سرینگر//جنوبی کشمیر میں250کے قریب عسکریت پسندوںکے متحرک ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ نوجوان کالجوں اور یونیورسٹیوں سے فارغ ہوکر جنگجوئوں کے صفوں میں شامل ہو رہے ہیں اور سرکار دعویٰ کرتی ہے کہ حالات ٹھیک ہو رہے ہیں۔سرینگر میں پارٹی ہیڈ کواٹر میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے علی محمد ساگر نے کہا کہ ریاست بالخصوص وادی میں لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے جبکہ مار دھاڈ کا نہ تھمنے والا سلسلہ بھی جاری ہے،جو ’’ریاستی دہشت گردی‘‘ کی عکاسی کرتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ جنگجوئوں کی پناہ گاہوں کے ارد گرد میں بھی مکانات کو جھڑپوں کے دوران اڑایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا’’ لوگوں کا اس میں کیا قصور ہے کہ جنگجو ان کے گھر میں داخل ہوتے ہیں،جبکہ جھڑپوں کے دوران انکے چھپنے کی ارد گرد کی جگہوں کو بھی نہیں بخشا جاتا۔ممبر اسمبلی خانیار نے کہا کہ نیشنل کانفرنس کے دور اقتدار میں بھی جنگجوئوں کے ساتھ مقابلہ ہوتا تھا،تاہم اس دوران دیگر مکانوں کو نقصان نہیں پہنچایا جاتا۔انہوں نے کہا’’آج جائے جھڑپوں کے نزدیک شہریوں کو جان بحق کیا جاتا ہے،تاہم ماضی میں ایسا نہیں ہوتا‘‘۔سابق ریاستی وزیر نے حکمران جماعت پی ڈی پی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا اس جماعت نے جو نعرے دیں تھے وہ صرف جملے ثابت ہوئے۔انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا’’ سابق مخلوط سرکار کے دور میں پی ڈی پی سید علی گیلانی کے خانہ نظربندی پر سوال اٹھاتی تھی،تاہم آج میرواعظ عمر فاروق کو بھی نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی‘‘۔انہوں نے کہا کہ شہر خاص میں آئے دن کرفیو اور قدغنیں لگائی جاتی ہے اور آبادی کو محصور بنایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ گولی سے نہیں بولی سے حل نکلے گا کا نعرہ کیا ہوا،اور آج ’’ھکومت نے کیچ اینڈ کل‘‘ کا عمل شروع کیا ہے۔ْ علی محمد ساگر نے کہا کہ ہمارے اپنے بچے مر رہے ہیں اور وزیر اعلیٰ چین کے مسئلے کو اٹھا رہی ہے۔حریت کانفرنس سے بات چیت کی وکالت کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری نے کہا کہ جب سابق وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واجپائی کے وقت جنگجوئوں کے ساتھ بات چیت کی گئی تو اس وقت مزاحمتی لیڈروں سے بات کرنے میں کیا قباحت ہیں۔اس سے قبل شہر خاص کے کائو محلہ، کلی پورہ، گورنمنٹ بائز ہائی سکول خانیار، زیارت پیر دستگیر صاحب خانیار شریف، غوثیہ ہسپتال، دولت آباد اور دیگر متعد د علاقوں کے دورے کے دوران ساگر نے مختلف تعمیراتی کاموں کا جائزہ لیا اور کئی مقامات پر لوگوں کے ساتھ تبادلہ خیالات کرتے ہوئے کیا۔سڑکوں کی خستہ حالی، بجلی کی نایابی اور پانی کی ہاہاکار کو حکومتی نااہلی اور غیر سنجیدگی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے ساگر نے کہا ہے کہ لوگ بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں ۔ دورے کے دوران انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب خانیار میں واقع مختلف ہائی سکینڈری اور ہائی سکولوں کی تعمیر و تجدید اور دیگر کاموں کیلئے اپنے سی ڈی ایف اور ’’رمسا‘‘سکیم کے تحت 5کروڑ 60لاکھ اور 34ہزار روپے واگذار کئے۔ ساگر کے ہمراہ تعمیرات عامہ، سرینگر مونسپل کارپوریشن، جے کے پی سی سی ،محکمہ بجلی، یو ای ای ڈی اور محکمہ تعلیم و صحت کے کئی اعلیٰ افسران بھی تھے۔ ساگر نے کہا کہ ریاست جموں وکشمیر میں تعلیم کو عام کرنے کیلئے نیشنل کانفرنس کا کلیدی رول رہا ہے اور یہ جماعت آج بھی انہی اصولوں پر قائم ہے۔