علم کا گھٹاٹوپ اندھیرے میں اُجالا ہے ، علم ہی انسان کو اس کی زندگی کے مقصد سے آگاہ کرتا ہے، نیک و بد اور مفید و مضر کی پہچان کراتا ہے، اُسے حیوانی سطح سے اٹھا کر انسانیت کی سطح تک پہنچاتا ہے۔ یہ علم ہی ہے جو افراد اور قوموں کو آگے بڑھاتا ہے، ترقی اور خوشحالی کے منازل طے کراتا ہے، یوریا نشینوں کو تخت نشین کراتا ہے، گمراہوں کی راہ رو بنا تا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی ذی ہوش شخص انکار نہیں کرسکتا ہے کہ علم وہ زبردست قوت ہے جس کی بدولت انسان اپنی زندگی کو محدود دائرے سے نکال کر وسعت سے ہمکنارکرتا ہے، ماضی میں بھی جھانکتا ہے اور حال کی روشنی میں مستقبل کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، کائنات کی ساری سعتوں کے بارے میں بھی غور و فکر کرتا ہے۔ علم کی اہمیت کا اس سے بڑھ کر کیا کوئی اور ثبوت ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی و رسول حضرت محمد ﷺ کی ذاتِ مقدس پر اپنی آخری کتاب قرآن مجید کی جو سب سے پہلی وحی نازل فرمائی اُس کی ابتداء لفظ ’’اقراء‘‘ سے ہوتی ہے یعنی ’’پڑھئے‘‘۔ اسی پہلی وحی میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ انسان کی پیدائش کا آغاز خون کے ایک لوتھڑے سے ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی کرم نوازی ہے کہ اُس نے انسان کو وہ علم عطا کیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ اُسے علم کی وجہ سے شرف و کرامت عطا کی اور اسی بنیاد پر حضرت آدم ؑ کو فرشتوں پر امتیاز حاصل ہوا۔
تعلیم و تعلم کا سلسلہ تخلیق آدم سے ہی شروع ہوا ہے، اور یہ سلسلہ مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ مختلف مدارج سے گذرتے ہوئے دورِ جدید تک جاری و ساری ہے اور آئندہ بھی رہتی دنیا تک قائم رہیگا۔ ابوالبشر حضرت آدم ؑ کو رب کائنات نے تمام اشیاء و اشخاص کے نام اور اُن کے خواص و فوائد سکھائے۔ پھر اُنہیں فرشتوں پر ظاہر کرنے کا حکم دیا جنہوں نے لاعلمیت کا اعتراف کیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے فرشتوں پر تخلیق آدم کی حکمت واضح کردی اور ساتھ ہی دنیا کا نظام چلانے کے لئے علم کی اہمیت و فضیلت بھی بیان فرمادی ۔
تعلیم و تعلم سے عموماً ذہن اُن منظم اور باضابطہ تعلیمی اداروں کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے جو یہ کام انجام دیتے ہیں۔ بلاشک باضابطہ اور رسمی تعلیم یہی ہے جس کے اثرات مستقل اور بہت دور رس ہوتے ہیں لیکن اس رسمی تعلیم کے علاوہ بھی سیکھنے سکھانے کے کئی عوامل ہیں جن کا عمل پیدائش سے موت تک برابر جاری رہتا ہے۔ اگرچہ یہ عوامل غیر رسمی ہوتے ہیں۔ مثلاً گھر ، ماحول ، معاشرہ ، اڈوس پڑوس، ریڈیو، ٹیلی وژن، انٹرنیٹ وغیرہ۔ واضح رہے کہ غیر رسمی عوامل کے اثرات و نتائج رسمی و باضابطہ تعلیم و تعلم سے کم نہیں۔قدیم الایام مدارس ہماری تاریخ کا ایک روشن باب رہے ہیں ،یہ ہماری تہذیب و تمدن کا نہایت قیمتی ورثہ ہیں۔ مدارس نے ہمارے باہمی روحانی و فکری رابطہ و تعلق کو برقرار رکھنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ آج جو فکر و اخلاق اور تہذیب کے آثار ہمارے سماج میں موجود ہیں، یہ اُن ہی مدارس و مکاتب اور ’’ژاٹہ ہالوں‘‘ کی دین ہے۔ اگر ہم پیچھے کی طرف نظرد وڑائیں تو صاف نظر آئے گا کہ ان ہی قدیم الایام مدارس نے ہماری تہذیبی و تمدنی کردار کو برقرار رکھا ہے۔ اگرچہ اُن مدارس کے فرشتہ خصلت اساتذہ ایک ایک کرکے اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں لیکن اُن کے شاگردوں کی ایک اچھی تعداد اب بھی بقید حیات ہے گوکہ وہ بھی ضعیف العمر ہیں، لیکن ان کی یادیں ابھی تک بعضوں میں تازہ ہیں اور وہ نوجوان نسل تک اپنے بے بہا یاد داشتیں پہنچاتے رہتے ہیں کہ سن کر لوگ ضرور کچھ اچھا کر نے کی تحریک پاتے ہیں۔
رفتار زمانہ نے ہماری زندگی کے کسی شعبے کو بدلے بغیر نہیں چھوڑا ہے لیکن مثل مشہور ہے کہ ’’یادیں باقی رہتی ہیں‘‘۔ قدیم مدارس کرایہ کی ٹوٹی پھوٹی عمارتوں میں مصروف عمل ہوا کرتے تھے۔ راقم الحروف نے بہ حیثیت مدرس اپنی پہلی تقرری کا آغاز ایسے ہی ایک ابتدائی اسکول سے کیا تھا ۔ یہ سرینگر سے چند کلو میٹر کی دوری پر ہی ایک انتہائی پس ماندہ گاؤں میں واقع تھا۔ ایک ہی کمرے میں پانچ جماعتوں کے 100 سے زیادہ طلباء مجتمع ہوا کرتے تھے۔ کمرے کا کرایہ ماہانہ دس روپے اور جاروب کشی کے لئے دو روپے مالک مکان کو ملتے تھے۔ ایسے مدارس کو سنگل پٹچر بیسک اسکول کہا جاتا تھا اور دو تین گاؤں کے لئے ایسا ہی ایک مدرسہ ہوا کرتا تھا۔واضح رہے کہ ایسے مدارس تعینات اساتذہ انتہائی مگن، دلچسپی ، محنت اور سب سے بڑھ چڑھ کر محبت اور شفقت سے خود ساختہ نظام الاوقات کے تحت موثر طریقہ ٔ تعلیم اپنا کربچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے تھے۔ مدرسہ کے واحد اُستاد کاکام بوجھل ہونے کا انداز ا س بات سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ دن بھر چھ گھنٹے پانچ درجات کے طلباء کو مختلف مضامین پڑھاتا، اُن سے اسباق سنتا اور ان کی کاپیوں کی پڑتال کرتاوغیرہ ۔ اس کے ساتھ کچھ کھیل کود بھی ہوتا تھا۔ روز مرہ تدریسی کام کاج صبح کے پریئرسے ہوتا تھا۔ طلباء خوش الحانی سے اللہ کی بارگاہ میں حمد و ثناء اور نعت پڑھا کرتے تھے۔ اُستاد نظم و ضبط اور اخلاقی نصائح سے بچوں کی ذہنی تعمیر کرتا تھا۔ پندو نصائح کے بے بہا اثرات طلباء کے اندر سن ِبلوغیت میں بھی نمایاں ہوتے تھے۔ استاد کا ادب و احترام اور حیاء ، بزرگوں کا اکرام اور چھوٹوں پر شفقت ان ہی قدیم الایام مدارس کی دین ہے۔ قدیم مدارس کے اساتذہ کی محنت شاقہ کا نمونہ دورِ جدید کے اساتذہ کرام میں مشکل سے ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ صبح سویر ے بچوں کے صفائی کی جانچ پرکھ ، ناخن دیکھنا، تختی اور نرکل (Reed ) قلم بچے کے ساتھ ہونا ، اردو لکھائی کے لئے فارسی قلم لازمی ہوتا تھا۔ اُستاد ان دونوں قسم کے قلموں کودُرست کرنے کے لئے اپنی جیب یا ٹوٹی پھوٹی میز پر ایک تیز چاقو رکھا کرتا۔ بچوں کی اردو کاپیوں اور تختیوں پر نمونے کی اوپری سطر لکھ کر استاد بچوں سے ہو بہو اس کی نقل کرنے کی ہدایت دیتا ۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم مدارس سے فارغین کا املاء دُرست اور خوشخطی میں یکتا ہوتے۔ قدیم ابتدائی مدارس ( بیسک اسکول ) میں لازمی مضامین اردو، حساب، طبعیات ، مقامی تاریخ و جغرافیہ اورکشمیری ہوا کرتے تھے۔ دینیات، فارسی، ابتدائی انگریزی اور ہندی اور پنجابی ضمنی مضامین ہوا کرتے تھے جو بعد میں ’’نیا کشمیر کی نئی تعلیمی پالیسی‘‘ کے تحت منسوخ کئے گئے اور اسی پالیسی کی بنیاد پر کشمیری زبان کو ذریعۂ تعلیم بنانے کی کوشش بھی کی گئی تھی جو اس زبان کے ماہر اساتذہ نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہوگئی۔
قدیم مدارس کے اساتذہ کی اکثر یت اگرچہ اعلیٰ تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت سے عاری ہوتے تھے لیکن احساسِ ذمہ داری ، پیشے کے تقدس ، فکر آخرت اور اللہ کے ہاں جواب طلبی اور بچوں کے تئیں ہمہ وقت فکر مندی ان کی شخصیت کا خاصہ ہوتی اوروہ بالفعل بچوں کو قومی امانت تصور کرتے تھے۔ اُنہیں اس بات کا پختہ یقین تھا کہ بچے قوم کی ا مانت اور قوم کا مستقبل ہیں۔ لہٰذا اُنہیں ہر جہت سے سنوارنے نکھارنے کی سعی کرتے تھے۔ ماہرین نفسیات اور ماہرین ِ تعلیم کا کہنا ہے کہ ’’اُستاد کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ وہ بچہ /طالب علم کی سطح پر آکر اُسے تعلیم دے۔‘‘ کہنے کو تو یہ فارمولہ آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا انتہائی مشکل ہے۔ سمجھ لیں کہ جاننے کے باوجود اَنجانہ بننا ہے۔ قدیم مدارس کے اساتذہ اس اسلوب ِ تدریس کے عین مطابق کام کرتے تھے ۔ اس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ کرسی پر بیٹھنے کے بجائے اُستاد مکرم پہلو میں بیٹھ کر بچے کا ہاتھ تھامے تختی یا کاپی پر اسے لکھنا سکھا یا کرتے تھے۔ بچوں کا تلفظ درست کرنے کے لئے اُن کی آواز میں اپنی آواز ملا کر زور زور سے پڑھنے کی مشق اور ریاض کراتے تھے۔
والدین کی کمزور اقتصادی حالت کا بُرا اثر قدیم مدارس کے اساتذہ نونہال بچوں پر پڑنے ہی نہیں دیتے تھے۔ عام بچے پین، پنسل ، کاپیاں وغیرہ خریدنے کے اہل نہیں ہوتے تھے۔ ان کانعم البدل مٹی کی سیاہی جسے عرف عام میں ’’پیپر‘‘ بولتے تھے اور مٹی کی ہی دوات کا استعمال کرایا جاتا تھا ۔ یہ دونوں چیزیں بچوں کو گھروں میں ہی ادلابدلی کے تحت میسر ہوتی تھیں۔ نرکل ک محدود کاشت گھریلو طور ہوتی تھی اور بچوں کو ’’نرکل قلم مہیا کرنا اس کاشت کا اصلی مقصد ہوتا تھا۔ کاپی اور کاغذ کے بدلے سلیٹ پنسل اور تختی کا استعمال کیا جاتا تھا۔ ان سے بھی زیادہ سستا طریقۂ تعلیم یہ تھا کہ ہموار زمین پر موجود مٹی پر دائیں ہاتھ شہادت کی انگلی کو قلم سمجھ کر موٹے موٹے الفاظ لکھائے جاتے تھے اور مدرس اس ساری مشق کی نگرانی کرتا تھا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ملکوں ، پہاڑوں دریاؤں ، جنگلوں ، براعظموں ، سمندروں اور مشہور و معروف اشخاص کی تصویروں کے خاکے اس نرم نرم ہموار مٹی پر کھنچائے جاتے تھے۔ یہ تاریخ اور جغرافیہ کا عملی سبق یا پر یکٹکل ہوا کرتا تھا۔اور وہ کیسا حسین منظر ہوتا جب اسکول سے چھٹی کے قریب روزانہ آخری آدھے گھٹنے میں مدرسہ کے تمام بچوں کو قطاروں میں کھڑا کرکے ۲سے ۲۰ تک پہاڑے Tables رٹائے جاتے تھے اور ۲۰x ۲۰ (بیس بیسے) چار سو کے ساتھ ہی چھٹی چھٹی کے نعرے لگا کر رخصت ہوجاتے تھے۔
