آج کل ریاست جموں وکشمیرکے عوام اورسرکارکوبے روزگاری کے مسئلہ نے خاصاپریشان کررکھاہے۔بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں سے متعلق بڑے بزرگوں سے سناہے کہ اُس وقت ہرکسی کوبغیرمشقت کے نوکری گھربیٹھے ہی مل جاتی تھی۔اگرکوئی صحت مند نوجوان پولیس یافوج کوکہیںسے مل جاتا،تواُسے اپنی صفوں میں شامل کرلیاجاتااوراگرکوئی پانچویںیااس سے زیادہ پڑھالکھا نوجوان نظر آ تاتومحکمہ تعلیم یامحکمہ مال میں بھرتی کرلیاجاتا۔پھرآہستہ آہستہ ریاستی نوجوانوں میں تعلیم کے تئیں رجحان بڑھناشروع ہوااوردیکھتے ہی دیکھتے ریاست کے طول وعرض طلباء کی بھاری تعدادسکولوں کالجوں سے فارغ ہوکرجامعات کی ڈگریاں حاصل کرنے لگے اور انہیں سرکاری ملازمت کے مواقع ملنے لگے۔نوجوانوں میں تعلیم وتدریس کے تئیں رجحان میں اضافے کا نتیجہ یہ نکلاکہ ریاست میں اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباء کی تعدادروز بروزبڑھنے لگی اور نوبت یہ پہنچی کہ ملازمتیں حاصل ہونا دشوار ہوگیا اور رفتہ رفتہ درجہ چہارم کی اسامی کے لیے بھی بی ۔ اے ‘ ایم۔اے امیدواروں کی قطار مین کھڑے ہوگئے اور چلتے چلتے معمولی چپراسی بننے کے لئے نیٹ کو الیفائیڈا ورپی ایچ ڈی ایم فل اسنادیافتہ نوجوان دربدر پھرتے رہے ۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ جہاںبیسویں صدی کے نصف سے زائد حصہ تک میں سرکاری ملازم ہونے کا امیدواروں کو موقعہ بہ آسانی مل جاتاتھا،اب آج کی تاریخ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے اوراعلیٰ درجہ کی ڈگریاں اوراسنادرکھنے کے باوجودریاستی نوجوانوں کوسرکاری نوکری ملنامشکل نظرآرہا ہے۔پہلے جہاں ریاستی حکمران کہتے تھے کہ دسویں جماعت پاس کرو، بارہویں میں چڑھ جاؤتوسرکاری ملازمت تمہاری منتظر ہے ، آج حکمران کہتے پھر تے ہیں ہمارے پاس نوکریاں کہاں ہیں ؟ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کومعمولی اسامیوں کے لئے قطاروں میںکھڑادیکھ کربے روزگاری کے مسئلہ کی تشویش ناک صورت حال واضح ہوتی ہے ۔ حکومت بار باریہ بیان جاری کرتی رہتی ہے کہ خودروزگا کمانے کے یونٹ قائم کرو،اس کیلئے مختلف سرکاری اسکیموں کے تحت سیلف ایمپلائمنٹ یونٹ قائم کرنے کیلئے بنک قرضہ فراہم کریں گے۔ بہرکیف یہ ایک حقیقت ہے کہ ریاستی سرکارکی جانب سے نوجوانوں کے واسطے خصوصی طورپرخودروزگاریونٹوں کے قیام کیلئے جاریہ اسکیموں کافائدہ راقم کی دانست میں بہت کم لوگوں کوپہنچ رہاہے۔قطع نظر اس سوال کے کہ سرکاری سکیموں کافائدہ بے روزگار نوجوانوں تک کیوں نہیں پہنچ پارہاہے ۔بہرحال نوجوانوں کو بتا یا جاناچاہیے کہ وہ اچھی طرح سے ذہن نشین کرلیںکہ اگر بے روزگاری سے نجات چاہتے ہیں تو ہنر مندبن کر دکھائیں‘‘ یعنی اپنا ہاتھ جگن ناتھ بن جاؤ ۔یہ ہوگا کیسے؟ ہنرمندی کے بارے میںسوال بہت سارے ذہنوں میں سوال ضرورہوں گے۔ ہنر مندی کامطلب ہے کسی مفید مطلب کام یا پیشے میں مہارت تامہ حاصل کرنا، مثلاًپینٹنگ بنانا، کمپیوٹرآپرویٹری، لوہاری، کمہاری ، ترکھانی ، گلکاری،پلمبری،ا لیکٹریشن، پشو پالن ، مرغ بانی، ڈرائیوری،آشپازی، کھلونہ سازی ، درزی، لکھاری بننا،ٹائپسٹ ہونااور ایسے ہی دیگر سینکڑوںدیگربے شمارایسے کام اور مشغلے ہیں جنہیں نوجوان بطورپیشہ اور شغل اپناکر زندگی ٹھیک ڈھنگ اور خودداری سے زندگی گزارسکتاہے ۔یہی ہنر مند ہاتھ اس کے لئے ذریعہ معاش ہونے کے ساتھ ساتھ اس کو کومقبولیت کے بام عروج تک پہنچنے کابہترین ذریعہ ہو سکتاہے، شرط یہ ہے کہ وہ اپنے شعبے میں تندہی اور لگن سے کام کر ے ۔آج ہمارے سماج میں ایسے بے شمار نوجوان ہیں جن کے پاس تعلیمی قابلیت توہے لیکن پھربھی وہ بے روزگارہیں۔ وہ کسی ہنرکوحاصل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔جس شخص کے پاس اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ کوئی ہنر بھی ہوگاتواْسے کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتایعنی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہاتھ کمال اس کے لئے سونے پہ سہاگہ والی بات ثابت ہوگی۔
جب کوئی ہنر مندی اور فن انسان میں رچ بس جاتاہے تواْس میں خود بخود مشکلات سے لڑنے کااعتماد بھی پیدا ہوجاتاہے۔ کچھ لوگ ساری عمرڈگریوں کے حصول کی جدوجہدمیں رہتے ہیں لیکن اْنہیں ڈگری حاصل کرنے کے بعدبھی ہنر مندنہ ہونے کے سبب بے روزگاری کا روگ برداشت کر نے پرمجبورہوناپڑتاہے۔کم ہمت ، کاہل اورمحنت سے دوربھاگنے والے بزدل کہلاتے ہیں اورجومحنت ومشقت سے کام لیتے ہیں اورہنر مندیوںکواپنے اندرسمولیتے ہیں ،اُن میں بردباری ، خوداعتمادی، سماجی اعتباریت آجاتی ہے بہ نسبت اُن لوگوں کے جومحنت اور لگن سے دوربھاگتے ہوں ۔ہرنوجوان کوسمجھناچاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کوکسی نہ کسی صلاحیت سے نوازاہے جس کو بروئے کار لاکر وہ اپنی روزی روٹی بخوبی کماسکتاہے ۔ بیشترلوگوں میں یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے، ہم کسی کام دھندے کے نہیں ، ہم کم نصیب ہیں۔یہ ایک قسم کی نفسیاتی بیماری اور من کا بے بنیادڈر کا کھلا ظہارہوتاہے جو آدمی سے یہ کہلوائے کہ میں کچھ نہیں کرسکتا۔ اگر آدمی کوشش کرے تووہ بہت کچھ کرسکتاہے اورکئی مرتبہ توایسا بھی دیکھاگیاہے کہ کچھ لوگ جوکچھ نہ کرنے کے ڈرمیں بلاوجہ لگے رہتے ہیں ،وہ کبھی اس ڈر کو چھوڑ کر اپنی محنت و اعتماد کی اڑان بھر کربڑے بڑے غیرمعمولی کارنامے انجا م دے جاتے ہیں۔اس لئے ہر سوجھ بوجھ رکھنے والے نوجوان کوچاہئے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ کسی ہنر مندی اور فن کواپنائے اوریہ چیزیںحاصل کرنے میں اسے جوسختیاں آئیں اْن کوزحمت نہیں بلکہ ایک لازمی امتحان کے طورپر خندہ پیشانی سے تسلیم کرے۔
اسی ضمن میں ایک سبق آموز اور چشم دید واقعے کا تذکرہ یہاں موزوں رہے گا ۔ ایک لڑکے نے سکول کی تعلیم حاصل کر نے کے ساتھ ساتھ بجلی فٹنگ کاکام بھی اپنی لگن اورمحنت سیکھ لیا۔تعلیم سے فارغ ہوکر اسے ملازمت ملی مگر وہ زندگی میںہمت ہارجانے یا احساس کم تری میں بہکنے کے لئے تیار نہ ہو ا، نہ اپنی قسمت کو برابھلا کہنے لگا ، نہ حکمرانوں کو کوسنے لگا کہ وہ اقبرباء پروری اور رشوت وسفارش پر ہی کیوں ملازمتوں کے ڈھکن کھول دیتے ہیں ، بلکہ بجائے اس نے چپ چاپ اپنے اس ہاتھ کے ہنر سے اپناکام چلانے کا فیصلہ لیا ۔ غرض اپنے ہاتھ اور دماغ کے خزانے کے بل بوتے پر پوری خود اعتمادی سے زندگی کی گاڑی چلائی اوربطورہنر مندایک منفرد نام کمایا۔ کامیابی پانے کے حوالے سے ہمت ِمرداں مددِ خدا کا اصول اس کی بر وقت رہنمائی کر گیا ۔
پڑ ھائی کے دروان اس کا معمول یہ تھا کہ ماں پوچھتی رہتی بیٹا! سکول سے لیٹ کیوں آیا؟ وہ جواب دیتا کچھ سیکھنے میں وقت لگا، پھر کالج کے زمانے میں ماں پھر ڈانٹتی بیٹا !تم روزانہ کالج سے لیٹ کیوں آتے ہو؟ یہ سچ بولتا :ماں! میں کالج سے فارغ ہو کر بجلی فٹنگ کا کام سیکھنے جاتا ہوں۔ ماں پر یشان ہوکر کہتی: تم یہ کیا فضول کام کر رہے ہو؟ ہم تم کو پڑھنے کے لیے کالج بھیجتے ہیں، ہمارے خواب کچھ اور ہیں اور تم یہ کام دھندا سیکھ رہے ہو۔ کل سے تم صرف پڑھو گے لکھوگے، کوئی کام شام نہیں سیکھنا ہے لیکن یہ نوجوان جانتا تھا کہ میرے والدین بھولے بھالے ہیں ، انہیں پتہ نہیں کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح کیا ہے ، ان کے پا س صرف خواب ہیں جب کہ میں حقیقتیں جانتاہوں اور سہتاہوں ۔ اس نوجوان نے اپنی ماں کی عزت بر قرار رکھتے ہوئے پڑھائی میں پورا من دیا مگر ساتھ ہی پڑھائی کے علاوہ بجلی کا کام بھی پوری دلچسپی اور مہارت کے ساتھ سیکھنا جاری رکھا۔ وقت گزرتا گیا اور وہ پڑھ لکھ کر فارغ ہوگیا،اس نے ایم اے انگلش کیا ہوا تھا۔ اب اس کو امید تھی کہ اس کو کوئی اچھی نوکری مل ہی جائے گی اوروہ روز اپنی ڈگریاں لے کر کسی نہ کسی دفتر کی خاک چھانتا رہتالیکن اس کو کوئی بھی ملازمت نہیں ملی۔ بے شک وہ بہت مایوس بھی ہوا مگر ایک امید اس کے تحت الشعور میں بچی تھی کہ میرا ہاتھ جگن ناتھ ہے ، اس لئے حلال روزی کمانے میں مجھے کوئی روک نہیں سکتا ۔ بالآخر اس نے پوری دلی آمادگی اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ بجلی کا سیکھا ہوا فن دکھانا شروع کر دیااور بہت جلد اپنے گھر والوں کو کما کر آرام سے کھلانے پلانے لگا۔ اس نے پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا بلکہ آگے ہی بڑھتا گیا اور آج اپنے پیشے میں بہت ناموری پیداکرچکاہے ۔ اس کے لئے یہ سب کچھ ایک فائدہ مند ہنر سیکھنے کی وجہ سے ہی ممکن ہوا۔اور یاد رکھئے کہ اس نے پڑھائی کے دوران ہی اپنی ذاتی دلچسپی سے یہ مفید مطلب ہنر بھی حاصل کیا تھا۔اس پر وقت آنے پر انحصار کر نے سے وہ فاقہ کشی سے بچ ، اس کی گھریلو زندگی بھی خوش حال بنی رہی ، اس کی سماجی زندگی کا پہیہ بھی عزت کے محور پر پیہم رواںدواں رہا ، ا س کے ماںباپ ، دوست ، رشتہ دار اور دیگر جان کار بھی اس کی حسن کارکردگی سے مطمئن ہیں ۔ اس مثال سے یہ واضح کرنا مطلوب ہے کہ دور جدید کے نوجوانوں کو زمانے کی نزاکتیں سمجھتے ہوئے تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر مندیوں کی سدھ بدھ ضرور حاصل کرنی چاہیے تاکہ اُن کا آنے والاکل محفوظ ومامون رہے ۔یہ بات گرہ میں باندھ کے رکھئے کہ آج کل کے دور میں صرف کاغذی ڈگریوں کے سہارے جینافن اور ہنر مندیوں کے بغیر معاشی زندگی بسر کرنا بہت مشکل ہوتا جارہا ہے۔ہنر چاہے کیسا بھی کیوں نہ ہو، انسان کو بھوکا نہیں رہنے دیتا۔ یہ نہ صرف روزگار دیتا ہے بلکہ ہنر سے انسان میں ایک تو خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور دوسرے خود انحصاری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ ہنر مندی سے اپنا وجود مزین کر نے سے انسان کی خداداد صلاحیتوں میں اتنا اضافہ ہوتا جاتا ہے کہ وہ معاشرے کی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل بنتا ہے۔
رابطہ نمبر9107868150