ایک اور جگہ فرماتے ہیں:۔
’’استدلال کے تنگ مقام سے نکل کر کشف کی فراخ اور کشادہ فضا میں آجاتے ہیں۔ذات حق سبحانہ تعالیٰ کا احاطہ اور قربِ ذاتی نہیں بلکہ علمی ہے اور وہ سبحانہ تعالیٰ کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں۔ اور خدا خدا ہے اور عالم عالم ہے۔ وہ سبحانہ تعالیٰ بے مثل وبے مثال ہے اور عالم سارے کا سارا مثل ومثال کے داغ سے داغ دار ہے۔ بے مثل و بے کیف ذات کو ذی مثل وذی کیف کا عین نہیں کہا جاسکتا۔ واجب تعالیٰ کو ممکن کا عین نہیں کہہ سکتے اور قدیم حادث کا عین ہرگز نہیں ہوسکتا۔قرب اور احاطہ علمی ہے۔عالم اگرچہ کمالات صفاتی کے آئینے اور اسماء کے ظہور کی جلوہ گاہ ہے لیکن مظہر عین ظاہر نہیں، اور ظن عین اصل نہیں۔
عالم اپنے صانع تعالیٰ و تقدس کے وجود کی علامت ہے اور اس کے کمالات اسمائی اور صفاتی کے ظہور کا مظہر ہے۔متابعت ِشریعت ہی اصل کار اور مدار نجات اور مناط سعادت ہے۔ فارسی میں کیا ہی اچھا کہا گیا ہے:
محمد عربی ؐکا بروئی ہر دو سراست
کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر او
(محمد عربیﷺ جو دنیا اور آخرت دونوں کے سردار ہیں، جو شخص آپؐ کے دروازے کی خاک نہیں بننا چاہتا ،اُس کے سر پر خاک پڑے یعنی وہ ذلیل ونامراد ہو)۔
محبوب کے غلبہ محبت کی وجہ سے محب کی نظر سے غیر محبوب ہٹ جاتا ہے اور محبوب کے سوا کچھ نہیں دیکھتا۔ یہ بات نہیں کہ نفس الامر میں محبوب کے سوا کچھ ہے ہی نہیں، کیونکہ یہ بات حس، عقل اور شرع کے خلاف ہے۔خطائے کشفی خطائے اجتہادی کا حکم رکھتی ہے کہ اس پر ملامت وعتاب نہیں ہے بلکہ ایک درجہ صواب کا ثابت ہے۔ صرف اتنا فرق ہے کہ مجتہدین کے مقلد مجتہد کا حکم رکھتے ہیں اور خطا کی صورت میں بھی درجاتِ صواب میں ایک درجہ صواب پاتے ہیں، بخلاف ان لوگوں کے جو اہل کشف کی تقلید کرتے ہیں کہ یہ معذور قرار نہیں پاتے اور خطا کی صورت میں درجہ صواب سے محروم رہتے ہیں کیونکہ کشف والہام دوسرے کے لئے حجت نہیں ہوسکتا لیکن مجتہد کا قول دوسرے کے لئے حجت اور دلیل ہے۔لہٰذا اہل ِکشف کی تقلید احتمال خطا کی صورت میں جائز نہیں ہے اور مجتہد کی تقلید احتمال خطا کی صورت میں بھی جائز اور دُرست ہے بلکہ واجب ولازم ہے۔‘‘
حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ سمجھ لینا چاہئے کہ کشف کی غلطی ہمیشہ القائے شیطانی ہی کی بنا پر نہیں ہوتی، اکثر ایسا ہوتا ہےکہ بعض غیر واقعی اور صداقت سے عاری احکام متخیلہ میں جاگزیں ہوجاتے ہیں، وہاں شیطان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا، لیکن یہ (خیالات)خارج میں متمثل ہوکر آتے ہیں۔ اسی سلسلہ کی یہ چیز ہے کہ بعض لوگوں کو خواب میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوتی ہے اور وہ آپ ؐسے بعض ایسے احکام اخذ کرتے ہیں جو شریعت کے ثابت شدہ مسائل اور احادیث صحیحیہ کے خلاف ہوتے ہیں۔ اس صورت میں القائے شیطانی متصور نہیں ہے۔ علما کی تحقیق یہ ہے کہ شیطان آپؐ کی صورت میں متمثل نہیں ہوتا تو اس صورت میں صرف متخیلہ کا تصور ہوتا ہے جس نے خلاف ِواقع کو واقع سمجھ لیا ہے۔درویشوں اور فقیروں کے احوال کچھ اس قسم کے ہوتے ہیں جن تک عام انسان کی سمجھ کی رسائی نہیں ہوسکتی بلکہ ان احوال کی تاویلوں میں کوشش عام انسان کو خطرناک الجھنوں میں ڈال سکتی ہے۔ ان کی باتیں بھی نرالی ہوتی ہیں۔ مجھ جیسےعام آدمی کا بچاؤ اسی میں ہے کہ شریعت پر ثابت قدم رہے اور نفس کے تزکیہ میں لگا رہے اور اس سے غافل نہ ہو۔عقل غیر محدود نہیں ہے اور اس کے ذریعے حق تک رسائی ممکن نہیں۔ عقل سے مجھے انکار بھی نہیں یہ ایک کارآمد آلہ ہے جس سے بہت باتوں کو سمجھا جاسکتا ہے مگر ہر بات کو سمجھنے کے لئے اس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کی پہنچ محدود ہے۔ حضرت سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عقل کا کام ہے کہ وہ رسولؐ کی صداقت و عصمت کے اقرار واعتراف تک پہنچادے اور پھر سبکدوش ہوجائے۔شیخ العالم فرماتے ہیں:
’’عقل تہ فکر تور کوت سوزکھ‘‘یعنی عقل اور فکر کے گھوڑوں سے کچھ مسافت طے تو کی جاسکتی ہے اور کچھ منزلوں تک پہنچا جاسکتا ہے، اس سے آگے یہ بے کار پڑجاتے ہیں اور آگے جو منزلیں ہیں وہ قرآن وسنت کو مضبوطی سے پکڑنے سے ہی سر ہوسکتی ہیں تاہم ان منزلوں تک پہنچنے کے لئے کسی عالم حق کی رہبری ضروری ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ ِراہ ہے منزل نہیں ہے
یہاں یہ بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ بعض خود ساختہ صوفیوں نے قرآنی آیات کی ایسی ایسی تاویلیں پیش کی ہیں جن سے بہت سے اشکالات نے جنم لیا۔ اللہ کا ارشاد ہے:ترجمہ: ’’ہاں تم وہ لوگ ہو جس چیز کا تمہیں علم تھا اس میں تو جھگڑے، پس اس چیز میں کیوں جھگڑتے ہو جس چیز کا تمہیں علم ہی نہیں، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘تم نے ظاہر لفظ اور اس کے مفہوم کو چھوڑ کر ایسے معنی مراد لئے جن پر لفظ مطلقا دلالت نہیں کرتے۔حضرت سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ’’الہٰیات کو جن فلسفیوں نے اپنی بحث کا میدان بنایا انہوں تم نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے۔ الہٰیات فلسفیوں کا میدان نہیں ہے ان کا میدان ریاضیات اور طبعیات ہے اور ان کے بحث ونظر کا میدان بس یہی ہے‘‘۔
باقی یہ جوعلم تکوینی ہے یہ عام آدمی کی سمجھ سے باہر ہے۔ اس میں تو موسیٰ علیہ السلام جیسے اوالعزم پیغمبر کو بھی اشکالات پیدا ہوئے۔ ایسے معاملوں کے لئے خواہش مند کو یہ مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی عالم حق کے پاس قرآن کریم کا سورہ کہف پڑھیں۔علم ِتکوینی کے متعلق زیادہ تجسس رکھنا اور اس کی جستجو کرنا ٹھیک بات نہیں ہے بلکہ بعض معاملات میں شدید ہلاکت کا امکان ہے۔ اس معاملے میں نہ اُلجھنا ہی انسان کے لئے بہتر ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور سنت وفرائض کی ادائیگی اور تزکیۂ نفس کی فکر میں ہی بھلائی اور بہتری ہے۔ تاہم تکوینی علم میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ بات بتانا چاہوں گا کہ امام راغب اصفہانی ؒکے نزدیک اللہ تبارک وتعالیٰ دنیا میں ابدالوں کو ہر دور میں بھیجتا رہتا ہے۔ ان کو ابدال اس لیے کہتے ہیں کہ اُن کی برائیاں نیکیوں سے بدل دی گئی ہیں۔ واللہ اعلم۔
کچھ عارفین کے حالات بڑے دلچسپ ہوتے ہیں اس لئے ان کے بارےمیں کچھ واقعات قارئین کی نذرکررہا ہوں۔
ایک بزرگ کا ارادت مند سفر حج پر روانہ ہوا۔ راستے میں شرف نیاز کے لئے ایک بڑے بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس بڑے بزرگ نے پوچھا کس سے بیعت ہو؟ وہ بولا فلاں شیخ سے۔ بڑے بزرگ نے پوچھا، تمہارے مرشد کے اقوال و اعمال کیا ہیں؟ اس نے عرض کیا ان کا عمل تو یہ ہے کہ مخلوق سے بے نیاز ہوکر متوکل علی اللہ ہوگئے ہیں اور قول یہ ہے کہ اگر بارش نہ ہونے سے غلہ پیدا نہ ہو اور پوری مخلوق میری عیال میں داخل ہو جب بھی میں توکل ترک نہیں کرسکتا۔ یہ سن کر بڑے بزرگ نے کہا پھر تیرا مرشد تو بڑا کافر اور مشرک ہے، اگر میں پرندہ بن جاؤں جب بھی اس شہر کا رُخ نہ کروں جہاں تیرا مرشد ہے، اس کو میرا یہ پیغام پہنچادو کہ صرف دو روٹیوں کی خاطر تو خدا کو آزماتا ہے، جب بھوک لگے تو کسی سے مانگ کر کھالینا لیکن توکل کو رُسوا نہ کرنا کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تیری وجہ سے تیرا شہر تباہ نہ ہوجائے۔ یہ سن کر وہ مرید حج کا قصد ترک کرکے اس بڑے بزرگ کا پیغام لے کر اپنے شیخ کے پاس گیا۔ شیخ نے اس پیغام پر غور کیا تو محسوس ہوا یہ عیب واقعی میرے اندر موجود ہے۔ اس نے اپنے مرید سے کہا کہ تم نے اس بڑے بزرگ سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ اگر مجھ میں یہ خامی ہے تو پھر آپ کا کیا مرتبہ ہے؟ چنانچہ وہ مرید دوبارہ بڑے بزرگ کی خدمت میں پہنچا اور یہی سوال دہرایا۔ بڑے بزرگ نے فرمایا: یہ اس کی دوسری حماقت ہے، لیکن جو جواب دوں گا وہ تیری فہم سے بالاتر ہے اس لئے لکھ کے دوں گا۔ انہوں نے کاغذ پر لکھا:بسمہ سبحانہ وتعالیٰ، میں کچھ بھی نہیں‘‘۔
اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب میں ہی کچھ نہیں ہوں تو میرے اوصاف کیا ہوسکتے ہیں ،لہٰذا مرتبہ دریافت کرنا بے سود ہے، توکل و اخلاص تو سب مخلوق کی باتیں ہیں ہماری شہرت تو اللہ تعالیٰ کے اخلاق سے ہونی چاہئے نہ کہ توکل سے۔
