ان دنوں قصرسفیدکے فرعون کے دھمکی آمیزبیانات اوردیگر اوچھی حرکات کی وجہ سے اقوام عالم کے تمام امن پسندقوتوں میں عجیب ہلچل پیداہو کر رہی ہے اوریوں محسوس ہورہاہے کہ کسی بھی وقت ایک ایسی عالمی جنگ کاطبل بجنے والاہے جودنیاکوخاکسترکردے گا۔بالکل اسی طرح ۱۹۴۷ء تک دنیابھرمیں برطانیہ کے جبروت کاطوطی بولتاتھا۔برطانوی سلطنت کی وسعت کے پیش نظریہ مثل مشہورتھی کہ اس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتایعنی اگراس کی نوآبادیات کے ایک حصے میں سورج غروب ہوتاتھاتودوسرے علاقے میں دن نکل رہاہوتا تھا۔برطانیہ نے بھی کمزوروں اور محکوموں کوجبرواستبداد،درندگی اورسفاکی کے ہتھکنڈوں سے بالکل اسی طرح صفحہ ہستی سے مٹادیناچاہاجیساکہ آج کل امریکی استعماردہشت گردی کالیبل لگا کرمسلمانوں کی جان وایمان اوران کی املاک کے درپے ہے لیکن چشم ِفلک نے یہ انوکھانظارۂ بہ نظر حیرت واستعجاب دیکھاکہ حق پسند دیوانوں کی قربانیوں کی بدولت فرنگی استعمارکوکہ جس کی زمین پرسورج غروب نہیں ہوتاتھا،ہندوستان کونہ صرف آزادبلکہ پاکستان جیسی نئی مسلم ریاست کاوجودبھی دنیاکے نقشے پرنمودارہوگیااور گوروں کی پسپائی کے اس سفرکے بعددنیابھرمیں تمام نوآبادیات سے سفراخیر ایسے شروع ہواکہ آج خودبرطانیہ اپنے ہی ملک میں سورج کی کرنوں کامحتاج بنارہتاہے۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کوکچلنے کے بعدبرطانوی استعمارمسلم ہندوستان کے تخت وتاج پربلاشرکت غیرے براجمان ہوااوراس نے تحریک آزادی میں شریک علماء، مجاہدین، طلباء اور عام شہریوں کولاکھوں کی تعدادمیں موت کے گھاٹ اُتارا۔قید وبند، پھانسیاں ،نظربندیاں، جرمانے ہرجانے ، گھروں اور املاک کی قرقیاں وغیرہ مظالم اوردرندگی کے شرمناک مظاہروں کے ذریعے انگریزنے ہندوستانی عوام پراپنی دہشت وفرعونیت کی دھاک بٹھادی لیکن ان پُرتعذیب لمحوں میں بھی کچھ ایسے بچے کھچے غیرت مندہندوستانی مسلمان مجاہد وسرفروش باقی تھے جنہوں نے برطانوی استعمارکے آگے سرنگوں ہونے سے انکارکیااور اپنے خون پسینے سے آزادی کے گل ہوتے چراغ کوروشن رکھا۔میرے شاہ جی حضرت امیرشریعت سیدعطااللہ شاہ بخاری ؒ اُن ہی عزم وہمت اور آہنی قوت کے پالے مجاہدین ِ آزادی کے باغیرت سرخیل تھے جنہوں نے ہندوستان کی دھرتی پرانگریزکے تسلط کومستردکرتے ہوئے الحکم اللہ کانعرۂ رستاخیزبلندکیااوراس پرعزیمت راہ میں ہرصعوبت وآزمائش کوجھیلنے کا عزم نوکیا۔
حیرت ہوتی ہے کہ سیدعطااللہ شاہ بخاریؒ اور ان کے جیسے نہتے اوربے وسیلہ مجاہدین آخرکس مٹی سے بنے تھے کہ وہ انگریزی استبدادکے مصائب وآلام ،دارورسن اورظلم وسفاکی کامردانہ وار مقابلہ کرتے اوراس کے نتیجے میں اپنی ناتواں جانوں پرہرظلم کاوارسہتے مگرآزادیٔ وطن کی خاطرکسی بھی کڑی آزمائش کولبیک کہنے سے بازنہ آتے تھے جب کہ آج تمام تروسائل اورانمول قوتیں رکھنے کے باوجود مسلم قوم کے رہنما اوراقتدارکے رسیاامریکاکے سامنے تھرتھرکانپتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں خاص کر وقفے وقفے سے ڈرون حملوں سے امریکہ نہتے شہریوں کو خاک وخون میں نہلاتا رہاہے مگر ملک کے صاحب اقتدار اور اشرافیہ آنکھیں رکھنے کے باوجود اس حوالے سے نابیناہیں،کان ہیں مگربہرے ہیں، دل ہیں مگر پژ مردہ۔