افغانستان میں دنیاکی ایک سپرپاورسوویت یونین کوافغان مجاہدین کے ہاتھوں ایسی ناقابل یقین شکست ہوئی کہ بالآخراسی کے بطن سے چھ مزیدمسلم ریاستوں کاوجودمعرضِ وجود میں آگیالیکن افغانوں کی اس عظیم الشان فتح کاسارافائدہ امریکااورمغرب کی جھولی میں جاگراجس کے بعد مشہور زمانہ امریکاکے یہودی سیکرٹری خارجہ ہنری کسینجرکے خفیہ ’’ورلڈ آرڈر ‘‘کابھی انکشاف ہوگیاکہ دنیاپرمکمل حکمرانی کاخواب اس وقت تک شرمندہ تعبیرنہیں ہوسکتاجب تک مسلمانوں کے اندرسے اسلامی ریاست اوراس کے حصول کیلئے جہاد کے تصورکوبزورختم نہیں کردیاجاتا۔یہی وجہ ہے کہ اپنے ان مکروہ مقاصدکیلئے حصول کیلئے اس وقت عالم اسلام میں خانہ جنگی کاخونی ماحول جاری وساری ہے۔امریکااورمغرب اپنے مقاصدمیں پے درپے ناکامیوں میں بری طرح نہ صرف جھنجلا گئے ہیں بلکہ اب امریکاکی طرف سے ننگرہارافغانستان میں سب سے بڑے غیرجوہری بم کے حملے بعدشمالی کوریا کی آڑمیں چین اورروس کوخوف زدہ کرنے کیلئے جہاںکوریائی سمندی خطے میںبین البرالاعظمی ایٹمی میزائل چلا کرقصرسفیدکے فرعون ٹرمپ نے اپنے چہرے سے نقاب اُتارپھینکاہے وہاں اسرائیل نے دمشق کے بین الاقوامی ہوئی اڈے کے قریب واقع فوجی اڈے پرحزب اللہ کے اسلحے کے ڈپوکوتباہ کردیا ہے ۔ کیا اس وقت دنیابڑی تیزی کے ساتھ پتھرکے دورکی طرف لوٹ رہی ہے؟
ایک لمحے کیلئے فرض کرلیتے ہیں کہ القاعدہ اور دیگر زیر زمین تنظیموں کی جانب سے امریکا اور مغرب کے خلاف جنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے،ہم یہ بھی فرض کرلیتے ہیں کہ اسلام کے نام پر گزشتہ عشروں کے دوران کئے جانے والے تمام حملے اسی جنگ کا ایک ناگزیر حصہ تھے او ریہ کہ موجوہ تصادم جو اب تقریبا پچا س ممالک سے زائد تک پھیل چکا ہے اور ہزاروں لاکھوں افراد کی جانیں لے چکا ہے جس میںسرفہرست افغانستان،عراق اور’’عرب بہار‘‘کے نام پرلیبیا،تیونس میں امریکااوراس کے اتحادیوں کی یک طرفہ جارحیت اورمسلمانوں کی باہمی خون ریزی (شام)کے واقعات بھی شامل ہیں ،یہ سب کچھ اس اعلانِ جنگ کا فطری نتیجہ ہے جو ان تنظیموں نے شروع کررکھا ہے۔ اگر فی الواقع ایسی جنگ جاری ہے تو واقعات اور شواہد کو دیکھتے ہوئے دس اسباب اور وجوہ ایسی ہیں جن کی بنا پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکااوراس کے تمام اتحادیوں کی طرف سے جاری یہ جنگ کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوپائے گی۔یہ اسباب اور وجوہ درج ذیل ہیں۔
۱؍سب سے پہلا سبب تو یہ ہے کہ غیرمسلم دنیا موجودہ واقعات کے جواز اور عدم جواز کے حوالے سے باہمی طورپر اور سیاسی اعتبار سے بھی مکمل طور پر منقسم ہے۔ ان میں سے بعض غیر مسلم ممالک تو ایسے ہیں جنہوں نے ایسی کسی بھی جنگ کے وجود کو تسلیم کرنے سے یکسر انکار کردیاہے، چنانچہ ان کے خیال میں ایسی کوئی جنگ کہیں بھی لڑی نہیں جارہی اور وہ اس بنیاد پر اسے مسترد کرتے ہیں جب کہ ان کے برعکس چند ممالک اور اقوام سابق جو امریکی صدر جارج بش کے ہم نوا ہوگئے تھے کہ جو جنگ ہم لڑرہے ہیں وہ اکیسویں صدی کی ایک فیصلہ کن نظریاتی جنگ ہے۔چنانچہ ان منقسم اور متضاد آراء ا ور خیالات نے اس معاملے کو مذاکرات، مکالمے اور گفت و شنید سے لے کر جوہری ہتھیاروں تک کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا او رپبلک ڈپلومیسی سے لے کر مسلمانوں کے اہم ترین مقامات پر قبضے کا مشورہ بھی دیا جن میں مکہ کا مقدس شہر بھی شامل ہے۔ اس اختلافِ رائے نے ان دو طرح کے طبقات کے مابین مسئلے کو حل کرنے کی غرض سے بھی ایک وسیع خلیج پیدا کر رکھی ہے ۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ اس جنگ کو براہ راست مخالف جنگجوگروپوں تک لے جانا صحیح ہو گا، جب کہ دوسرا گروہ اس خیال کا مخالف ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایسی کسی بھی جنگ کا خواہ وہ داخلی شہری آزادیوں کے حوالے سے لڑی جائے یا پھر حریفانہ جیو پولٹکل اندازوں کے پیش نظر جاری رکھی جائے، ہر دو صورتوں میں ایسی کسی بھی جنگ کا بظاہر کوئی جواز اور فائدہ نظر نہیں آتا۔
۲؍ دوسرا سبب یہ ہے کہ واقعات اور شواہد کے پیش نظر اسلام کو کس بھی قیمت پر شکست سے دوچار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عالمی برادری اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی مجموعی قوت، طاقت اور استطاعت کا ابھی پوری طرح سے کوئی اندازہ نہیں لگایا گیا۔ اس کے برعکس اس کی اہمیت کو گھٹا کر دیکھا اور پیش کیا جارہا ہے۔ اسلام کی فطرت اور سرشت کو ٹھیک طور سے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ نہ ہی یہ امن مخالف مذہب ہے، نہ اس مذہب کو کسی نے ہائی جیک کیا ہے اور نہ ہی بعض لوگ اسے اپنے محض اغراض و مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اس کے برعکس اس مذہب کا اخلاقی نظام کسی بھی غیر اسلامی اور ملحدانہ نظام اقدار کے ساتھ عدم اشتراک کا قائل ہے۔ آپ روایتی اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے اسلام کو محض ایک مذہب بھی قرار نہیں دے سکتے ،یہ ایک ماورائے قوم سیاسی اور اخلاقی تحریک ہے جس کے مطابق بنی نوع انسان کے تمام مسائل کا کافی اور شافی حل اس کے پاس موجود ہے۔ چنانچہ اسلام کی رُو سے یہ بات خود انسانیت اور بنی نوع انسان کے اپنے وسیع تر مفاد میں ہے کہ وہ ا سلامی حکومت کے اندر اسلام کی حکمرانی کے تحت اپنی زندگی بسر کریں، اس طرح مغرب کی جانب سے مسلمان ممالک میں مغربی جمہوریت کی بحالی اور فروغ کا تصور محض مہمل اور بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی جمہوریت کا تصور اسلامی تعلیمات کے تناظر میں قطعی طور پر ناقابل ِتسلیم ہے۔ اس کا ثبوت خود اسلامی تاریخ میں بھی موجود ہے۔ اسی طرح اسلامی تحریک کے فوجی اور سیاسی بازوؤں کو بھی ایک دوسرے سے علیحدہ یا الگ کرنے کا تصور بھی خاصا مضحکہ خیز نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے امریکی وزیر دفاع ڈونلڈرمسفلیڈ کایہ بیان احمقانہ تھا کہ عراق میں لڑنے والے باغی مسلمان کسی بھی وژن سے محروم ہیں، اسی لیے وہ شکست خوردہ ہیں۔ اس جنگ میں اگر واقعی اسے جنگ کہا جاسکتا تھا تو اس میں حقیقی شکست ان لوگوںکوہوئی جو اس جنگ کو چھیڑنے کے ذمہ دار تھے۔
