اس دین فطر ت میں خود نبی دو عالم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں انسانی مساوات واخوات کی اعلیٰ مثالیں قائم کیںکہ کفار مکہ ملاقات سے صرف اس لئے انکاری نظر آئے کہ ہم ان غلاموں اور فقیروں کی حاضری میں اس محسن انسانیتﷺ سے کیسے مل سکتے ہیں جس نے آقا وغلام کی تمیز کو مٹا کر سب کو ایک ہی پلڑے میںرکھا ہے۔تاریخ کے اس درخشاں واقعہ کو پڑ ھ کر انسانیت اور تکریم ابن آدم کے منظر کو دیکھ کر عش عش کیجئے جب ایک گورنر کے بیٹے کو ایک مصری قبطی کے لڑکے نے درے لگوائے اور ’’مساوات‘‘ کے علم برداروں کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔سیدنا انس بن مالک ؓ روایت فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا عمر ؓ کے دربار میںبیٹھے تھے کہ مصرسے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا ۔اے امیر المؤمنین !یہ مقام ہے جان کی امان پانے کا، آپؓ نے مسئلہ دریافت کیا تو جواب دیا کہ عمرو ؓبن العاص نے مصر میں گھوڑ دوڑ کا مقابلہ کروایا ، میرا گھوڑا سب سے آگے نکل گیا جب لوگوں نے دیکھا تو گورنر کا بیٹا محمد بن عمرو اُٹھا اور کہنے لگا رب کعبہ کی قسم یہ میرا گھوڑا ہے لیکن جب گھوڑا قریب آیا تو میں نے پہچان لیا اور میں نے کہا کعبہ کی رب کی قسم یہ میرا گھوڑا ہے۔ محمد بن عمر وؓ نے کوڑا پکڑا اور مجھے مارنے لگا ۔ اور ساتھ ساتھ کہہ رہا تھا کہ میں شرفاء کا بیٹا ہوں ۔ جب اس کی اطلاع اس کے والد عمروؓ بن العاص یعنی گورنر مصر کو ملی تو اس نے اس خطرے سے کہ کہیں میں آپ کے پاس عرض حال کیلئے نہ چلوں مجھے جیل میںبند کردیا۔اے امیر ؓ! میں وہاں سے نکل بھاگا ہوں اور آپ ؓکے پاس ’’حصول انصاف‘‘ کیلئے آیا ہوں۔ یہ سن کر سیدنا عمر ؓ نے اُسے بٹھایا گورنر کو فوری طور بیٹے سمیت حاضر ہونے کی ہدایت فرمائی ۔حکم کی تعمیل ہوئی مصری کو طلب کیا گیا فرمایا : درّہ پکڑو اور اس شریف زادے کو مارو مصری نے اُسے مارا اور پھر تاریخ میںاسلام کی انسان نوازی، مساوات اور حکمران ورعیت کے فرق کو مٹانے کی یہ نمایاں مثال یہ فرماتے ہوئے قائم فرمائی کہ لڑکے ! اب اس کے والد یعنی ’’ گورنر ‘‘ کو بھی مارو کیونکہ اس نے اسی کے حکومت کے بل پر تجھے مارا تھا۔ مصری نے گورنر کو مارنے سے یہ کہہ کر معذرت کی کہ یاامیر جس نے مجھے مارا تھا میںنے تو اُسے مارا پھر سیدنا عمرؓ ، عمرؓو ابن العاص کی جانب مخاطب ہوئے اور فرمایا:’’تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے حالانکہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوئے‘‘۔اور مصری کی جانب متوجہ ہوئے تو فرمایا : ’’ اب تم جاسکتے ہو اگر دوبارہ کوئی اندیشہ ہو تو مجھے لکھو ۔(التذکرۃ المحمویۃ واخبار عمر لطنطاوی)
ہاں قارئین ! آخر وہ ایسا کیوں نہیں کرتے اُن کے دل میں جو یہ قرآنی روح رچ بس گئی تھی :’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو ، کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کردے کہ انصاف سے پھر جائو ۔ عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔(المائدہ :۵:۸)
