امتحانی نتائج کے وقت رعایتی 5نمبرات کیلئے بورڈ آفس میں بھیک مانگنا بھی المیہ
سرینگر // جسمانی وذہنی طور معذور بچوں کے تعلیمی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔قومی تعلیمی پالیسی 2020میں معذور بچوں کی تعلیم پر خاص توجہ دینے کی بات کہی گئی ہے لیکن جموں وکشمیر میں اسکے الٹ کام ہورہا ہے۔ بیرون ریاستوں میں اگرچہ جسمانی طورکمزور ، سماعت گویائی، بینائی اور ذہنی معذوری کے متاثرین بچوں کیلئے سکولوں میں الگ سیلبس رکھا گیا ہے ، تعلیم دینے والے ماہر اساتذہ کی ملازمتیں مستقل بنا کر انہیں سہولیات فراہم کی گئیں ہیں، لیکن جموں و کشمیر میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ جسمانی طور پر معذور بچوں کیلئے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے عہدیداران کے مطابق ’ ایسے بچوں کیلئے تعلیمی اداروں میں داخلہ یا امتحان کیلئے فارم کیلئے الگ پروسیجررکھا جانا چاہئے تھا جس میں بچوں کی معذوری کے بارے میں پوری معلومات ہولیکن یہاں ایسا نہیں ہے اور کسی بھی سکول یا بورڈ کی جانب سے نکلنے والے امتحانی یا داخلہ فارم پر ایسا کچھ بھی نہیں لکھا ہوتا ہے اور یوں ایسے بچوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔عہدیداروں کے مطابق’ سکول کے فارم میں معذور بچوں کیلئے الگ اوپشن ہونا لازمی ہے جس میں یہ لکھا جانا چاہئے۔’کیا آپ معذور ہیں ، آپ کی معذوری کس قسم کی ہے ،آپ کو امتحان میں ہیلپر کی ضرورت پڑھتی ہے ،آپ امتحانی مراکز تک پہنچ سکتے ہیں ،آپ کے گھر سے امتحانی مراکز کتنا دور ہے ،آپ میڈیسن کا استعمال کرتے ہیںیا نہیں،اس جانکاری کے بعد یہ بھی پتہ لگایا جا سکتا تھا کہ سکولوں میں کتنے بچے معذور ہیں اور اُن کی معذوری کی اقسام کیا ہیں‘‘ ۔معذرور بچوں کیلئے کام کرنے والے ڈاکٹر جاوید احمد ٹاک نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ بورڈ آف ایجوکیشن نے ایسے بچوں کیلئے 5نمبرات کی رعایت رکھی ہے ۔انہوں نے کہا ’’سپیشل بچوں کا عوام بچوں کے ساتھ امتحان لیا جاتا ہے ،جب امتحان کے نتایج میں10یا 15دن رہتے ہیں، تو بورڈ آفس سکول ایجوکیشن ایک نوٹیفیکیشن نکالتا ہے کہ معذور بچے پھر سے درخواستیں دیں، پھر سب معذور بچوں اور ان کے والدین کو سرینگر بورڈ آفس کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں،صرف یہ کہنے کیلئے کہ ہم معذور ہیں ،ایسے میں اگرکوئی بچہ رہ جاتا ہے، درخواست نہیں دے سکتا ، تووہ 5نمبرات حاصل کرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔ڈاکٹر جاوید ٹاک کے مطابق اگر یہ سب امتحانی فارم بھرنے کے دوران درج کیا جاتا اور محکمہ دہی ترقی کی طرف سے اجرا کی گئی تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ ساتھ رکھی جاتی تو امتحانی نتائج کے وقت معزور بچوں کی 5نمبرات کیلئے بورڈ آفس میں تحریری بھیک نہیں نہیں مانگنی پڑتی۔اتنا ہی نہیں بلکہ 10ویں اور 12ویں میں زیر تعلیم ایسے بچوں کیلئے بورڈ آفس بمنہ میں امتحانی مراکز بھی قائم کئے جاتے تھے لیکن وہ مراکز ختم کئے گئے ہیں۔جاوید ٹاک نے مزید کہا کہ کئی ایک ریاستوں میں سپیشل بچوں ’جن کی سمجھنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے کیلئے ریاضی کے مضمون میں رعایت دی گئی ہے اور انہیں یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ صرف بنیادی تعلیم حاصل کریں ۔جاوید ٹاک کے مطابق جموںوکشمیر میں ایسے بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کی سمجھنے کی صلاحیت کم ہے ،نفسیاتی اور ذہنی طور بیمار ہیں، اُن کیلئے سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ جب استاد کو اُن کا ایڈمیشن کرنا ہوتا ہے تو وہ اس کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ یہ کس طرح امتحان کو پاس کر پائے گا، ’اس کو کیسے پڑھائیںگے‘۔انہوں نے کہا کہ چندی گڑھ سمیت ملک کے کئی علاقوں میں ایسے بچوں کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے ان کیلئے الگ سکول ہیں اور سکولوں کا سیلبس بھی ان کی صلاحیت کے مطابق تیار کیا جاتا ہے تاکہ انہیں آسانی سے تعلیم دی جا سکے لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہے ۔جاوید ٹاک کے مطابق ایسے بچوں کو تعلیم دینے کیلئے ایس ایس اے سکیم کے تحت 58 سپیشل ایجوکیٹر(ماہر استاد) بھرتی کئے گئے تھے جبکہ رمسا سکیم کے تحت 70 اساتذہ تعینات کئے گئے ہیں، لیکن 128ایجوکیٹرس میں سے قریب 40نے کم تنخواہ پر کام کرنے کے بجائے دوسرے محکموں میں جانے کو ترجیح دی ۔انہوں نے کہا کہ پچھلے 12برسوں سے جو ایجوکیٹر تعینات ہیںنہ تو ان کی تنخواہ بڑھائی گئی ہے اور نہ انہیں مستقل کیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ایک ہدایت کے مطابق ایسے اساتذہ کی سروس کو جاری رکھتے ہوئے اُن کو جنرل لائن ٹیچر کی طرز پر مراعات فراہم کی جانی چاہئیں کیونکہ پنجاب ، راجستھان اور ہماچل پردیش کے ایجوکیٹرس نے سپریم کورٹ میں یہ دلائل دیئے تھے کہ وہ عام اساتذہ سے زیادہ محنت کرتے ہیں کیونکہ ایسے بچوں کو پڑھانے کیلئے انہیں ،خود اُن کے کان ، ان کی زبان اور ان کے ہاتھ پائو ں بننے پڑتے ہیں جس کے بعد سپریم کورٹ نے سب ریاستوں کو ہدایت دی تھی کہ ان کے جائز مطالبات پورے کئے جائیں لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