اُستاد اور طالب علم کا رشتہ بہت ہی مقدس رشتہ ہے۔ بلاشبہ معلم کا درجہ بہت بلند ہے۔ وہ طلباء کا روحانی باپ اور ملت و قوم کا معمار ہے۔ مستقبل کے شہر یوں کا بننا یا بگڑ نا بہت کچھ اُسی کی کوششوں پرمنحصر ہے۔ معلم کا واسطہ نہ صرف طلباء کے ساتھ بلکہ اُن کے والدین ، سرپرستوں اور عام پبلک سے پڑتا ہے۔ ان سب کی نگاہیں معلم کے اوصاف اور کردار پر لگی ہوتی ہیں۔معلم اعلیٰ سیرت و کردار کا حامل ہونا چاہیے۔ اُس کی زبان شستہ ہونی چاہیے۔ اُس کا لباس اور وضع قطع سادہ اور پاکیزہ ہونا لازمی ہے ۔ طلباء کے ساتھ اس کا مشفقانہ رویہ ہو۔ عدل و انصاف ، مساوات، خوشی اخلاقی ، ملنساری اور نرم خوئی ایک اچھے معلم کا زیور ہیں۔ والدین اور سرپرستوں کے ساتھ روابط ہوں۔ قدیم مدارس کے اساتذہ امتذکرہ خصوصیات سے متصف تھے۔ اُن کے اعلیٰ کردار کا اثر طلباء پر ضرور پڑتا تھا۔ طلباء کے ساتھ شفقت اور اُن کے سرپرستوں کے ساتھ ان کے روابط کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی طالب علم کئی دن تک اسکول سے بغیر اطلاع کے غیر حاضر رہتا، تو اساتذہ اُس کے بارے میں متفکر ہوجاتے۔ بارہا اُس کے گھر جاکر اُس کی غیر حاضری کی وجہ دریافت کرتے ۔ طلباء کی خامیوں سے اُن کے والدین کو ذاتی طور مطلع کرتے تھے اور ساتھ ہی تطہیری عمل کی بھی تجویزدیتے تھے۔
دورِ جدید کو نیا دور ، نئی تہذیب ، تعمیر و ترقی، جدیدیت ٹیکنالوجی کا دور، سائنسی دور وغیرہ کے نام دئے جاتے ہیں اور یہ اسے حق بجانب دئے جاتے ہیں۔ دورِ جدید کے نئے تقاضوں ، ضروریات ، لوازمات ، ایجادات ، مطالبات سے کسی کو انکار نہیں۔ لیکن ’’کیا کھویا، کیا پایا‘‘ اصول کے تحت ہمیں قدیم اور جدید کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہوکہ جدیدیت کو اختیار کرتے ہوئے ہم انمول قدیم کے صحت مند اقدار اور آزمودہ افکارسے ہاتھ دھو بیٹھیں۔دورِ جدید میں تعلیمی اداروں کا ممکنہ حد تک پھیلاؤ ہوا ہے۔ سرکاری وغیر سرکاری مدارس کی بھر مار ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں اساتذہ ہیں۔ مدارس کا بنیادی ڈھانچہinfrastructure لامثال ہے۔ نئی نئی نصابی وغیر نصابی اسکیمیں متعارف کرائی جارہی ہیں۔ ریاستی سطح سے لے کر مرکزی سطح تک کروڑوں نہیں اربوں کھربوں روپے اس مدمیں خرچ کئے جارہے ہیں۔ بہرحال اگر تعلیم کے میدان میں ان توسیعی امور اور جدت کاری کو مناسب ڈھنگ سے استعمال میں لایا جائے توخاطر خواہ نتائج آنا یقینی عمل ہے لیکن مشاہدے میں جو کچھ آرہا ہے وہ کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔ سرکاری مدارس کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ عمارتوں کی تعمیر، اسکولوں کی درجہ بندیUp Gradation اساتذہ کی تقرری و تبادلے وغیرہ سب کچھ سیاست زدہ ہیں۔ اکثر اساتذہ مرضی سے نہیں بلکہ حادثاتی طور مجبوراً معلمی کا پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے کام کے ساتھ عدم دلچسپی کے سوا کچھ اورنہیں کر پاتے۔ دوسری طرف بالائی ذمہ داروں کی طرف سے سرکاری مدارس کے کام کاج کی جانچ پڑتال اور جوابدہی کا سرے سے ہی فقدان ہے۔
