طلاق ثلاثہ کے زیر التواء بل کے بارے میں اس خبر کو لامحالہ زیر نظر ر کھنا ہوگا کہ اس بل کا کیا نتیجہ برآمد ہونے والا ہے۔مورخہ 5جنوری 2018کو یہ خبر آئی کہ سرمائی اجلاس میں تین طلاق سے متعلق بل کے لوک سبھا میں پاس ہونے کے بعد راجیہ سبھا میں ملتوی رہ جانے کی وجہ سے مرکزی حکومت کے پاس اسے قانونی شکل دینے کیلئے بہت ہی محدود متبادل رہ گئے ہیں۔ اس بل کے مستقبل کے بارے میں راجیہ سبھا کے سابق جنرل سکریٹری وی کے اگنی ہوتری نے بتایاتھا کہ حکومت کے پاس ایک متبادل موجود ہے کہ وہ آرڈیننس جاری کردے۔ حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہاتھا کہ ایسا کرنا ایوان بالا کی بے عزتی کے مترادف ہوگا۔ایک مرتبہ تین طلاق کو فوجداری جرم بنانے کے بندوبست والے بل کو سرمائی اجلاس میں لوک سبھا سے پاس کیا جا چکا ہے ، لیکن راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی شدید ہنگامہ آرائی اور بل کو سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کے مطالبہ پر بضد رہنے کی وجہ سے اس کو تادم تحریر پاس نہیں کیا جاسکا۔ حالانکہ حکومت نے اس کو ایوان میں پیش کردیا ہے اور یہ فی الحال ایوان بالا کی ملکیت ہے۔
یہ بات بھی فراموش نہیں کی جا نی چاہئے کہ مسلمانوں کے عائلی مسئلے میں بی جے پی بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی کی دلچسپی مسلم خواتین سے کسی ہمدردی کی بنیاد پرنہیں ہے،البتہ یہ ایک زعفرانی فراڈ ہے۔ دراصل یہ ایک سیاسی بساط ہے جس پر کچھ’’ مسلم ‘‘عورتیں مہرہ بناکر بٹھادی گئی ہیںاور انہیں مودی کی جانب سے اس کی اُجر ت بھی دی جاچکی ہے۔ایڈوکیٹ نازیہ الہٰی خان جو اس مودی مشن کی سرخیل رہی ہیں، انہیں بھی زعفرانی شلوار قمیص مل چکی ہے اور عشرت جہاں ،جس کوپیادے کے طور پر لایا گیا تھا وہ بھی بھگوابریگیڈ کی جانب سے نوازی جاچکی ہے۔دل چسپ بات یہ ہے کہ جس تین طلاق پر اس نے سپریم کورٹ تک کا سفرطے کیاتھاسراسر وہ مسلمانوں کے عائلی قانون کے خلاف ایک زعفرانی سازش تھی ۔اس لئے کہ اس موضوع پربعد میں جوخبریں موصول ہوئیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ عشرت جہاں کے شوہرنے کبھی اس کو تین طلاق دیاہی نہیں تھا۔عشرت جہاں کے شوہر مرتضیٰ انصاری نے اس بات سے یکسر انکار کردیا کہ انہوں نے کبھی اپنی بیوی کو فون پر تین طلاق دیا ہے۔ مظلوم مرتضیٰ انصاری نے صحافیوں کے سامنے یہ بات کہی ہے کہ اس نے طلاق دینے کا تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔حالانکہ عشرت جہاں نے عدالت میں یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے شوہر نے دوبئی سے فون پر تین طلاق دیتے ہوئے انہیں اپنی زوجیت سے خارج کردیا ہے۔ انگریزی اخبار’’دی ہندو‘‘ سے بات کرتے ہوئے مرتضیٰ انصاری نے کہا کہ وہ آج بھی عشرت جہاں کو اپنے گھر میں رکھنے کیلئے تیار ہے، بشرطیکہ وہ اپنے کردار میں تبدیلی پیدا کرے۔ دوسری طرف عشرت جہاں جس نے دعویٰ کیا ہے کہ 2015 میں اس کے شوہر مرتضیٰ انصاری نے دوبئی سے فون پر تین طلاق دیاتھا، تاہم عدالت عظمیٰ میں عشرت جہاں کا دعویٰ بے بنیاداورجھوٹا ثابت ہوچکا ہے۔ مرتضیٰ انصاری نے جن کا تعلق ریاست بہار کے ضلع نوادا کے پکری براما سے ہے،’’دی ہندو‘‘ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کبھی بھی تین طلاق کا لفظ استعمال کیا ہی نہیں ہے اور وہ آج بھی اسے اپنے ساتھ رکھنے کو تیار ہے، شرط یہ ہے کہ وہ کولکتہ کے بجائے مرتضیٰ کی والدہ کے ساتھ بہار میں رہے اور اپنے کردار میں تبدیلی لائے جس پر خوداس کے بطن سے نکلی بیٹی نے بدچلنی کا الزام لگایا ہے ،مگر جب کوئی گمراہ عورت ،جسے دنیااوردولت کالالچ ہو ، کسی کے بہکاوے میں ایسا انتہائی قدم اٹھالے جس سے ملت کی پریشانی میں اضافہ ہوتاہو، تو اس سے ہوس پسندوں کو کبھی کوئی جھجھک نہیں رہی ہے۔