حال ہی میں آر پار دو معصوم بچیوں۔۔۔ زینب( قصور پاکستان) آصفہ ( کھٹوعہ جموں )۔۔۔ کے ساتھ ایک ہی طرح کے جگر پاش المیے پیش آئے، قلم کو یارا نہیں کہ ان کی تصویر کشی کرے اور نہ لفاظ میں وہ قوت ہے کہ اس درد وکرب کو اظہار کی زبان دیں جس سے ان معصوم کلیوں کے ماں باپ اور اہل خانہ ا س وقت گزررہے ہیں ۔ یہ دونوں صدمہ خیزسانحات انسانیت کے چہرے پر زوردار طمانچے ہیں ۔بنابریں ہر باشعور و باغیرت اور صاحب ِضمیرانسان کے دل کی پکار یہی ہے کہ ان گھناؤنے جرائم کے مرتکبین کو اپنے جرائم کی وہ کڑی سز ادی جائے جس سے انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوں اور ڈگر ڈگر پر گھات لگائے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے درندوں کو بھی پیغام ملے کہ اب ان کی خیر نہیں ۔ بایں ہمہ زمانے کا ناقابل تردیدسچ یہ ہے کہ ا س نوع کے سنگین جرائم کا ارتکاب ان دو المیوں سے قبل بھی ہوئے اور یقینی طور پر ان کے بعد بھی ہوں گے ،اگرچہ ان ہر دو واقعات نے ایک بھونچال لایا ۔ان المیوں نے گویا انسانیت کو یہ سندیسہ دے کر جگانے کی کوشش کی کہ اب بہت ہوگیا،توبہ و اصلاح کی شاہراہ پر واپس نہ پلٹ آئے تو تم پر آسمان روئے گا نہ زمین ماتم کر ے گا ۔ زینب اور آصفہ کی مظلومیت ہم سے ایک اہم سوال پوچھ رہی ہے کہ آخر متمدن ، ترقی یافتہ اور مہذب کہلانے والی اس دنیا میں بے انتہاجرائم اور ناقابل معافی گناہوں کی بھٹی کیوں رات دن تپ رہی ہے ۔ جواب یہی سوجھتا ہے کیوں کہ آج ساری دنیا خدا کے دئے ہوئے اصولوں کی باغی ہے ، ا س کے احکامات سے منحرف ہے ، اس کے منشاء ومرضی کے الٹ جارہی ہے ، انسان دشمنی کی تمام سرحدیں پھلانگ رہی ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ عالم انسانیت بے انتہا مصائب ومسائل اور پریشانیوں و خستہ سامانیوں کی شکاربن کر امن و راحت کو ترس رہی ہے ۔گو انسان نے مریخ وچاند کو مسخر کرنے اور مادی ترقی کی بلندیوں کو چھونے کے سارے سامان کرلئے ہیں لیکن احترام آدمیت اور تحفظ نسل انسانیت جیسے جلی عنوانات اور اصطلاحیں بس اب کتابوں کی زینت بن کے رہ گئے ہیں ، انسانی فکر آوارگی کی شکار طبقاتی ، لسانی، قبیلہ وبرادریوں اور رنگ ونسل کے خانوں میںبٹ چکی ہے ، وہ ممالک بھی جو انسانی جان ومال اور حقوق کے چمپین بنے بیٹھے ہیں بغیر کسی بھید بھائو کے نسل انسانی کو کونسا اور کتنا تحفظ فراہم کررہے ہیں،اس حوالے سے اُن کا کردار چیخ چیخ خود اُن پر ماتم کررہا ہے۔ تعصب اور عصیبت نے اُن کو کورچشم بنا کے رکھ دیا ہے۔اور اُن کے یہاں عدل اور انصاف کے منفرد اور دہرے پیمانوں نے دنیا بھر میں اُن کی ’’انسانیت دوستی ‘‘ کا بھرم توڑ کے رکھ دیا ہے اس کے برعکس یہ کو ئی تعلی نہیں بلکہ تاریخ کا بے غبارسچ ہے کہ کسی بھی فرزندآدم یا بنت آدم کو جو سکون وراحت اسلام کے دامن عاطفت میں حاصل ہوا ہے کہیں اور ایسا تو دور کی بات اس جیسا اطمینا ن حاصل ہونا بھی محض ایک خواب ہی گردانا جاسکتا ہے۔ یہ بات تو دو اور دو چار کی طرح واضح ہے کہ اسلام کو محض اپنے ماننے والے ہی لاڈلے نہیں بلکہ اسلامی معاشرے میں غیر مسلموں کو جو حقوق حاصل ہیںکسی اور نظام میں ایسا سوچا بھی نہیں جاسکتا ہے۔اس دین مبین نے مسلم اور کافر کا امتیاز مٹا کر انسانی تکریم کو بہ ایں الفاظ واضح کیا ہے۔’’ اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت وشرف بخشا اور اُنہیں خشکی اور تری میں سواری کے ذرائع مہیا کئے اور ہم نے اُن کو پاکیزہ چیزوں میں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی‘‘۔ اتناہی نہیں انسان کی اس بلند مقامی کے پیش نظر جو اُسے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے اُس کی جان اور عزت وشرف کا تحفظ اس کا بنیادی حق بن جاتا ہے۔اس کے حقوق یکساں قرار دیئے گئے ہیں۔کیونکہ بشریت کی بنیاد اصل میںصرف ایک ہے جس کو یوں واضح کیا گیا ہے۔ ’’ لوگو ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور برادریاں بنائیں‘‘ تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، بے شک اللہ کے نزدیک تم میںسے سب سے عزت والا وہ شخص ہے جو تم میں سے سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔‘‘ (الحجرات ) اور یہی بات جناب محسن انسانیت ﷺ نے 10ہجری کو حجۃ الوداع کے تاریخ ساز اجتماع میں انسانیت کے گوش گزار یوں فرمائی: ’’ لوگو تمہارا رب ایک ہے تمہارا باپ ایک تھا یاد رکھو کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری نہیں اور نہ ہی کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کالے کو گورے پر کوئی برتری حاصل ہے ہاں اگر برتری کا کوئی معیار ہے تو وہ صرف تقویٰ ہے۔لوگو سنو ! کیا میںنے اپنا پیغام پہنچادیا ‘‘۔ ان بلیغ ارشادات کی روشنی میں دنیا نے بہ چشم ِ سر دیکھ لیا کہ اسلامی معاشروں میں اہل کتاب ، ذمیوں اور دوسرے غیر مسلموں کو نہ صرف یہ کہ اُن کے حقوق کو تحفظ حاصل ہوا ، ضمانت ملی بلکہ فلک پیر نے دیکھ لیا اور تاریخ کے ریکارڈ میںیہ بات درج ہوئی کہ جب بھی ان کا معاملہ کسی مسلمان سے ٹکرایا اور وہ حق پر تھے تو اسلامی عدل وانصاف نے ان کے حق میں فیصلہ دے کر اپنی حقانیت اور صداقت کا لوہا منوالیا ہے۔ان کی جانوں کی حرمت وتکریم کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے واقعات کی روشنی میں بات کی جائے تو ایک ضخیم کتاب کا بننا کوئی مبالغہ نہیں ۔ تاریخ تو اپنے آپ کو ہر دور میں دہراتی رہے گی۔
اسلام کا نظام ِ رحمت رافت غیر مسلموں کی معاشیات اور اقتصادیا ت تک کو بھی نہ صرف استوار دیکھنا چاہتا ہے بلکہ وہ ان کے بوڑھوں ، کمزورں ، معذوروں اور تہی دستوں کی دستگیری کرنے کے احکام دن کی صاف اور صریح روشنی میںدیتا ہے۔ تاریخ کو کھنگھال ڈالئے تو آپ کو صاف نظر آئے گا کہ امیر المؤمنین سیدنا فاروق اعظم کے دور امارت میں آپ ؓکو ایک بوڑھا نابینا یہودی بھیک مانگتے ہوئے نظر آتا ہے۔ آپ ؓ عالم پیری میں اس کی یہ حالت دیکھ کر ٹھٹھک گئے ۔فرمایا بزرگ ! کس چیز نے تمہیں بھیک مانگنے پر مجبور کردیا ہے؟ تو اس نے جواب میں جب یہ کہا کہ جزیہ کی ادائیگی ، معاشی ضروریات اور پیرانہ سالی نے میر ی یہ گت بنادی ہے آپ ؓ مزید تھرا اُٹھے ۔ انسان اور انسانیت نوازی کے اسلامی حیات آفرین پیغام کے امین جو تھے۔اُس کا ہاتھ پکڑا اپنے گھر لے گئے جو کچھ موجود تھا اُسے دے دیا اور پھر بیت المال کے خزانچی کے نام یہ فرمان لکھ بھیجا:’’ یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی جانچ کرو ۔اللہ تعالیٰ کی قسم ہم ہر گز انصاف پسند نہیں ہوسکتے اگر ان’’ذمیوں‘‘ کی جوانی کی محنت (جزیہ ) تو کھائیں اور اُن کی پیرانہ سالی میں اُنہیں بھیک مانگنے کیلئے چھوڑ دیں۔اس کے بعد آپ ؓ نے ایسے لوگوں کا جزیہ معاف کردیا اور بیت المال سے ان کا وظیفہ جاری کرنے کے احکامات صادر کئے۔
قارئین کرام ! اسلام اور اپنے اسلاف پر ہمارا فخر کوئی بے جا عمل نہیں بلکہ ان درخشاں تعلیمات نے اس مادی دور میں بھی اُمت کو سربلند کرکے رکھ دیا ہے کہ اسلاف نے کیسی کیسی انسان دوستی کی مثالیں قائم کرکے ان پر عمل پیرائی کا درس دیا ہے۔آپ شاید جانتے ہوں کہ سیدناابو بکرصدیق ؓ کی خلافت کے دورِ پربہار میں سیدنا خالد بن ولید ؓ نے حیرہ کو فتح فرمایا تو اہل حیرہ کو جو معاہدہ لکھ کر دیا وہ کفالت عامہ میں مسلم اور غیر مسلم کی مساوات کی وہ دستاویز ہے جو آج بھی ’’ کفالت انسانی ‘‘ کے یک چشم ’’علمبرداروں ‘‘ کی چشم کشائی کے لئے کافی ہے۔ملاحظہ فرمائیے دستاویز کے یہ الفاظ آج بھی دنیا کے بڑے بڑے ایوانوں میں آب زریں سے لکھ کر آویزاں رکھنے اور ان پر دعوت عمل دیتے ہیں۔ لکھا ہے:’’ اور میں یہ طے کرتا ہوں اگر ذمیوں میں سے کوئی ضعیف اور پیر ی کی وجہ سے ناکارہ ہوجائے یا آفات سماوی وارضی سے کسی آفت میںمبتلا ہوجائے یا ان میں سے کوئی مالدار محتاج ہوجائے اور اس کے اہل مذہب اس کو خیرات دینے لگیں تو ایسے تمام اشخاص کو جزیہ معاف ہے اور بیت المال ان کی اور ان کے اہل وعیال کی معاشی کفالت کا ذمہ دار ہے۔جب تک کہ وہ دارالاسلام میںمقیم ہیں‘‘۔
ایک اور درخشاں مثال وہ یہ کہ مکالموں اور گفتگو تک میں بھی غیر مسلموں کے تحفظ کی بات قرآن نے بڑی صراحت سے فرمائی ہے:’’ اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقے سے ، سوائے اُن لوگوں کے جو ظالم ہوں اور اُن سے کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اوراُس چیز پر جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے ہمارا الہ اور تمہار ا الہ ایک ہے اور ہم سب اس کے فرماں بردار ہیں ۔‘‘ (العنکبوت)۔