اسلام کے اسی بطل جلیل کا وہ امان نامہ آج بھی دنیائے انسانیت کیلئے سرمہ ٔ بصیرت اور بصارت کا حکم رکھتا ہے جو آپ ؓ نے بیت المقدس کی فتح کے بعد لکھوایا تھا۔لکھا تھا:’’ یہ وہ امان ہے جو اللہ تعالیٰ کے غلام امیر المؤمنین عمر ؓ نے ایلسا کے لوگوں کو دی ہے یہ امان ان کی جان ان کے مال ٗ گرجا ٗ تندرست ٗبیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کیلئے ہے ۔ اس طرح کہ نہ ان کے گرجوں میں سکونت کی جائے گی ۔نہ وہ ڈھائے جائیں گے ۔نہ ان کے احاطوں کو نقصان پہنچایا جائے گا ۔ نہ ان کے مالوں میںکمی کی جائے گی اور مذہب کے بارے میں ان پر کوئی جبر نہیں کیا جائے گا۔‘‘
امویہ ، عباسیہ اور اندلسیہ حکمرانوں کے عرصۂ حکومت میں دوسرے اقوام کا صدیوں تک آباد وآزاد رہنا مسلمانوں کی وسعت ظرفی اور اسلامی تعلیمات پر عمل پیرائی کا ہی جیتا جاگتا ثبوت ہے اور یہ اسلام ہی ہے ۔ جس نے دوسرے انبیاء کرام کی فضیلت واہمیت اپنے پیروکاروں کے دلوں میںجاگزیں کردی۔ اُن کا احترام اور محبت ان کے رگ وپے میںقائم کرنے کے لئے واضح ارشادات فرمائے۔ نبی دوعالم ﷺ نے فرمایا: ’’کہ میرا تعلق اور قربت عیسیٰ بن مریم ؑ کے ساتھ دنیا وآخرت میں سب لوگوں سے زیادہ ہے۔ کیونکہ انبیاء باہم علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں الگ الگ ہیں لیکن سب کا باپ ایک ہے۔(صحیح بخاری :۳۲۷۸)
قارئین ! حضرت موسیٰ ؑ کو یاد کیجئے ۔ جب جناب محسن انسانیت ﷺ نے مدینہ منورہ میں لوگوں کویوم عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھ لیا ۔ وجہ پوچھی ، جواب ملا اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی۔ اورحضرت موسیٰ ؑنے اس دن (شکرانہ ) کا روزہ رکھا تھا ۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:’’ میرا حق اور تعلق موسیٰ ؑ کے ساتھ تم سے زیادہ ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے اس دن ر وزہ رکھا اور صحابہ ؓ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا اور یہ بھی ملاحظہ فرمائے کہ آپ ﷺ سے کسی نے پوچھا : لوگوں میں سب سے بڑھ کر معزز کون ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو ان میں سب سے زیادہ متقی ہے۔ اُنہوں نے کہا ۔ہم یہ نہیں پوچھ رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یوسف ؑ سب سے بڑھ کر معزز ہیں ۔جو خود بھی نبی ؑ اُن کا باپ بھی نبی ؑ اُن کا دادا بھی نبی اور اُن کا پردادا خلیل اللہ بھی نبی ۔لوگوں نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ پوچھنا نہیں ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا:کیا تم عرب آباء واجداد (وہ خاندان جن کی طرف عرب منسوب تھے ) کے حوالے سے پوچھ رہے ہو۔ جو جاہلیت میںنمایاں تھا۔ وہ اسلام میں بھی نمایاں ہے۔ جب وہ دین میںبصیرت حاصل کرے۔(صحیح بخاری :۳۱۰۴)ایک دوسرے موقع پر پیغمبر یوسف ؑ کے بارے میں ارشاد فرمایا: یوسف ؑ خود بھی کریم ان کا باپ یعقوب ؑبھی کریم ان کا دادا اسحٰق علیہ السلام بھی کریم اور ان کا پردادا ابراہیم ؑ بھی کریم ۔(صحیح بخاری:۳۱۳۸)۔