جہاں تک نجی اسکولوں کا تعلق ہے، وہ تو علمی مراکز سے زیادہ تجارتی منڈیاں بنی ہیں ،الا ماشاء اللہ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت دودھ پیتے بچوں کو ڈے کیئرسنٹر یا کریچCreche میں داخلے کی آڑ میں بڑی بڑی رقومات بٹورنا ہے، حالانکہ ان معصوم بچوں کی فطری پرداخت کا فریضہ ماں کے سوا کوئی اورنہیں کرسکتا ۔ اس پر مستزاد یہ کہ والدین سے موٹی موٹی رقمیں داخلہ فیس کے نام پر وصولی جاتی ہیں، جو بعض اداروں میں مبینہ طور ڈیڑھ لاکھ روپے سے متجاوز بتائی جاتی ہے۔ پھر ماہانہ ٹیوشن فیس ، بس فیس ، سالانہ چارجز وغیرہ کے عنوان سے حکومت کی طرف سے روک لگانے کے باوجو اسکول مالکان کی جانب سے من مانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ان مدارس میں مخصوص مضامین کے اساتذہ بھی اب بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے در پے ہوتے ہیں۔ رہے جنرل لائن کہلانے والے کم نصیب مدرسین، اُن کا تو مالکان ِ مدارس خوب خوب استحصال کرتے رہتے ہیں۔ ان مدارس کی اصل تو یہاں داخلہ لینے والے طلباء و طالبات ہیں جو انتظامیہ اور اساتذہ دونوں کی طرف سے عدم توجہی کے شکار ہیں۔اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں میں بے راہ روی، بد نظمی، اخلاقی گراوٹ، مستقبل کی بے فکری اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی مدرسے میں دس پندرہ سال گذارنے کے باوجود بھی طلبہ وطالبات اکثرا لاوقات علمی صلاحیتوں اور تڈریسی قابلیتوں سے تہی دامن ہوتے ہیں۔ با لفاظ دیگروالدین اپنے خون پسینہ کی آمدنی اپنے بچوں پر خرچ کرنے یا صحیح معنی میں نچھاورکے باوصف بچے بچیاں خالی ہاتھ رہتی ہیں اور والدین اتنے بے بس ہوتے ہیں کہ بچوں کی نت نئی فرمائشیں اور بڑھتے ہوئے اسکولی اخراجات پورا کرتے کرتے ان کے ا پنے ارمان حسرتوں میں بدل جاتے ہیں۔ ا س و قت سرکاری اورغیر سرکاری مدارس کی پیداوار کو دیکھ کر سماج کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں مل پاتا۔ تعلیمی میدان میں آسمان کی بلندیاں چھونے کے جیسے دعووں کے باوجود تعلیم کے متعین مقصد یعنی ’’ روش ِ حیات اوربرتاؤ میں بدلاو‘‘سے ہم ابھی صدیوں دور ہیں۔ المختصر اساتذہ اور طلباء و طالبات کی تعلیم وتعلم کے آدم ساز میدان میں مشترکہ لاپرواہیاں، کمیاں، کوتاہیاں ، اساتذہ کی اپنے پیشے کے تئیں شان ِ بے نیازی ، طلبہ سے مدرسین کی عدم شفقت اور طلباء کی طرف سے اساتذہ کی بے توقیری، سرکاری و غیر سرکاری مدارس میں طاقت ور استحصالی مافیا، یہ کچھ ایسی بیماریاں ہیں جو نظریہ ٔ تعلیم، نظام تعلیم اور مقاصد تعلیم کے کوکھ سے جنم پاتی ہیں اور پورے سماج کے لئے انتہائی مضرت رساں ثابت ہو رہی ہیں ۔ ان روگوں کا علاج وقت کی پکار اور ایک قابل تحسین اقدام ہوگا، مگر ہے کو ئی سننے والا؟؟؟؟
(9419780332)