سرینگر//سینئر کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیرسیف الدین سوز نے کہا ہے کہ مجھے اس بات پر تعجب ہو رہا ہے کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی کچھ لوگوں نے کشمیر اور دہلی میں الٹے سیدھے بیانات دینا شروع کئے ہیں جس سے مرکزی حکومت کے مذاکرات کار دنیشور شرما کا کا م مشکل ہو سکتا ہے۔ پروفیسر سوز نے کہا کہ اگر وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کشمیر میں مذاکراتی عمل کے انچارج ہیںتو اُن کو پھر دائیں بائیں اپنے نظام میں دیکھنا چاہئے کہ کون کیا کہنے لگا ہے۔ اس طرح مذاکراتی عمل کے نتائج کےلئے ایک ہی شخص ذمہ دارہونا چاہئے۔انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر میں کچھ سیاست دانوں نے حریت کانفرنس کو ناموزون ہدایات دینا شروع کئے ہیں جو سیاسی عمل میں غلط طریقہ ہے، ایسے لوگوں کو جان لینا چاہے کہ کشمیر کے لوگ اُن سب کے بارے میں خوب جانتے ہیں کہ انہوں نے ماضی میں کیا کیا کہا تھا اور کشمیر کے تئیں کیسی فہم و فراست کا مظاہرہ کیا تھا!پروفیسر سوز کے مطابق بالآخر عوام ہی اپنے لیڈروں کو پرکھنے کا حق رکھتے ہیںاور عملی طور پرکھتے ہیں، کشمیر کے لوگ اپنی مجبوریوں کے ساتھ ساتھ اپنے لیڈروں کو بھی خوب جانتے ہیں ۔اس کا مجھے اطمینان ہے۔انہوں نے کہا” میں مذاکراتی عمل کے طریقِ کار پر ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں، مرکزی سرکار نے 1986ئ میں اپنی سوجھ بوجھ کا اچھا مظاہرہ کیا تھا جب اُس نے براہ راست میزورام کے لیڈر لال ڈینگا کے ساتھ موثر اور فیصلہ کن بات چیت کی تھی، یہ بات میں صرف طریقِ کار کے بارے میں کہتا ہوں، ورنہ میزورام کا مسئلہ کشمیر کے مقابلے میں جداگانہ نوعیت کا تھا۔ “