بہرحال ملت اسلامیہ کوملک بھرمیں جس ذہنی اضطراب میں مبتلاکرنا تھا وہ کام کیا جاچکاہے ۔البتہ عارف محمد خان جنہوں نے مودی کی چھتر چھایا میں آنے کیلئے خاصی پروپیگنڈہ مہم چلائی تھی، مودی اور بی جے پی انہیں اس کام انعام کب ،کیااور کتنا دے گی، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔
قارئین کرا م! آپ کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ تین طلاق کے خلاف جس بل کو راجیہ سبھا میں پینڈنگ رکھا گیا ہے ،اس کو بھنانے کیلئے کانگریس سمیت تمام اپوزیشن پارٹیاں یہ دعوے کررہی ہیں کہ ان کے دباؤ اور شدید مخالفت کی وجہ سے اس بل کو فی الحال موقوف رکھاگیا ہے ۔ ایوان زیریں میں شریعت پر پارٹی گائڈ لائن کوترجیح دینے والے کانگریس کے رُکن پارلیمنٹ نے مولانا اسرارالحق قاسمی نے کم اور ان کے دستار بردار چیلوں نے ضرورت سے زیادہ شور قیامت بپا کرکے ہندوستانی مسلمانوں کو احمق بنانے کیلئے یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ حضرت نے راجیہ سبھا میں کانگریس پارٹی اور دیگر سیکولر جماعتوں کے قائدین کے ہاتھ پیر جوڑ کر اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ راجیہ سبھا میں اس بل کی مخالفت ضرور کریں۔ویسے مولانا کے عقیدت مند ناعاقبت اندیش جتھوں نے گزشتہ تقریباً چار برسوں میں خوب کرتب دکھایے ہیں۔بارہا اخبارات میںایسی خبریں دیکھ کراہل شعور نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں کہ کس ڈھٹائی سے مولانا اسرارالحق قاسمی کے پارلیمنٹ میں دھاڑنے کی پریس ریلیز چھپوائی جاتی رہیں،اور طرفہ تماشہ یہ کہ ایسے وقت میں یہ خبریں آیا کرتی تھیں جب پارلیمنٹ میں کوئی کارروائی ہوہی نہیں رہی تھی ،نہ کوئی سیشن چل رہا تھا۔اس سے بڑی کرتب بازی اور کیا ہوسکتی ہے؟؟؟دراصل یہ مادیت پرستی اور سرمایہ حاصل کرنے کا دورہے ،بلکہ حکومت کی غریب دشمن پالیسیوں نے تو اس درجہ بدتر حالت کردی ہے کہ صرف دو وقت کی روٹی کے بدلے میںہی آپ جتنا بھی اپنی تشہیر کیلئے پروپیگنڈہ ٹیم جمع کرنا چا ہیں بآسانی کرسکیں گے۔ فرغائے مدارس وجامعات کے بے شمار بے روزگار نوجوان آپ کو مل جائیں گے جو چند ہزار ماہانہ اُجرت پر آپ کو شہرت کی بلندی تک پہنچادیں گے۔اس کے علاوہ نو آموز فضلاء کی جامد عقیدت مندی بھی ان حضرتوں کادفاع کرنے کیلئے سینہ سپر مل جائے گی۔
میں نے گزشتہ 28 فرور ی 2017کو جب ایوان زیریںمیں مولانا اسرارالحق قاسمی اور مولانا بدرالدین اجمل سمیت مسلم پرسنل لاء بورڈکی کارکردگی پر تبصرہ کیا تھا تو ملک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔مولانا اسرارالحق قاسمی اور مولانا بدرالدین اجمل کی دفاعی ٹیم نے انگشت نمائی کرنے والوں کی انگلیاں کاٹ لینے اور لکھنے والوں کے قلم چھین لینے کی کوشش شروع کردی۔میں نے اسی ضمن میں لکھا تھا کہ جب آپ اس ایوان میں ’’مون برت‘‘پر بیٹھے رہے ، پھر آپ نے ایوان بالا کے اراکین اور کانگریس پارٹی کو بل کی مخالفت کرنے پر مجبورکیسے کرلیا؟ایں چہ بوالعجبی است۔مولانا شعبدہ بازی چھوڑ دیجئے۔مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ 10جن پتھ اور24اکبر روڈ میں مسلم کانگریسیوں کی کتنی وقعت ہے،بڑے عہدوں پر فائز اعلیٰ کمان کے سامنے سجدے کی حدتک جھکتے ہوئے اوراشاروں کے غلاموںکی طرح ہم نے درجنوں صاحبان جبہ و دستار کواپنی کھلی آ نکھوں سے وہاں دیکھاہے۔ اس مجرمانہ غفلت کے ملزم مولانا بدرالدین اجمل بھی ہیں ،وہ لاکھ بہانے تراش کریں ،مگرواقعہ کے بین السطور سے جو چیز جھلک رہی ہے اس کی حقیقت یہی ہے کہ دونوں رکن پارلیمنٹ کامعاملہ پہلے سے ہی منصوبہ بند تھا۔اس پر مزید لکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ملی دانشوروں اوردوررس ہوش مندوں نے ان چند دنوں میںپوری وضاحت اور پختہ دلائل کے ساتھ ساری باتیں دنیاکے سامنے آئینہ کی طرح صاف کردی ہیں،حتی کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی سیاست سازی کا بھانڈابھی پھوٹ چکاہے۔
راجیہ سبھامیں بل پینڈنگ ہونے پر جولوگ اور سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو رجھانے میں لگ گئی ہیں، انہیں اس خام خیالی میں نہیں رہنا چاہئے ۔ ملت اسلامیہ کا باشعور اور بیدارطبقہ اچھی طرح یہ بات جان چکاہے کہ اس بل کو طاق پررکھنے کی وجہ اپوزیشن کا دباؤ نہیں بلکہ مودی حکومت کی منظم سازش ہے ۔ جسے راجیہ سبھامیںاس وقت عام کیاجائے گا ،جب ایوان بالا میں اس کی تعداد کانگریس سے بڑھ جائے گی اورعام انتخابات کے دن انگلیوں پر گنے جانے کے لائق ہوجائیں گے،جو عنقریب ہو نے والا ہے۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اس وقت عام انتخابات کا وقت قریب ہوگا اور اس کے ذریعہ وہ’’ مسلم ‘‘عورتوں کو اپنی جانب مائل کرنے کی راہ آسان کرلیں گے۔دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ مسلمانوں کے عائلی مسائل کو اچھال کرمودی بھگت ہندوووٹوں کو پولرائز کرنے میں بھی بڑی حد تک کامیاب ہوجائے گی۔
میں نے مندرجہ بالا سطور رقم کرنا اس لئے ضروری سمجھاکہ مختصر وقت کی خاموشی کے بعد ایک بارپھر شریعت بچانے کے نام پر بورڈکے جنرل سکریٹری کے آبائی شہر مونگیر میں 27جنوری 2018کوزبردست احتجاج کیا گیا۔خبروںکے مطابق تحفظ شریعت کمیٹی مونگیر کے زیراہتمام خواتین کی ریلی نکالی گئی جس میں تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ شہر اور مضافات شہرکی خواتین نے حصہ لیا،یہ تعداد مبنی برحقیقت ہے، افراط کی حدتک مبالغہ اس کے متعلق کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ ریلی میں خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ ہم تمام خواتین پوری قوت کے ساتھ یک آواز ہوکر سرکار پر واضح کرتی ہیں کہ تمہارے جھوٹے طلاق بل کی ہمیںکوئی ضرورت نہیں ہے، ہم ہر حال میں شریعت اسلامی پر چلیںگے، اور ہر مرحلہ میں مسلم پرسنل لاء بور ڈ کی آواز پر لبیک کہیںگے۔طلاق ثلاثہ بل بالکل غیر ضروری ، اسلامی شریعت اور ملکی آئین کے قطعی خلاف ہے، جو ملت اسلامیہ کے لیے کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم شریعت اسلامیہ پر عمل کریں ۔حکمت اور تدبر کے ساتھ موجودہ حالات کا مقابلہ کریں اوراس بل کے خلاف اپنی ناراضگی کا خاموشی اور حکمت کے ساتھ اظہار کریں ۔ایک واٹس ایپ گروپ پرریلی کی تصویر کا کیپشن یہ تھا۔۔۔۔
