عالم اسلام میں اور پوری انسانی دنیا کے اسلام پسندوں کے حلقوں میں ہر طرف اس وقت خوشی کی لہر دوڑ گئی جب ترکی کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں اندرون ملک عوام و خواص ہر دو قسم کے شہریوں اور بیرون ملک تمام حق پسند مسلمانوں کے دلوں میں جگہ بنانے والے عالم اسلام کے بے تاج بادشاہ جناب طیب اردگان صاحب نے خاصی اکثریت سے شاندار کامیابی حاصل کی ۔یہ جشن جیت جو دنیا کے کونے کونے میں محسوس کیا گیا اس کی وجہ صر ف ایک ہے ۔وہ ہے ترکی کے صدر کی بے باکانہ سیاست ،جرأت مندانہ تقریریں،مخالفین اسلام کو منھ تو ڑ جواب دینے کی ان کی صلاحیت و قابلیت ،ایوانوں میں اسلام مخالف کلائیوں کو مروڑدینے کی طاقت وقوت نیز دنیا میں کہیں بھی اسلام اور مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم سے کڑھ کر کسی مصلحت کی پرواہ کیے بغیر اپنا موقف ظاہر کرنے میں فخر محسوس کرنے کی ان کی انمول اور منفرد خصوصیت ۔ان کی یہی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے پوری انسانی دنیا کے غیرت مند اور حقیقت پسند مسلمان اُن کے ساتھ تھے ۔ان کے ساتھ ہیں اور ان کے ساتھ رہیں گے ۔ سوائے ریالی مسلمانوں اور کاغذی اسلامی ملکوں کے صدور وبادشاہوں کے ۔کیونکہ انہیں اسلامی حکومت کے قیام سے اپنی بادشاہت کی نیستی کا خطر ہ ہے ۔چنانچہ برصغیر کے بڑے بڑے علمائے کرام اور عارف باللہ شخصیات نے ان کی کامیابی کے لیے دعائیں کیں۔ اجتماعی دعائوں کا اہتمام کیا ۔حضت مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب نے تو ٹوئٹ کر تے ہوئے یہاں تک تحریر کیا کہ طیب اردگان کو فتح نصیب نہیں ہوئی تو ترکی کو لادینیت کے جہنم میں ڈھکیل دیا جائے گا ۔لہٰذا اللہ سے دعاء کریں کہ اسلام کی سربلندی کا راستہ کھول دے اور اس کے لیے جو اس وقت سب سے مناسب اور موزوں سیاسی لیڈر ہیں جناب طیب اردگان صاحب کو فتح نصیب فرمادے ۔بہرکیف دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے، لہٰذا ترکی کی تقدیر بدل گئی اور اسی دعا کی بدولت ہارے ہوئے لشکروں کو آخر ی مرحلہ پر فتح وکامرانی نصیب ہوجاتی ہے ۔سو ایساہی ہوا یعنی انصاف اور ترقی کی پاڑی (حزب العدالت والتنمیہ) کو بھاری اکثریت سے دین فروشوں کے لشکر کے مقابلہ میں جیت نصیب ہوئی ۔گویا ؎
دواسے ہار کے بیٹھا دعا سے جیت گیا
عجیب شخص ہے اک بے وفا سے جیت گیا
ترکی کے صدارتی انتخابات میں جیت کا سب زیادہ حق طیب اردگان صاحب کوہی تھا ۔کیونکہ سیاست میں پچھلے کارناموں کی بنیاد پر ہی اگلی مدت تک کے لیے رہنما چننا عین دانشمندی ہے۔یعنی اگر کارنامے عمدہ ہیں تو دوبارہ موقع بھی اسی شخص کو ملنا چاہیے ۔ تاکہ آئندہ کاسفر ارتقائی مدارج کے طے کرنے سے متعلق ہو اور ترقی کی راہیں روشن ہوں۔اچھا کیا حق پسند شہریوں نے جنہوں نے طیب اردگان صاحب کے حق میں اپنی رائے دی ۔کچھ بھی جیت کی تصویر اور اس کی حقیقت پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ترکی میں بھی حق پسند وں کی تعداد زیادہ ہی نہیں بلکہ کافی زیادہ ہے ۔تب ہی تو طیب اردگان صاحب کو اکثریت حاصل ہوئی ۔
