حال ہی میں ریاستی وزیر تعلیم جناب الطاف بخاری صاحب نے بارہویں جماعت تک کے تمام پرائیوٹ کوچنگ سنٹرس تین ماہ کے لیے بند کرنے کا حکم صادر کرنے کے ساتھ ساتھ اُن تمام سرکاری اساتذہ کی فہرست مرتب کئے جانے کے احکامات بھی جاری کردئے ہیں جو پرائیوٹ کوچنگ مراکز میںدرس و تدریس کے کام سے منسلک ہیں ۔ان احکامات کے جواز یت میں’’ تعلیمی اداروں کے گردو نواح میں کھلبلی کی کیفیت رفع کرنے اور ریاست میں درس و تدریس کے ماحول کو فروغ دینے ‘‘کی لن ترانی شاید ہی کسی کے گلے اُتری ۔ یہ نرالا اعلان کرتے وقت وزیر تعلیم نے مزید یہ کہا کہ’’ بچوں کی تعلیم اور اُن کا مستقبل ہمارے لیے مقدم ہے۔ ‘‘ مذکورہ حکم نامہ کی اجرائی سے دو دن قبل وزیر تعلیم نے ریاست بھرکے تعلیمی اداروں میں احتجاجی لہر میں شرکت کرنے والے طلبا و طالبات کو وارننگ دیتے ہوئے کلاسوں میں لوٹ جانے کے لیے کہا، ساتھ ہی دھمکی دی گئی کہ بصورت دیگر احتجاجی طلبہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تعلیمی اداروں سے نکال باہر کرنے کا انتباہ دیا گیا۔واضح رہے فی الوقت ریاست میں ناقص سرکاری تعلیمی نظام کی بھرپائی یا تو پرائیوٹ اسکول کررہے ہیں یا پھر پرائیوٹ ٹیویشن سنٹرس میں والدین اپنے بچوں کو بھاری فیس ادا کرکے پڑھو اتے لکھواتے ہیں۔ بلاشبہ سرکاری تعلیمی نظام کی خستہ حالی سے پرائیوٹ اسکولوں اور ٹیویشن مراکز میں زیادہ تر والدین کو بھاری فیس ادا کرنے کے لیے کافی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں لیکن یہ ایک صحت مند حقیقت ہے کہ اپنے بچوں کے تعلیمی کیرئیر کے تئیں کشمیری والدین کسی بھی صورت میں لاپرواہی یا عدم دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ یہاں جنگی نوعیت کے نامساعد حالات میں بھی عام لوگ ضروریات زندگی کے ہر کام پر اپنے بچوں کی تعلیم کو پہلی ترجیح دیتے ہیں۔ عام اور مڈل کلاس والدین اپنے نجی خوابوں سمیت زندگی کے دیگر عیش و آرام کو قربان کرکے اپنی محنت کی کمائی بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔اصولی طور حصول تعلیم ہر باشعور انسان کا بنیادی حق ہے اور یہ خصوصی طور حکومت کا کام ہوتا ہے کہ وہ عام لوگوں کے لیے تعلیم کی تمام بنیادی سہولیات دستیاب رکھے، لیکن یہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے، یہاں سب سے بڑے شعبوں میں محکمہ تعلیم کا بھی شمارتو ہوتا ہے، البتہ سب سے زیادہ خستہ حالی کی کیفیات میں بھی یہی محکمہ سرفہرست ہے۔ مزید برآں اساتذہ تعلیمی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، یہاں آئے روز سرکاری اساتذہ اپنے جائز مسائل کو لے کر سڑکوں پر ہوتے ہیں،احتجاج کرتے ہیں اورہمیشہ سرکار سے گلہ شکوہ کرتے کہ ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی ۔ یہاں کے اسکولوںعلی الخصوص پرائمری سطح کے تعلیمی اداروں کی حالت اس قدر خستہ وپامال ہے کہ معیاری بلڈنگیں تو دور کی بات ، ان میںبچوں کے بیٹھنے کا کوئی معقول انتظام تک نہیں ہوتا ہے۔ایسے میں یہ پرائیوٹ اسکول اور ٹیویشن مراکز ہی ہیں جہاں مجبوراً والدین اپنے بچوں کا داخلہ کراتے ہیں۔گزشتہ دو دہائیوں سے تعلیمی نظام میں سدھار لانے کے خوب دعوے کئے جارہے ہیں لیکن اس محکمہ میں جس پیمانے میں کرپشن اور اقرباء پروری کا دور دورہ قائم ہوچکا ہے شاید ہی کسی اور محکمہ میں اس کی مثال ملتی ہوگی۔ اگر یہ شعبہ سدھر گیا ہوتا، اگر سرکاری مدارس میں تعلیمی معیار پرائیوٹ اسکولوں کے مقابلے میں بلند ہوا ہوتا تو اس محکمے سے وابستہ اساتذہ کرام کے بچے پرائیوٹ تعلیمی اداروں اور ٹیویشن سنٹروں میں زیر تعلیم نہیں ہوتے۔