۳؍اسلام کے مغرب کے مقابل ناقابل شکست ہونے کاتیسرا سبب یہ ہے کہ مغربی قیادت کی سطح جتنی بلند ہونی چاہیے تھی اس قدر بلند نہیں۔ اس کے برعکس اس کی سطح بہت نیچی ہے بالخصوص موجودہ امریکی قیادت پر تو یہ بات بالکل صادق آتی ہے۔ یاد کیجیے اسلامی احیا او رنشاۃ الثانیہ کی نصف صدی کے دوران سفارتی سیاسی اور عسکری اعتبار سے اسلامی حکومتیں اپنے عروج پر تھیں ،اس کے برعکس موجودہ امریکی حکومت اور انتظامیہ کے پاس کوئی اسٹرٹیجک سمت موجو دنہیں ہے نہ ہی اس کے جنگی منصوبے کسی مشترکہ غور و خوض کے نتیجے میں جنگی ضروریات کو دیکھ کر بنائے گئے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے مقاصد کی وضاحت کے لیے اس کے پاس موزوں اور مناسب زبان اور ذریعہ اظہار بھی موجود نہیں ہے!یہاں مشہور فلسفی اینڈ منڈبرک کا یہ قول یاد آرہا ہے۔ مارچ ۱۷۷۵ء میں اس نے کہا تھا’’ ایک عظیم الشان سلطنت اور چھوٹے دماغ ایک دوسرے کے ساتھ کبھی نہیں چل سکتے‘‘۔ چنانچہ اسلام کے خلاف اس جنگ میں اگر واقعی اسے جنگ کہا جاسکے، مجھے برک کا یہ قول سچ ہوتا دکھائی دے رہا ہے کہ ایک عظیم الشان سلطنت چھوٹے دماغوں کے ساتھ کبھی نہیں چل سکے گی۔
۴؍ چوتھا سبب مغربی پالیسیوں کا ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ ان پالیسیوں کی انانیت کی کشمکش کو عجلت کے نتیجے میں ان افراد نے تیار کیا ہے جو اسلام کے حوالے سے نہایت اشتعال انگیز روّیوں کے حامل ہیں۔ ان لوگوں میں اسلام سے خوف زدہ افراد بھی شامل ہیں جو اسلام کے نام پر یہ پالیسیاں وضع کررہے ہیں۔ اس محاذ جنگ کو بھی یہ پالیسی ساز افراد اپنی ذات کے فروغ کی غرض سے استعمال کررہے ہیں اور ان میں سے بیشتر کا خیال ہے کہ ان کی آراء اور خیالات بے حد اہمیت کے حامل ہیں بہ نسبت ان مسائل کے جن کے بارے میں وہ یہ پالیسیاں وضع کررہے ہیں۔ چنانچہ یہ اسی بدحواسی اور خود پرستی کا نتیجہ ہے کہ مغربی پالیسیاں کسی مستقل اور باقاعدہ معنویت سے محروم اورناکام ہیں۔
۵؍پانچواں سبب ترقی پسند حلقوں کے ذہن میں موجود وہ کنفیوژن ہے جس کا تعلق اسلام کی ترقی فروغ اور پیش رفت کے حوالے سے ہے۔ کمیونزم سوشلزم اور سوویت روس کے زوال کے بعد یہ ترقی پسند افراد اپنی بنیادی اور اصل شناخت سے محروم ہوچکے ہیں لیکن رسی جل جانے کے بعد ان کے بل نہیں گئے۔ چنانچہ وہ آج بھی نوآبادیاتی نظام کے مخالفانہ مؤقف پر ہی انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ بہرطور مغرب کے ان مسائل کو بھی اس کے نوآبادیاتی ماضی کا ایک لازمی نتیجہ قرار دینا ایسا کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ تاہم اس کے باوجود اسلامی احیا اور نشاۃ الثانیہ کی اندرونی قوت اور داخلی طاقت کو بھی نہ سمجھنا ایک زبردست غلطی ہوگی۔یہ طاقت اور قوت نوآبادیاتی نظام کا شکار رہنے کے نتیجے میں نہیں پیدا ہوئی بلکہ اس کا تمام تر انحصار اپنے عقیدے کی بڑھتی ہوئی قوت اور اپنے عقائد کے نظام کی حقانیت پر ہے۔ مزید برآں یہ بات بھی اسلام کے حق میں جاتی ہے کہ آج کے بیشتر نام نہاد ترقی پسندوں کے پاس روایتی طور پر اسلام کے بارے میں کہنے کو کچھ بھی نہیں بچا ہے نہ ہی وہ اپنے مخالفین کا منہ بند کر نے میں اسلام سے جھوٹ موٹ کے مظالم منسوب کرسکتے ہیں اورنہ ہی خواتین کے ساتھ خلاف واقع بدسلوکی کا کوئی تذکرہ ان کی زبانوں پر آسکتا ہے کیونکہ موجودہ علمی دور میں اسلام کی سچائیاں جھوٹ کے سو پردے پھاڑ کر دنیا کے سامنے آرہی ہیں۔
