منظور احمد گنائی
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ جدید سائنس کے انسان پر بے پناہ احسانات ہیںجن کا شمار کرنا میرے خیال میں ناممکن ہے۔لیکن دنیا کے سائنس دانوں نے جہاں انسان کو مختلف النوع آسائش وآرام دہ چیزیں فراہم کی ہیں وہیں بعض ایسی چیزوں کا بھی اختراعِ فائقہ ہوا ہے جس کا اطلاق خواب وتصور میں ہی ممکن ہوسکتا ہے۔سائنس دانوں نے اپنی تلاش وجستجو کو جاری رکھتے ہوئے آنے والی نسلوں کے لیے اس قدر آسانیاں پیدا کی ہیں کہ جو چیزیں کسی زمانے میں ناممکن یا قدرے مشکل دکھائی دیتی تھیںجدید ٹکنالوجی نے اس کو ممکن کر دکھایا ہے۔ سائنس آج اس قدر ترقی کی راہیں عبور کررہا ہے کہ آج کے اس ٹکنالوجی کے دور میں اس وسیع وعریض کائنات کو ایک گلوبل ولیج(GLOBAL VILLAGE)کا نام دیا جاچکا ہے۔لیکن اس گلوبل ولیج میں ایک تاریک پہلو انسانی زندگی کے لیے یہ بھی ہے کہ اس نے انسانی زندگی کو بے پناہ خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔جس کی وجہ سے ہمہ وقت اس بات کا انکشاف بھی کیا جاسکتا ہے کہ حضرت انسان کہیںاپنے ہی ہاتھوں سے اس جنت جیسی زمین کو جہنم بنانے کی کوششوںمیں مصروفِ عمل تو نہیں ہے۔
اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جب اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ انسان کی فکر وشعور پر نظر پڑتی ہے تو یہ بات گمان غالب ہے کہ آج کل کا انسان اب نظامِ فطرت میں بھی خلل ڈالنے کی کوشش کرکے موسموں کو بھی اپنے تابع بنانے میں دن دونا رات چوگنامحنت شاقہ کرتا نظر آرہا ہے۔گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ بنی نوع انسان ہی ان شیطانی عوامل کو انجام دے کر انسانوں کا قلع قمع کرنا چاہتا ہے جس کی تفصیل ابھی آنی باقی ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان نے ان خوفناک اور ناقابلِ برداشت حرکات وسکنات کو انجام دینے کا مصمم ارادہ کیوں کر رکھا ہے۔اس کے پیچھے بھی ایک بڑی کہانی پوشیدہ ہے جسے ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔خیر جو بھی ہے آنے والے وقت میں ضرور دیکھا جائے گا لیکن اصل میں یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ یہ دوسرے مظلوم اقوام پر مسلط ہونے کے لیے نت نئے طریقے اورحربے آزما نے کے لیے اب موسموں پر بھی اپنا کنٹرول کر رہا ہے اور جس میں اسے کامیابی اور اپنا عزازیلی مقصد حاصل ہورہا ہے۔حالانکہ کچھ ماہرین اور علماء وغیرہ کا ماننا ہے کہ موسمی حالات کو کنٹرول کرنا حقیقت میں خالق لم یزل کے قبضۂ قدرت میں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان اب ان چیزوں پر بھی کنٹرول کر رہا ہے جس کی واضح مثال ہمارے سامنے ہیں۔
اسی کڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے موسموں پر اپنا کنٹرول جما لینا اصل میں ’ہارپ‘نام کی ایک جدیدسائنسی ٹکنالوجی کا نام ہے ۔انگریزی میں اس کو(HAARP)کہتے ہیں ۔اس کا تعارف سب سے پہلے امریکی سائنس دان جس کا نام NIKLIS TESLAتھا جس نے سب سے پہلے امریکہ میں 1915ء میں اس بات کو محسوس کیا کہ اگر ہمیں دنیا پر اپنا قبضہ مسلط کرنا ہے تو ہمیں اس ہارپ جیسی ٹکنالوجی کے لیے کام کرنا ہوگا۔اس نظریے کو آگے بڑھانے کے لیے امریکہ میں الاسکا (ALASKA)شہر سے دو سو کلو میٹر دور ایک جگہ کو منتخب کرکے جہاں ایک زمانے میں امریکی ایر فورس،نیوی اور الاسکا یونیورسٹی بھی موجود ہے ۔ان تینوں کو اسی مقصد اور اس کی معیشت کو سنبھالنے کے لیے رکھا گیا ہے ۔ظاہری طور پر امریکہ دنیا کا سب سے بڑا براڈ کاسٹنگ سسٹم کی بنیاد رکھنا چاہتا تھا لیکن اس کے مقاصد کچھ اور ہی ہیں ۔اس بڑے ریڈیو اسٹیشن سے پروگرام نشر کرنا نہیں بلکہ اس کے ذریعے موسموں پر کنٹرول کرنا تھا۔اس کی پہلی کڑی اس مقصد کی حصولیابی کے لیے اسی سرزمین پر 180 بڑے بڑے ٹاورس جن کی اونچائی 72فٹ مانی جاتی ہے۔تاہم ان سارے ٹاوروں کو آپس میں جوڑ کردنیا کا سب سے بڑا براڈکاسٹنگ سسٹم بنایا گیا ہے۔اس ٹاور سسٹم کے ذریعے اس بات کا انکشاف کیا جاتا ہے کہ فضا میں موجود ٹنوں کے حساب سے VFM Energy کو لہروں کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔اس ہارپ کی مدد سے چھتیس ملین وارٹس ہائے فروکینسی کو خلا میںبھیجا جاتا ہے۔اس کی طاقت 72ہزار ریڈیو اسٹیشنوں کی طاقت کے برابر سمجھا جاتاہے اسی Energyکو خلامیں کسی خاص مقام کی طرف بھیجا جاتا ہے۔اہل علم کا کہنا ہے کہ جن مخصوص علاقوں کی طرف اسے بھیجا جاتا ہے وہاں اُن علاقوں میں زلزلے اور سیلابی طوفان آسکتا ہے۔اگرچہ اس فکر سے اختلاف کرنے والے طبقات بھی کئی ایک ہیں ۔اُن کا کہنا ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہوسکتا اور ایسی چیزیں صرف مبالغہ آرائی پر مشتمل ہیںالبتہ اس کی مدد سے موسموں میں اکا دُکا ہلچل پیدا کی جاسکتی ہے ۔
