فاتح تُرکی سلطان محمد الفاتح نے استنبول میں ایک عظیم الشان جامع مسجد تعمیر کرنے کا حکم صادر کیا۔ اس کی ذمہ داری روم کے ایک معروف انجینئر کو دی گئی ۔ سلطان نے انجینئر کو تاکید کی تھی کہ جامع مسجد کے تمام ستون سنگ مرمر کے ہوں اور اس کی اونچائی دیگر مساجد سے زیادہ ہو تاکہ اسے دور سے دیکھا جاسکے، لیکن جب تعمیراتی کام شروع کیا گیا تو انجینئرنے سلطان کی اجازت کے بغیر اس کی اونچائی کم کردی۔ جب سلطان کو اس بات کا علم ہوا تو وہ انجنیئرسے سخت ناراض ہوئے اور انجینئرکو دربار شاہی میں حاضر ہونے کا حکم نامہ صادر کردیا۔
جب انجینئروہاں پہنچا تو بادشاہ نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا۔ انجینئر نے عدالت میں سلطان کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔ عدالت کےجج شیخ صاری خضر جلبی نے سلطان کو عدالت میں اپنی صفائی پیش کرنے کے لئے حاضر ہونے کا نوٹس جاری کردیا ۔ سمن ملنے پر سلطان مقررہ وقت پر عدالت میں حاضر ہوگئے۔ سلطان عدالت میں اپنی مخصوص نشست پر بیٹھنے لگے لیکن جج نے اُنہیں وہاں بیٹھنے سے منع کردیا اور کہا کہ تم فریقِ مخالف کے ساتھ کھڑے رہو۔ چنانچہ سلطان محمد فاتح ؒ بغیر چون وچراعدالت میں اپنے فریق مخالف کے ہمراہ کھڑے ہوگئے ۔
جب سلطان کو اپنی صفائی پیش کرنے کیلئے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ رومی انجینئر جو کچھ کہہ رہا ہے وہ دُرست ہے ۔بعد ازاں جج نے سلطان کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر کردیا۔ یہ سن کر رومی انجینئر ہکا بکا رہ گیا۔ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ فاتح قسطنطنیہ کے ہاتھ کاٹنے ( قطع ید)کا حکم دیا جائے گا۔ وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اسے مالی معاوضہ دیا جائے گا تاہم انجینئرنے فیصلہ سن کر جج سے درخواست کی کہ میں بادشاہ ِ وقت کے خلاف اپنے دعوؤں سے دستبردار ہوتاہوں۔ وہ سلطان جن سے یورپی ممالک کے حکمراں خوف دہ رہتے تھے اور لرزتے کانپتے تھے ، اُن کے ہاتھ ہرگز نہ کاٹے جائیں بلکہ صرف اُنہیں مالی معاوضہ دیا جائے جس پر جج نے یومیہ مالی معاوضہ ادا کرنے کا حکم دے دیااور یہ معاوضہ سلطان محمد الفاتحؒ پوری زندگی اسے ادا کرتے رہے۔
اسی بے لاگ انصاف کی وجہ سے وہ سلاطین اور بادشاہ لوگوں کے دلوں پر راج کر تے تھے کیونکہ اُن کانظام ہی نہیں بلکہ مزاج بھی انسانیت کے رنگ میں رنگاہوا تھا ،وہ پرچم ِ عدل کے سامنے سرنگوں رہتے اور ہر کام رعایا کے مفاد میں کر تے لیکن آج کادور بہت ہی عجیب ہے ۔ تخت نشین جمہوریت جمہوریت کا شور کر تے ہین مگر انصاف کے معاملے میں بڑے ہی کنگال ہوتے ہیں اور ظلم وعدوان پر جری ہوتے ہیں ۔ بادشاہ، صدر، وزیراعظم ہو یا کسی اور نام سے لوگوں پر حکمران ہو ،وہ اگر رعیت یا عوام کو مکمل انصاف دے ، آرام دے ، امن دے ،سکون دے ، ترقی کا زینہ چڑھائے، تووہ لوگوں کے دلوں پر اپنی حکومت کاڈنکا بجاتا ہے ۔