۶؍اسلام کی روز افزوں بڑھتی ہوئی قوت اور طاقت کا ایک اہم سبب ان غیرمسلموں کا پراسرار رویہ اور اظہارِ اطمینان ہے جن کا تعلق امریکا کی پسپائی سے بتایا جاتا ہے ۔چنانچہ ایسے غیرمسلم جو اس قسم کے اطمینان کا اظہار کررہے ہیں درحقیقت ٹروجن گھوڑے ہیں جن کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ ان میں بعض اس اصول پر عمل پیر اہیں کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے جب کہ دیگر اںکا خیال یہ ہے کہ وہ اسلام کے خلاف مغرب کی اس جنگ میں کسی بھی صورت میں مغرب کی حمایت نہیں کریں گے، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا فیصلہ بالکل درست اور صحیح ہے۔ تاہم ان تمام حقائق کے باوجود نتائج ان سب کے لیے یکساں ہی ہیں۔ اسلام کی پیش رفت کے نتائج کو یہ دونوں طبقات یکساں طورپر بھگتنے کیلئے مجبور ہیں۔
۷؍ساتواں سبب مغرب کا اخلاقی افلاس اور اخلاقی اقدار کے مجموعی نظام کے افلاس میں مضمر ہے بالخصوص امریکا کا اخلاقی نظامِ اقدار زوال اور تباہی کی حدوں کو چھو رہا ہے، چنانچہ آزاد منڈی کی معیشت آزادانہ انتخاب تجارتی مقابلہ اور کاروباری مسابقت کو وہاں آزادی اور لبرٹی کا نیا نام دیا گیا ہے۔ ان چیزوں کااسلام اور اس شریعت سے قطعا کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا خواہ آپ اسے پسند کریں یا نہ کریں۔اسلام کے اخلاقی نظامِ اقدار میں ایسی چیزوں کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ تعجب خیز واقعہ تو یہ ہے کہ دلوں اور دماغوں کے نام پر جو جنگ لڑی جارہی ہے اسی کے دوران امریکا کی پہلی کیولری ڈویژن نے آدم اسمتھ آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے عراق جیسے جنگ زدہ ملک کو تجارتی اور کاروباری مارکیٹنگ کے اسرار و رموز سکھانا شروع توکردئے مگر ان حالات اور حقائق کی روشنی میں کم از کم امریکا کو تو وہاں کامیابی اور فتح حاصل نہیں ہوسکی۔ یہاں مجھے شیخ محمد الطباطبائی کے وہ الفاظ یادآ رہے ہیں جو انہوں نے مئی۲۰۰۳ء میں بغداد کی ایک مسجد کے نمازیوں سے خطاب کے دوران کہے تھے:
’’مغرب ہمیشہ آزادی اور خود مختاری کی دہائی دیتا رہتا ہے۔ اسلام ایسی کسی آزادی کو تسلیم نہیں کرتا۔ اصل آزادی اللہ تعالی کی عبادت اور اطاعت ہی میں مضمر ہے‘‘۔
۸؍آٹھواں سبب اسلام کے ناقابل شکست ہونے کا یہ ہے کہ اس کی موجودہ پیش رفت ترقی اور آگے ہی آگے بڑھتے رہنے کی رفتار اسی طرح بدستور جاری رہے گی کیونکہ اس غرض اور مقصد سے دستیاب ذرائع ابلاغ کو بڑی خوبی اور مہارت کے ساتھ استعمال کیا جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ اسلامی ویب سائٹ کے ذریعے الیکٹرانک جہاد کے فروغ کے علاوہ مغربی نظریات کے پرچار کی مسلمان علما ء اور اسکالرز کی جانب سے شدید مخالفت بھی جاری ہے۔ آپ اسے درپردہ ایک سیاسی شراکتی معاہدہ بھی کہہ سکتے ہیں جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین اسلام کے عالمی نقطہ نظر کی پہنچ کو وسیع تر کرنے کی غرض سے عمل میں آچکا ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کے پروڈیوسرز اور براڈ کاسٹرز کی جانب سے الجزیرہ ٹی وی چینل کو فراہم کی جانے والی مدد کا تذکرہ بطور حوالہ پیش کیا جاسکتا ہے۔