ویسے بحیثیت سیاسی رہنما جب طیب صاحب کے دور اقتدار کا جائزہ لیا جا تاہے تو یہ بات ہر شخص کے سامنے کھل کر آجاتی ہے کہ جب وہ برسر اقتدار آئے تو ملک کی معاشی حالت بہت ابتر تھی ۔دنیا کے ممالک میں معاشی حیثیت سے اس کی کوئی شناخت نہ تھی ۔ جس کے لیے انہوں نے بڑی کامیاب کوششیں کیں ۔اقتصادیات کو بہتر بنانے کی غرض سے کئی نئی راہیں اختیار کیںاور اب ملک کی معاشی حالت پہلے کے مقابلہ بہت بہتر ہے کیونکہ ایک سوگیارہ نمبر سے سولہویں نمبر پر اس کی معیشت پہنچ گئی ہے ، جس سے نہ صرف یہ کہ ملک کے شہریوں کی اقتصادی زندگی پہلے سے اچھی ہوئی بلکہ اسی اقتصادی تبدیلی کی وجہ سے ترکی نے دنیا کی بیس بڑی طاقتوں میں شمولیت اختیار کرلی ہے ۔
جہاں تک تعلیمی میدان میں اردگان صاحب کے کارناموں کا تعلق ہے تو یہاں بھی انہوں نے ہمہ جہت ترقی حاصل کرتے ہوئے بڑی بڑی یونی ورسٹیاں قائم کیں،تعلیمی ادارے بنائے اور اسکول وغیرہ تعمیر کیے،جب کہ پہلے سے قائم شدہ یونی ورسٹیوں کا ہمہ جہت بروقت تدارک کیا ۔جہاں جیسی ضرورت پیش آئی بغیر کسی مصلحت کے پہلی فرصت میں اس کی تکمیل کو اپنا فرض اولین قراردیا۔چنانچہ یہاں کی یونی ورسٹیوں میں ایک صدی سے زائد عرصہ پر محیط بد دین سیاست کے راستہ سے آنے والی لادینیت ودہریت کی وجہ سے قرآن و حدیث جیسی بیش بہاکتابوں کی تعلیم متروک ہوگئی اور ان کی تعلیمات کوطاق نسیاں میں ڈال دیا گیا تھا۔اسے انہوں نے اپنے دور اقتدار میں بحال کیا ۔ ان دانش گاہوں میں خواتین کو حجاب پہننے کی پوری آزادی عطا کی جو اس سے پہلے کی حکومتوں نے چھین لی تھی ۔نصاب تعلیم میں عثمانی رسم الخط کو واپس لانے ان کا یہ عمل اور مستقبل میں اسے عام کرنے کا ان کا یہ منصوبہ درحقیقت عربی رسم الخط کی احیاء کرنا ہے ۔اس سے دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوںنے اسلامی مزاج کو لوگوں میں عام کرنے کی خاطر یہ قابل تحسین کوشش بھی سرانجام دی ہے کہ سات سال کی عمر کے تقریباً دس ہزار بچوںکا ایک جلوس نکلوایا جو بچے استنبول کی سڑکو ں پر یہ اعلان کررہے تھے کہ ان کی عمر سات سال کی ہوچکی ہے اور اسلامی نقطہ نظر سے اس عمر میں انہیںنماز پڑھنی ہے اور قرآن پاک کو حفظ کرنا ہے ۔فوج اسٹیٹ رہ چکا ترکی نے اپنے اس حق پرست سیاسی رہنما اور جانباز قائدکے دور اقتدار میں عدالتوں میں بھی کام کاز پر مامور خواتین اور انصاف کے لیے ان کی چہار دیواریوں میں آنے والی ضروروت مندعورتوں کو کھلے بندوں نقاب زیب تن کرنے کی سہولت فراہم کی ہے ، جو سراسر طیب اردگان کی محنتوں کا ثمرہ ہے ۔
میڈیا میں مشتہر اعداد و شمار کے مطابق اردگا ن کے اہم ترین سیاسی کارناموں میں سے ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے قبرص کے دونوں حصوں میں امن و امان قائم کیا اور کرد کارکنوں کے ساتھ برابری کی سطح پر مذاکرات کے ذریعہ صدیوں سے چل رہے خون خرابے کو روکا ۔آرمینیا کے ساتھ ملک کے صدیوں پرانے الجھے ہوئے ان مسائل کو سلجھایا ،جن کی فائلیں۹ دہائیوں سے صدارتی دفتر کی دھول پھانک رہی تھیں۔یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ یہ خدائی نظام ہے ۔ہر ایک صدی میں ایک مجدد کو پیدا کرتا ہے جو مزمن امراض کا علاج اپنی منفرد حکیمانہ صلاحیتوں سے کرتا ہے ۔چنانچہ وہ صدیوں کے مسائل مہینوں میں حل کرنے میں بھر پور اور انمول کامیابی حاصل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کرجاتاہے ۔بقول شاعر ؎
بڑی مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا پیمانہ
بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا صدیوں کا میخانہ
