عارف شفیع وانی
ملک کا دارالحکومت نئی دہلی گزشتہ ایک دو ہفتوں سے شدید فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس لینے کے لئے ہانپ رہا ہے۔ صورتحال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ تعمیراتی سرگرمیاں اور پرائمری سکول بھی بند ہو چکے ہیں۔3 نومبر کو ہوا کی کوالٹی لیول نے 500 کے پیمانے پر ‘400’ کےخطرے کے نشان کو عبور کیا اورایئر کوالٹی انڈیکس( AQI )کئی جگہوں پر خطرناک سطح تک پہنچ گیا۔سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ کے مطابق دہلی این سی آر کے علاقے میں ہوا کا معیار بھی ’شدیدخراب‘ تھا جس میں غازی آباد میں 410، گروگرام میں 441، نوئیڈا میں 436، گریٹر نوئیڈا میں 467، اور فرید آباد میں 461کاایئر کوالٹی انڈیکس( AQI )درج کیاگیا تھا۔ ماہرین صحت کے مطابق ایک صحت مند فرد کے لئے50کاایئر کوالٹی انڈیکس( AQI )کم سے کم ہونا چاہئے اورحالیہ سطح صحت کے لئے نقصان دہ تھی۔ 2 نومبر کو دہلی میں PM2.5 آلودگی کا 25 فیصد حصہ دھواں تھا۔
دہلی کی صورتحال نے نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) کو متاثرہ ریاستوں کے چیف سکریٹریوں سے جواب طلب کرنے پر مجبور کیا ہے اور انہیں ہدایت دی ہے کہ وہ فوری تدارک کی کارروائی کریں اور ٹریبونل کے سامنے کی گئی کارروائی کی رپورٹ پیش کریں۔گزشتہ ہفتے کے روز، سری لنکا نے شہر میں شدید فضائی آلودگی کی وجہ سے ٹیم کے ڈاکٹروں کے مشورے کے بعد دہلی میں اپنا تربیتی سیشن منسوخ کر دیاتھا۔ ہوا کے معیار پر آئی سی سی کے رہنما خطوط کے مطابق، زیادہ تر معاملات میں 200 سے کم کاایئر کوالٹی انڈیکس( AQI)ریڈنگ کھیل کے لئے محفوظ سمجھا جاتا ہے۔
جموں و کشمیر حکومت اور سٹیک ہولڈروں کو دہلی میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے سبق سیکھنا چاہئے۔ ماحول کے لحاظ سے نازک جموں و کشمیر کو خاص طور پر سردیوں میں فضائی آلودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ کوئلہ بنانے کے لئے پتوں اور لکڑیوں کا جلاناہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ وادی کشمیر پیر پنجال اور گریٹر ہمالیائی پہاڑی سلسلوں سے جڑی ہوئی ہے اور یہ فضائی ذرات کو فرار کا راستہ تلاش کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ خزاں اور سردیوں کے آخر میں درجہ حرارت کاگر جانا، ہوا کے عمودی اختلاط کو محدود کرتا ہے اور کہرے کی تعمیر کو متحرک کرتا ہے جس میں بنیادی طور پر دھول (PM10 اور PM2.5) اور دھواں (سیاہ کاربن) ہوتا ہے۔
اس سال 9جنوری کو سری نگر کی ہوا میں PM2.5 کا ارتکاز28.2 µg/m³ تھا، جو کہ عالمی ادارہ صحت کی ہوا کے معیار سے 5.6 گنا زیادہ ہے۔ یہ مسئلہ ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اینٹوں کے بھٹوں، سیمنٹ پلانٹس اور دھول بھری سڑکوں سے ہونے والی آلودگی کی وجہ سے مزید بڑھ گیا ہے۔ فضائی آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح نے نیشنل ایروناٹکس اینڈ سپیس ایڈمنسٹریشن (NASA)، امریکہ کے سول سپیس پروگرام اور 2022 میں خلائی تحقیق میں عالمی رہنما کی توجہ مبذول کرائی۔ ناسا نے کہر ےسے چھپی وادی کشمیر کی ایک سیٹلائٹ تصویر جاری کی تھی۔
