سرینگر//بڈگام ضلع میں 5 دہائیوں تک فوج کے فائرنگ رینج کیلئے استعمال ہونے والا’توسہ میدان‘مقامی آبادی کیلئے تباہی اور موت کی چراگاہ میں تبدیل ہوچکی ہے۔ گذشتہ4برسوں سے مسلسل ا مواتیں مقامی آبادی کا تعاقب کر رہی ہیں۔ گذشتہ24گھنٹوں کے د وران پولیس نے ستھارن اور درنگ علاقوں میں4بارودی گولوں کو ناکارہ بنادیا ہے۔فوج کا کہنا ہے کہ تفصیلات معلوم کی جاری ہے۔ وسطی کشمیر کے بڈگام علاقے میں300ایکڑ پر محیط خوبصورت’’ توسہ میدان‘‘ مقامی لوگوں کیلئے موت کی کھائی میں تبدیل ہوچکا ہے،جس نے قریب70شہریوں کو اب تک نگل لیا ہے،اور درجنوںعمر بھر کیلئے جسمانی طور معذور بن چکے ہیں۔12اگست کو اس چراگاہ میں فوجی مشقوں کے دوران بغیر پھٹے شل نے25برس کے واجد بشیر آہنگرساکن زگوئوں کھارین بیروہ کی جان لی،جبکہ اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے مدثر احمد گنائی اور وسیم احمد گنائی بھی زخمی ہوئے۔ ضلع انتظامیہ کی طرف سے دبائو کے بعد فوج نے اگرچہ20اگست کو ایک بار پھر اس علاقے میں بغیر پھٹے گولوں کی تلاش شروع کی،تاہم اتوار کو توسہ میدان کے نواحی علاقے درنگ میں ایک بار پھر بغیر پھٹے گولوں نے لوگوں کو اضطراب میں مبتلا کیا ہے۔ اتوار کو درنگ علاقے میں ایک زنگ آلودہ گولہ برآمد ہوا،جس کی وجہ سے اہل علاقہ میں زبردست خوف وہراس اور تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ملک محلہ درنگ سے تعلق رکھنے والے بشیر احمد ملک کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے باغ میں گیا تو ایک زنگ آلودہ گولہ دیکھا۔ انہوں نے کیا’’میں نے اپنے کنبے کو واپس گھر جانے کی صلاح دی،تاکہ کسی بھی نا خوشگوار واقعے سے بچا جاسکے‘‘۔بشیر احمد ملک کا مزید کہنا تھا کہ شاید یہ گولہ توسہ میدان سے بارشوں کے پانی کے ساتھ بہہ گیا ہو،جو کہ فوجی مشقوں کیلئے استعمال کیا جاتا تھا‘‘۔ان کا کہنا ہے کہ بعد میں بم ڈسپوزل اسکارڈ کو طلب کیا گیا اور اس بارودی گولے کو ناکارہ بنادیا گیا۔ توسہ میدان بچائو فرنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر شیخ غلام رسول کے مطابق اتوار کو ستھارن علاقے میں3بارودی گولے برآمد ہوئے۔ان کا کہنا تھا ’’ہم جانتے ہیں کہ موسلا دھار بارشوں کے بعد بغیر پھٹے بارودی گولے نالوں کے ذریعے کئی علاقوں میں پہنچتے ہیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ قریب49کلو میٹروں میں اب تک فوج نے بارودی سرنگوں کو صاف نہیں کیا ہے،اور ہمیں خدشات ہیں کہ چینا مرگ گلیئشر،پہل پتھری اور دیگر علاقوں میں کافی تعداد میں بارودی گولے موجود ہیں۔فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں بارودی گولوں کی برآمدگی سے متعلق معلومات کو حاصل کیا جا رہا ہے۔لیفٹنٹ کرنل راجیش کالیہ نے بتایا’’ ہم سیاحوں کی زندگی کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتے،توسہ میدان میں کئی علاقے ہیں،جو کہ سیاحوں کیلئے ممنوع قرار دیئے گئے ہیں‘‘۔ توسہ میدان درنگ علاقے سے صرف6کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ درنگ علاقے میں بارودی گولہ کی برآمدگی کی وجہ سے ایک بار پھر مقامی آبادی میں پریشانی لاحق ہوچکی ہے،اور وہ تذبذب کے شکار ہوگئے ہیں،کیونکہ فوج نے کئی بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ توسہ میدان کو باردی شلوں سے پاک کیا گیا،جبکہ گرین ٹریبونل میں بھی فوج کے وکیل نے اس کا دعویٰ کیا۔ 20روز قبل بھی فوج کی طرف سے علاقے کو بارودی گولوں سے صاف کرنے کی جو مہم شروع کی گئی تھی،اس میں ضلع انتظامیہ کے مطابق پہلے سیاحتی اعتبار کے حامل علاقے کو گولوں سے صاف کرنا تھا،جبکہ بعد میں توسہ میدان کو صاف کرنا تھا۔3ہزار ایکڑ پر پھیلے توسہ میدان نامی چراگاہ میں اونچے اور جنگلی گھاس میں گزشتہ50برسوں کے دوران فوجی مشقوں میں استعمال میں لائے گئے بارودی گولے سما سکتے ہیں۔