سماجی مواصلاتی ذرائع سے یہ بات تقریبا ہرشخص تک پہنچی ہوگی کہ 2009 ہونے والی ایک بین الاقوامی اقتصادی کانفرنس میں شریک ہونے والے ملعون زمانہ اسرائیلی صدر پیریز نے کانفرنس میں اپنی زہر افشاں تقریرپیش کرتے ہوئے غزہ پر حملہ کا جواز پیش کیااور لوگوں نے اس پر جم کر تالیاں بجائیں اور جس طرح ایک مہمان کا استقبا ل کیا جا تا ہے، اسی طرح اس شیطان کا بھی استقبال کیا گیا ۔اس کانفرنس میں اردگان بھی شریک تھے،ان کی رگوں میں دوڑنے والا ایما نی خون کھول رہاتھا۔ ان کا حسینی عزم اس بے حیا گفتگو کو برداشت نہیں کرسکا۔چنانچہ جب اپنی باری پر وہ لب کشا ہوئے تو اسرائیلی صدر کو سرعام اس کی و ہ مذمت کی کہ تاریخ کبھی اس کو بھلا نہیںسکتی۔میں نے ان کی وہ تقریر یو ٹیوب پر سنی ہے مجھے یاد آرہا ہے کہ حق کے اس سپاہی نے اپنی گفتگو میں بڑی جرأ ت کے ساتھ یہ الفاظ استعمال کیے تھے کہ ’’سامعین آپ نے اسرائیلی صدر جس کی عمر مجھ سے زیادہ ہے اور آواز بھی مجھ سے بھاری بھر کم ہے مگر میں اپنی اس کم عمری کے باوجود یہ جرأ ت رکھتاہوں کہ غزہ کے مسلمانوں پر جو ظلم انہوں نے کیا ہے اور جس کا وہ جواز اپنی تقریر میں پیش کررہے تھے کے متعلق برملا یہ کہوںکہ یہ مظالم انسانیت کے خلاف اور باعث شرمندگی ہیں۔یہ ایک مجرمانہ عمل ہے ۔جہاں تک سامعین اور ناظرین کا تعلق ہے تو انہوں نے تالیاں بجاکر بے حیائی اور بے شرمی کا ثبوت دیا ہے ۔ اگر آپ میں ذرہ برابر بھی شرم وحیا ہوتی اور انسانیت اور زندہ ضمیری نام کی کوئی چیز ہوتی تو آپ نے اس ظالم شخص جس نے غزہ میں ہزاروں مائوں کا سہاگ اُجاڑا ہے اور لاکھوںبچوں کو یتیم کیا ہے کی تقریر پر تالیاں ہر گز نہ بجاتے اور جب گفتگو کے دوران ایک منتظم نے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر غالباً یہ اشارہ دیا کہ آپ اپنی اس تنقیدی گفتگو کو یہیں روک دیجیے تو انہوں نے اشارہ سمجھ کر بادل ناخواستہ اپنی گفتگو اس جملہ پرختم کی کہ ’’ شکریہ آپ حضـرات کا کہ آپ نے ظالم زمانہ اسرائیلی صدر کو بولنے کے لیے 25منٹ دیے اور مجھے اس کے جواب میں بولنے کے لیے اس کا آدھا وقت یعنی صرف 12منٹ ‘‘دیا ۔اس جملہ کی تکمیل کے ساتھ ہی اپنی فائل لیکر غیرروایتی طور پر نہایت بے باکی کے ساتھ کانفر نس سے اٹھ کر چل دیے ۔گویا حق گوئی کا مزاج انہیں سچی سیاست کا ہنر بخشتا ہے ۔ اللہ سے ان کا تعلق انہیں زمینی طاقتوں سے مرعوب ہونے نہیں دیتا ۔ان کی حق گوئی کی یہ طاقت سامنے والے کی وجاہت اور اس کے اثرو رسوخ کا خیال نہیں رکھتی ۔حق کی خاطر جینے والے لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں ۔بقول سلمان حسینی ندوی میں اگر تنقید بند کردو اور کویت ،سعودی اور امارات چلا جائوں تو یہاں کے حکمر ان اور ارباب اقتدار لوگ مجھے سونے (Gold)سے تول دیں گے مگرمیری حق گوئی اور بے باکی مجھے ایسا کرنے سے روکتی ہے ۔ان کے ظلم کی داستانیں مجھے لب کھولنے پر مجبور کردیتی ہیں ۔بقول اقبال ؎
آئین جواں مرداں حق گوئی وبے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