فی الوقت ایک اندازے کے مطابق پرائیوٹ ٹیویشن مراکز میں 50 ؍ہزار کے قریب طلبا و طالبات تعلیم پاتے ہیں اور والدین ان ٹیویشن مراکز کو250 کروڑ روپے بطور فیس ادا کرتے ہیں۔یہاں پروفیشنل اساتذہ پڑھاتے ہیں او رجدید اسلوب اپنا کر بچوں کو پڑھایا لکھایا جاتا ہے۔ ۲۳؍اپریل کوایک ا ٓن لائن نیوز وئب سائٹNEWSclick.in نے کوچنگ سنٹرس پر پابندی کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کرکے یہ سنسنی خیز انکشاف کیا کہ سرکاری حلقوں اور بیوروکریسی کے قریب رہنے والے کچھ دلال قسم کے لوگ مبینہ طور متحرک ہوچکے ہیں، جن کی نظر ٹیویشن مراکز کے مالکان کو حاصل ہونے والی آمدن پر ہے اور یہ دلال ٹائپ کے لوگ کئی مالکان اسکول سے بھی ملاقی ہوچکے ہیں جو اُن کے اور ریاستی سرکار کے درمیان کچھ لے دے کر پابندی ہٹوانے کا اُن کو یقین دہانی کروارہے ہیں۔ اس رپورٹ میں اگر صداقت ہے تو پھر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ سارا انہونا کھیل کیوں کھیلا جارہا ہے۔وزیر تعلیم کے حکم نامے سے ایک یہ مفروضہ بھی قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ جیسے ان ٹیویشن سنٹروں میں سرکاری اساتذہ ہی پڑھاتے ہوں۔ حالانکہ حقائق یہ ہیں کہ ان مراکز میں زیادہ تر اعلیٰ تعلیم یافتہ ، پروفیشنل اور ذہین لوگ طلبا ء وطالبات کو پڑھاتے ہیں جو سرکاری نوکری نہیں کرتے ہیں ۔ دراصل سرکاری اساتذہ کے ان مراکز میں کام کرنے کو بہانے کے طور استعمال کیا گیا تاکہ عوامی سطح پر اصل مسئلے سے توجہ ہٹائی جاسکے۔ ٹیویشن سنٹرس کو بندکرنے کا اصل مدعا و مقصد بالکل سیاسی نوعیت کا ہے۔ طلباء کے احتجاج کا توڑ کرنے اور اُن پر دباؤ بڑھانے کے لیے یہ نسخہ آزمایا گیا، نیز پرائیوٹ ٹیویشن سنٹرس کے مالکان پر بھی بیوروکریسی کی جانب سے یہ ایک قسم کا دباؤ ہوسکتا ہے تاکہ نیوز کلک ڈاٹ اِن کی نیور رپورٹ کے مطابق وہ درمیانہ داروں کے ذریعے سرکاری بابوؤں کی جیبیں بھر سکیں، یعنی ایک تیر سے دو شکار کئے جا رہے ہیں۔
یکم اپریل سے ۱۵؍اپریل تک جنوبی کشمیر میں جس طرح سے عام شہریوں کا خون بہایا گیا اور پھرکرائم برانچ کی تحقیقات کے نتیجے میں کٹھوعہ سانحہ کی جو رونگھٹے کھڑا کردینے والی روداد منظر عام پر آئی ہے، اُس کے ردعمل میں ریاست کی پوری آبادی سراپا احتجاج بن گئی، ہر کسی نے اپنے اپنے انداز سے ان سانحات پر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔ چونکہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طالبہ و طالبات جنوبی کشمیر میںدرجنوں انسانی جانوں کے زیاں، معصوم آصفہ کی المناک موت اور فورسز کی کارروائیوں میں سینکڑوں نوجوانوں کے مضروب ہونے جیسے سانحات سے نفسیاتی طور متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکے اور انہوں نے بھی اپنے اپنے تعلیمی اداروں میں ظلم و جبر اور معصوم بچی کے ساتھ ہوئی درندگی پر بھر پور احتجاج شروع کیا۔ اگر چہ طلباء کی یہ احتجاجی مہم پُرامن طریقے سے شروع ہوئی تھی لیکن سرکاری فورسز کی جانب سے طاقت کے بے جا اور غیر ضروری استعمال کے ردعمل میںمتعدد جگہوں پر جوان جذبات کے حامل یہ احتجاجی طلباء مشتعل بھی ہوئے اور ان کا پیمانہ ٔ صبر بھی لبریز تھا۔
