سید مصطفیٰ احمد ۔حاجی باغ، بڈگام
تعلیم بالکل ایک عمارت کی مانند ہے،جس کے لئے بہت ساری چیزیں درکار ہوتی ہیں۔ زمین پر کوئی بھی عمارت کھڑا کرنے کے لئے جو چیز سب سے اہم ہے، وہ اس کی بنیاد پر منحصرہوتی ہے ۔ اگر بنیاد کمزور ہو، تو باقی منزلوں کو کوئی حیثیت نہیں رہتی ۔ ہاں! کچھ وقت کے لئے دیکھنے والے اس کی خوبصورتی سے تو متاثر ہوسکتے ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اصل حقیقت آشکار ہو ہی جائے گی ۔تب دیکھنے والوں کو اس عمارت کی کمزور بنیاد اور دوسری خامیوں کا پتہ چل جاتا ہے کہ اس عمارت پر صرف کیا ہوا قیمتی سرمایہ ضائع کیا گیا ہے۔ تعلیم کے حصول معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اگر اول جماعت سے طلباء کو تعلیم کی بنیادی باتوں سے واقف نہ کیاجائے ، تو آگے چل کر یہ خامیاں طالب علم کے لئے تباہی کا باعث بن جاتی ہے۔مضبوط بنیادپر کھڑی کی گئی عمارت کے کھنڈرات تک اس بات کو شاہد بن جاتے ہیں کہ وہ ایک شاندار عمارت تھی۔مگر کمزور بنیاد پر کھڑی عمارت بذات ِ خود اپنی شکست کی دلیل بن جاتی ہے۔خیر ! ایک عمارت کو پھر سے تعمیر کیا جاسکتا ہے۔ خراب مال کی جگہ اصلی اور مضبوط اشیاء استعمال کر کے اس کو پھر سے قابل سکونت بنایا جاسکتا ہے مگر ان طلباء کا کیا ہوسکتا ہے جن کے انتہائی اہم بنیادی سال تباہی کے نذر ہوگئے ہوں۔ جن کوابتدا میں ہی تعلیم کے حصول کی بنیادی باتوں سے دور رکھا گیا ہو۔ ظاہر ہے کہ بچپن کے دس بارہ سال کسی بھی انسان کے لئے پوری زندگی کا راستہ متعین کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
اگر یہی قیمتی سال کسی لاحاصل کام میں ضائع ہوجائیںتو آنے والا کل یقیناً اُس انتہائی نقصان دہ صورت حال کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ ہم نے ہر بار اعلیٰ عمارات کو مزین کرنے میں اپنا وقت صرف کیا۔ نئی نئی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر خوب سے خوب تر حسین و جمیل محلات سے زمین کی آرائش کی۔ البتہ تعلیم کے میدان میں سستی ٹیکنالوجی اور غیر معیاری چیزوں کا استعمال کرکے تعلیم کی جڑوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ تعصب اور جہالت سے بھرےہوئے ایسےسماج کی بھر مار ہوگئی، جس میںپڑھے لکھے لوگوں کے حالاتِ زار دیکھ کرر ترس آجاتا ہے، جوکہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔بغور جائزہ لیا جائے تو اس کے پیچھے بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہے۔ پہلا ہے علم کی ناقدری، ہم نے عمل کی قدر کو جانا ہی نہیں ہے۔ دوسری چیزوں کو ہم سر پر رکھتے ہیں البتہ علم کی قدر سے ناواقف ہیں۔ ہمارے لئے کچھ skills کا نام علم ہے۔ Rote learning کو ہمارے یہاں علم کا نام دیا گیا ہے۔ اب جو جائز یا ناجائز طریقوں سے کچھ ہنر سیکھتا ہے اور نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے، اس کو عالم کہا جاتا ہے اور لوگ اس کی پیروی کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ اس قسم کی تعلیم میں کچھ بھی نہیں رکھا ہے۔ اس سے ایک اعلیٰ انسان پیدا ہوگا نہ ہی ایسی شخصیت، جو جینے کا سلیقہ جانتی ہو ۔ دوسرا ہے دنیا کی ہوس، اس ہوس نے تعلیم کو صرف دولت کمانے تک محدود کیا ہے۔ لوگ اب اس سے صرف دولت کماتے ہیں۔ اس دوڑ میں بھلے اوربُرے کا فرق ہی ختم ہوچکا ہے۔ جب تعلیم کا محور صرف پیسوں کے اردگرد گھومتا ہو، تو یہ تعلیم، تعلیم نہیں رہتی ہے تو ایسے میں یہ امید رکھنا کہ تعلیم کی بنیادیں ٹھوس ہونگی، ناقابل قبول ہے ۔ تیسرا ہے فرسودہ تعلیمی نظام، اس نظام کے تحت ایسی تعلیم دی جاتی ہے جو کھوکھلاہٹ سے بھری ہے۔ ایسا علم جس میں طوطے کی طرح سُنی سُنائی باتوں کا ورُد ہو اور دانائی و basic concepts کا فقدان زیادہ ہو،تو وہ علم کیسے اصل ترقی کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ اس تعلیم سے information کے انبار تو لگ جاتے ہیں مگر بنیادی مفاہیم کہیں بھی نظر نہیں آتے ہیں۔ اس طرح سے جڑیں کھوکھلی اور ثمر کڑوا ہوتا ہے۔ چوتھا ہے دین سے دوری، اسلام علم حقیقی پر زور دیتا ہے۔ وہ علم جس سے دل کی آنکھیں کھل جائیں، وہ علم جو باہر دیکھنے کے بجائےاندر جھانکنے پر آمادہ کرائے،ایسا علم جو چیزوں سے اوپر اٹھنے کی ترغیب دے۔ اس کے برعکس ہم دین کی تعلیمات سے بھی دور ہوئے ہیںاور عمل کرنے کا سوال ہی تو نہیں۔ ہم صرف باتوں کے جادوگرہیں، عملی طور پر سیڑھی کے نچلےپائیدان پر کھڑے ہیں۔ اس کا اثر تعلیم کے نام پر گمراہی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔
اس صورتحال سے نپٹنے کے لئے ہر سطح پر کام کرنا ضروری ہے۔ ملک کی پہلی ترجیح تعلیمی شعبے پر مرکوز ہونی چاہیے۔ اسی شعبے سے دوسرے شعبوں کی زینت بڑھے گی۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ دوسرے شعبے اسی شعبے کے مرہون منت ہیں۔ تعلیمی اداروں کو موجودہ زمانے کے مطابق فعال بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ان اداروں میں ایسی تعلیم پر زور دینا ہے جو طلباء کو حقیقی زندگی کے لئے تیار کرے۔ ان کی حاجات کا بھرپور خیال رکھیں۔ ان کو اپنے آپ کو پہچاننے میں مدد کرے۔ ایسا ماحول قائم کیا جائے جہاں تعلیم کے ثمرات سماج کا ہر فرد تک پہنچ سکے۔ سرکار کا رول اس میں سب سے زیادہ ہے۔ حکومت اگر چاہیے تو وہ سماج کے ذی شعور افراد کی مدد سے بہترین تعلیمی نظام ترتیب دے سکتی ہے۔ جس نظام کے تحت قابل اور فعال طلباء کی تیاری ممکن ہو۔ امید کرتے ہیں کہ ایسا نظام جلد سے جلد ترتیب دیا جائے اور طلباء بنیادی باتوں سے واقف ہوجائیں۔
[email protected]