گردش لیل ونہار کے ساتھ ایک بار پھراگست کا مہینہ وارد ہو چکا ہے۔ یہی وہ مہینہ ہے جس کی ۱۵تاریخ کو ہندوستان کو انگریزوں سے آزادی نصیب ہوئی ۔آزادی کسی بھی قوم وملک کے لئے ایک عظیم نعمت ہوتی ہے جس کی بدولت قوم وملک ترقی کرتی ہے۔ آج تحریک آزادی ٔ ہند کی خوشگوار فضا کے برعکس ملک میں حالات کچھ اس طرح کے بنائے گئے ہیں کہ پیار ومحبت اور بھائی چارگی والے اس دیس میں فرقہ پرست عناصر سرگرم ہوکر وطن عزیر کی عزت و عظمت خاک میں ملادینا چاہتے ہیں اوریہاں کی گنگاجمنی تہذیب کو ختم کردینا چاہتے ہیں۔ ملک میں وقفے وقفے سے رونما ہونے والے فرقہ وارانہ واقعات صرف اور صرف فرقہ پرستوں کی زہریلی اور گندی سیاست کانتیجہ ہیں ،ان فرقہ پرستوں کی کارستانیوں سے ہی ملک میں حالات معمول پر نہیں آپاتے۔ موقع کی مناسبت سے ہم تاایخ آزادیٔ ہند کے اوراق کا سرسری مطالعہ کریں تاکہ یہ جان لیں کہ اس ملک پر جتنا اکثریت کا حق ہے، اسی کے مساوی تمام اقلیتوں کا حق مسلّم ہے ۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ قانون آزادیٔ ہند Indian Independence Act1947برطانوی پارلیمنٹ کا منظور کردہ ایک قانون تھا جس کے تحت آزادی ا ور تقسیم ہند عمل میں لائی گئی۔ اس قانون پر برطانیہ میں حکومتی تصدیق ۱۸؍ جولائی ۱۹۴۷ء کو ثبت ہوئی اور دونئے ممالک ہندوستان ۱۵؍اگست کو اور پاکستان ۱۴؍اگست کو عالم وجود میں آگئے۔ یہ الل ٹپ نہ ہو ابلکہ اس کے پیچھے تاریخ کا ایک اٹوٹ سلسلہ ہے ۔ انگریزوں کے خلاف ہندوستانیوں کی پہلی مسلح جنگ ۱۹۵۷ء میں شروع ہوئی ۔اس جنگ آزادیٔ ہند جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیا ، کے عموما دوسبب بیان کیے جاتے ہیں ۔اولاً یہ کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہندوستان کے تمام صوبے اور کئی ریاستیں یکے بعد دیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لی تھیں جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کے دل میں کمپنی کے متعلق شکوک پیدا ہوگئے۔ دوم یہ کہ ان دنوں جو کارتوس فوجیوں کو دئے جاتے تھے وہ عام خیال کے مطابق خنزیر اور گائے کی چربی سے آلودہ تھے اور انہیں بندوقوں میں ڈالنے سے بیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتا تھا۔ ہندو اور مسلمان فوجی سپاہیوں نے اسے مذہب کے منافی سمجھا جس سے ان میں کھلبلی مچ گئی ۔جن سپاہیوں نے ان کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کردیا ،ان کی فوجی وردیاں اُتار کر بیڑیاں پہنادی گئیں ۔ حالانکہ ان قیدی سپاہیوں میں بہت سے ایسے تھے جنہوں نے انگریزوں کی خاطر بڑی قربانیاں دی تھیں ۔ ۹؍مئی اٹھارہ سوستاون کو میرٹھ کی چھاؤنی میں تیسری لائٹ کیولری کے تقریبا پینتیس سپاہیوں کی اسی ’’جرم ‘‘ میں برسرعام وردیاں اُتاردی گئیں۔ ان کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں اور انہیں دس سال کی قید بامشقت کی سزاسنائی گئی۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ انہوں نے ایسے کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کردیا تھا جن میں مبینہ طور پر گائے اور سور کی چربی ملی ہوئی تھی۔ اس اشتعال انگیزواقعہ پر سراپا احتجاج ہوکر ہوکر قیدی سپاہیوں کے دوسرے ساتھیوں نے اگلے روز دس مئی کو سنٹ جانس چرچ میں گھس کر متعدد انگریز افسروں اور ان کے کنبوں کو انتقاماً موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جلد ہی اس بغاوت نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور رات ختم ہوتے ہوتے متعدد فرنگی موت کی نیند سوچکے تھے۔ باغیوں نے یہاں سے دلی کا رُخ کیا جو یہاں سے چالیس میل دور تھی ، وہ اگلے روز دلی پہنچ گئے۔ انہوں نے دریائے جمنا پر بنے کشتیوں کے پل کو پار کیا اور کلکتہ دروازہ سے فصیل بند شہر میں داخل ہوئے، دوپہر ہوتے ہوتے متعدد انگریز اور دیگر یورپی ان کی بندوقوں اور تلواروں کا نشانہ بن چکے تھے۔ ۱۲؍ اور ۱۶؍ مئی کے درمیان ان باغیوں نے عملًا لال قلعہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا ،لال قلعہ مغل تہذیب اور ثقافت کی علامت تھا مگر اب اس کی وہ سیاسی حیثیت ختم ہو چکی تھی جو کبھی اسے حاصل تھی۔ یہاں بہادر شاہ ظفر کہنے کو تخت نشین تھے مگر ان کی سلطنت محض قلعہ کی فصیلوں تک محدود تھی، وہ بیاسی سال عمر کے ہوچکے تھے۔
غرض جنگ آزادیٔ ہند کا آغاز ۱۸۵۷ء میں بنگال میں ڈمڈم اور بارک پور کے مقامات پر ہوا جہاں دیسی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کے استعمال سے انکار کردیا جن میں ان کے خیال کے مطابق خنزیر اور گائے کی چربی لگی ہوئی تھی ۔انگریز وں نے ان سپاہیوں کو غیر مسلح کرکے فوجی ملازمت سے برخاست کردیا۔ لکھنؤ میں بھی یہی واقعہ پیش آیا ،برخاست شدہ سپاہی ملک میں پھیل گئے اور فوجوں کو انگریزوں کے خلاف اُبھارنے لگے ۔۹؍مئی ۱۸۵۷ء کو میرٹھ میں ایک رجمنٹ کے باغی سپاہیوں کو دس سال قید با مشقت کی سزادی گئی اور جس طریقے سے یہ حکم سنایا گیا وہ تہذیب سے گراہواتھا۔ ا س کے ردعمل میں دیسی سپاہیوں نے انگریز افسروں کو ہلاک کرکے ساتھی قیدیوں کو آزاد کرالیا اور یہ سب میرٹھ سے دہلی کی طرف بڑھنے لگے۔ میرٹھ کے سپاہیوں کی دہلی میں آمد سے دہلی کی فوجیں بھی بگڑ گئیں اور دہلی کے مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کا اعلان کردیا ۔اس اعلان کے بعد بغاوت کی آگ دور دورتک پھیل گئی ۔اُدھر انگریز جنرل نکلسن نے انگریز اور سکھ فوجوں کی مدد سے دہلی پر قبضہ کرکے بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون جلاوطنی پر بھیج دیا۔ آخری مغل تاجدار کو گزر بسر کر نے کے لئے چھ سوروپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا گیا جس کو لینے سے اُ س نے انکار کردیا۔وہ چارسال نہایت عسرت وتنگ دستی کے ساتھ گذارکر ۷؍نومبر ۱۸۶۲ء کو زبان حال سے یہ کہتے ہوئے راہی ملک بقا ہوئے ؎
کتنا بدنصیب ہے ظفرؔ دفن کے لئے
دوگز زمیں بھی نہ مل سکی کوئے یار میں