’’ نوادہ میں انصارنگرمیںپزوراحتجاجی اجلاس وریلی امارت شرعیہ کے نائب ناظم اور مسلم پرسنل لاء بورڈکے جنرل سکریٹری کے نمائندہ کی شرکت‘‘۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس قسم کی ریلیوں سے موجودہ اقلیت دشمن حکومت کی صحت پر کوئی اثر پڑنے والا ہے؟اس کے برعکس کیامودی سرکاراس بل کے تنازعے کو بھناکر ہندو ووٹوں کو پولرائز کرنے میں کامیاب نہیں ہوجائے گی ؟ہماری اس طرح کی سبھی سرگرمیوں کو اکثریتی اور منووادی طبقہ بھلی بھانتی دیکھ رہا ہے ،کیااس بھیڑ کو دکھاکر بھاجپائی شعبدہ باز ہندو ووٹروں کو اپنی جانب مائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوجائیں گے؟آخر اس نازک وقت میں جب ہماری خاموشی ہی حکومت کیلئے مثبت جواب ہے ،پھر کس کے اشارے پر اور کس کو فائدہ پہنچانے کیلئے یہ سب کیا جارہا ہے؟یہ بات یاد رکھئے کہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے دین اور شریعت کیخلاف چاہے جتنی رکاوٹیں کھڑی کی جائیںمگر وہ مرتے دم تک اپنے دین و شریعت کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔
میری ضعیف آنکھوں نے یہ منظر بھی دیکھاہے جب لگ بھگ 75برس تک دنیا کی عظیم طاقت روس کے زیر نگیں ریاستوں میں اذان کی آوزیں نہیں گونجیں،قرآن کریم کی تلاوت اور مذہب پر عمل کو ناقابل معافی جرم قرار دے کرمسلمانوں کو ان کے مذہب اور ایمان سے دور کردینے کی سازش کی گئی ۔بالآخر ایک دن وہ بھی آیا جب15 مختلف جمہوریتوں پر مشتمل سوویت یونین راتوں رات ٹوٹ گیا اور یہ بکھراؤ اتنا بڑا تھا کہ 25 برسوں کے بعد آج بھی اس کے جھٹکے محسوس کیے جا رہے ہیں۔
20 ویں صدی میں تاریخ، معیشت، نظریات اور ٹیکنالوجی کو متاثر کرنے والا سوویت یونین اچانک ایک رات میں ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوا۔سنہ1917 میں کمیونسٹ انقلاب سے پیدا ہونے والے سوویت یونین میں کم از کم 100 قومیتوں کے لوگ رہتے تھے اور ان کے پاس زمین کا چھٹا حصہ تھا۔ ایک ایسی سلطنت جس نے ہٹلر کو شکست دی، جو امریکہ کے ساتھ سرد جنگ میں مبتلا رہا اور جوہری طاقت کی دوڑ میں بھی شامل رہا۔ اس نے ویت نام اور کیوبا کے انقلابات میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ سوویت یونین نے ہی خلا میں پہلا سیٹلائٹ بھیجا اور پہلا انسان بھی۔
قصہ مختصر یہ کہ جب روس کاسورج غروب ہوا تو اسی خدابیزار مملکت سے تقریباً نصف درجن سے زائد مسلم ممالک وجود میں آئے اور پچھتربرس تک امت کے جن جیالوں نے اسلام کو اپنے سینوں میں چھپائے رکھا تھاوہ سب کے سب اپنی مساجد کو آباد کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اگر مودی سرکار بھی اسی قسم کے نامعقول عزائم ارادے رکھتی ہے تو مسلمانان ہند بھی اپنے معبود کا کلمہ بلند رکھنے قابل قدرجذبہ رکھتے ہیں۔لہٰذا مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ ہماری جانب سے ایسا کوئی موقع نہ دیا جا ئے جس سے سنگھ وبی جے پی کا پولرائزیشن کا منصوبہ کامیاب ہوجائے۔ملک کے مسلمانوں نے بورڈ کے پرچم بردار کو بھی سیاسی مندروں کے پھیرے لگاتے ہوئے خوب دیکھا ہے جب کپل سبل فروغ انسانی وسائل کے وزیر ہوا کرتے تھے۔بورڈ کے انہیں اعلیٰ منصب بردار نے مودی سے نیاز حاصل کرنے کی حتی المقدور پوری کوشش کی تھی مگر اے! بسا آرزو کہ خاک شدہ۔
قارئین ہم ہندوستانی مسلمان اس وقت آزمائش کے نازک دور سے گزر رہے ہیں اور ایسے موقع پر اسلام نے ضبط و تحمل اورصبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا ہے کہ’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے سا تھ ہے‘۔ اور صبر کا مفہومہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا نہیں بلکہ فہم وفراست اور ثابت قدمی کے ساتھا پنے عزیز ترین متاع ۔۔۔ایمان ۔۔۔ کی حفاطت کرناہے۔
رابطہ 09911587378