دراصل قومی غیرت اوردینی حمیت ہی قوموں کوسراٹھاکرجینے کاشعوردیاکرتی ہے جس کے آگے بڑی سی بڑی طاقتیں دھول ہوجاتی ہیں۔ تاریخ تحریک آزدای ٔ ہند کھولئے تو پتہ چلے گا کہ اصلاً یہی وہ جوہرایمانی تھاجس نے سیدعطااللہ شاہ بخاری ؓ جیسے غیورمجاہد آزادی میں بے خوفی،دلیری ،جرأت وبہادری کی انمول صفات پیداکیں اوروہ سلطنت ِبرطانیہ کے خلاف سینہ تان کرکھڑے ہوگئے ۔ انہوں نیاس راہِ عزیمت میںاپنی جوانی،سکون وراحت ،آسائش وآرام ہی نہیں بلکہ اپنے تبحر علمی اور شعلہ بیانی کوآزادیٔ وطن کے لئے تج دیا،صعوبتوں کومجاہدانہ انداز میں ہنستے ہنستے برداشت کیا، تکالیف کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا مگر ایک لمحہ بھی کبھی انگریزکی رعونت اور دبدے کو خاطرمیں نہ لائے۔
سانحۂ جلیانوالہ باغ(۱۹۱۹ء) سیدعطااللہ شاہ بخاری ؓ کی سیاسی زندگی کانقطہ ٔ آغازثابت ہوا۔سفاک جنرل ڈائرنے جب سینکڑوں بے گناہ ہندوستانیوں کے سینے چھلنی کردئے توسید عطا اللہ شاہ بخاریؓ کے دل میں حکومت برطانیہ کے متعلق نفرت کے شدیدجذبات پیداہوگئے،رہی سہی ترکی کے مسلمانوں پرانگریزکی وحشت وبہیمت نے نکال دی اور سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ ہندوستان کے صف ِاوّل کے رہنماؤں کے ہمراہ تحریک خلافت کے برگ وبارلانے میں مصروف ہوگئے۔برطانوی استعمارکی اس مخالفت میں سید عطا اللہ شاہ بخاری ؓ نے دین اسلام کے عالمگیر و عادلانہ اصول وضوابط کو اپنی عالی ہمت جدوجہد اورعزیمت کی بنیادبناکر اپنا مشن شروع کیا۔وہ انگریزکواسلام اورمسلمانوں کادشمن سمجھتے تھے کیونکہ وہ انگریزوں کی اسلام مخالف سازشوں کا صحیح ادراک رکھنے کے علاوہ مسلمانوں پرپے درپے گوروں کی خنجرآزمائی کابچشم خودمشاہدہ کرچکے تھے۔تحریک خلافت کے دوران سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ نے اپنی بے مثال ساحرانہ خطابت کے ذریعے ہندوستان بھرمیں برطانوی حکومت کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑکادی تھی، مثلاًصرف ضلع گجرات میں ہی انہوں نے تن تنہاپانچ سوخلافت کمیٹیاں قائم کرکے پورے ضلع کوآتش جوالہ بناکررکھ دیاتھا۔۱۸۵۷ء کے معرکے کے بعدتحریک خلافت ہی وہ ملک گیراحتجاجی سلسلہ تھاجس نے تمام ہندوستانیوں کوبلاتفریق مذہب وملت ایک لڑی میں پرودیااوران کے رگ وپے سے غیرملکی حکمرانوں کی مرعوبیت اور دبدبہ نکال کر رکھ دیا۔اس سلسلے میں دیگررہنمااُن کے شانہ بشانہ بنیادی کردار داکرتے رہے اور سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ کی اس تعلق سے قیادت وبصیرت ہماری ملی تاریخ کاایک ایساروشن باب ہے کہ جس پرہم بجاطورپرفخرکرسکتے ہیں۔