ادھر ہندوستان میں بہادر شاہ ظفرؔ کے دوبیٹوں اور ایک پوتے کو گولی سے اڑادیا گیا ۔دہلی پر انگریزوں کا قبضہ ہوجانے سے ہر جگہ تحریک آزادی کی رفتار مدہم پڑ گئی۔ مارچ۱۸۵۸ء میں لکھنؤ پر دوبارہ انگریزوں کا قبضہ ہوگیا ۔دہلی، لکھنؤ، کانپور، جھانسی کے علاوہ چند اور مقامات بھی انگریزوں کے تصرف میں آگئے۔ ان دنوں جنگ آزادی کا نعرہ ’’انگریزوں کو ہندوستان سے نکال دو‘‘ الاپنے میں وہ تمام لوگ شامل ہوگئے جنہیں انگریز سے نقصان پہنچا تھا۔ یہ مختلف المزاج عناصر ایک مشترکہ دشمن یعنی انگریز کے خلاف یک جان ودوقالب ہوگئے ،اگرچہ وہ ابھی قومی تحریک چلانے کے بنیادی تصورات سے ناآشنا تھے۔ بہادر شاہ ظفرؔ جس کی بادشاہت کا اعلان باغیوں نے کردیا تھا ،نہ بادشاہت کی صلاحیت رکھتا تھا اور نہ باغیوں کی مخالفت کرنے کی طاقت۔
علماء کا فتویٰ :ملک کے طول عرض میں جابجاوعظ وتقریر کی شکل میں انگریز کی مخالفت شروع سے ہورہی تھی مگر جنرل بخت خان کے دہلی پہنچنے کے بعد دہلی کے مشہور و مقبول علماء نے ایک تاریخی فتویٰ جاری کیا جس میں صورت حال کی نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئے جہاد کو فرض عین قراردیا گیا تھا۔ اس فتویٰ پر ۳۱؍علماء کے دستخط اورمہریں ثبت تھیں۔ اس فتویٰ کے نتیجے میں مسلمان اس جنگ کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے لڑتے رہے۔
نتائج: دہلی پر انگریز نے دوبارہ فتح پائی تو اس کے فوراًبعد انگریز فوج نے شہری آبادی سے خوف ناک انتقام لیا، لوگوں کو بے دریغ قتل کیا گیا، سینکڑوں کو پھانسی پر چڑھادیا گیا، ہزاروں نفوس گولیوں سے اڑادیے گئے، ان میں بے گناہ ہندو اورمسلمان شامل تھے جن میں کئی ایک کی گردنیں تلواروں سے اُڑادی گئیں ، لیکن شومی ٔ قسمت سے جلد ہی انگریزی فوج کے کئی مقامی دستوں نے اس قتل وغارت میں فرقہ وارانہ رنگ بھر دیا، نتیجہ یہ کہ مسلمان چن چن کر قتل کئے گئے ،بہت سارے مقتد راور متمول مسلمانوں کی جائدادیں تباہ کی گئیں کہ وہ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئے ۔ان ہولناک مظالم کے درمیان اگست ۱۸۵۸ء میں برطانوی پار لیمنٹ نے اعلان ملکہ و کٹوریہ کے ذریعے ایسٹ انڈیا کمپنی کا خاتمہ کرکے ہندوستان کو تاج برطانیہ کے سپرد کردیا ۔اس جنگ کے بعد خصوصاً مسلمان زیر عتاب آئے، جب کہ ہندؤوں نے مکمل طور پر انگریز سے مفاہمت کرلی۔ انتقاماً مسلمانوں پر جدید علم کے دروازے بند کر دئے گئے ، خود مسلمان بھی نئی دنیا سے دور ہوتے چلے گئے۔ ایسے میں سرسید جیسی شخصیت سامنے آئی جس نے جنگ آزادیٔ ہند کی وجوہات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور انگریزوں پر زور دیا کہ وہ ہندوستانیوں میں موجود احساس محرومی کو دور کرکے ہی یہاں حکومت کرسکتا ہے ۔سرسید نے مسلمانوں میں تعلیمی انقلاب لانے کے لیے کالج اور یونیورسٹی قائم کیں ۔ پہلی جنگ آزادی میں ہندو اور مسلمان مل کر ہندوستان کے لیے لڑے تھے لیکن انگریز کی سازش اور کچھ ایک ہندؤوں کے ناقابل فہم رویے اورت ناعاقبت اندیشی سے مسلمان اور ہندو الگ الگ قوموں کی صورت میں بٹ گئے۔ یوں پہلی مرتبہ دوقومی نظریے کی بنیاد پڑی ۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میںمزاحمت کا ر ایک منظم انگریز فوج کے خلاف بڑی بہادری سے لڑے تھے لیکن بہت جلد کیپٹن ولیم ہڈسن نے کسی مزاحمت کے بغیر بہادر شاہ ظفر کو ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار کیا ۔ہڈسن نے ان کے دوبیٹوں اور ایک پوتے کو خونی دروازے کے قریب گولی ماردی۔ بہادر شاہ ظفر کو پہلے قلعہ میں رکھا گیا اور بعدمیں چاندنی چوک کے ایک مکان میں منتقل کردیا گیا۔ اس پر جنوری اٹھارہ سو انسٹھ میں لال قلعہ ہی کے دیوان خاص میں ایک فوجی عدالت میں دومہینہ تک مقدمہ چلتا رہا اور ۲۹؍ مارچ کو’’ قصور وار‘‘ قرار دے کر جلا وطنی کی سزاسنائی گئی۔ ماہ اکتوبر میں وہ اپنی بیگم زینت محل اور ایک بیٹے جواں بخت کے ہمراہ رنگون روانہ ہوئے جہاں سات نومبر اٹھارہ سو باسٹھ کو اس کا انتقال ہوگیا ۔ اٹھارہ سوستاون کی بغاوت جسے پہلی جنگ آزادی کہا جاتا ہے، کاناکام ہونا یقینی تھا کیوں کہ اس کے پس پردہ کوئی مثبت فکر، منظم حکمت عملی اور سیاسی نظام کار فرما نہیں تھا۔ یہ کوئی باضابطہ تحریک بھی نہ تھی بلکہ باغیوں کو صرف ایک مقصد یعنی غیر ملکی اقتدار کے خاتمے کی خواہش نے متحد کررکھا تھا۔ انہوں نے اپنے وقت کے اقتصادی اور سماجی حالات میں اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا ایک خواب ضرور دیکھا تھا جس کے لیے انہوں نے جان کی بازی لگادی تھی۔
۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء کو ہندوستان آزاد ہوا ۔اس آزادی میں ہندو، مسلم، سکھ ،عیسائی اور علمائے اسلام سب نے مل کر اپناحصہ ڈالا اور قر بانیاں دے دے کر ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا ۔تحریک آازدی ٔ ہند میں خصوصاً علمائے اسلام نے آزادی کی بلند وبالا منزل پانے کی خاطر اپنے جان ومال کو قربان کیا، پھانسی کے پھندوں کو فخراً چومامگرانگریزوں کے خلاف علم بغاوت کو کبھی سرنگوں نہ ہونے دیا ۔ انہیں علماء کی شہادتوں اور بے لوث خدمات کی وجہ سے ہندوستان آزاد ہوا۔ یہ آزادی عوام کی مردانہ وار مزاحمت، اللہ تعالیٰ کی نصرت ،علمائے اسلام کی قربانیوں کی مرہون ِ منت تھی کہ وہ خواب شرمندہ ٔ تعبیر ہو ا جو ہندوستانی عوام اور علمائے اسلام نے جیلیں کاٹتے ہوئے ، کالا پانی کی سختیاں جھیلتے ہوئے، پھانسی کے پھندے چومتے ہوئے دیکھے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ فرنگیوں نے دہلی کی جامع مسجد سے لے کر پشاور تک ان کی گردنیں کاٹ کر پیڑوں پر لٹکائیں، تب جاکر من کے کالے انگریزوں کو ملک سے بھگایا گیا ۔ ستم ظریفی یہ کہ آ ج جو لوگ مسلمانوں کے درپئے آزار ہیں، وہ تحریک آزادی ٔ ہند کے دوران چین اورآرام سے انگریزوں کی غلامی اور جی حضوری میںزندگی بسر کر رہے تھے ۔ یادکیجئے جب ہندوستان پر مغلیہ سلطنت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا، اس وقت دور بین علمائے اسلام لوگوں کو آزادی کی تحریک میں شامل کرنے کی جدوجہد میںپیش پیش تھے ،وہ لوگوں کو انگریز کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے رات دن باخبر رکھ کر تحریک آزادی کو اپنے خون ا ور پسینہ سے سینچ رہے تھے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ولی اللہٰی خانوادہ تھا جو انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے کر جذبہ ٔ آزادی کو فروزاں کررہاتھا ۔ اگر وہ حق پرست علماء چاہتے تو رائے بہادر اور نواب بہادر کا سرکاری خطاب حاصل کرکے عیش وآرام کی زندگی جی سکتے تھے۔ بہرصورت انگریزوں سے آزادی کی جنگ میں علمائے اسلام کی قربانیاں تاریخ کے سنہری اوراق میں درج ہیں ۔لہٰذا تمام باشندگانِ ہند سے پر خلوص درخواست ہے کہ وہ تاریخ کے ان زریں اوراق کی لاج رکھتے ہوئے نفرت ،عداوت اور تعصب پرستی چھوڑ کر ۱۹۴۷ء سے ماقبل والا اتحاد و اتفاق پیدا کرکے ملک کی ترقی اور بھلائی کے لئے خود کووقف کر یں اور کبھی فرقہ پرستوں کے جھانسے میں نہ آئیں۔ یہ ہم سب پر اپنے اپنے دائرے میں ملک کاحق ہے جس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔
آخری بات:جس ملک کو غلامی کے خونین پنجوں سے چھٹکارادلانے میں دیگر اقوام وسماجوں سے کہیں زیادہ قربانیاں مسلمانوں نے دی ہیں کہ ہندوستان کی تاریخ کالفظ لفظ اورحرف حرف اس کی شہادت دے رہا ہے، ان کو بلاوجہ ستانا اور تنگ طلب کر نا قہر الہیٰ کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ جن محب وطن لوگوں نے تقسیم کے وقت اس ملک کی خاک کوترجیح دی اور اس مٹی سے اپنی عقیدت ومحبت کا عملی ثبوت پیش کیا ، آج وہ اُن مٹھی بھر منفی ذہنیت اور زہر یلی فکر کے حامل لوگوں کے ہاتھوں جن کا ملک کی آزادی ا ورتعمیر وترقی میں کوئی رول نہیں تھابلکہ جن کے پیش رؤں نے انگریزوں کا ساتھ دے کر وطن کے ساتھ غداریاں اور بے وفائیاں کیں ، کہ وہ آج مسلمانوں سے ملک وقوم سے وفا کی سند مانگیں ؟ ان سے یہی کہا جاسکتا ہے ؎
وہ اپنا بھی منہ دیکھ لیں آئینے میں
جوہم سے وفا کی سند مانگتے ہیں
وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے باشعور براردان ِ وطن، دانشور طبقہ اور انسانیت کے خیرخواہ ہند کی دوسری بڑی اکثریت یعنی مسلمانوں پر شب وروز ہونے والے مظالم و عتاب کی روک تھام میں کلیدی کردار اداکریں تاکہ ملک انار کی کاشکار ہو نے سے بچ جائے ۔ فی الوقت مصائب وشدائد سے دوچارمظلومین کے دل میں سلگتے آتش فشاں سے کہیں صدیوں پر محیط بھائی چارہ خاکستر نہ ہو اور ملک سکھ شانتی اور گنگا جمنی تہذیبی دھارے سے جدا نہ ہوجائے، ہم سب کو اپنے اپنے دائرے میں تحریک آزادی ٔہند کے رہنما اصولوں پر کاربند ہونا چاہیے ؎
مظلوموں کی لاشیں بھی ہوں بنیاد میں جس کی
تادیر کوئی ایسی قیادت نہیں چلتی
لمحوں میں بکھر جاتا ہے صدیوں کا تکبر
فرعون کی موسیٰ ؑ پر حکومت نہیں چلتی
رابطہ نمبر : 9682327107/9596664228
پونچھ ( جموں وکشمیر(