سالہا سال پہلے ایک فلمی بھائی نے سوال پوچھا تھا کہ یہ سناٹا کیوں ہے بھائی ؟ ا س کاجواب کیا ہے ،پتہ نہیں مگر اپنے ملک ِکشمیر میں بس سناٹا ہی سناٹا ہے۔سیاست میں سناٹا ، معیشت میں سناٹا ، تعلیم میں سناٹا، عقل ودانش میں سناٹا کہ قلم والے سیاست دان بھی سناٹے میں ہیں ۔ انہوں نے خوابِ گراں لوگوں کو دکھایا کہ مودی مہاراج کے کنول تخت کشمیر کے باغیچہ میں کھلانے کے عوض بات چیت کا سلسلہ دراز ہوگا،مسلٔہ کشمیر حل ڈھونڈا جائے گا ، ہم اپنے قلم سے اپنی دوات کی روشنائی اک قطرہ قطرہ نچوڑ کر نئی تاریخ لکھ کر بتادیں گے کہ کتے کے دُم سیدھی کر نے کا چمتکار کل ہوا نہ ہو امگر آج ہوسکتا ہے۔ اب گرینڈ الائنس کے صدقے وادی بے نظیر پابہ زنجیر نہ ہوگی، یہاںامن و سکون کی روٹھی دیوی دل نواز مسکان سے سب کا دل بہلائے گی، دودھ کی ندیاں بہیں گی، بجلی کے قمقمے ایسے چمکیں گے کہ آنکھیں چندھیا جائیں گی،سڑکوں اور راہداریوں پر کالے تارکول کے بدلے خوش رنگ سونے چاندی کی پرتیں چڑھیں گی ۔تب عام خام کو سمجھ آئے گا کہ سیاسی بصیرت اور مفتی وژن کسے کہتے ہیں لیکن وا حسرتا! یہاں تو سب الٹا ہی الٹا ہو گیا۔نئی تاریخ لکھنے کے بجائے ہماری بند عقل کا تالا نہ کھلا، صرف تاریخ پہ تاریخ کا بہی کھاتہ کھلا ۔اسی گورکھ دھندے میں پڑکر ہم بے چاروں کے تقدیر کی تالی اسلام آباد ، دلی، جینوا ، ٹریک ون ِ ٹریک ٹو، آٹونومی ، سیلف رول کے ملبے میں گالی بن کر کہیں گم ہوگئی ۔ اللہ اللہ کرکے ہماری بند عقل کی دہائیاں سنی گئیں ، دلاسہ ملا یہ لوجی پرچہ ایجنڈا آف الائنس کا چرچا ہے ،اس پر خون کا نہیں بولی کاخرچہ ہے ، اہل کشمیر ہم پر عش عش کریں گے ۔ ہمیں کہا گیا کہ من توشدم کا جو نیا کشمیر خواب نم دیدہ سرزمین کے ایک مرد ِمومن نے دیکھا تھا ، اب اس کی تعبیر ناگپور ی سادھو سنت اور سادھوئیاں کر یں گی ۔ ہمیں کیا معلوم اس نیاکشمیر خواب و سراب کی تعبیر پرانی سے بری بھدی ہوگی کہ ہم پر اتنا سناٹا چھا جائے گا کہ ا ب قلم دوات سے کوئی پریس نوٹ لکھتے لکھتے ہاتھ کانپ جاتے ہیں اور لفظوں کا دل یہ سوچتے سوچتے دل لرزتا ہے کہ بھائی لوگو! لکھیں تو آخرکیا لکھیں۔شاید اسی لئے وزیر تعمیرات و مشیر تردیدات بھی کوئی نئی کہانی تعمیر نہیں کر پاتے بلکہ سوچتے ہوں گے چلو جو دم نکلا سو واہ واہ۔مفت میں مودی مہاراج کے چیلو چانٹوں سے کیا پنگا لینا اور اگر ان یوگیوں نے مجھ سبزی خور پر گاؤ خور ی کا الزام دھرا تو پہلو خان بننے میں کیا دیر لگے؟ اس لئے اے دل ِ ناداں بند کرو دھڑکنا بیچ ڈالو قلم کی زبان۔جناب اپنے محل سرا میں خود سے مخاطب ہوکر ہمیشہ ہڑ بڑاتے ہیں، بھائی! خوامخواہ پنگا لے کر اپنی کرسی کی قربانی کیوں دینے لگوں۔ سمندر میں رہناا ور مگر مچھ سے بیر !!