جنگ کے بارے میں مورخین کی ایک اقلیت کہتی ہے کہ یہ قدرتی آفات کی طرح ہوتی ہے، جہاں یہ موت، مرض اور قحط کا موجب بنتی ہے وہیں یہ نئی راہوں کی نشاندہی بھی کرتی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح زلزلے سے نئے چشمے پھوٹتے ہیں اور طوفان سے تعمیر نو کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ لیکن یہ سب جنگ کے روایتی معنوں میں درست ہوسکتا ہے۔ جب مہلک کیمیائی اور نیوکلیائی ہتھیاروں سے لیس حریف ایک دوسرے پر چڑھ دوڑنے کی تاک میں ہوں، تو نتائج کے اعتبار سے جنگ تباہی کے گھپ اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ۔
بھارت اور پاکستا ن دو نیوکلیائی قوتیں ہیں۔ پاکستان معاشی طور پر بھارت کے مقابلے میں ایک اپاہج ہے، جسے ماہرین ’’اکنامک کرپل‘‘کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں بھارت کی امیج امریکہ کے تازہ حلیف ، چین کے معاشی حریف ، افغانستان اور خلیجی ممالک کے دوست کے طور اُبھر رہی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود چھہ پہلو ہیں جنہیں اگر خاطر میں لایا جاتا تو مودی جی پاکستان پر ائیرسٹرائیک کی سوچ کا پنپنے سے پہلے ہی اسقاط کردیتے ۔ذیل میں ہم اُن چھہ پہلوؤں کا جائزہ لیں گے:
.1سات دہائیوں سے نئی دلی میں کانگریس اور دیگر حکومتوں نے طرح طرح کے حربے اپنا کر کشمیر کو عالمی فوکس سے دُور رکھنے کی کوشش کی۔ یہ کام کبھی کشمیریوں کو شیشے میں اُتار کر کیا گیا، اور کبھی پاکستان کو رام کرکے۔لیکن فروری کے نصف آخر میں پلوامہ سے پختونخواہ تک جو کچھ بھی ہوا، اس کے نتائج دلی یا اسلام آباد میں جو بھی ہوں، حساس کشمیری سمجھتے ہیں کہ کشمیر دلی کے جنگی جنون سے انٹرنیشنلائز ہوگیا۔ جو کام برسوں کی چیخ چلاہٹ سے نہیں ہوپارہا تھا، وہ کام اجیت ڈووال اور مودی نے دیگر پانچ ساتھیوں کی مشاورت سے آناً فاناً کردیا۔ اب چین، سعودی عرب، امریکہ سب کہتے ہیں کہ ’’مسائل کو بات چیت کے ذریعہ حل کرو‘‘۔ مسائل کیا ہیں۔ ظاہر ہے اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق میں پہلے ہی کشمیریوں کو درپیش مشکلات کا دفتر جمع کیا گیا ہے۔ اس کا سیدھا مطلب ہے کہ جب عالمی طاقتیں خطے میں نیوکلیائی قیامت کو بچانے کے لئے سوچ بچار کریں گی تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بحال کرنے کے لئے کشمیر خودبخود فوکس میں آجائے گا۔
2 ۔ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کی چیخ و پکار اور انتخابی شارٹ کٹ کے چکر میں مودی سرکار نے ’’اندر گھس کر مارنے‘‘ کی دیرینہ قومی خواہش کو ائیرسٹرائیک سے پورا تو کردیا ، لیکن بااعتبار نتیجہ یہ کاروائی دنیا کی نظروں سے اوجھل رہی، کیونکہ پاکستانیوں نے اس کی کھلی یہ کہہ کر اُڑائی کہ ’’بڑا دشمن پھرا کرتا ہے، درختوں پر بم گراتا ہے۔ـ‘‘ لیکن اس دعوے اور بعد میں بھارتی میڈیا کے جشن نے عمران خان کو سکتے میں ڈال دیا اور پاکستانیوں نے حکومت پر جوابی کارروائی کا دباؤ بڑھایا۔ فضائی حملوں کے فوراً بعد پاکستانی فضائیہ نے نہایت چالاکی سے انڈین ائیرفورس کو رِجھایا اور بعد میں دعویٰ کیا کہ دو جہاز گرائے گئے اور ایک پائلیٹ گرفتار کیا گیا۔ پوری دنیا نے ابھینندن کی باتیں پاکستانی سرزمین سے سنیں، اورجہاز کا ملبہ عالمی میڈیا پر چھاگیا۔بعدازاں عمران خان نے دہشت گردی سمیت تمام مسائل پر دوٹوک مذاکرات کی پیشکش کرکے مودی سرکار کو چاروں شانے چت گرادیا۔ ایک تو سفارتی سطح پر پاکستان نے پوائنٹ سکورکردیا، دوسرا مودی کو ائیر سٹرائیک کا انتخابی فائدہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔
3۔ پلوامہ حملے اور بعد کے واقعات سے قبل بھارت میں کانگریس کم بیک کررہی تھی۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ پورے ملک کو انتہاپسند قوم پرستی کے طوفان میں جھونکنے کے باوجود بی جے پی مشرقی اور جنوبی ہندوستان میں کمزور تھی۔ اور پھر ہندی بیلٹ یعنی بہار، یوپی، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور راجھستان میں کانگریس نے اسے کرارا جھٹکا دیا تھا۔ ظاہر ہے مودی پورے ملک کو جنگی جنون سے مسحور کرکے دوبارہ اقتدار کے خواہاں تھے۔ پاکستان کے زیرتحویل بھارتی پائلیٹ کا تعلق جنوبی ہندوستان کے ساتھ ہے۔ وہ ہندی نہیں بلکہ انگریزی سمجھتے ہیں۔ غالباً وہ تمل ناڈو سے ہیں۔ ابھینندن کی پاکستان میں گرفتاری نہ صرف شمالی بلکہ جنوبی ہند میں بھی بی جے پی کے لئے سیاسی خسارے کا باعث بن سکتی ہے۔
4۔ بھارتی پالیسی سازوں نے ایک مفروضہ گڑھ لیا ہے کہ جنگ کی صورت میں ایران بھارت کی حمایت کرے گا اور چین غیرجانبدار رہے گا۔ چین کامحتاط رویہ اپنی جگہ لیکن پاکستان میں چین کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اور مشرق وسطیٰ تک رسائی کا خواب اسے پاکستان کا نیچرل باڈی گارڈ بناتا ہے۔ اور پھر ایران خطے کی بدلتی صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کو ناراض نہیں کرسکتا ۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پاکستان اب ایک باقاعدہ بلاک بن چکا ہے۔ اور اس بلاک کے اسرائیل کے ساتھ مراسم بھی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ نے پہلے تو مودی کو تھپکی دی کہ جا بیٹا دو دو ہاتھ کرکے آجا، لیکن بعد میں وزیرخارجہ مائیک پومپیو کو شاہ محمود قریشی اور سوشما سوراج کے ساتھ بات کرنے کا حکم دیا، تاکہ خطے میں امن برقرار رکھا جاسکے۔
6۔ جنگ کا نقارہ بجا کر نئی دلی نے پاکستان میں جیش اور لشکر طیبہ سمیت سبھی نان سٹیٹ ایکٹرس کو سسٹم سے دُور نہیں کیا بلکہ اورقریب لایا ہے ۔ کل کو پاکستان کہے گا کہ وہ جیش اور لشکر کو کنٹرول نہیں کرسکتا، اور بھارت سے کہے گا کہ ایک جوائنٹ میکانزم بنائیں گے۔ لیکن اس معاملے میں چین کے اغراض و مقاصد مبہم رہیں گے۔ چین آج بھی اظہر مسعود کو دہشت گرد ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اس سب کا مطلب ہے کہ ’’پاکستان کو سبق سکھانے‘‘ کا پاٹھ پڑھتے پڑھتے خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی ساری ذمہ داری بھارت نے خود اپنے سر لے لی ہے۔ اب نہ صرف کشمیر کو حل کرنا عالمی طاقتوں کی ترجیحات میں شامل ہوچکا ہے، بلکہ کشمیر میں اگر عسکریت کا ٹمپریچر بڑھ بھی گیا ، تو دلی کا وہ بیانیہ کہ فوج سب کچھ کرلے گی اور پاکستان کو سبق سکھائیں گے وغیرہ چلنے والا نہیں۔ستم ظریفی دیکھئے، پورا بھارت جشن منا رہا تھا اور راجوری میں بمباری ہورہی تھی۔ بھارت کا ووٹر اب مودی سے سوال کرے گا ، بھائی اگر لڑ نہیں سکتے تو بات کرکے مسلہ ختم کرو۔ اور کشمیریوں کے لئے بڑی وجہ ہے کہ وہ نہایت خلوص کے ساتھ کہیں: ’’تھینک یو مودی جی‘‘!
…………………
بشکریہ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر