کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے بھائی۔شاید وہ زمانہ ہی نہ رہا کہ لوگ سڑکوں پر نکل کر الہ کرے گاوانگن کرے گا( جو چاہے سو آپ کریں ،کوئی اعتراض نہیں اٹھائے گا) کے گیت گاتے تھے ۔ اور یہ بھی کہ چائے چینے ووٹ کورمَے حوالے(صبح ناشتے سے پہلے میں نے اپنا ووٹ تمہارے حق میں ڈالا)مگر لگتا ہے زمانہ بدلتا جا رہا ہے کہ لوگ نعرہ لگا کر کہتے ہیں کہ تمہارے ہاتھ کشمیری خون سے رنگے ہیںیعنی جو سرخ رنگ ٹی وی پر فوجی تجزیہ نگاروں کو دکھتا تھا وہ اب ہل والے سیاسی سوداگروں کے ہاتھوں کو چھو گیا ہے اسی لئے لوگ پوچھتے ہیں کہ تم لوگوں کو نیند کیسے آتی ہے؟ مطلب ہل والے قائدین اب اہل کاشمر کو کو کھونٹی بندھے بھیڑ نہیں سمجھ سکتے اور اسی بھیڑ چال کا فائدہ اٹھا کر انہی لوگوں کی چھاتی پر مونگ دلو مگر وہ اب سوال پوچھتے ہیںاور کیا بتائیں کہ گپکار میں پوچھتے ہیں بلکہ سوال پوچھنے برکلے اور پھر پرنسٹن امریکہ بھی پہنچے۔ سوالات بھی ایسے کہ باپ دادا سمیت سب کی خبر لی، یہ تک کہہ دیا تم نے جو بویا وہی کاٹ رہے ہو۔کہاں ہاتھ پر سمجھو بیت ہی کر ڈالی تھی اور کہاں خوف اتنا کہ قبر کے مجاور بندوق بردار وردی پوش بنے ہیں ؎
امریکہ تقریر فرمانے گئے تھے ینگ عمر
خود مار کھا کے آگئے سامان پیچھے رہے گا
عجب بات ہے کہ سوالات پوچھنے امریکہ میں بھی کھڑے ہوگئے جیسے وہاں سوال پوچھنے والے عنقا تھے۔ ارے بھائی لوگو وہاں تو صدر امریکہ سے بھی سوال پوچھتے ہیں مانا کہ جب اسے جواب نہیں ملتا تو میڈیا کو بکائو میڈیا کہہ کر جان خلاصی کرواتا ہے۔ اب کرے بھی کیا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی ملک شام میں نہیں چلتی اورافغانستان میں بھی کوئی نہیں سنتا ۔سیریا میں روسی حمایت والی فوج آنکھیں دکھاتی ہے اور افغانستان میں طالبان نے موسم گرما میں محاذ جنگ گرمانے کی دھمکی دے ڈالی کہ لڑ مرو عاشقو ہم لڑنا جانتے ہیں میز پر آ کر بات چیت کے عادی نہیں۔اس سے افغان حمیت کو زک پہنچے گی۔یہ اور بات کہ عالمی تھانیدار ماضی میں تو مملکت خداداد سے یارانہ گانٹھ کر افغانستان میں نئے بم بارود کی ٹیسٹنگ کروا رہا تھا پر اب تو مودی کو اپنے قریب لاکر پیٹھ تھپتھپا رہا ہے کہ میں ہوں نا گھر گھر مودی کا منتر پڑھائوں گا۔
ہر ہر مودی کا منتر پڑھانے کے لئے اب تو کوئی خارجی طاقت ہی چاہئے کہ داخلی فورس کمزور ہے۔ گرمیت رام رحیم تو سلاخوں کے پیچھے ہے ۔آسا رام سے جو آس لگائے تھے وہ آس جودھپور کی عدالت نے توڑ دی کہ ریش سفید عمر بھر کے لئے اندر گیا۔بابا رام دیو تو بابو رام دیو بن گیا اور دوکاندار بن کر منتر پڑھنے کے بدلے چیزیں بیچ رہا ہے ۔ دوسرے منتر پڑھنے والے سائنس کے بھنور میں پھنس گئے۔وہ صدیوں پرانی کہانیوںکی کھوج میں لگے ہیں اور روز نئی نئی ایجادات ڈھونڈ نکال رہے ہیں ۔ہمیں پلاسٹک سرجری کا گیان تھا، مہابھارت وقت میں انٹرنیٹ موجود تھا،ویدوں اُپنشدوں میں آنسٹائن سے زیادہ اچھی تھیوری موجود تھی۔۔۔ یعنی وہ تیار بیٹھے ہیں کہ چلو ہم بھارت کو پراتاکال میں لے جائیں۔۔۔۔ اور اس کے لئے بھاجپا کو ووٹ دوکہ اب کی بار مودی سرکار کا پسر پروردہ وکاس جو سب کا ساتھ کی گٹھری کاندھے پر اُٹھائے مودی سرکار نے جگہ جگہ شہر شہر ،قریہ قریہ گھومنے کے لئے چھوڑ دیا تھا اور سب اس انتظار میں تھے کہ آج نہیں تو کل اپنے یہاں پدھار ے گا ۔ہر ایک کے لئے گفٹ پیک لے کر پہنچے گا،کسی کو پندرہ لاکھ کا چیک ، کسی کو حفاظت کی ضمانت، کسی کو نوکری، کسی کو قیمتوں میں کمی ، کسی کو اچھے دن کی گارنٹی ہاتھ میں تھما دے گا۔چار سال تو بیت گئے پر وکاس نہ پہنچا بس مودی سرکار کے من کی باتیں ہر اتوار کان میں سیسہ ڈالتی ہیں ۔ہم نے تو خون پسینہ بہا کر کچھ پیسہ جوڑ کر بنکوں میں جمع کر رکھا تھا کہ آڑے وقت کام آئے گا پر سنا ہے کچھ لوگوں کے دن پھر گئے، ان کے اچھے دن آ گئے اور وہ بنکوں میں سوچھ بھارت ابھیان کا جھاڑو پھیر کر نکل گئے۔ڈیزل اور پٹرول کے دام اس قدر بڑھے ہیں مانو آگ پر تیل کا کام ہو رہا ہے ؎
قیمتیں دالوں کی بھی بڑھ جائیں گی سوچا نہ تھا
لوگ دھکوں کے سوا اب اور کچھ کھائیں گے کیا
ہم بھی زیرک ٹھہرے اس لئے پھر ہم نے سوچا کہ مودی کا بیٹا وکاس فیل کیوں ہو رہا ہے۔وہ ہر ایک امتحان میں پچھڑ کیوں رہا ہے اور تو اور مسابقتی امتحانات کے پرچے پہلے ہی بازار میں بکنے کے باوجود وکاس کیوں کوئی جماعت آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔ کیا وجہ کہ سابق سرکار کی اسکیموں پر ربن کاٹنے اور نقل کرنے کے باوجود وکاس کوئی کلاس پاس کیوں نہیں کر رہا ہے۔سوچ بچار کر نے پر پتہ چلا کہ وکاس بے چارہ کیسے پاس ہوگا وہ تو دن بھر گایوں کے پیچھے دوڑتا رہتا ہے ۔انہی کی رکھوالی کرتا ہے اور کہاں کہیں لگے کہ گائے کے ساتھ انیاے ہوا وکاس مار کاٹ پر اُتر آتا ہے۔اس کے علاوہ گئو موتر کو مختلف بیماریوں کے علاج کی فہرست بناتا پھرتا ہے۔ہو نہ ہو کبھی گائے ماتا کے پیچھے نلکی سے نکلتا گرم پانی پینے کے ساتھ کپڑے دھونے میں بھی استعمال کرے کہ اندر آٹو میٹک گیزر جو چل رہا ہے۔مانا کہ بھارت ورش نے سائنس میں ترقی کی ہے۔یہاں موجودہ انٹرنٹ اور سوشل نیٹ ورک موجود ہے لیکن بے چارے وکاس کو مہابھارت ٹائم کے انٹرنیٹ کے پیچھے لگا دیا ہے اور وہ وہی استعمال کرتا ہے ۔صدیوں پہلے جو انٹر نٹ بھارت میں بقول بھاجپا لیڈران موجود تھا اس پر کام کرتے ہوئے وکاس کو کھوج میں لگا دیا تو ظاہر ہے وہ موجودہ سائنس پر کام نہیں کر پارہا ہے، اس لئے بے چارہ فیل ہورہاہے۔
ادھر تو وکاس ہر امتحان میں فیل پہ فیل ہورہا ہے ۔اندر ہی اندر تو مودی جی کو یہ پریشانی ہے کہ سال بھرہی رہا اب کی بار مودی سرکار رٹنے کو لوگ تیار نہیں وہ تو کہہ رہے ہیں اب کی بار نہ لائیں گا مودی سرکار اور اس پریشانی میں مودی کے چیلے، آدھے ان پڑھ آدھے ویلے ،بیان پر بیان دے رہے ہیں ۔کہیں پاکستان، کہیں مسلمانوں تو کہیں دلتوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔مسلم کو نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ، دلت دولہے کو گھوڑی چڑھنے کی اجازت نہیں ۔عیسائی کو دھرم پرورتن کے نام پر مار پیٹ اور پھر بیان بازی توبہ!!! خود مودی مہاراج بھی اس سے پریشان اس لئے کہہ ڈالا کہ بھائی لوگو !زیادہ باتیں نہ کرو، پریس کے لئے مصالحہ مل رہا ہے اور وہ بھاجپا کی کھِلی اُڑا رہے ہیںیعنی جو نعرہ کبھی نہ کھائوں گا نہ کھانے دوں گا اب بدل کر نہ کہوں گا نہ کہنے دو ں گا بن گیا۔
پہلے مکہ مسجد بلاسٹ میں ملوثین رہا کئے گئے اور بعد میں نرودہ پاٹیہ گجرات فسادات کے مبینہ ملزمین چھوٹے۔سابق وزیر مایا کوڈنانی پر الزام تھا کہ اس نے ان فسادات کے دوران مسلم آبادی پر قہر بپا کروانے میں حصہ لیا۔پر سنا ہے سرکاری وکیل ایسا آدمی بنایا گیا جس کا یہ پہلا بڑا کیس تھا،یعنی عدالت سے پہلے میچ فکس کیا گیا۔کب کیچ کی اپیل کرنی ہے اور کب رن آوٹ کرانا ہے اس کا فیصلہ باہر ہی لیا گیا ۔پھر تو کوڈنانی کا بچنا طے تھا ،ہو کیوں نہیں کبھی تو مودی اور شاہ کی دست راست جورہی ،یعنی کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔اب ایسے میں ہم سوچ رہے ہیں کہ وہ جو مرے اپنی غلطی سے مرے مایا کڈنانی بیچاری بے قصور ہے۔جہاں مار کٹائی ہو رہی تھی وہاں مسلمانوں کو کس نے کہا تھا یکجا ہوجا ئو ۔نہ ہوتے تو مرتے نہیں ۔صاف ظاہر ہے کہ مایا کوڈنانی پر کوئی الزام نہیں لگ سکتا۔خیر کوڈنانی تو چھوٹی پر کانگریسی مسلم نیتا سلمان خورشید کی زبان کھل گئی۔ببانگ دہل اعلان کر ڈالا کہ کانگریس کے ہاتھ مسلم خون سے رنگے ہیں۔ہم تو حیران ہیں کہ جو بات ہمیں سالہا سال سے معلوم ہے، وہ سلمان کو اب پتہ چلی۔ملیانہ کیا، میرٹھ کیا، نیلی آسام کیا کانگریسی دور میں تو جانے کتنے کاٹے گئے مارے گئے۔بھاجپا کا خوف دکھا کر مسلم اقلیت کو ووٹ بنک کے طور استعمال کرتے رہے پر جب انہیں تہہ تیغ کیا گیا تو کوئی نام لیوا نہیں۔ہو نہ ہو کوئی نیا سیاسی پینترا بدلنا ہے جو سلمان خورشید کو مسلم اقلیتوں کا عذاب یا دآیا۔ اس پر اپنے ہل والے قائد ثانی سلمان کی پیٹھ تھپتھپا رہے ہیں کہ اگر بھارت ورش میں کوئی سچ بولنے والا ہے تو وہ صداقت کے چراغ کی طرح خورشید ہی ہے۔واہ کیا بات ہے !مسلم اقلیت کی خبر گیری کوئی قائد ثانی سے سیکھے کہ گجرات فسادات کے چلتے کرسی پر لات ماردی اور ٹویٹر ٹائیگر کو مرکزی کابینہ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا کہ بیٹا ؎
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
کہ اپنی سیاست کے انڈے ہیں گندے
اور ایسے میں قائد ثانی کو ماضی کی غلطیاں درست کرنے کا حوصلہ ملا۔سنا ہے وہ سن ستاسی کی ووٹ چوری، ہیرا پھیری اور سینہ زوری کو درست کردیں گے۔سن دو ہزار دس کے ایک سو بیس لوگوں کو واپس لے آئیں گے ؎
ہاتھ میں لاٹھی پکڑ کر سرکار بنوائیں گے کیا
بابا جی کچھ اور دن آ پ جی پائیں گے کیا
نعرہ مستانہ لگانے والے کیا پتے کی بات کرتے ہیں۔قاتلوں کو بچانا ہے۔۔۔سی بی آئی انکوئری بہانہ ہے۔یہ کنول بردار بھی کونسی مٹی کے مادھو ہیں کہ ایک نہ دوسرے بہانے بلات کاریوں کا بچائو کرنے میدان میں کودتے ہیں ۔وہ جو کہتے ہیں نام میں کیا رکھا ہے یہ بھی بچائو کرنے کبھی انکور گپتا تو کبھی ہندو ایکتا منچ کا روپ دھار لیتے ہیں۔کٹھوعہ میں سی بی آئی انکوئری کے لئے آندولن کہ بقول ان کے اسی سرشتے پر بھروسہ ہے لیکن اُناو یو پی میں سی بی آئی کیس میں پھنسے ایم ایل اے کے حق میں آندولن۔ مطلب کٹھوعہ میں سی بی آئی پر پورا بھروسہ ہے لیکن یوپی میں نہیں ۔یہ تو وہی بات ہوئی کہ شمالی ہندوستان میں گائے ماتا اور داتا ہے لیکن شمال مشرق اور گوا میں اس کا گوشت ہر کوئی مزے سے کھاتا ہے۔ گائے ماتا کے شردھالوؤں کی شرافت کے بھی کیا کہنے کہ سارا پریوار کھٹوعہ کے ملزمانِ عیب دار کے حق میں آندولن کار بنا۔ ویسے اس زعفران زار سے اور بھی کیا اُمید ؟مگراپنا سر چکرایا دل گھبرایا جب بار کونسل آف انڈیا کی ٹیم نے جموںبار کی اخلاقی ہار کو سدابہار جیت کی پھول مالا پہنا دی ۔ اپنی یہ وکلاء ٹیم کتنی بے تکلفی سے بولی: دیش اور دنیا والو! یہ جو بم بم بھولے جموں بار نے قطار اندا قطار سی بی آئی سی بی آئی کی گہار لگائی، یہ پھول ہی پھول مطالبہ اوروں کو خار ہی خار نظر آیا ، کیوں ؟لوجی ! یہ تھوڑی کار نجار بدست گلگار ہے ، یہ تو صرف کارِعطار بدستِ چمار ہے، اور پھرفرق بھی کیا پڑتاہے اگر سی بی آئی معصوم آصفہ کوہی آسیہ نیلوفر کی طرح بالآخر اپنا قاتل قرار دے، رہے اپنے یہ ملزمانِ کھٹوعہ، یہ بے چارے بے یار ومددگار ہیں ، ایک مودی سرکار کے بغیر اُن کا دشمن سارا سنسار ہے ، کون کہتا ہے کہ یہ بلات کار ہیں ؟ یہ بچارے پریوار کے وفادار ہیں، ہونہار ہیں ، باکردار ہیں۔اس لئے ہم وچن بند ہیں کہ جب تک رسنا گاؤں کے سابق تحصیلدار سنجی رام کوسلطنت ِجن سنگھ کا مالک ومختار نہ بنائیں ، دیپک کجھوریہ کو پولیس حوالدار نہیں بلکہ زعفرانیوں کا تاجدار نہ بنائیں ، وشال کوخوش حال کشمیر کا صوبیدار نہ بنائیں ، حوالات کی ہوا کھارہے پولیس کرمیوں کو ممہ کنہ سے بڑھ کر اُپہار نہ دلائیں ہم پر آرام حرام ہے۔ ۔۔ بار کونسل ٹیم کی ٹپنی پر ہم بہ قائمی حواس خمسہ پوچھتے ہیں یہ کیا ہو رہا ہے بھئی اس دُکھ بھرے دیار میں؟ یہ ماجرا ہے کیا کہ آصفہ کے لئے زمین روئے ، آسمان ماتم کر ے ،لیکن کالے کوٹ سچ کوٹالیں، جھوٹ کو اُچھالیں ، حق کو چھپا لیں ، ناحق کوبتلائیں۔۔۔حضرات ! کسی کے پاس ہمارے ان سوالی مروڑوں کے لئے کوئی جوابی گولی ہو تو اس ناچیز کو ضرد ریجئے گا؟ ورنہ ہم یہی کہیں گے ع
بے گور وکفن عریاں ہے چوراہے پہ سیاست
(رابط[email protected]/9419009169 )