اسی لئے جب مودی مہاراج نے کہا آدیش ہے فیس بک یوٹیوب بند کرو ہم نے فوراًکہا جو مزاج یار میں آئے ۔ ادھر سے ہُش ہُش کر کے ٹویٹر کی چڑیا اڑانے کا فرمان جاری ہوا ہم نے فوراً اس چڑیا کا دانہ پانی بند کردیا ۔حکم حاکم مرگ مفاجات، انسٹاگرام کی قوت ختم کرنے کا آڈر آیا ،ہم نے اسے گرام سے کم کرکے ملی گرام بنا دیا ۔ وہ تو چاہتے ہیں ملک کشمیر پر صرف اپنا زور چلے تو کوئی شور کیوں مچائے ، بس سناٹا جماؤ ۔اسی لئے وزیربے تدبیرنے دوات میں کنول ڈبو کر شاہی حکم نامہ اپنے پیادوں کے نام لکھا کہ کشمیر میں بس سناٹا عام کرو لیکن شاید سناٹا اچھی طرح راس نہ آیا تب پتہ چلا کہ یہ جو ایڈیٹ بکس ہے، اس پر بھی شور بہت ہے ۔حالانکہ دلی ممبئی والے سکرین پر شور و غوغا چھایا ہے کیونکہ قوم کو آج شام تک جواب چاہئے) (The nation wants to knowوالے سالار و تبردار تابڑ توڑ خبر وں پرحملے بولنے میں مصروف ہیں ، دس نمبری خبریں کے میزائل مارنے میں پیش پیش ہیں ۔ سالاران ِ قوم تو امن کی دہائی دیتے ہیں لیکن ائر کنڈشن اسٹیڈیو والے سالارِ مملکت خداداد کو باتوں باتوں میں چار حصے کردیتے ہیں ۔ہڑتال کو دیش درو ہی نہیں گروہی لال بھی گردانتے ہیں۔بھارت وَرش کے گیت گانے والے ہل والوں، قلم دوات والوں، ہاتھ والوں ، ہتھوڑادرانتی برداروں وغیرہ وغیرہ کی مٹی پلید کرنے میں کسر باقی نہیں رکھتے اور اس شور میں ہم سناٹے کی آرزو کرتے ہیں ۔بھائی آزادی کے لئے بھلے ہی انتظار کرنا پڑے لیکن ٹی وی چینلوں سے کم سے کم جلد ہی آزادی دلائو تو مہربانی ہوگی ؎
اینکر خریدنا ہو تو چینل خرید لو
کرسی دکھا کے اسمبلی ممبر خرید لو
جانے کیوں قلم بردار دوات میں کنول کھلانے والوں کو ایسا لگا کہ کشمیر تو بس ہاتھ سے نکلتا جائے ہے اور اس کو قابو میں کرنے کے لئے چونتیس چینلوں پر ایک ہی میک ان انڈیا تالا چڑھانے کی ضرورت ہے۔پھر پتہ چلا کہ باورچی والی چینل پر رستہ ،گشتابہ، روغن جوش، تبک ماز بنانے کی آڑ میں آر ڈی ایکس یکجا کرنے اور سرنگ پھوڑنے کی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی۔ہم تو حیران وپریشاںہو گئے کہ ان چینلوں پر یہ دکھانا کہ کتنا نمک مرچ سالن میں ڈالا جائے ،اصل میں آنکھوں میں مرچی جھونکنے اور زخموں پر نمک چھڑکنے کی ترکیب سمجھائی جاتی تھی اور وہ جو آلو بینگن بنانے کی ترکیب تھی ،وہ اصل میں پتھروں کا نعم البدل ہے اور اسی لئے یہ چینل دیکھتے دیکھتے قوم کی بیٹیاں سنگ بازی کا کورس مکمل کرتی تھیں۔اتنا ہی نہیں نماز ،دینی تعلیمات سکھانے والے چینل گولیوں اور چھروں کی بارش کے وقت جھک کر، چھپ کر بچنے کی تربیت دیتے تھے۔اسی لئے کشمیر کے بزرگ ان چینلوں سے استفادہ کرکے بچائو کی تعلیم پا گئے یعنی یہ چینل بند ہوئے تو بس کشمیر امن کا گہوارہ ہوگا اور اپنے کنول قلم والے کچھ ماہ و سال عیش کر پائیں گے۔جبھی تو بھاجپا ؍ پی ڈی پی ترجمان ایک دوسرے کو آنکھیں دکھاتے ہیں، فرضی بات چیت کے مدعے پر ایک دوسرے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں تو ہمیں سمجھ آتا ہے کہ یہ نورا کشتی ہے یعنی دوستانہ میچ جس میں جیت ہار پہلے سے طے ہوتی ہے ۔یقین نہ آئے تو قطبین کے ملاپ پر نظر ڈالئے۔
لالچ کی ہر دوکان پر صدائے فروخت ہے
اپنی تو پوری سیاست برائے فروخت ہے
اپنے ملک کشمیر میں پلوں کی تعمیر بھی سناٹے میں گھر گئی ہے۔کہاں جہلم کے آرپار پل بنانے کا شور زیر غور تھا ،کہاں عدالت عالیہ نے اس پربندش کی ڈور لگا دی۔دروغ بر گردن راوی کہ جس دل جلے نے یہ کانا پھوسی کر دی کہ ایک انجینٔیرنے پلوں کی مجوزہ تعمیر میں مردِ مومن کے خواب کی بات کرکے اپنے من موافق جگہ کا انتخاب کروایا لیکن ؎
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خون نکلا
کے مصداق معاملہ ٹھپ ہے ۔ رہے اپنے یہ اہل سیاست، یہ کہاں چپ رہنے والے ہیں ، یہ تو تو سناٹے کو بھی زبان کی تیز دھارتلوارسے چیر دیتے ہیں۔بیان بازی کے کاغذی بنگولے پھوڑتے ہیں۔عام آدمی کو احساس دلاتے ہیں کہ ہم ہی ہیں جنہیں تمہاری فکر کھاتی ہے اور ہماری ہی فکر سے آپ لوگ جیتے ہیں ،جس کے عوض ہم تم سے مفت ووٹ پرچی مانگتے ہیں اور تم جو دو چار ہزار ووٹ ہمیں عاریتاً بلکہ تحفتاً جھولی میں ڈال دیتے ہو ہم پانچ سال تک وہ بھول جاتے ہیں اور پھر چھٹے سال یاد کرتے ہیں اور تمہارا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔یہ تو تماشائے اہل سیاست کا کرم جاریہ ہے، اس پر کوئی شور مچانے کی ضرورت نہیںاور چونکہ ہل والے قائد ثانی بھی سیاست کے پرانے پاپی ہیں، وہ بھی مودی مہاراج کے در پر آ دھمکے کہ مودی جی گنگا نہاو کشمیر کا مسلٔہ سیاسی طور ہل (حل)کرو یعنی مجھ غریب پر دیا کرو خالی کرسی دو پوری حکومت لو ۔مردِمومن کی دختر نیک اختر سے زیادہ لوگوں کا نام پتہ راشن ٹکٹ سے نہ کٹوایا تو کہنا۔ اہل کشمیر کا حل تو انتظار کر سکتا ہے لیکن ہمارا ہل کرسی کا مزید انتظار کر نے کے موڈ میں بالکل ہی نہیں۔ ہل کے یک رکنی وفد نے مودی مہاراج کا حال چال نہ پوچھا ، صرف یہ بتایا کہ یہ تین سال پارلیمان سے باہر رہ کر کس تکلیف کس کرب میں گزرے۔ میں نے ہی جھاڑ پھونک ، جادو ٹونے ،نذر و نیاز سے طارق قرہ سے استعفٰی دلوایا، تب کہیں اپنی بگڑی قسمت بنی۔ میں وچن دیتاہوں کہ سنگ بازوں کی قوت کو بھنگ کروں نہ کروں مگر جو سنگھ کا راشٹر پتی کا امیدوار،اُس کا ہل طرف دار ۔ اس آدھی ادھوری ملاقات سے سنا ہے اپنے قلم دوات والوں کے دفتر دل کی دھک دھک پر سناٹا چھا گیا کہ کہیں قائد ثانی پرانی تنخواہ پر کام کرنے کو تیار ہو گئے تو دوات گلہ شاہ کی طرح اُلٹ پلٹ ہو سکتی ہے ، اکیلا قلم بے چارہ سناٹے میں ایک بارآگیا تو بنا کسی تحریر کے نئی آوارہ گردی کا ہار بنے گا۔ایسے میں قطبین کو ملانے والا وژن بھی دلی کے پراوژن سٹور میں کنڈم نوٹ ہو کر رہ جائے گا اورکرسی والا مہا گھٹ بندھن اسی طرح دربدرو خاک بسر ہوگا جیسے رائے شماری کی تحریک ہوئی۔ کشمیرمیں اپنی کافرا داد سیاست ہے ہی بری بلاکہ کوئی دیوانہ کہہ گیا ؎