اور ان فرستادگان حق کے حوالہ سے قرآن کا صریح ارشاد ہے :’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اُس کے رسولوں کے درمیان تفرق کریں گے اور کہتے ہیں کہ ہم بعض کو مانیں گے اور بعض کو نہیں ۔ اور کفر وایمان کے درمیان ایک راہ نکالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ وہ سب پکے کافر ہیں۔اور ایسے کافروں کے لئے ہم نے ایک ایسی ہولناک سزا تیار کررکھی جو اُنہیں ذلیل اور رسوا کردے گی ۔ اس کے برعکس جو لوگ اللہ اور اُس کے تمام رسولوں کو مانیں اور اُن کے درمیان تفریق نہ کریں ۔ ان کو ہم ضرور ان کا اجر عطا کردیں گے اور اللہ بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
(سورۃ : النساء :۱۲۵)
حضرات انبیاء علیہم السلام کے حوالے سے ربانی پیغام اور نبویؐ ارشادات کو دیکھ لیجئے تو آپ اس آماجگاہِ فتنہ وفساد دنیامیںدیکھئے کہ خود اپنے کو مہذب اور ایک آسمانی مذہب سے منسلک سمجھنے والے لوگوں کا یہ مسلک ومشرب ہی کیوں بنا ہے کہ وہ اسلامی اور نبوی تعلیمات کو اس کی شکل بدل کر پیش کردیں ۔اور آئے دن مسلمانوں کی دل آزادی کیلئے اُن کے زبان وقلم کی بے لگامی دنیا میں بے چینی پیدا کردیتی ہے ۔انصاف پسند لوگ نوٹ کررہے ہیں۔ ان اسلام دشمن کاروائیوں کو تحریر وتقریرکی آزادی کے زمرے میںڈال کر اپنے اسلام دشمن ایجنڈے کی تکمیل میںوہ اپنی Think-Tanksتھنک ٹینکس کو سرگرم رکھنے کیلئے اپنی دولت کا بیش بہا حصہ اس گھنائونے اور غلیظ کام کیلئے لٹا دیتے ہیں۔اور فطرت کے اس واضح امر کو نہیں جانتے کہ پھونکو ں سے یہ چراغ آج تک بجھاہے جو اب بجھے گا؟یہ بھی یاد رہے کہ اسلام نے کبھی زور زبردستی یا تلوار کے زور پر کسی کو مسلمان بنانے کی ٹھانی ہے اور نہ اپنے پیروکاروں کو اس کا حکم دیا۔یہ ایک ربانی اصول ہے جو سورئہ یونس میں یوں بیان ہوا ہے:’’ اگر تیرا رب چاہتا تو تمام اہل زمین ایمان لے آتے ، پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مؤمن ہو جائیں ۔ ‘‘ (سورئہ : یونس :۹۹)
تاریخ کی روشنی میں دیکھئے کہ جناب محسن انسانیت ﷺ نے لوگوں کو اختیار دے رکھا تھا کہ وہ اسلام کو قبول کریں یا اپنے مذہب پر قائم رہیں۔اس تعلق سے ایک معاہدہ ہوتا تھا جس کے تحت وہ ایک معمولی سا جزیہ دیتے تھے جس کے بدلے آپ ﷺ اُنہیں اُن کے دین جان ومال اورعز ت کے تحفظ کی مکمل ضمانت دیتے تھے اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی ضمانت سے پوری طرح مطمئن تھے(الاسلام وغیرالمسلمین :صفحہ۶۰۔۶۱)
آپ ﷺ کی یہ حکمت اس آیت الٰہی کی آئینہ دار تھی ’’ دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ، صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لایا ۔ اس نے ایک مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے ‘‘۔(بقرہ :۲۵۶)بات جزیہ کی چلی آپ کو کوئی غلط فہمی نہ ہویہ کوئی بھاری بھرکم بوجھ تھا یا اس کی حیثیت کسی تاوان کی تھی ایسا بالکل نہیں تھا جس کا اعتراف سر تھامس آرنلڈ یوں کرتا ہے۔’’ یہ جزیہ بہت معمولی ہوتا تھا ۔جو ان کے کندھوں پر گراں بار نہیں تھا اور یہ بھی اس لئے لیا جاتا تھا کہ یہ لوگ عسکری اور فوجی ذمہ داری سے آزاد تھے جو کہ مسلم رعایا پر فرض تھی ۔اور یہ جزیہ اسی حفاظت کے معاملے میں وصول کیا جاتا تھا۔ اگر مسلمان ان کی حفاظت نہ کرسکتے۔تو اُنہیں اہل ذمہ سے جزیہ وصول کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔’’ اس کے ساتھ ہی ساتھ غیر مسلموں کو اپنے شخصی معاملات جیسے نکاح وطلاق اپنی شریعت کے مطابق حل کرنے کی کامل آزادی تھی۔ چونکہ اہل ذمہ اور مسلمانوں کی معاشرتی معاملات میںکبھی کبھی کچھ اختلاف پیدا ہواکرتا تھا جس وجہ سے کچھ پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتی تھیں۔ کچھ خورد ونوش کے معاملات بھی تھے جو اسلا م کے ممنوعات میںسے تھے لیکن اہل ذمہ کیلئے ممنوع نہ تھے۔ اس بارے میں ایک دفعہ عمر بن عبدالعزیر ؒ نے حسن بصری ؒ کو خط لکھا کہ خلفاء راشدین ؓنے اُنہیں یعنی ذمیوں کو ایسے کرنے کیلئے آزاد کیوں چھوڑ دیا تھا۔ تو اس خط کے جواب میں حسن بصر ی ؒ نے کتنے پتے کی بات فرمائی تھی،پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔لکھا :’’ وہ جزیہ اس لئے ادا کرتے ہیں کہ اُن کے عقائد کے متعلق اُنہیں آزاد چھوڑ دیا جائے اور واقعی آپ کو (خلفاء راشدینؓ) کی پیروی کرنی چاہیے اور اپنی طرف سے اس بارے میں کوئی حکم جاری نہ کریں۔(حقوق اہل الذمۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ :۲۱:۲۰)
اوریہ بھی تاریخ کا بے غبار سچ ہے کہ اہل ذمہ کیلئے الگ عدالتیں قائم تھیں ۔ وہ ان کی طرف رجوع کریں یااسلامی عدالتوں کی جانب یہ ان کی صوابدید پر منحصر تھا۔ہاں اگر وہ اسلامی عدالتوں کارخ کریں تو پھر واضح ربانی ارشاد ہے:’’ اگر یہ تمہارے پاس اپنے مقدمات لے کر آئیں تو تمہیں اختیار ہے کہ چاہو تو ان کا فیصلہ کرو ورنہ انکار کردوتو یہ تمہارا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اور اگر فیصلہ کرو تو پھر ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ کروکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘(سورۃ : المائدہ)
معروف مغربی مورخ آدم سمتھ اپنی تصنیف ’’اسلامی تہذیب چوتھی صدی ہجری میں‘‘ کے اندر رقم طراز ہے ـ: چونکہ دین اسلام کے احکام صرف مسلمانوں پر لاگو ہوتے تھے لہٰذا اسلامی حکومت نے دیگر اقوام اور اُن کی مخصوص عدالتوں سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا۔ ان عدالتوں کے بارے میں ہم جو کچھ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ عدالتیں کلیسا کے زیر اثر تھیں ۔حاکم پادری ہوتے تھے جن کا تقرر چیف جسٹس کی حیثیت سے ہوتا تھا۔ اُنہوں نے اپنے قانون کی بے شمار کتب تالیف کیں اور ان کے فیصلہ صرف شادی بیاہ سے متعلق ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ اس کے ساتھ وراثت کے مسائل بھی ہوتے تھے ۔ اور عیسائیوں کے خاص تنازعات میں بھی حکومت (اسلامی حکومت ) کوئی مداخلت نہیں کرتی تھی۔(اسلامی تہذیب چوتھی صدی ہجری میں آدم سمتھ :۶۷۱)
