بی جے پی کوابھی تک یہ یقین نہیں ہو رہا ہے کہ وہ تریپورہ کا انتخاب جیت چکی ہے اور وہ بھی اتنی زیادہ سیٹوں سے۔اگرچہ اس نے اتحاد بنا کر الیکشن لڑا تھا لیکن ۶۰؍نشستوں والی اسمبلی میں ۳۵؍نشستیں تو اسے اکیلے ہی مل گئیں جو اکثریت سے بھی زیادہ ہیں۔وہاں کی ایک مقامی پارٹی کو ۸؍سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا لیکن اسی پارٹی سے اتحاد کی وجہ سے بی جے پی کی اِس قدر جیت ممکن ہو سکی کیونکہ ٹرائبل ووٹ کا فیصد تریپورہ میں ۳۵؍ ہے۔مذکورہ پارٹی کا تعلق بھی اُسی ٹرائبل کمیونٹی سے ہے لیکن اب ڈر یہ ہے کہ جب بی جے پی کو بھرپور اکثریت مل گئی ہے تو ممکن ہے کہ وہ ۲۰۱۴ء کے عام چناؤ کے بعدجس طرح۲۸۲؍سیٹوں کے ساتھ فاتح بن کر سامنے آئی تھی اوراس کا دماغ خراب ہو گیا تھا کہیں یہاں تریپورہ میں بھی اپنے تیور نہ دہرائے۔تریپورہ کے نتائج دیکھ کر بی جے پی کو اَن پچ سا ہو گیا ہے جس طرح زیادہ کھا لینے(over eating) کے بعد ہوتا ہے۔پارٹی اور اس کے کارکنان دونوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے جیسا کہ کوئی غیر متوقع چیز کے مل جانے کے بعد ہوتا ہے۔دیکھتے ہیں کہ آگے اس جیت کو پارٹی ہضم کر پاتی ہے یا نہیں۔جیت کے نشے میں چور اس کے کارکنان نے لینن کے دو مجسموں کو زمین بوس کر دیااور جہاں تہاں سی پی ایم کے لوگوں اور دفتروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔خاصی توڑ پھوڑ مچائی اور حکومت کے سربراہ گورنر(اُن دنوں کوئی وزیر اعلیٰ نہیں تھا) تتھاگت رائے نے یہ بیان دے کر فسادیوں کی حوصلہ افزائی کی کہ ’’ نئے دور میں داخل ہونے کے بعد خوشی کے مارے ایسا ہوتا ہے۔‘‘ اور تو اور بی جے پی کے شمال مشرقی ریاستوں کے چیف رام مادھو جن کا شمار آر ایس ایس کے تھِنک ٹینک میں ہوتا ہے، نے بھی لینن کی مورتیوں کی مسماری کو ہری جھنڈی دے دی جس سے شہ پاکر ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اور مجسمے یا تو توڑے گئے یا اُن پر کالِک پوتی گئی۔دو چار دنوں تو مجسموں کی مسماری اور بے حرمتی کا ننگا ناچ ناچ جاری رہا۔یہ سب دیکھ کر ہمارے وزیر اعظم نے اس کی مذمت کی اور ساتھ ہی وزیر داخلہ نے بھی کڑی کارروائی کا اشارہ دیا۔ کارروائی تو اُس وقت مانی جاتی جب تریپورہ کے گورنر کو برخواست کر دیا جاتا اور وہیں رام مادھو کی بھی خبر لی جاتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور نہ ہی آگے کچھ ہوگا۔دو چار لوگ جو گرفتار ہوئے ہیں اُن کی کوئی الگ کہانی بنا کراُنہیں رہائی دے دی جائے گی ۔
