں لہلہانے لگیں۔ پھر قادرِ مطلق نے جمالِ محمدﷺ ، جمالِ جمیل الشیم، شفیع الامم، گنجِ نعمﷺ ہر لمحے، ہر عہد اور ہر زمانے کے لیے شمس الضحیٰ، بدر الدجیٰ بنا دیا ۔ حسانت کے پیکر اس شجرِ سایہ دار کی شاخیں اسلام کی شکل میں جب چاروں جانب پھیلنے لگیں، دھوپ کی شدّت، سورج کی تمازت نے جب صحرائے عرب میں آتشِ شرک کو تیز کر دیا تو لطفِ خدائے غفور جوش میں آیا۔ محسنِ انسانیتﷺ نے نبوت کے فرائض کی انجام دہی سے قبل بھی میدانِ عمل میں اپنے جمالِ حق و صداقت اور عدل و مساوات سے، گھومتے ہوئے عداوت کے بگولوں اور تیرہ و تاریک لمحوں کو روشن کر دیا۔ جنگِ فجار ہو یا حلف الفضول، بیت اللہ کی تعمیر ہو یا حجرِ اسود کی تنصیب کا جھگڑا، ہر مقام پر بڑھتی ہوئی تاریکیوں کو اپنے جمالِ فہم و فراست سے کافور کی طرح اُڑا دیا۔ یہ نورِ سحر ابھی فاران کی چوٹیوں پر پھیلا نہیں تھا کہ جمالِ سراجاً منیراﷺ سر اُٹھائی ہوئی دیوارِ کعبہ پر دمکنے لگا۔ کعبہ میں داخلہ ہونے والا سب سے پہلا شخص جامع الصفات، سرورِ کائناتﷺ تھا۔ اس جمالِ عرب و عجم کو دیکھ کر قریش پکار اُٹھے:یہ محمدؐ ہیں جو کہ امین وصادق ہیں، ہم ان کے فیصلے پر راضی ہیں۔میانوں سے نکلی ہوئی تلواریں تھم گئیں اور شور مچاتے ہوئے سردارانِ قریش خاموش ہو گئے، جمالِ عادلِ انور ماحول کو تابانی عطا کی ۔