عالمِ صہیونیت اس وقت شاداں ہے اس لیے کہ اُن کی فتوحات کا ایک باب تکمیل کو پہنچا ہے۔ مسجد اقصیٰ قبلۂ اول ان کے ہاتھ مدتوں پہلے آگیااور آج مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کو نماز تک کی اجازت نہیں۔ فلسطینی مسلمان پے درپے شہید کیے جا رہے ہیںاور نصف صدی سے زائد عرصہ سے اہل فلسطین نہتے ہوکر اپنے دفاع کی لڑائی خود لڑ رہے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد اسرائیل امر یکہ کی پشت پناہی میں ان پر مسلط ہے۔ اسرائیل کے آگے دبے ہوئے اپنے عیش و طرب میں مگن کسی مسلم ملک میں اہلِ فلسطین کی تائید وحمایت کی جرأت وہمت ہی نہیں۔ بیت المقدس اسلامی تاریخ کا عظیم باب ہے۔ اسے حضرت داؤد علیہ السلام نے فتح کیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر فرمایا۔ پھر اہل ِبابل اس پرقابض ہوئے۔ یہودیوں اور بعد کو یونانیوں نے قبضہ جمایا۔ رومی بھی قابض رہے اور ۱۲۳؍ قبل مسیح میں یہودیوں کا داخلہ یہاں ممنوع قراردیا۔عیسائی فرماں روا قسطنطین نے یہاں گرجا تعمیر کیا۔ ۶۳۷ء میں مسلمانوں نے رومیوں کو شکست دی۔ ۴۵۰؍سالوں تک یہ گہوارۂ امن بنا رہا۔ صلیبی جنگوں کے نتیجے میں رومن قیادت و عیسائی دنیا نے یلغار کر کے عربوں کو نکال دیا۔ پھر عثمانی ترکوں نے اسے واپس مملکت ِاسلامیہ میں شامل کیا۔بیت المقدس پہاڑی علاقوں میں آباد ہے۔ بحیرۂ روم کی سطح سے ۲۶۰۰؍ فٹ اور بحیرۂ مردار سے ۳۵۰۰؍ فٹ بلند ہے۔ بحیرۂ روم ۳۳؍ میل اور بحیرۂ مردار ۱۰؍ میل پر واقع ہے۔ یہ جزیرہ نما علاقہ ہے، یہاں کثیر زیارتیں ہیں۔ یہ شہر بار بار اُجڑا ہے پھر آباد ہوا ہے۔ اس کے باسی کبھی اُجاڑے گئے کبھی جلا وطن کیے گئے۔ یہاں تاریخ کے کئی ادوار گزرے۔ اللہ نے یہاںبہاریں عطا کیں۔ مقدس انبیائے کرام ؑ کے ذریعے اسے زینت بخشی۔حضرت داؤد علیہ السلام کے عہد مبارک میں یہ فتح ہو کر بنی اسرائیل کا مسکن بنا، حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے فصیل بند کیا اور جبلِ زیتون پر محل تعمیر فرمایا۔ان کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے عہد بادشاہت میں بیت المقدس میں ہیکل کی تعمیر کی اور اس میں تابوتِ سکینہ رکھا، جس میں تبرکات ومنسوباتِ انبیا ئے کرام ؑتھے۔اللہ نے بنی اسرائیل کو شوکت دی، بعد کو خدا کی نافرمانی کے سبب ان پر ذلت وخواری طاری ہوئی اور یہودیوں کا دور جاتا رہا۔بخت نصر شاہِ بابل (عراق) نے یہودیوں کی عہد شکنی و غدر سے تنگ آکر بیت المقدس پر حملہ کیا۔ ہیکل کو تباہ کیا، یہودیوں کا قتل عام کیا، اپناقبضہ جمانے بعد باقی ماندہ یہودیوں کو اسیر بنایا۔ انہیں بعد میںجلا وطن کر دیا، پھروہ دریائے فرات کے کنارے بابل میں آباد کیے گئے اور اس بستی کا نام تل ابیب رکھا گیا۔ اسرائیل کا موجودہ دارالحکومت تل ابیب اسی کی یاد میں ہے۔اللہ نے اپنے محبوب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے قدمِ ناز سے اسے برکت دی۔ شب معراج کومحبوب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بیت المقدس آمد ہوئی۔ انبیا ئے کرام ؑ کی امامت امام الانبیاء سیدالرسلین ؐ نے کی۔ سبحان اللہ! اس طرح مسلمانوں کی جبینِ عقیدت سوئے اقصیٰ جھکتی رہی ہے۔ یہ محبتوں کا قبلہ ارضِ اقدس ۶۳۷ء میں ایک مدت تک محاصرے کے بعد مسلمانوں کے حوالے ہوا۔ بیت المقدس کئی ناموں سے یاد کیا گیا۔ یہودی و عیسائی اسے یروشلم کہتے ہیں جس کے معنی ورثۂ امن بیان کیے جاتے ہیں۔ اسے Golden Cityبھی کہا جاتا ہے۔ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے اور مدھم روشنی یہاں کے سنہرے پتھروں کے مکانات سے مرتعش ہوتی ہے تو کرنیں پھوٹ پڑتی ہیں مگر یہاں امن کم ہی رہا۔ اسے مسلمان بھی مقدس مانتے ہیں اور یہود و نصاریٰ بھی۔ کثیر انبیائے کرام ؑ کے قدموں کی برکت سے یہ پاک زمین باغ و بہار ہے لیکن یہود و نصاریٰ کی یہ کوشش ہمیشہ رہی کہ یہاں صرف انہیںکا قبضہ ہو،اس لئے مسلمانوں کو ایک سازش کے تحت مسلسل تشدد کا نشانہ بنایا جا تارہا ہے۔ ایک صدی سے زیادہ مدت سے منصوبہ بند طریقے سے مسلم بستیاں اُجاڑی جا رہی ہیں۔ یہودی بستیاں بسائی جا رہی ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے چاروں طرف سے مسلمانوں کے خانماں برباد کیا جا رہا ہے۔ ہراساں کر کے انہیں بھگانے کی مہم جاری ہے۔ نسلوں کو تباہ اور لہو کو ارزاں کر دیا گیا ہے۔ ہر روز تباہی ہے، ہر روز طوفاں ہے۔ مسلمانوں کا خون پانی سے سستا ہو گیا ہے۔ آہ و سسکیاں اور نالے بلند ہو رہے ہیںلیکن ظالم بجائے باز آنے کے ظلم میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ان کے بازو مسلم ممالک کی غفلت سے طاقت ور بنتے جا رہے ہیں۔
ماضی میں عالم عرب میں جو کچھ حالات گزرے ان میں اکثر احوال یہودی فکر و مفاد کے مطابق تھے۔ لیبیا، عراق، شام، یمن، مصر کی تباہی، پے درپے مسلم ملکوں میں بدامنی مشن کو تقویت دینا ، حتیٰ کہسالِ گزشتہ مسجد نبویؐ کے قریب دھماکہ اور اس رمضان کے اختتام پر حدودِ حرم میں دھماکہ ان سب کے پس پردہ بالراست یا براہِ راست اسرائیل اور اس کے طفیلیوںکا ہاتھ ہے ۔ حال ہی میں ٹرمپ نے ریاض میںمسلم ممالک کا نمائندہ اجلاس بلوایا جس میں مسلم حکمرانوں نے شرکت کی جب کہ یہ اجلاس صیہونی کاز کو تحفظ دینا تھا ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سوائے ترکی کے کوئی بھی مسلم ملک اسرائیل کی جارحیت اور ظلم وتشدد کے خلاف میدان میں نہیں آئے گا۔ مسلم ممالک اپنے اقتدار کا عرصہ طویل کرنے کے لیے شعوری و لاشعوری طور پر یہودی ریاست کے مفاد میں کام کر رہے ہیں۔ ایسے میں یو این او، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور جمہوری اقدار کے فروغ کی بات کرنے والے ادارے بھی جنبشِ لب کشائی نہیں کر رہے کیونکہ ان سبوں کو مسلمان کا وجود ہی کھٹکتاہے۔ انھیں مسرت ہو رہی ہو گی کہ اسرائیل نے والیانِ اقصیٰ پر اقصیٰ میں داخلہ بند کر رکھا ہے۔ اسرائیل کو خوب پتہ ہے کہ مسلمانوں کی غیرت مر چکی ہے، وہ بیت المقدس کے تحفظ کو نہیں آئیں گے، اسی لیے وہ پورے خطے میں دہشت گردانہ ارادوں کو عملی جامہ پہنانے میں لگا ہوا ہے ۔ اب تاریخ کو سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے مردِ حُر کی تلاش ہے جو مسلمانوں کو غفلت کی نیند سے جگائے اور صیہونیوں کو اس کے مددگاروں سمیت نیست ونابود کرے۔