ایک بزرگ نے فرمایا: اللہ تعالی میری زبان بن چکا ہے یعنی میری زبان سے نکلنے والے کلمات گویا زبان خداوندی سے ادا ہوتے ہیں اور میرا وجود درمیان سے ختم ہوجاتا ہے۔اللہ تعالی کی مرضی ہے کہ جہاں سے چاہے بات کرے۔ موسیٰ علیہ السلام جب طُور پر جاتے تو ان سے پیڑ کے پردے میں بات ہوتی۔ گویا پیڑ قائل نہیں تھا بلکہ ناقل تھا۔ایک بزرگ کا قول ہے کہ زاہد وصالح کو ایسی ہوا کی طرح تصور کرو جو تمہارے اوپر چل رہی ہے۔شیخ بایزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ سے یہ بھی منقول ہے کہ فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کو مقبولیت عطا فرماتا ہے، اس پر ایک فرعون مقرر کردیتا ہے جو ہمہ وقت اذیت پہنچاتا رہے۔یہ بھی انہی سے منسوب ہے کہ فرمایا: اگر روز محشر یہ سوال کیا جائے کہ تو نے فلاں کام کیوں کیا تو اس سے میں یہ پوچھنے کو بہتر تصور کرتا ہوں کہ تو نے فلاں کام کیوں نہیں کیا۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کسی امام کے پیچھے آپ نے نماز پڑھ لی اور نماز سے فراغت کے بعد امام نے پوچھا: آپ کا ذریعہ معاش کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: پہلے میں اپنی نماز کی قضا کرلوں، پھر تجھے جواب دوں گا۔ امام نے پوچھا نماز کی قضا کیوں کررہے ہو؟ بایزید نے فرمایا: جو رزق پہنچانے والے سے ہی واقف نہ ہو اُس کے پیچھے نماز دُرست نہیں۔شیخ با یزید بسطامی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں ایک روایت یہ
ہے کہ وہ مراقبے میں تھے۔ مراقبے کے بعد ایک بزرگ نے سوال کیا کہ اس وقت آپ کہاں تھے؟ فرمایابارگاہ خداوندی میں۔ اس بزرگ نے کہا میں بھی تو وہیں تھا لیکن میں نے آپ کو نہیں دیکھا۔ بایزید نے فرمایا تیرے اور اللہ تعالیٰ کے مابین ایک حجاب تھا اور میں ذات باری کے بالکل سامنے تھا۔ اسی وجہ سے آپ مجھے نہیں دیکھ سکے۔ پھر فرمایا جو شخص اتباع ِسنت کے بغیر خود کو صاحب طریقت کہتا ہے وہ کاذب ہے کیونکہ اتباع ِشریعت کے بغیر طریقت کا حصول ممکن نہیں۔
یحیٰ بن معاذ رحمتہ اللہ علیہ بہت بڑے ولی اللہ گزرے ہیں۔ ان کے ایک بھائی مکہ معظمہ میں بھی مقیم رہے۔ وہاں سے انہوں نے اپنے بھائی معاذ کو خط لکھا جس میں انہوں نے لکھا کہ مجھے تین چیزوں کی تمنا تھی: اول یہ کہ کسی متبرک مقام پر سکونت کا موقع ملے، دوم یہ کہ میری خدمت کے لئے کوئی خادم ہو، تیسری خواہش یہ ہے کہ مرنے سے قبل آپ سے ملاقات ہوجائے۔ معاذ نے جواب میں لکھا: انسان کو تو بذات خود متبرک ہونا چاہئے تاکہ اس کی برکت سے جائے قیام بھی متبرک ہوجائے، دوسرا یہ کہ آپ کو خادم بننا چاہئے تھا نہ کہ مخدوم، سوم یہ کہ اگر آپ خدا کی یاد سے غافل نہ ہوتے تو میں آپ کو یاد نہ آتا۔
حضرت ابوالحسن نوری رحمتہ اللہ علیہ سے منسوب ہے کہ کسی کو آپ نے دوران نماز داڑھی سے مشغلہ کرتے ہوئے دیکھ کر فرمایا اپنا ہاتھ خدا کی داڑھی سے دور رکھو۔ یہ سن کر کچھ لوگوں نے خلیفہ وقت سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کلمۂ کفر ہے۔ خلیفہ نے آپ سے سوال کیا یہ جملہ تم نے کیوں کہا؟ ابوالحسن ؒنے فرمایاجب بندہ خود خدا کی ملکیت ہے تو اس کی داڑھی بھی خدا کی ملک ہے۔