تلخ یادیں
توسہ میدان میں ایک اندازے کے مطابق گزشتہ5 دہائیوں سے فوجی مشقوںکے دوران استعمال میں لائے گئے بارودی گولوں سے70کے قریب افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں۔مارچ2014میں6 برس کا فیاض احمد بھی ناکارہ باروی گولے کا نشانہ بنا اور زخمی ہوا،جس کے دوران وہ معصوم اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوا۔ فیاض کا کہنا ہے’’ میں نے ڈاکٹر سے کہا مجھے ٹانگیں دیدو،تو ڈاکٹر نے کہا تم پرواہ نہ کرو میں تمہیں ٹانگیں نصب کرونگا‘‘۔ فیاض سمیت اس خوبصورت علاقہ میں کئی اور زخمی ہوئے،اور بغیر پھٹے بارودی گولوں کا نشانہ بنے۔ راجہ بیگم کا کہنا ہے کہ اس کا شوہر عبدالکریم خان توسہ میدان میں مویشیوں کو چرانے کیلئے گیاتھا،جس کے دوران اس کا پائوں ایک بغیر پھٹے گولے پر پڑا ،اور وہ وہی ڈھیر ہوگیا۔راجہ بیگم نے جذباتی انداز میں کہا کہ اس کے شوہر کے جسم کو کئی حصوں میں گھر لایا گیا،جبکہ توسہ میدان میں ان کے اعضاء کو جمع کر کے دفن کیا گیا۔ علاقے کی ایک اورخاتون فاطمہ بانو آنکھوں کی بنیائی سے اس وقت محروم ہوئی،جب انہوں نے اچانک ایک بغیر پھٹے بارودی گولے پر پائو ںرکھا۔اس کے بھائی محمد سبحان ڈارنے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا’’میری بہن وہاں مویشیوں کے ساتھ تھی،اور اس نے غیر دانستہ طور پر ایک بغیر پھٹے بارودی گولے پر پائوں رکھااور وہ گولہ انکے سامنے پھٹ گیا‘‘۔ان کا کہنا ہے کہ اگر چہ فاطمہ کو فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیاتاہم بہت دیر ہوچکی تھی،اور وہ اپنی بنیائی کھو چکی تھی۔انہوں نے کہا کہ ہماری والدہ اس صدمے میں مر گئی،اور اب فاطمہ مکمل طو ر پر اس کے بھائی اور بھتیجوں پر منحصر ہے۔ ایک اور مقامی شہری70برس کا محمد عبداللہ ملک ساکن شنگلی پورہ توسہ میدان میں بالن جمع کرنے کیلئے گیا تھا تاہم اپنے ہاتھ سے محروم ہوا۔ انہوں ے کہا کہ انہیں ایک روپے بھی امداد یا معاوضہ نہیں دیا گیا۔ ملک کا کہنا ہے کہ اگر فوج وہاں پر نہیں ہوتی تو یہ واقعہ پیش نہیں آتا،اور یہ فوج کی غلطی ہے۔ نقصانات کے باوجود متاثرین کا ماننا ہے کہ انہیں سرکار سے کوئی بھی مدد نہیں ملی،جبکہ ہنر سے محروم اور متبادل کام نہ ہونے کی وجہ سے مقامی لوگ اپنے مویشیوں کے ہمراہ توسہ میدان میں جانے کیلئے مجبور ہے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی بھی شخص زخمی ہوتا ہے تو علاج و معالجہ کیلئے انہیں اپنے جانورفروخت کرنے پڑتے ہیں۔
توسہ میدان
بڈگام میں واقع یہ خوبصورت علاقہ 1964میں فوج کی تحویل میں دیا گیا،تاکہ وہاں پر وہ اپنی فوجی مشقیں انجام دیں سکیں،تاہم اپریل2014میں پٹے کی تاریخ ختم ہونے کے بعد مقامی لوگوں کے مطالبے کے تحت اس وقت کی عمر عبداللہ کی سربراہی والی نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مخلوط سرکار نے پٹے میں توسیع نہیں کی۔اس کے گرد نواح میں رہنے والے لوگ اسے’’موت کا مرغزار‘‘ کہتے ہیں،کیونکہ فوجی مشقوں کے دوران بغیر پھٹے باردوی گولوں سے قریب70افراد کی موت واقع ہوئی ہے،جبکہ درجنوں افراد زخمی ہوئے ہیں۔فوج نے توسہ میدان اکتوبر2014میں ریاستی حکومت کو سونپ دیا،جبکہ اس سے قبل3ماہ تک توسہ میدان میں بغیر پھٹے اور ناکارہ بارودی گولوں کو صاف کیا گیا۔مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ چینا مرگ گلیئشر،پہل پتھری اور دیگر علاقوں میں کافی تعداد میں بارودی گولے موجود ہیں۔