طیب اردگان کی مسلمانوں سے ہمدردی کا اندازہ اس وقت بھی سامنے آیا جب برما میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم وزیادتی ہورہی تھی اور یہاں کے مسلمانوں پر قتل وغارت گری کا پہاڑ بدھسٹوں نے توڑاتھا ۔ عالم اسلام کے کاغذی حکمرانوں اور بے غیر ت بادشاہوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔حالانکہ عرب ممالک چاہیں تو اپنی زمینی اور قدرتی طاقتوں کے بنیاد پر اسرائیل کے پنجوں کو تو ڑ کر رکھ دیں ۔فلسطینیوں کی معصوم صدائوں پر ان کی رگ حمیت نہیں پھڑکتی ۔امریکہ کی مہمان نوازی سعودی میں سعادت سمجھی جاتی ہے ۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا سعودی حکمراں اور سعودی شہزادے عقل کے ناخن لیتے اور قرآن کی آیات پر لبیک کہتے ہوئے قائد بن کر تمام مسلم حکمرانوں کو ساتھ لیتے اور ظالموں کاصفحہ ہستی سے صفایا کرتے ۔مگر اس وقت بھی صرف ایک آواز طیب اردگان کی اٹھی ۔بقیہ تمام مسلم ممالک کے رہنما خواب غفلت میں نہیں شاہی محلات میں داد عیش دے رہے تھے اور بے حیائی اور بے شرمی کے ساتھ تماشا دیکھ رہے تھے ۔جب کہ یہی وہ مرد خدا تھا جس نے اپنی شریک حیات کے ساتھ برماکا سفر کرکے وہاں کے مسلمانوں کی دلاسائی کی ۔انہیں صبرو استقلال کی تلقین کی ۔حالات کا جائزہ لیا اور اپنے خطابات سے ایسی فضابنانے کی کوشش کی جو برمی مسلمانوں کے لیے مدد گار ثابت ہو۔اپنی طرف سے ضروری اور ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔
مختصر یہ کہ یہ جیت جو اردگان صاحب کو حاصل ہوئی ہے وہ وقت کی ایک اہم ضرورت تھی اور روشن مستقبل کی ایک شعاع امید کہی جاسکتی ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ اس جیت سے برصغیر کے ریالی مسلمانوں کی بے چینی بڑھ گئی ہے ۔انکے پیٹ میں مروڑ بہت زیادہ پایا جارہا ہے ۔جس کا اندازہ فیس بک پر ہونے والے تبصروں سے بخوبی ہوتا ہے ۔جب کہ عرب امارات ،کویت اور سعودی عرب میں بھی بعض حلقوں میں خوشی کی لہر محسوس کی جارہی ہے اور بعض میں خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔کیونکہ یہ وہ ممالک ہیں جن کے بادشاہان اپنی بادشاہت کے لیے سب سے بڑا خطرہ اگر کسی کو سمجھتے ہیں تو وہ ہے اسلامی نظام اور خلافت راشدہ کا قیام ۔چنانچہ طیب اردگان صاحب کی طرف سے ان کی اس کامیابی پر اور اسکی وجہ سے ان سے خائف افراد کے ذہنوں پر جو اثرات مرتب ہوئے ہیں ان کی ترجمانی کرتے ہوئے اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا :
جب سے مری فتح کی اس نے خبر سنی
اس دن سے اس کا ذہنی تواز ن بگڑ گیا
اس وقت پوری انسانی دنیاکی سب سے بڑی ضرورت مسلمانوں کا باہمی اتحاد ہے ۔ عرب ممالک ،خلیجی ممالک اور دنیا کے تمام مسلم ممالک کو یک جٹ ہوکر متحدہ طورپر ایک مضبوط محاذ قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔کسی جیت پر خوش اورکسی کی جیت پر مغموم ہونے سے سوائے نقصان کے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ۔پوری دنیا میں مسلمانوں کی حالت قابل افسوس ہے ۔ہر جگہ گاجر اور مولی کی طرح مسلمانوں کو کاٹا جا رہا ہے ۔ ہندوستان میں بھی مسلمانوں کی زبوں حالی کا ذمہ داری یہاں کے مسلمانوں کا باہمی افتراق اور انتشار ہے۔جب کہ فلسطین ،شام اور برما کے مسلمانوںپر ہونے والی زیادتی اور ان کے ساتھ ہونے والی قتل وغارت گری کے ذمہ دار مسلم ممالک ہیں۔کیونکہ اجتماعیت میں طاقت اور اتحاد میں قوت ہے ۔طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ منظم اور مضبوط طریقہ سے کرنے کی ضرورت ہے ۔لیکن اس کے لیے ہمیں متحد ہونے اور آپس میں آواز سے آواز ملانے کی حقیقت کو گلے لگا نا ہوگا۔ورنہ ؎
مشکل کوئی آن پڑے تو گھبرانے سے کیا ہوگا
جینے کی ترکیب نکالو مرجانے سے کیا ہوگا
سب مل کر آواز اُٹھائیں تو کچھ چاند پہ رعب پڑے
یں تنہا جگنو ہوں میرے چلانے سے کیا ہوگا