ایک ضعیف العمر شخص کو زدوکوب کرتے ہوئے قید خانہ کی طرف لے جایا جارہا تھا اور وہ انتہائی صبروضبط کے ساتھ خاموش تھا۔ ایک مشہور ولی اللہ اور صاحب کرامت حضرت ابوالحسن نوری رحمتہ اللہ علیہ نے قید خانہ میں جاکر اس سے پوچھا کہ اس قدر ضعف ونقاہت کے باوجود تم نے صبر کیسے کیا؟ اس نے جواب دیا صبر کا تعلق ہمت وشجاعت سے ہے، نہ کہ طاقت وقوت سے۔ ابوالحسنؒ نے پوچھاصبر کا مفہوم کیا ہے؟ اس نے بولامصائب کو اس طرح خوشی سے برداشت کرنا چاہئے جس طرح لوگ مصائب سے چھٹکارا پاکر مسرور ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا آگ کے سات سمندر پار کرنے کے بعد معرفت حاصل ہوتی ہے اور جب حاصل ہوتی ہے تو اول وآخر کا علم حاصل ہوجاتا ہے۔ایک بزرگ فرماتے ہیں رفتار جتنی تیز ہوتی ہے، اسی قدر اس کی حرکت نظر نہیں آتی۔ فرماتے ہیں تیز آندھی کو سب محسوس کرتے ہیں لیکن نسیم سحری جو دل کی کلیوں کے ساتھ مسیحائی کرتی ہے اور چمن کو حیات نو بخشتی ہے، اس طرح چلتی ہے کہ کسی کو خبر نہیں ہوتی۔حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ آپ سماع کے موقع پر اپنی جگہ سے جنبش نہیں فرماتے تو آپ نے یہ آیت پڑھی:(ترجمہ) تم پہاڑوں کو دیکھو گے تو ان کو کھڑا ہوا سمجھو گے حالانکہ وہ ابر کی طرح رواں دواں ہوں گے، تم ہماری رفتار نہیں دیکھتے جب رفتار تیز ہوجاتی ہے دیکھنے میں نہیں آتی، نسیم سحر اس طرح چلتی ہے کہ کسی کو خبر نہیں ہوتی۔
حضرت سیدسلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کی ذہنی ساخت اور افتاد طبع ایسی ہوتی ہے کہ ان کو اس طرز استدلال اور مقدمات کلامیہ اور منطقیہ سے فائدہ پہنچتا ہے اور اس کے بغیر ان کی تشفی نہیں ہوتی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ علم ویقین ان طریقوں پر منحصر ہے بلکہ یہ ایک دماغی کیفیت ہے جو خاص ماحول وتربیت کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ اپنی بات کے اظہار کے لئے فلسفی اصطلاحوں سے کام لینا پڑتا ہے۔
اگرچہ امر واقع یہ ہے کہ تصوف کی تشریح بیان کرنے اور سمجھنے میں کنفیوژن پیدا کرنے میں اس بات کو بڑا دخل ہے کہ یہاں کچھ لوگوں نے صوفی اصطلاحوں کی حقیقت کو نہ سمجھ کر انہیں فلسفیانہ اصطلاحوں میں ڈھالنے کی کوششیں کیں۔امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ آسمانی کتابوں کو سمجھنے اور ان سے صحیح طور پر تعلیم اخذ کرنے کے لئے انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان اور اصطلاحات کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں:’’اس زبان کا سمجھنا جس جس میں انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم سے خطاب کیا اور ان کے الفاظ کا وہی مطلب لینا جو ان کی مراد تھی ضروری اور یقینی چیز ہے۔
(بقیہ اگلے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)