۹؍ نواں سبب جو اسلام کی مزید پیش رفت کا ضامن ہے وہ ہے مسلم ممالک اور عربوں کے مادی اور معدنی ذرائع اور وسائل پر امریکا کا کلی انحصار!یاد رہے کہ اپریل۱۹۱۷ء میں سابق امریکی صدر روڈ وولسن نے امریکی کانگریس کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردے جس کے بارے میں وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ جنگ چھیڑنے میں ہمارا کوئی ذاتی مفاد اور مقصد پوشیدہ نہیں ہے۔ اس وقت تو اس نوعیت کا اعلان جنگ ممکن بھی تھا لیکن آج کی تبدیل شدہ صورت حال اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے گی کیونکہ امریکا کی صارفانہ احتیاج اور مختلف شعبوں میں کیے جانے والے معاشی اور اقتصادی نوعیت کے اقدامات اور ضروریات لامتناہی حد تک بڑھ چکی ہیں جن کے لیے اسے مسلم اور عرب ممالک کے ذرائع اور وسائل پر کلی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ چنانچہ آج کے امریکا کا مکمل انحصار مشرقِ وسطیٰ میں موجود تیل کے کنوؤں سے برآمد ہونے والے تیل کے ایک ایک بیرل تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے اور مستقبل میں بھی یہ صورت حال جوں کی توں رہے گی ۔لہٰذا وہ اس حیثیت میں ایسا کوئی خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔
۱۰؍ آخر میں مغرب کو اس بات کا پورا یقین ہوچلا ہے کہ ٹیکنالوجی پر مبنی مغربی معاشرے کا جدید ترین لائف اسٹائل اور منڈی کی معیشت پر مبنی اس کی اقتصادی ترقی اور پیش رفت بالآخر اسلام کے تصورات کی بہ نسبت زیادہ ترقی یافتہ اعلیٰ اوربرتر ہے، یہ بھی مغرب کی ایک پرانی غلط فہمی یا خوش فہمی ہے۔ ۱۸۹۹ء میں سابق برطانوی وزیر اعظم سرونسٹن چرچل نے اس خیال کا اظہار کیاتھا کہ پوری دنیا میں اسلام سے زیادہ رجعت پسندی کسی بھی مذہبی نظریے میں موجود نہیں ہے۔ بہرطور ایک صدی کا عرصہ گزرنے کے بعد آج امریکااورمغرب کواس بات پر پختہ یقین ہے کہ جدید ترین ہارڈ ویئر اسلحہ اور اسٹار وار کے دفاعی حربے ان کو اس جنگ میں فتح سے ہمکنار کردیں گے لیکن یہ اس صدی کی سب سے بڑی خوش فہمی یاغلط فہمی ہوگی۔
جون ۲۰۰۴ء میںسعودی عرب کے مشہور اسکالر سلیمان العمر نے یہ اعلان کیا تھا کہ اسلام ایک خاص منصوبے کے تحت رفتہ رفتہ پیش رفت کررہاہے جو ایک دن مغرب اور امریکا کی مکمل شکست و ریخت اور تباہی و بربادی کا باعث بن جائے گا۔آج جو حقائق اور صورت حال ہمیں نظر آرہی ہے اور اسلام کو شکست نہ ہونے کے جو دس اسباب بیان کیے ہیں ان کی روشنی میں سعودی اسکالر سلیمان العمر کا دعویٰ بالکل صحیح اور درست معلوم ہوتا ہے۔اس کیلئے اب انتہائی ضروری ہو گیاہے کہ عالم اسلام کے ساتھ فوری بہترتعلقات بنانے میں امریکااورمغرب کوپہل کرنے میں تاخیرنہیں کرناچاہئے اوران پرہونے والے مظالم کاخاتمہ کرنے کیلئے ان کے دیرینہ مسائل(فلسطین اورکشمیر)کے منصفانہ حل میں مزیدتاخیرنہ روا رکھی جائے۔