بات در اصل یہ ہے کہ اس طرح کے فساد سے بی جے پی کو فائدہ پہنچتا ہے تو وہ کیوں کر کارروائی کرنے جائے ؟اُس کی اصل آئیڈیا لوجی تو یہی ہے۔اب تریپورہ کے لوگ بھگتیں کیونکہ وہی چن کر لائے ہیں جس طرح پورے ملک کے لوگ بی جے پی اور خاص طور پر مودی جی کو بھگت رہے ہیں۔یہ کہاوت تو سنی ہوگی کہ ’’جیسی پرجا ویسا راجا‘‘۔اسی بنیاد پر ہندوستان میں حکومتیں قائم ہو رہی ہیں ۔اس لئے اِس میں زیادہ پریشان ہونے کی ضرور ت نہیں ہے۔اگر عوام کی ’’پہلی پسند‘‘ بی جے پی اور مودی جی ہیں تو کیا کیا جا سکتا ہے؟اسی طرح امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ بھی تو آئے ہیں!وہاں کے لوگ اُنہیں بھگت رہے ہیںاور ممکن ہے کہ آج کے منظر نامے میں ایسا آئندہ بھی ہواور ہو سکتا ہے کہ یہ بھگتنے کا سلسلہ دراز بھی ہو۔
تریپورہ میں کمیونسٹوں کی حکومت ۲۵؍برس سے تھی۔۲۰؍برس سے تو مانِک سرکار لگاتار وزیر اعلیٰ رہے۔ان کا امیج بے حد صاف ستھرا ہے۔اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنا گھر تک نہیں بنایا ہے اور وزیر اعلیٰ کا بنگلہ چھوڑنے کے بعد وہ پارٹی آفس میں ایک روم کے گھر میں رہنے کے لئے گئے ہیں ۔اگرچہ ان کے پاس ایک چھوٹا سا آبائی مکان ہے جہاں وہ وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے رہا کرتے تھے۔کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان کے سب سے غریب وزیر اعلیٰ ہیں۔انہوں نے اپنا وکاس نہیں کیا اور شاید اپنی پارٹی کا بھی وکاس نہیں کیا ورنہ آج یہ حالت نہیں ہوتی ۔جو بی جے پی وکاس کے نعرے پر چناؤ پر چناؤ جیتے جا رہی ہے اُس نے ملک اور ریاستوں کا کتنا وکا س کیا ہے یہ تو پتہ نہیں لیکن اپنی پارٹی اور اپنے لوگوں نیز لیڈروں کا ضرور وکاس کیا ہے۔وہ یوں کہ کانگریس ۷۷؍برسوں میں اپنا خود کا آفس نہیں بنا سکی اور بی جے پی نے تو فقط ۳۔۴ ؍برسوں میں ہی ۸۰۰؍کروڑ کا ایک شاندارمرکزی آفس دہلی میں بنا ڈالا۔یہ تو حساب کتاب میں بتائی ہوئی رقم ہے ،اس کے علاوہ بھی کروڑوںروپے مزید لگے ہوں گے ۔
اُس کے وکاس کا ایک اور نمونہ دیکھیں کہ میگھالیہ میں کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری اور اسے ۲۱؍نشستیں ملیں جب کہ بی جے پی کو صرف ۲؍۔بی جے پی کے وکاس کا یہ عالم ہے کہ اکثریت کے لئے کانگریس ۱۰؍سیٹیں نہیں جُٹا سکی جب کہ بی جے پی نے ۲۹؍سیٹوں کا انتظام کر دیا اور آنجہانی پی اے سنگما کے بیٹے کونارڈ سنگما کو آگے کر کے وزیر اعلیٰ بنا دیا اور حکومت میں شامل ہو گئی یعنی گوا اور منی پور کو پھر سے دُہرایا۔یہ وِکاس ہے کہ نہیں؟کیونکہ شمال مشرقی ریاستوں کو بھی کانگریس مکت کرنا ہے۔اسی طرح ناگا لینڈ میں بھی محض ۱۱؍سیٹیں حاصل کرکے بی جے پی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔یہ بات درست ہے کہ ناگا لینڈ میں وہاں کی مقامی پارٹیوں کے اتحاد ’’نیشنل ڈیموکریٹک پیپلز پارٹی ‘‘ سے اتحاد کرکے بی جے پی نے یہ کارنامہ انجام دیا جس کی ۱۶؍ہی سیٹیں تھیں یعنی دونوں کوملا کر ۲۷؍نشستیں ہی ہوتی ہیں جو اکیلے ’’ناگا پیپلز فرنٹ‘‘ (این پی ایف) کو ملی تھیں جس کے سربراہ اور دعویدار (اب) سابق وزیر اعلیٰ ٹی آر ژیلیانگ تھے۔