کشمیرکے جنجال پہ یواین میں بات ہے
مائی سُوم کی کولگام کی شوپین میں بات ہے
ادھر اسی سناٹے اور شور شرابے کے بیچ وجودِ زن سے متعلق کئی دلدوزخبریں بھی کانوں سے ٹکرائیں۔نربھیا عصمت دری واقعے میں ملوث درندوں کی پھانسی کی سزا برقرار رہی۔پونے انجیٔنیر نینا پجاری کی عصمت دری اور قتل معاملے میں ملوث قاتلوں کو سزائے موت سنائی گئی۔ہم نے سوچا چلو ابھی انصاف کا چراغ گل نہیں ہوا لیکن دفعتاً سناٹے میں آگئے کہ بلقیس بانو عصمت دری اور چودہ افراد کے قتل میں ملوث افراد کو عمر قید کی سنائی گئی یعنی نینا، نربھیا اور بلقیس میں کچھ تو فرق دِکھنا چاہئے۔ خیراس سناٹے کو چیرتے د و ہی شور ہے۔ نو خیز طلبا ء کا ہم کیا چاہتے زیروبم ، اس کے جواب میں اشک آور گیس ، پاوا، پیلٹ کادمادم ۔ اپنے وزیر تعلیم کی قسمت کچھ ڈانواںڈول لگتی ہے کہ کہاں بھاجپا سے پوشیدہ طور ٹانکا بڑھانے کے الزام میں تعمیرات کی وزارت سے ہاتھ دھوکر سال بھر میڈم کرسی کی طرف ایک نظر نہ اٹھائی اور بڑی مشکل سے روٹھی قسمت جاگی تو سناٹے کو چیر کر سکولی بچوں کے ہاتھ وزنی پتھر آگئے۔ وزیر صاحب ہاتھ جوڑ ے گزارشیںکرتے ہیں :دیا کرو بیٹا بیٹی، حج کرو، کم ازکم میری وزارت کی خاطر اسکول تو آجاؤ ، میں تمہیں اس سال بھی پچاس فیصد نمبرات کی سبسڈی دلادوں گا مگر طلبہ ہیں کہ سنی اَن سنی کر تے ہیںاور بزبا ن حال گنگناتے ہیں ؎
جب نہ اسکول کھلیں گے تو پڑھیں گے کیسے
اور زندہ نہ رہیں تو بڑھیں گے کیسے
چلو !اچھا ہوا اپنے پولیس والوں کو بھی آٹے دال کا بھاؤ پتہ تو چل گیا ۔کہاں وہ ٹاس پٹاس فورس بن کر اپنے ہی لوگوں کو بلا ناغہ مار کٹائی میں شیر ببر بنتے پھرے ،بجلی مانگو تو لاٹھیاں ، پانی مانگو تو ڈنڈے، تنخواہ مانگو تو لٹھ لئے پیچھے پڑیں،چیف منسٹر یا گورنر سے باریابی کے لئے ہلہ غلہ مچاؤ تو ہوائی فائرنگ کا سنگیت،اشک آور گولوں کی لذت۔ اور توبہ توبہ! لاٹھیاں بھی ایسی کہ بجلیاں بھی شرمائیں۔ویسے ہر غریب کشمیری اسی لئے پیدا ہوا کہ مارپیٹ سے اس کا پیٹ بھرجائے، دھوکہ دہی سے اس کا دماغ واپس اپنے مدار پر آجائے ، جیل کی ہتھکڑی سے اس کا دل دنیا سے اچاٹ جائے مگر یہ کشمیر کی یہ نژادِ نی معلوم کس مٹی گارے کی بنی ہے مارتے مارتے پولیس بے بس اور بیگماتی سیاست بے ہوش ہے۔ زمانہ یہی تماشائے اہل اقتدار دیکھ دیکھ کر اللہ میاں سے دست بدعا ہے ؎
روزی ہم سب کی بچا ناروز کے جنجالوں سے
جاں و عزت مال ہو محفوظ اپنے کوتوالوں سے
(رابط[email protected]/9419009169 )