ندیم اشرف
اِذا لم تَسْتَحْيِ فَافْعَلُ مَا شِئْتَ۔یعنی’’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتا رہ‘‘۔اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی بُرے کام سے روکنے کا جو واحد سبب ہے ،وہ شرم و حیا ہے، اور جب کسی میں شرم کا فقدان ہو جائے اور حیا باقی نہ رہے تو اب اس کا جو جی چاہےگا وہ وہی کرے گا،جب انسان اپنی مرضی کا غلام بن جائے تو تباہی اس کا انجام بن جاتی ہے ۔مغرب میں آج بھی عورت کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔1997 میں مغربی محقق’کریس ڈی اسٹوب‘ نے یورپ میں عورتوں کی تجارت پر تحقیق کی اور انکشاف کیا کہ’’ مغرب میں عورت کی زندگی جہنم ہے، صرف اسپین میں 5 لاکھ خواتین جسم فروشی پر مجبور ہیں ‘‘۔ سرزمین کشمیر کو بھی اسی راہ پر لایا جارہا ہے ۔ٹیلنٹ کے نام پر عورت کی حسن فروشی ہو رہی ہے ،بد کرداروں کے نقش قدم پر عورتوں کو چلایا جا رہا ہے، ہالی وڈ اور بالی وڈ کے گندگی میں ان کو پھنسایا جارہا ہے، بعض فیمینسٹ عورتیں خود اس کا شوق رکھتی ہیں ۔اگرچہ بالی ووڈ کی بعض اداکاراؤں نے انکشاف کیا ہے کہ’’ بالی ووڈ جسم فروشی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ کشمیر میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ کس طرح اس بے حیائی کو پرموٹ کیا جا رہا ہے ۔مغرب کی ہربُرائی کشمیر میں موجود ہے ۔نوجوان نسل نے خود کو مغرب کے حوالے کردیا ہے ۔جس پر سنجیدہ نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ فیشن شو کے بارے میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مُمیلات، مَائلات‘‘ (یعنی۔ مائل کرنے والیاں،مائل ہونے والیاں) شارحین حدیث نے اس کے کئی مطلب بیان کئے ہیں :وہ عورتیں چلنے میں اکڑ دکھاتی ہیں اور اپنے بازؤوں اور پہلوئوں کو اکڑا کر چلتی ہیں ۔ ( CAT WALK ) خود غیر مردوں کی طرف مائل ہوتی ہیں اورغیر مردوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں، کبھی زیب وزینت سے اور کبھی اپنی گفتگو سے اور کبھی اپنے کپڑوں سے، کبھی اپنے جسموں کو ظاہر کر کے۔ غرض کسی بھی طرح یہ بے حیائی کا کام کرتی ہیں اور آج کی ان فیشن پرست(فیمینزم سے متاثر) عورتوں میں یہ ساری باتیں بھی بدرجہ اُتم پائی جاتی ہیں۔ یہ عورتیں اس حدیث لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا، وَأَنَّ رِيحَهَا لَتُوْجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا (یعنی ۔یہ عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ ہی جنت کی خوشبو ان کو نصیب ہوگی، حالاں کہ جنت کی خوشبو دُور سے آرہی ہوگی)کا مصداق بن کر ان وعیدوں کی مستحق بنتی جارہی ہیں۔
حضرت نبی اکرم ؐ کافرمان ہے:’’اِن الله عز وجل اِذا اَراد اَن يهلك عبدا نزع منه الحياء ف اِذا نزع منه الحياء لم تلقه اِلا مقيتا ممقتا ف اِذا لم تلقه اِلا مقيتا ممقتا نزعت منه الامانة ف اِذا نزعت منه الامانة لم تلقه اِلا خائنا مخونا ف اِذا لم تلقه اِلا خائنا مخونا نزعت منه الرحمة ف اِذا نزعت منه الرحمة لم تلقه اِلا رجيما ملعنا ف اِذا لم تلقه اِلا رجيما ملعنا نزعت منه ربقة الاِسلام ‘‘ ۔ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ آدمی کس قدر یکے بعد دیگرے بُرائیوں میں مبتلا ہوکر آخرکار اسلام ہی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ پہلے اس سے حیا جاتی رہتی ہے اور حیا کا جانا انسان کو ہر قسم کی ذلیل وقتیح حرکت پر آمادہ کر دیتا ہے ، وہ لوگوں کی نظر میں مبغوض ہو جاتا ہے، پھر اس کے اندر سے امانت چھین لی جاتی ہے، وہ لوگوں کا مال ہڑپنا اور کھانا شروع کر دیتا ہے اور کسی کام کو امانت داری سے نہیں کرتا، یہاں تک کہ اس کے اندر سے رحم وکرم، شفقت و مہربانی کا عنصر بھی نکال لیا جاتا ہے، وہ ظلم وزیادتی کو پیشہ بنالیتا ہے ،حتیٰ کہ وہ لوگوں کی لعنت میں پڑ جاتا ہے ، پھر آخر کار اس سے اسلام کا پٹھ بھی نکال لیا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ سب سے پہلی چیز ، جس سے آدمی ہلاکت میں پڑتا ہے، وہ ’’ بے حیائی ‘‘ہے۔ افسوس کہ آج بے حیائی عام ہوتی جارہی ہے، گھروں میں عریاں تصاویر، رسائل ، گندے ناول اور اس کے ساتھ ٹی وی کے فحش پروگرام عام ہو چکے ہیں ، بچوں کے اندر بھی ان کے جراثیم منتقل ہو چکے ہیں ۔ حدیث میں ہے کہ تمام انبیا کا یہ قول ہے کہ ’’ اِذا لم تَسْتَحْيِ فَافْعَلُ مَا شِئْتَ ‘‘( جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتا رہ ) اس لیے سب سے پہلے اس بے حیائی پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ ایک بُرائی دوسری بُرائی کا ذریعہ و سبب بن جاتی ہے اور انسان ایمان و اسلام سے محروم ہو جاتا ہے۔ ان تین باتوں میں ربط یہ ہے کہ حیا کی وجہ سے انسان دوسروں کی پاس داری اور ان کے حقوق کی رعایت کرتا ہے اور اگر حیا نہ ہو، تو جیسے وہ اپنی ذات کے حقوق ادا نہیں کرتا ، اسی طرح دوسروں کے حقوق کا لحاظ بھی نہیں کرتا ۔ دوسروں کے حقوق کی پاس داری اور ادائیگی ہی کا نام ’امانت‘ ہے اور ان کے حقوق کو ضائع کرنے ہی کا نام’’ امانت میں خیانت‘‘ ہے۔ گویا حیا سے امانت قائم رہتی ہے اور اس کے فوت ہو جانے سے امانت بھی فوت ہو جاتی ہے، جب امانت ضائع ہوتی ہے، تو آدمی کے اندر اولاً بے حسی، پھر سخت دلی پیدا ہو جاتی ہے، کیوں کہ حقوق کو ضائع کرتے کرتے وہ اس کا عادی بن جاتا ہے اور آخرالامر اس کا دل اتنا سخت ہو جاتا ہے کہ اس کو لوگوں کے حقوق کو ضائع کرنے میں مزہ آتا ہے۔
nadeemashraf196gmail.com