دور اندیشی، فہم وفراست اور حسن خیال کا تقاضا یہ تھا کہ سرکاری فورسز صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتیں، طلبا ء کو پُر امن احتجاج کی اجازت دے دی جاتی ، اُن کی بات اور شکایات کو کم ازکم سنا بھی جاتا، لیکن بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں سے یہاں قانون نافذ کرنے کے نام پر وردی پوشوںکو یہ لت پڑ چکی ہے کہ وہ عوامی مسائل جیسے بجلی اور پانی کا مطالبہ کرنے والے ہلکے پھلکے احتجاجی مظاہرین پر بھی ٹیئر گیس اور لاٹھیوں سے ٹوٹ پڑتے ہیں۔یہی فارمولہ اس بار شدومد سے طلبا ء و طالبات پر بھی سختی سے آزمایا گیا۔ نتیجہ یہ کہ ریاست بھر میں درجنوں طالب علم زخمی ہوئے، کئی کالجوں میں وردی پوش زبردستی داخل ہوئے ، وہاں نہ صرف طلباء کی مارپیٹ کی گئی بلکہ کئی اداروں میں تدریسی عملے کو بھی بخشا نہیں گیا ، حتیٰ کہ طالبات پر بھی ڈنڈے برسائے گئے۔ صحیح ترالفاظ میں تعلیمی اداروں میں میدان جنگ کا سماں پیدا کیا گیا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر طلباء کیمپس کے اندر احتجاج کر کے اپنے مجروح جذبات کا بوجھ ہلکاکر تے تھے، عقل ودانش کا مطالبہ تھا کہ امن وقانون کی رکھوالی کے دعوے دار ذرا سا دل بڑھا کر کے چپ سادھ لیتے اور گرم خون والے طلبہ کو تعلیم گاہوں کے اندر آصفہ اور دیگر سوئیلین کلنگس کے حوالے سے اپنے غم وغصہ کے اظہار کی اجازت دیتے ۔ سوال یہ ہے کہ وردی پوشوں کو تعلیمی اداروں میں گھس جانے کی کیا ضرورت آن پڑی؟ کیوں جان بوجھ کر نوجوانوں کو مشتعل کیا گیا؟ طلباء پر تشدد اور زور زبردستی پر ہی بس نہیں کیا گیا بلکہ آئے روز تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے احکامات بھی صادر کیے جاتے ہیں۔ امن و قانون کی صورت حال بنائے رکھنے کے نام پر آئے روز مختلف کالجوں اور اداروں کا نام لے لے کر اُن میں تدریسی عمل معطل رکھنے کا اعلان کیا جاتا ہے۔تعلیمی اداروں کے اردگرد پولیس اور سی آر پی کے دستے تعینات کرکے یہ تاثر قائم کیا جاتا ہے کہ جیسے وہاںکوئی بڑا جنگی ہنگامہ ہونے والا ہے۔سرکار کے ان غیر دانشمندانہ اقدامات کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ وطالبات میں خوف کے ساتھ ساتھ غم و غصے کا پیدا ہونا لازمی سی بات ہے۔
جائز اُمور کو لے کر پرامن احتجاج عوام کا حق ہوتا ہے۔ شہری ہلاکتوں او رملت کی بیٹیوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے خلاف احتجاج کے ذریعے ردعمل دکھانا بھی عام انسان کا حق ہے۔ کھٹوعہ میں زانیوں اور قاتلوں کی حمایت میں فرقہ پرستوں نے ترنگا بردار جلوس نکالے تو پولیس نے ا نہیںسیکورٹی فراہم کی ،دلی کی یونیورسٹیوں میں بھی احتجاج ہوتا ہے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء بھی مختلف معاملات کو لے کر احتجاج کرتے ہیں، جے این یو میں گزشتہ برس مختلف معاملات کو لے کر طلبا و طالبات نے بڑی بڑی احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں لیکن کہیں پر ٹیئر گیس نہیں داغے گئے، کسی احتجاجی طالب علم کے آنکھوں کی بینائی چھروں سے نہیں چھینی گئی، نہ ہی طلبا کو سڑکوں اور چوراہوں پر گھسیٹا گیا۔یہ سارے غیر انسانی اور غیر قانونی حربے ہتھکنڈے صرف وادی کشمیر کے طلبا ء و طالبات کے خلاف آزمائے جارہے ہیں۔ انتہائی تعجب وتاسف کی بات ہے کہ جموں کے کٹھوعہ علاقے میں عصمت کے لٹیروں اور قاتلوں کو بچانے کے لیے ہندو ایکتا منچ کی ریلی کو پولیس پروٹیکشن فراہم کیا گیا، جب کہ انصاف کی دُہائی دینے والے کشمیری طلبا ء وطالبات کی احتجاجی ریلیوں پر طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا گیا۔ یہ دوہرا معیار بھی کشمیرکی نوجوان نسل کو اربابِ اقتدار کی جمہوریت نوازی کے تمام تر دعوؤں سے مایوس کرتارہاہے اور پھر اُنہیں تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق اپنی تعلیم بلکہ کیر ئر سے کھلواڑ کرنے پر بھی مجبور کردیتا ہے۔ سچ میںیہ پالیسی جان بوجھ کر ہماری نسل ِنو کو رسہ کشی کی راہ پر ڈالنے کی کوشش ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے طلباء کے کیرئیر کی تباہی کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال میں لایا جارہا ہے۔
