احمد ایاز
دنیا تیزی سے بدل رہی ہے۔ سیاست ہو یا معیشت، سماجی مباحث ہوں یا ٹی وی اسکرینیں،ہر طرف ایک ہی لفظ گونج رہا ہے،ترقی۔مگر حیرت ہے کہ جس لفظ کو سب سے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے، اُسی کو سب سے غلط سمجھا بھی جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا مہنگی گاڑی، بڑے بنگلے اور بیرونِ ملک سفر کا نام ہی ترقی ہے؟یا اس لفظ کے پیچھے کوئی ایسا وسیع، گہرا اور فکری مفہوم ہے جسے ہم نے زمانے کے شور میں گم کر دیا ہے؟
لغوی و اصطلاحی مفہوم:لفظ ’’ترقی‘‘ کے معنی ہیں بلند ہونا، آگے بڑھنا اور ارتقاء پانا۔اصطلاح میں یہ انسان کی فکری، اخلاقی، معاشرتی، روحانی اور معاشی ہر سطح پر بہتری کا مجموعہ ہے۔لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آج ترقی کو صرف دولت اور مادی اشیاء تک محدود کر دیا گیا ہے۔
مادی ترقی کا محدود تصور : آج ہمارے معاشروں میں ترقی کا پیمانہ یہ بن چکا ہے کہ کس کے پاس کیسی گاڑی ہے، کتنا بینک بیلنس ہے اور کتنے غیر ملکی دورے کیے گئے ہیں۔
مگر چند تلخ حقیقتیں ہمارے نظریات کی کمزوری ظاہر کرتی ہیں،اگر ترقی دولت سے ہوتی تو سب سے زیادہ ذہنی دباؤ اور خودکشی کے واقعات امیر ممالک میں نہ ہوتے۔اگر مہنگی گاڑی ترقی کی علامت ہوتی تو حادثات میں جانیں جانے والوں کی بڑی تعداد خوش حال طبقے سے نہ ہوتی۔اگر دولت انسان کو بلند کرتی تو ہر مالدار شخص کردار اور اخلاق میں بھی بلند ہوتا۔دولت سہولت تو دیتی ہے،مگر انسان کو انسان نہیں بناتی۔
اصل ترقی: انسان کی اندرونی دنیا کا ارتقاء :
(۱) اخلاقی ترقی :کسی معاشرے کا حسن اس کا اخلاق ہے۔حضرت علیؓ کا فرمان ہے:’’انسان کی اصل قیمت اس کے اخلاق سے ہے، نہ کہ اس کے لباس یا دولت سے۔‘‘
(۲) علمی ترقی :علم کا مقصد صرف ڈگری نہیں بلکہ شعور اور بصیرت ہے۔بے شعور پڑھے لکھے لوگ معاشرے کی قوت نہیں بلکہ کمزوری ہوتے ہیں۔
(۳) فکری ترقی :ترقی یافتہ انسان دلیل سے بات کرتا ہے، سوال اٹھاتا ہے، تعصب سے دور رہتا ہے اور غلطی تسلیم کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
(۴) روحانی ترقی:روحانی توازن انسان کو لالچ، غرور اور خودغرضی سے بچاتا ہے۔جو شخص خدا کی جوابدہی کو پہچان لے، وہ ظلم اور ناانصافی سے رُک جاتا ہے۔
(۵) سماجی ترقی :قانون کی بالادستی، انصاف کی فراہمی، باہمی احترام اور کمزوروں کی حفاظت ،یہی کسی بھی معاشرے کے اصل ستون ہیں۔
ترقی کے حقیقی پیمانے :ترقی کو دولت کے ڈھیر سے نہیں بلکہ ان بنیادوں سے ناپا جانا چاہیے:اخلاقی معیار،انصاف کا مضبوط نظام،شہری کردار ،اجتماعی شعور،باہمی عزت،تعلیم کا مقصد،سیاست میں خدمت،قانون کی عملداری، جہاں یہ سب موجود ہوں، وہی معاشرے حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔
اسلام کا تصورِ ترقی :اسلام میں ترقی کا معیار دولت نہیں،بلکہ ایمان، علم، اخلاق اور اعمالِ صالحہ ہیں۔قرآن کہتا ہے:’’اللہ ایمان اور علم والوں کے درجے بلند کرتا ہے۔‘‘
نبی کریم ؐ نے فرمایا:’’تم میں بہترین وہ ہے جس کے اخلاق بہترین ہیں۔‘‘یہی اصل ترقی ہے۔
قومی ترقی کا راستہ :کسی قوم کو حقیقی ترقی کے لیے درج ذیل بنیادوں کو مضبوط کرنا ہوگا:
(۱) تعلیم کو روزگار نہیں، شعور کا ذریعہ بنانا،(۲) قانون کی بالادستی،(۳) اخلاقی تربیت،(۴) اختلاف کے باوجود مکالمے کا فروغ،(۵) انصاف تک آسان رسائی،(۶) شہری حقوق اور انسانی احترام،(۷) روحانی و اخلاقی توازن۔ترقی بلند عمارتوں، چمکتی سڑکوں اور دولت کے انبار کا نام نہیں۔ترقی تب ہے جب سوچ پختہ ہو،اخلاق بہتر ہو،کردار مضبوط ہو،انصاف عام ہو،دل وسیع ہوں،اور معاشرہ انسانیت کا محافظ بن جائے۔ترقی وہ نہیں جو آنکھوں کو چکاچوند کرتی ہے،ترقی وہ ہے جو انسان اور معاشرے کو سنوار دے۔
[email protected]