اتنا ہی نہیں ان کے عقائد اور مذہبی کتب کے احترام وتوقیر کے واضح اسباق بھی اس دین مبین نے پڑھائے ہیں اس تعلق سے قاضی کعب بن ثور ازدی کا ایک مشہو رواقعہ مثال کیلئے کافی ہے۔ جب اُنہوں نے ایک یہودی سے ایک معاملے میںفیصلے کیلئے قسم لینی چاہی تو یوں فیصلہ صادر فرمایا:’’اس کو ان کی عبادت گاہ کی طرف لے جائو تورات کو اس کی گود میںرکھو اور انجیل کو اس کے سر پر پھر اس سے اللہ تعالیٰ کی قسم لے لو جس نے موسیٰ ؑ پر تورات نازل کی تھی ۔( اخبار القضاۃ :۲۷۸۱) اسلا م نے اہل کتاب کی خوبیوں تک کو بھی دل کی پوری وسعتوں سے مانا اور تسلیم کیا ہے۔ سیدنا عمر وؓ بن العاص کے سامنے رومیوں کا تذکرہ چھڑا توآپ ؓ نے اُن کی خوبیوں کا ذکر بہ ایں الفاظ کیا:’’ ان میں چار خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ لوگ فتنہ اور آزمائش کے وقت میں اورلوگوں سے زیادہ حلیم اور بردبار واقع ہوئے ہیں ۔اور یہ مصبیت کے بعد جلد اُٹھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بھاگنے کے بعد پلٹ کر حملے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ مسکین ، یتیم اور کمزور کیلئے سب سے بڑھ کر خیر خواہ ہیں۔ اور اُن کی پانچویں اہم خوبی یہ ہے کہ بادشاہوں کو ظلم و ستم سے روکنے میںطاق ہیں۔قارئین غور فرمائیے اس دور حرص وہوس اور عصر انا پرستی میں جب بھائی اپنے کسی بھائی کی خوبیاںگنانا تو درکنار اس حوالے سے کچھ سننے پر بھی آمادہ نظر نہیں آتا اور ہم بڑے بڑھوں کے اخلاق وکردار میں کیڑے نکالنے کے مشاق بن چکے ہیں۔ چہ جائیکہ انسانی خوبیوں اور خصائل کو اُجاگر کرکے محبت و مودت بانٹنے میں اپنا حصہ ادا کریں۔
اس دین فطر ت میں خود نبی دو عالم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں انسانی مساوات واخوات کی اعلیٰ مثالیں قائم کیںکہ کفار مکہ ملاقات سے صرف اس لئے انکاری نظر آئے کہ ہم ان غلاموں اور فقیروں کی حاضری میں اس محسن انسانیتﷺ سے کیسے مل سکتے ہیں جس نے آقا وغلام کی تمیز کو مٹا کر سب کو ایک ہی پلڑے میںرکھا ہے۔تاریخ کے اس درخشاں واقعہ کو پڑ ھ کر انسانیت اور تکریم ابن آدم کے منظر کو دیکھ کر عش عش کیجئے جب ایک گورنر کے بیٹے کو ایک مصری قبطی کے لڑکے نے درے لگوائے اور ’’مساوات‘‘ کے علم برداروں کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔سیدنا انس بن مالک ؓ روایت فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا عمر ؓ کے دربار میںبیٹھے تھے کہ مصرسے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا ۔اے امیر المؤمنین !یہ مقام ہے جان کی امان پانے کا، آپؓ نے مسئلہ دریافت کیا تو جواب دیا کہ عمرو ؓبن العاص نے مصر میں گھوڑ دوڑ کا مقابلہ کروایا ، میرا گھوڑا سب سے آگے نکل گیا جب لوگوں نے دیکھا تو گورنر کا بیٹا محمد بن عمرو اُٹھا اور کہنے لگا رب کعبہ کی قسم یہ میرا گھوڑا ہے لیکن جب گھوڑا قریب آیا تو میں نے پہچان لیا اور میں نے کہا کعبہ کی رب کی قسم یہ میرا گھوڑا ہے۔
(بقیہ سنیچر کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)
فون نمبر 9419080306