ارباب دانش کا ماننا ہے کہ دنیا میں اس ٹکنالوجی کا واقعی استعمال کیا گیا ہے۔سب سے پہلے اگر جاپان کی بات کی جائے 2011ء میں جب جاپان اپنی کرنسی کو امریکی ڈالر سے جُدا کرنے کے بارے میںسوچ رہا تھا تو جاپان کے صدرنے چین جاکر اپنے خیال کو ظاہر کیا ۔لیکن جوں ہی امریکہ نے جاپان کے اس خیال کو محسوس کیا تو انھوں نے کھلی دھمکی دی کہ وہ اُس پر سمندر اور خشکی کی طرف سے ایسی یلغار کریںگے کہ کوئی شک بھی نہ کرسکے گا ۔گویا جب 11مارچ2011ء میں جاپان پر سونامی کی لہر آن پڑی تب پورا جاپان موت کی وادی میں تبدیل ہونے لگااور نہ جانے کتنے انسانوں کی موت واقع ہوئی۔بظاہر تو یہ ایک سمندری طوفان تھا جس نے جاپان کو نہ صرف جانی اور مالی نقصان پہنچایا بلکہ پورے جاپان کو کھنڈرات میں تبدیل کر گیا۔جس کی وجہ سے جاپان کی معیشت کو بھی کافی نقصان پہنچا۔
دوسری مثال 2012ء پاکستان کے مشرقی علاقوںمیں سیلاب کی وجہ سے جو جانی ومالی نقصان ہوا اس کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا بلکہ اُس وقت امریکہ نے ایک ہزار بچاؤ ٹیمیں بھیجی گئی ہیں جن میں wiki leaks سے یہی انکشاف کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے شہر میں جس انگریز افسر نے اپنی گاڑی کے نیچے کچل کر جن لوگوں کو مار دیا ہے۔اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ شاید وباید امریکی بچاؤ ٹیمیں اس پاداش میں آئے تھے کہ وہ اس چیز کا مشاہدہ کریںکہ وہ کس حدتک اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔
ایک دو دن پہلے ترکی اور شام میں زلزلوں نے جو قیامتِ صغریٰ برپا کی ہے اس سے ہر کوئی واویلا کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ اس قسم کی جدید ٹکنالوجی کو تقریباََ سو سال پہلے جس مقصد کے لیے بنایا گیا ہے اس میں اسلامک دنیا کو اثر اندازکرنے کی امریکہ نے ٹھان لی ہے۔اس قسم کے واضح اشارات شاید آج کل ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔حال ہی میں ترکی کے اندر جس قسم کے حادثات پیش آئے ہیں جس میں ہزاروں کی تعداد میں انسانی جانیں چلی گئی ہیں اور ہزاروں ابھی لاپتہ اور زخمی حالت میں اپنی زندگی جی رہے ہیں۔ایسے حادثات وواقعات سے انسانی روح کانپ اٹھتی ہے اور انسان اس دنیا سے اب متنفر ہونے لگا ہے۔گویا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ترکی میں یہ آفتِ ناگہانی تھی یا ہارپ جیسی جدید ٹکنالوجی کا سبب۔اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔البتہ اتنا تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر یہ واقعی ناگہانی آفت تھی تب ترکی کے پڑوسی ملکوں میںایسے زلزلے محسوس کیوں نہیں کیے گئے ہیں۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ مقامی شاہدوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ آسمان پر زلزلوں سے پہلے بادل نمودار ہوئے جو بعد میں آگ کی شکل اختیار کرنی لگی ،ایسا صرف قیاس آرائی پر مشتمل ہے۔جب ایسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں تب جاکے وہ دن دور نہیں جب ایک طاقت ور اور ترقی یافتہ ملک ساری دنیا کو اپنے شکنجے میں بند کرسکتا ہے۔
اس بات کو ایسے بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہالینڈ کے سائنس دان فرنک ہوگر بیٹس نے ٹھیک تین دن پہلے ان زلزلوں کی پیش گوئی کی تھی اور ان کی شدت بھی بیان کردی تھی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ بڑے پیمانے پر شاید ایسی سازشیں رچے جارہے ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے اپنے ویڈیو میں ہندوستان اور پاکستان میں ایسے زلزلوں کے آنے کی پیش گوئی کی ہے اللہ ہمیں سلامت رکھیں کہ ایسا نہ ہو۔بہر کیف ہم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ دنیا کے وجود میں آنے سے آج تک جتنی جنگیں ہو ئی ہیں ان جنگوںمیں اپنی زندگی کھونے والوں کی تعداد کااندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس جدید ٹکنالوجی کی وجہ سے شاید اس سے زیادہ جانی نقصان ہوسکتا ہے۔یہ ٹکنالوجی اتنی بھیانک اور خوفناک ہے کہ ایٹم بم کا باپ مانا جاتا ہے۔لہذا اس بات کی طرف خاظر خواہ توجہ دی جائے تاکہ آنے والے وقت میں اس پر پابندی لگا کر انسانی جان بچ سکیں۔
(رابطہ۔6005903959 )
[email protected]