ناسا نے کہا تھا کہ ’’درجہ حرارت کاگرنا وادی کشمیر میں اکثر اس وقت ہوتاہے، جب سرد، گھنی ہوا آس پاس کے ہمالیہ سے نیچے آتی ہے اور گرم، نسبتاً کم گھنی ہوا کے نیچے پھنس جاتی ہے۔ سردیوں میں درجہ حرارت کا گرنا زیادہ عام ہے، جب دن چھوٹے ہوتے ہیں اور وادی میں برف پڑنے سے نچلی فضا میں ہوا کو گرم ہونے اور اوپری سطح کی ہوا کے ساتھ گھل مل جانے میں مدد ملتی ہے‘‘۔ناساکا کہنا ہے کہ وادی کشمیر میں درجہ حرارت کے گرنے کا ایک ضمنی نتیجہ کہرےکا جمائوہے جو ایک ایروسول مرکب ہوتا ہےجو کہ سموگ، دھوئیں اور دھول میں پائے جانے والے باریک ذرات پر مشتمل ہوتاہے۔ناسا کہتا ہے’’پھنسے ہوئے ایروسول آنے والی سورج کی روشنی کو جذب اور بکھیرتے ہیں، جس سے مرئیت کی ایک تہہ بن جاتی ہے۔ وادی کشمیر میں گزشتہ برسوں کے دوران سیٹلائٹ سینسر کے ذریعے کہرا بھی دیکھا گیا ہے۔ سری نگر شہر تصویر کے مرکز کے قریب کہرے کے نیچے واقع ہے۔ سری نگر وادی کشمیر کی سب سے بڑی میونسپلٹی ہے اور سموگ، دھویں اور انسانی وجہ سے پیدا ہونے والے دیگر ایروسول کا حصہ دار ہے۔بلیک کاربن (BC) کے نشانات، ہوا میں ذرات کا ایک جزو (PM) جو کاربن پر مشتمل مواد جیسے پٹرول اور کوئلے کے نامکمل دہن سے پیدا ہوتا ہے، کشمیر کے گلیشیئروں میں پایا گیا ہے۔
صحت کے ماہرین نے بھی جموںوکشمیرکے بگڑتے ہوئے ہوا کے معیار پر خطرے کی گھنٹی بجائی ہے۔ لانسیٹ کی ایک تحقیق کے مطابق، 2019 تک جموں و کشمیر میں سالانہ تقریباً 10ہزاراموات فضائی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔نیشنل کلین ایئر پروگرام (NCAP) کے تحت، سری نگر میں 33 کروڑ روپے کے منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے تاکہ 2025 تک PM10 کی سطح کو کم کیا جا سکے تاکہ سری نگر ضلع میں ہوا کے معیار کے انڈیکس کو بہتر بنایا جا سکے۔اس پروجیکٹ میں مغربی شاہراہوں اور ملحقہ علاقوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر شجرکاری/ لینڈ سکیپنگ کے ذریعے گرین زون بنانا، مرکزی راستوں پر شجرکاری، شہر کی بڑی سڑکوں کے درمیانی حصے اور مٹی کےپشتوں کو ہموار کرنا اور سری نگر شہر میں فواروں کی تنصیب شامل ہے۔
تاہم موسم گرما کے دارالحکومتی شہر میں زمین پر کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آتے۔ شہر کی بیشتر سڑکیں نکاسی آب کے پائپ بچھانے کے لیے کھودی گئی تھیں۔ ان سڑکوںپر بے ترتیبی سے بھرائی ہوئی تھیں اور گاڑیوں کے گزرنے کے بعد دھول ہوا کو اپنی لپیٹ میں لیتی تھی۔ ڈمپنگ کا مناسب نظام نہ ہونے کی وجہ سے پولی تھین سمیت کئی ٹن کچرا سڑکوں پر جلایا جاتا ہے جو فضائی آلودگی کا باعث بنتا ہے۔ آلودگی سے بچاؤ کے آلات نصب کرنے کے لئے میکڈم اور سٹون کریشر پلانٹس کیلئے کوئی ضابطہ نہیں ہے۔
بہت سے لوگ داچھی گام نیشنل پارک سے متصل کھریو۔کھنموہ علاقوں میں قائم سیمنٹ پلانٹس سے اخراج کی وجہ سے سانس اور دیگر صحت کی پیچیدگیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ فضائی آلودگی کی بڑھتی ہوئی سطح اور ماحول کے نازک علاقے میں پہاڑوں میں کھدائی کے کاموں نے خطرے سے دوچار ہانگل کو متاثر کیا ہے۔
فضائی آلودگی کو روکنے کے لئے انسدادکے اقدامات شروع کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ہمیں تازہ ہوا کے جھونکوں کیلئے ترسنے سے پہلے جاگنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ہمارا وجود اس ہوا پر منحصر ہے، جس میں ہم سانس لیتے ہیں۔ ہمیں اس صورت حال کو روکنا چاہیے جہاں ہمیں سانس لینے کے لئے آکسیجن سلنڈر اپنے ساتھ لے جانے پڑیں۔
(مضمون نگارانگریزی روزنامہ ’ گریٹر کشمیر ‘ کےایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)