۳ستمبر۱۹۳۹ء کوجنگ عظیم دوم کاآغازہواتوہندوستان کی تمام سیاسی جماعتیں انگریزسے تعاون یااس کی مخالفت کرنے کے بارے میں اس وقت تک کسی فیصلہ پرپہنچ نہ پائی تھیں لیکن سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ کی جماعت’’ مجلس احرار‘‘ہندوستان میں واحدسیاسی جماعت تھی جس نے معروف انگریزمصنف ڈبلیو سی اسمتھ کے الفاظ میں’’اس جنگ کوسامراجی جنگ قراردیتے ہوئے اس کے خلاف پہلی آوازبلندکی‘‘ سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ کی قیادت میں تحریک ِفوجی بھرتی بائیکاٹ کے اجراء کااعلان کیااوراحرارکے کوہِ ہمت رہنما وکارکن ڈیفنس آف انڈیاایکٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے جیلوں کوآبادکرنے لگے۔مجلس احرارنے فوجی بھرتی کی مخالفت میں ملک کے دیگرعلاقوں کے ساتھ ساتھ پنجاب کوبالخصوص اپنی جنگ مخالف سرگرمیوں کامرکزبنالیاتھا۔
پنجاب انگریزوں کیلئے بازؤئے شمشیرزن کادرجہ رکھتاتھااور سید عطا اللہ شاہ بخاریؓکے بقول :’’پنجاب کے بعض اضلاع کی مائیں فرنگیوں کیلئے ہی بچے جناکرتی تھیں‘‘۔یہی صورت حال دیگرصوبوں میں بھی کم وبیش موجودتھی۔بہرحال غلامی کے خمیرمیں گندھے ہوئے اس خطے میں انگریزکی مخالفت کرناموت کو دعوت دینے کے مترداف تھالیکن سید عطا اللہ شاہ بخاریؓاوران کے بہادررفقاء نے آزادیٔ ہندکیلئے جان کی بازی لگادی کیونکہ ان کے نزدیک ہندوستان کی آزادی سے برطانیہ کیلئے اپنی نوآبادیات پرزیادہ دیرتک قبضہ برقراررکھناممکن نہ رہ سکتاتھااورجس کی بدولت جزیرۃ العرب کاآزادہونایقینی تھا، لہٰذااُنہوں نے اپنی تمام ترقوت ہندوستان کی آزادی کیلئے جھونک ڈالی۔اپریل ۱۹۳۹ء کوپشاورمیں آل انڈیاپولیٹکل احرارکانفرنس منعقدکی گئی جس میں مجلس احرارکے بانی رہنمااورمفکرچوہدری فضل حق مرحوم نے جنگ عظیم دوم کے چھڑنے کی پیش گوئی کی تھی اورانگریزپرکاری ضرب لگانے کیلئے اپنی مستقبل کی پالیسی کااعلان کیاتھا۔
اسی کانفرنس میں طے شدہ لائحہ عمل کے مطابق ہی جنگ شروع ہونے کے صرف ایک ہفتہ بعدمجلس احراراسلام کی مجلس عاملہ نے برطانوی استعمارکوفوجی بھرتی نہ دینے کی تاریخی قراردادمنظورکی تھی۔اس قراردادکی روشنی میں سید عطا اللہ شاہ بخاریؓاوران کے عظیم رفقائے کارنے ہندوستان کے ہرمقام کے دورے کرنے کے علاوہ پنجاب میں فوجی بھرتی کے حامل اہم اضلاع سرگودھا،میانوالی،گجرات،اٹک،جہلم ،راولپنڈی وغیرہ میں اپنی تقاریرمیں فوجی بھرتی نہ دینے کاپیغام دیا جس کے نتیجے میں دورۂ کے اختتام پر انگریزاوراس کے کاسۂ لیس سرسکندرحیات کی یونینسٹ حکومت نے بوکھلاکرسید عطا اللہ شاہ بخاریؓکوگرفتارکرکے ان پررعایاکوحکومت کے خلاف بغاوت پراُکسانے کامقدمہ دائرکیا جس کی سزاپھانسی سے کم نہ تھی اوریہی انگریزاوراس کی ایجنٹوں کامقصودتھالیکن حکومتی مشینری کی مکمل پشت پناہی کے باوجودعدالت میں سی آئی ڈی کے سرکاری رپورٹرلدھارام کی صاف گوئی نے سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ کے حق میں پانسہ پلٹ دیااوروہ ۷جون ۱۹۴۰ء کوباعزت بری ہوگئے۔اس موقع پرجرمنی کے مختلف شہروں میںہوائی جہازکے ذریعے سید عطا اللہ شاہ بخاریؓکی تصاویرگرائی گئیں جس پرتحریرتھاکہ’’ ہندوستان کاسب سے بڑاباغی‘‘ جسے برطانوی حکومت ہرحالت میں پھانسی پرلٹکاناچاہتی تھی،وہ باعزت بری ہوگیا۔