غیر مسلموں کے تئیں اسلام کی انہی عدل پر ورانہ تعلیمات ،مبنی بھر انصاف پیغام اور نظام رحمت ورافت کی برستی بارش کو دیکھ کر ہی (Gustav Lebon)’’عرب تہذیب ‘‘ میںلکھتا ہے۔’’ ممکن ہے کہ اسلام سے قبل عربوں نے فتوحات کے نشے میںسرشار ہوکر ایسے مظالم کا ارتکاب کیا ہوجو عموماً فاتحین اپنے مفتوحین کے ساتھ روا رکھتے ہیںاور ممکن ہے کہ مغلوب قوموں کے ساتھ اُنہوں نے کچھ برا سلوک کیا ہو اور اُنہیں اپنا مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا ہو۔ لیکن اسلام کے بعد عربوں نے اپنے دامن کو ظلم کی چھینٹوں سے کبھی آلودہ نہیں ہونے دیا۔ اولین خلفاء جو بڑی سیاسی بصیر ت اور عبقریت کے حامل تھے جو عموماً نئے ادیان کے علم برداروں میں مفقود ہوتی ہے۔ اُنہوں نے اس بات کا ادرا ک کرلیا تھا کہ کسی قانون اور مذہب کو جبراً نافذ نہیں کیا جاسکتا ہے۔پھر ہم نے دیکھا کہ اُنہوں نے شام ، مصر، ہسپانیہ اور اپنے ماتحت تمام ملکوں کے باشندوں کے ساتھ حسن معاملہ ، نرمی اور خوش معاملگی کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ ان کے عقائد اور قوانین کے ساتھ تعرض نہیں کیا۔ زیادہ سے زیادہ اُن پر کوئی چیز عائد کی تو وہ جزیہ تھا جس کے بدلے میں اُن کے حقوق کا تحفظ کرنا اور اُن کو امن وامان مہیا کرنامسلمانوں کی ذمہ داری تھی اور یہ جزیہ اُس کے مقابلے میں انتہائی معمولی تھا۔ جو وہ اس سے پہلے اپنے حکمرانوںکو دیتے آرہے تھے۔ حق تو یہ ہے کہ اقوام عالم آج تک ایسے فاتحین سے آشنا نہ ہوسکے جو عربوں کی طرح اعلیٰ ظرفی اور رواداری کے پیکرہوں۔ اور نہ ایسے دین سے واقف ہوسکے جو اس کی طرح اعلیٰ صفات کا جامع ہو۔( حضارۃ العرب :۶۰۵)
خلاصہ ٔ کلام یہ کہ اسلام کے عالم گیر پیامِ امن وراحت اور جرائم گناہوں سے پاک معاشرے کے نظریہ و تصورنے ہر دور میں کسی تمیز کے بغیر نسل انسانی کے حقوق کا نہ صرف تحفظ کیا بلکہ اس کا ضامن بنا رہا ۔ انسانیت کے تئیں اس نظامت رحمت ورافت کے خوشگوار اثرات اور خود غیر مسلم مشاہیرکی زبانی اس کا اعتراف ان تمام باتوں ، واقعات اور شواہد کو بیان کرنے کیلئے صرف چند صفحات کافی نہیں ۔ اوروں کی کیا بات کریں آج کی تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ مسلم ممالک میں بھی گھناؤنے جرائم اور لرزہ خیزگنا ہوں کی نرسریاں ہی پھل پھول رہی ہیں، زینبوں اور آصفاؤں ، نیلوفروں اور آسیاؤں کا جینا اجیرن ہورہاہے اور اللہ کی جانب سے’’ سوط العذاب ‘‘ یہ ہے مسلمانوں کو بڑی ڈھٹائی سے ستایا جارہا ہے، انہیں بے ہودہ الزامات میں پھنسا کر برسوں زینت زنداں بنایا جارہا ہے،ان کے مذہبی جذبات کے ساتھ کھلواڑ ہورہا ہے ،ان کی عبادت گاہوں کو ڈھائی جارہی ہیں اور یہ سارے جرائم کر نے والے دعویٰ انسانی حقوق اور جمہوریت نوازی کے کرر ہے ہیں۔بہر حال ہمیں اپنا محاسبہ کر نا ہوگا ااور یاد رکھنا ہوگا کہ ہمیں ہمارے محبوب پیغمبر ﷺنے یہی سبق پڑھایا ہے کہ تم ظالم ومظلوم دونوں کی مدد کرواور یہ سوال کرنے پر کہ مظلوم کی مدد کرنے کی بات تو ہم سمجھ گئے لیکن ظالم کی کیسے مدد کی جائے تو آپ ﷺ نے فرمایا :’’ظالم کو ظلم کرنے سے روکنا ہی اُس کی امداد واعانت ہے۔‘‘ ہم اسی پیغام ِ امن وسلامتی کے امین ہیں اور اسی کو عام کرنے کیلئے اگر ہم انفرادیا ور اجتماعی سطح پر وقف ہوجائیں تو ہماری ہر زینب اور ہر آصفہ کواَ مان بھی ہے ، ضمانت ِحیات ہے ، نویدکامرانی بھی ہے ؎
آدمیت احترام آدمی باخبر شو از مقام ِآدمی
(ختم شد)
9419080306