یہاں تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا ء وطالبات کو بھی اس بات کا بخوبی ادراک حاصل کرلینا چاہیے کہ تعلیم ہی وہ طاقت ہے جو قوموں کو زوال اور پستی کے دلدل سے باہر نکال سکتاہے، تعلیم کے ذریعے سے ہی ظلم و جبر سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے، تعلیم ہی ہماری دہائیوں کی کسمپرسی اور بدحالی سے نکلنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس لیے کسی بھی صورت میں ہمارے نونہالوں اور نوجوانوں کو اپنی تعلیم کے ساتھ کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے۔ جو بھی طاقتیں یہ چاہتی ہوں کہ کشمیریوں کی نسلیں جاہل ، اَن پڑھ اور گنوار رہیں، اُنہیں اعلیٰ تعلیم سے اپنے آپ کو آراستہ کرکے ہی ان طاقتوں کا صحیح اور مہذبانہ جواب دیا جاسکتا ہے۔اس لیے ہماری نوجوان نسل کو اپنے اعصاب پر قابو رکھ کراپنی حساس ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا اور اُن کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قوم و ملت کے مستقبل کے لیے اپنے آپ کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کریں۔آج اگر ریاست جموں وکشمیر میں اپنے حقوق کے تئیں بیداری آئی ہے، اگر آج ہماری نسلیں بڑی ہی دلیری اور نظریاتی بالغ نظری کے ساتھ دنیا سے کہہ رہی ہے کہ وہ ہمیں ہمارے جائز حقوق دلانے کے لیے سامنے آئیں، آج اگر کوئی ہمارا سیاسی استحصال نہیں کرپاتا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کشمیریوں کی نسلیں پڑھی لکھی ہیں، ہم لوگ سمجھتے اور جانتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کیا ہے اور کس طرح ہمارے حقوق پامال کیے جاچکے ہیں، ہم اصولوں کی بنیاد پر اپنے حق سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہوجاتے ،ان سنہرے اورسربلند اصولوں سے تعلیم ہی ہمیں واقف کراسکی ہے۔ اس لیے کشمیریوں کی آواز کو دبانے اور اُنہیں مرعوب کرنے کے لیے یہ بھی ایک حکمت ہوسکتی ہے کہ ہماری نوجوان نسلیں تعلیم سے بیگانہ رہ جائے۔ یہ چیزیں ہماری نوجوان نسل کو بھر پورذہنی بلوغیت کے ساتھ سمجھ لینی چاہیے۔ قوم کی بھلائی کے لئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ہماری نسلوں پر دینی ذمہ دار ی بھی بن جاتی ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہماری اجتماعی کوششوں کو کامیابی سے ہمکنار کرسکے گی۔رہا سوال کوچنگ مراکز کو بند کرنے جیسے چونچلے اقدامات کا، تو اس بارے میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ سب سرکاری ہتھکنڈے ہیں، اپنی بات زبردستی منوانے اور اپنادبدبہ قائم کرنے کے لیے۔ حالانکہ اگر سرکار واقعی میںدرس و تدریس کے ماحول کو فروغ دینے کی خواہش مند ہوتی اور قوم کے لئے درد مند رکھتی تو کبھی بھی قومی مستقبل یعنی طلباء وطالبات کے خلاف پولیس اور نیم فوجی دستوں کو میدان میں نہ اُتارتی، بلکہ ہر حال میں طلباء وطالبات کو خوف و دہشت سے پاک ماحول فراہم کرکے اُنہیں دل و جان سے پڑھائی لکھائی میں مگن ہونے کا موقع دیا جاتااور اُنہیں اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے ہر طرح کی سہولیات میسررکھی جاتی۔