غرض یہ کہ سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ نے انگریزاستبدادکے تناورشجرکی جڑوں کوکاٹنے والی تحریک میں ہراول دستہ کاکرداراداکیااورانہوں نے خوددسیوں تحریکیں چلائیں۔اللہ نے انہیں خطابت کابے تاج بادشاہ بنایاتھااورانہوں نے اپنی اس بے نظیرصلاحیت کے ذریعے ہندوستان کے لاکھوں افرادکے قلوب واذہان سے انگریزی حاکمیت کاخوف کھرچ ڈالااور انہیں آزادی کے مفہوم ومعنی سے آشناکرکے انہیں تحریک آزادی میں شمولیت پرآمادہ کیا۔سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ کی انگریزی استعمارسے نفرت کایہ عالم تھاکہ نجی محفل ہویااجتماع عام،ان کے ’’لعنت برپدرفرنگ‘‘کے نعرۂ رستاخیزسے درودیوارکانپ اٹھتے تھے۔وہ فرمایاکرتے تھے:
’’میں ان سؤروں کاریوڑچرانے کوبھی تیارہوں جوبرٹش امپیریلزم کی کھیتی ویران کرناچاہیں ۔میں کچھ نہیںچاہتا،میں ایک فقیرہوں ، اول اپنے ناناﷺکی سنت پرکٹ مرناچاہتاہوں ، دوم اگرکچھ کرناچاہتاہوں تواس ملک سے انگریزکامکمل انخلاء میری دو قلبی خواہشیںہیں۔میری زندگی میں یہ ملک آزاد ہوجائے یاپھرمیں تختۂ دار پر لٹکا دیا جاؤں۔ میں ان علمائے حق کاپرچم لئے پھرتاہوں جو۱۸۵۷ء میں فرنگیوں کی تیغ بے نیام کاشکارہوئے تھے۔ رب ذوالجلال کی قسم مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیںکہ لوگ میرے بارے میں کیاسوچتے ہیں؟لوگوں نے پہلے ہی کب سرفروشوں کے بارے میں راست بازی سے سوچاہے؟وہ شروع سے تماشائی ہیں اورتماشہ دیکھنے کے عادی ہیں۔میں اس سرزمین پرمجدّدالف ثانی کاادنیٰ سپاہی ہوں ،شاہ ولی اللہؒ اورخاندان ولی اللہٰی کامبلغ ہوں، سیداحمد شہیدؒ کا نام لیوااورشاہ اسماعیل شہیدؒ کی جرأت کاپانی دیواہوں۔اُن پانچ مقدمہ ہائے سازش کے پابہ زنجیرعلمائے امت کے لشکرکاایک خدمت گزارہوں جنہیں حق کی پاداش میں عمرقیداورموت کی سزائیں دی گئیں ۔ہاں!ہاں،میں انہیں کی نشانی ہوں،انہی کی بازگشت ہوں۔میری رگوں میں خون نہیں ،آگ دوڑتی ہے۔میں علی الاعلان کہتاہوں کہ مولاناقاسم ناتوتوی ؒکاعلم لے کرنکلاہوں۔میں نے شیخ الہندؒکے نقش قدم پرچلنے کی قسم کھائی ہے۔میں زندگی بھراس پرچلتارہاہوں اور اسی راہ پرچلتارہوں گا۔میراس کے سواکوئی مؤقف نہیں،میراایک ہی نصب العین ہے ،برطانوی سامراج کی لاش کوکفنانااوردفنانا‘‘۔