گورنر موصوف کو چاہئے تھا کہ پہلے۲۷؍ سیٹیں حاصل کرنے والی بڑی پارٹی (این پی ایف یعنی ژیلیانگ) کو حکومت سازی کے لئے مدعو کرتے۔یہی سبب ہے کہ ژیلیانگ کچھ دنوں تک استعفیٰ دینے سے خود کو روکے رہے لیکن یہاں بھی بی جے پی کا وکاس کام آیا اور این ڈی پی پی کے ’’نے فی ریو‘‘ کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔نا گا لینڈ کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ ’نے فی ریو ‘اور ژیلیانگ پہلے ایک ہی پارٹی ’’ناگا پیپلز فرنٹ ‘‘ میں تھے اور الیکشن سے چند دنوں پہلے یہ نیا اتحاد وجود میں آیا جب کہ بی جے پی پہلے ژیلیانگ کے ساتھ تھی۔اس پر الگ سے ایک مضمون درکار ہے۔واضح رہے کہ تریپورہ کے ساتھ ہی میگھالیہ اور ناگا لینڈ کے الیکشن ہوئے تھے۔
بی جے پی کو جو کرنا ہے وہ تو کر رہی ہے لیکن کانگریس کیا کر رہی ہے؟راہل گاندھی کے صرف یہ ٹویٹ کر دینے سے کہ’ ’ہم عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں‘‘ کیا بات بن جاتی ہے؟ذرا غور کریں ناگا لینڈ کی گزشتہ اسمبلی میں کانگریس نے ۸؍ سیٹیں جیتی تھیں جب کہ ۳۰؍سیٹوں پر وہ دوسرے نمبر پر تھی اور ووٹ کا فیصد ۲۵؍ تھا جو اس بار ۲؍فیصد ہو گیا ہے اور ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کہ کانگریس کا ناگالینڈ سے تقریباً صفایا ہو گیا ہے، جب کہ وہیں بی جے پی کو پچھلی اسمبلی میں ایک عشاریہ ۸؍ فیصد ووٹ ملے تھے جو اِس بار بڑھ کر ۱۴؍عشاریہ ۴؍ فیصد ہو گئے ہیں اور سیٹیں بھی ۱؍ سے بڑھ کر ۱۱؍ ہو گئی ہیں۔یہ ٹھیک ہے یا نہیں کہ کانگریس کے تقریباً۲؍درجن بڑے صوبائی لیڈروں نے دوسری پارٹیاں جوائن کیں،اس پر پارٹی ہائی کمان کو سوچنے کی ضرورت ہے۔یہ وہی ناگا لینڈ ہے جہاں مسلسل ۱۰؍ برسوں تک( ۱۹۹۳ ء سے ۲۰۰۳ ء تک) کانگریس کے ایس سی ضمیر وزیر اعلیٰ رہے۔(۲۰۰۳ ء میں ہی ’ناگا پیپلز پارٹی ‘ کے ’نے فی ریو‘ بطور وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے) ۔اسی طرح یہ باور کرانے سے کام نہیں چلے گا کہ تریپورہ میں کانگریس نے دوستانہ مقابلہ آرائی کی اور سی پی ایم کو ’’فائٹ‘ ‘ دینا نہیں چاہتی تھی۔اِس طرح سے کانگریس خود کشی کا راستہ اختیار کر رہی ہے۔تریپورہ میں جہاں کانگریس اپوزیشن میں تھی اور گزشتہ اسمبلی میں اس کی ۱۰؍ سیٹیں تھیں وہ کہاں گئیں؟ اِس پر اسے غور کرنا چاہئے۔اسی طرح میگھالیہ میں بھی کانگریس ۲۹؍ سیٹوں سے اس بار ۲۱؍ پر سمٹ گئی۔عوام کانگریس سے ایک آس لگائے ہوئے ہیںلیکن کانگریس اُس طرح کی محنت نہیں کر رہی ہے جس طرح بی جے پی کر رہی ہے ۔ بھلے کانگریس بی جے پی کی طرح تگڑم نہ کرے لیکن محنت تو کرے!
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں؛رابطہ9833999883