خطابت کے میدان میں سید عطا اللہ شاہ بخاری ؓ کا ایساتہلکہ تھاکہ کئی غیرمسلم ان کی تقریرسن کرمسلمان ہوگئے اورحاضرجواب ایسے کہ ایک مرتبہ ایک مخالف نے الزام لگاتے ہوئے سوال کیاکہ حضرت آپ انگریزکو(Show) تماشہ دکھاتے ہیں،آپ نے فی البدیہہ جواب دیتے ہوئے کہاکہ میں انگریز کو ’’شو‘‘ نہیں بلکہ اپنا ٹوٹا ہوا ’’شُو‘‘ (جوتا) دکھاتا ہوں۔ ایک مخالف نے پوچھاکہ ’’زندگی کیسی گزری؟‘‘آپ نے جواب دیاکہ آدھی جیل میں اورآدھی ریل میں !ایک شخص کہنے لگاکہ شاہ جی!کیامردے سنتے ہیں؟توشاہ جی فوری مسکراتے ہوئے جواب دیاکہ بھائی میری بات توزندہ نہیں سنتے ،مردہ کی کیابات کریں۔ایک دفعہ علی گڑھ پہنچے ،بعض طلباء نے شاہ صاحب کوتقریرنہ کرنے دینے کاپہلے سے پروگرام بنارکھاتھا۔شاہ صاحب جونہی اسٹیج پرپہنچے توطلباء نے شورمچاناشروع کردیا۔شاہ صاحب نے بڑی نرمی اورعاجزی سے طلباء سے کہاکہ میری ایک بات سنو،میں بہت لمباسفرکرکے آپ سے ملنے کیلئے آیاہوں، چلوقرآن کاایک رکوع ہی سن لوتوطلباء کی اکثریت نے رضامندی کااظہارکردیا۔ شاہ صاحب نے انتہائی دل سوزی سے جب قرآن پڑھناشروع کیاتو گویامجمع دم بخودہوگیا۔جب تلاوت ختم کی توفرمایاکہ اس رکوع کاترجمہ بھی سن لو۔طلباء قرآن سن کراس قدرمسحوراورمبہوت تھے کہ شاہ صاحب نے دوگھنٹے تک خطاب فرمایااوروہی طلباء شاہ ساحب سے اپنے نارواسلوک پراپنی ندامت کااظہارکررہے تھے۔
ربّ ذوالجلال نے سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ کی قربانیوں کاصلہ ان کودنیامیں بھی دیاکہ انہوں نے انگریزکوملک چھوڑتے دیکھااورہندوستان۱۹۴۷ء کوفرنگی کے پنجہ استبدادسے آزادہو گیا۔ہندوستانی عوام نے غلامی کے منحوس سائے چھٹ جانے کے بعدآزادفضاؤں میں سانس لیا۔احراررہنماؤں کی نگاہِ بصیرت کے عین مطابق ہندوستان کی آزادی کے بعدبرطانیہ کی اپنی نوآبادیوں پرگرفت ڈھیلی پڑنی شروع ہوگئی اورایک ایک کرکے مسلم ممالک آزادہوتے چلے گئے۔اگرہندوستان آزادنہ ہوتاتوعالم ِاسلام کی غلامی کادورجانے کتناطویل ہوجاتا!بلاشبہ یہ کارنامہ ہندوستان کی حریت پسندجماعتوں اوربالخصوص احرارکے قائدامیرشریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؓجیسے عظیم المرتبت زعماء کے سرہے جنہوں نے غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں حریت فکروعمل کے چراغ روشن کئے اورملت اسلامیہ کوآزادی کی بہاروں سے سرفرازکرنے میں مجاہدانہ کرداراداکیا۔
سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ جن کٹھن حالات میںناگریزاستعمارسے نبردآزماہوئے،ان جاں گسل حالات کے تصورسے ہی دل بیٹھ جاتاہے۔عہد ِحاضرمیں دنیابھرکے مسلمان جن پرآشوب حالات میں مبتلاہیںاورجس طرح امریکی استعمارکی چیرہ دستیوں کے نرغے میں آئے ہوئے ہیں،اِس صورتحال میں عالم اسلام کے رہنماء اورحکمران اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے امریکاکی دہشت گردی کے خلاف ڈٹ جانے کی بجائے جس کوتاہ ہمتی اوربزدلی کے ساتھ امریکاپرہی تکیہ کرتے ہوئے اس کی فرعونیت کے آگے جھکتے چلے جا رہے ہیںاوراپنے ساتھ ملت اسلامیہ کواندھیروں کی منزل کاراہی بنارہے ہیں،اُسے دیکھتے ہوئے امیرشریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ جیسے مردِ مجاہدکی یادتڑپاکررکھ دیتی ہے کہ جنہوں نے موجودہ حالات سے کئی گنابدترحالات میں بھی برطانوی امپریلزم کاجی داروں کی طرح مقابلہ کرکے انہیں ہندوستان سے چلتاکیاتھا۔آج سے ۶۶برس قبل امیرشریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ نے اپنے فرزندحضرت مولاناسیدابوذربخاری کوجونصیحت فرمائی تھی اسے آج بھی پیش نظررکھتے ہوئے پاکستان اورعالم اسلام کے استحکام ،تعمیروترقی اوراپنی قوم کی تربیت کی بنیادیں استوارکی جاسکتی ہیں۔امیرشریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ نے فرمایا تھا:
’’میں نے پوری دنیاکی تاریخ اورحالات پرغورکیاتومجھے تاریخ انسانیت میں خدا،رسولؐ ،امت رسولؐ اورپوری دنیاکے سچے مسلمانوں کافرنگی سے بڑھ کراوراس سے بدترکوئی دشمن نظرنہیں آیا۔فرنگی یااس کاکوئی دوست غلافِ کعبہ کالباس پہن کراورچوبیس گھنٹے زم زم سے غسل کرکے باوضواورمطہررہنے والابھی اس شکل میں تمہارے پاس آئے،اگرمیرے تخم میں سے ہو اورحلالی ہوتواس پربھی اعتمادنہ کرنا۔تم نہیں جانتے :عدواللہ،عدورسولُ اللہ ،عدوالقرآن،عدوالمسلمین ،عدوالاسلام فرنگی سے بڑھ کرنہ کائنات میں ہوا،نہ اب ہے ،نہ آئندہ کبھی ہوگا۔‘‘
قیام پاکستان کے بعدشاہ جی حکمرانوں کی وعدہ خلافی اوردین مخالف روّیوں سے بہت آزردہ دل تھے ۔کسی نے سوال کردیا:شاہ جی!کیاآپ اب ان حکمرانوں کے خلاف جدوجہدکریں گے؟فرمایا’’بھائی سب کچھ قصہ ٔماضی بن چکا،ہم توعمرکے عہدآخرمیں ہیں،بڑھاپاشروع ہوکرجوان ہوچکاہے،بالوں میں سپیدی آگئی ہے،سفرایک تھا،منزلیں کئی، بعض منزلوں پررُکناپڑا،بعض جگہ ٹھہرناپڑا،کچھ دیرسستائے،تلوؤں کوسہلایا۔آہوں اورکانٹوں میں معانقہ ہوچکاتوچلنے لگے،پھرچلتے ہی رہے،حتیٰ کہ ایک رات بیت گئی،دن چڑھا سورج نے شعاعوں کاچمن آراستہ کیا،غنچوں کاچہرہ مسکرااٹھا،آنکھ اٹھاکردیکھاتوگردوپیش وہی رات کاسناٹاتھا۔‘‘ ؎
یہ داغ داغ اجالایہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظارتھاجس کایہ وہ سحرنہیں
امیرشریعت سید عطا اللہ شاہ بخاریؓ نے۱۹۴۴ء میں مجلس احرارمیں اپنے خطاب میں اپنے ساتھیوں کی ہمت بندھاتے ہوئے فرمایا:’’حضرت آدم علیہ السلام سے پیغمبرآخرالزمان حضرت محمدﷺتک کوئی ایسانبی نہیں آیاہے جس نے اپنی تعلیمات میں جلاپیداکرنے کیلئے اپنے دورکے کسی انسان کے سامنے زانوئے تلمیذتہ کیاہوکیونکہ نبی اوررسول براہِ راست اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کرتے ہیں۔نبی کی اللہ تعالیٰ خودرہنمائی فرماتے ہیں۔انبیاء کرامؑ بہت بہادربھی ہوتے ہیں اورمعصومعن الخطاء بھی۔آپ انبیاء علیہ السلام ؑکے احوال پرنگاہ ڈالئے ،جو نبی دنیامیں تشریف لاتاہے،اس کے ایک ہاتھ میں الہام الٰہی کی کڑکتی بجلیاں ہوتی ہیںاوردوسرے ہاتھ میں تلوارزودکاشانۂ باطل پربرق بن کرگرتاہے۔اس کے جلومیں سمندروں کا شوراورطوفانوں کازورہوتاہے۔اس کی رفتارفرمان رواؤں کادل دھڑکادیتی ہے اوراس کی ایک للکارسے کائنات کادل دہل جاتاہے‘‘ ؎
جوچٹانوں میں راہ کرتے ہیں،منزلیں ان کوراہ دیتی ہیں
اہل ہمت کے آشیانوںکو،بجلیاں بھی پناہ دیتی ہیں