حنا مقبول ۔نور باغ، بارہمولہ
ہر انسان کی زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر ایسا دور ضرور آتا ہے کہ وہ اُس میں بُری طرح اُلجھ کر رہ جاتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا میرے مسائل کبھی حل بھی ہونگے؟ اگرچہ ہر مصیبت میں انسان کےلیے کچھ نہ کچھ خیر ضرور ہوتا ہے جو مخفی ہوتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کہ ہم یہ سمجھ سکیں اور یہی سوچ ہماری زندگی خوشگوار بنا سکتی ہے۔
اسی ضمن میں سیدنا ابراہیم ؑ کا واقعہ آپ کو یاد ہوگا، جب اُن کی عمر تقریباً سو سال یا اس سے زیادہ ہوئی تھی اور اُن کے پاس فرشتے بشارت لے کر آتے ہیں (سورہ ذاریات ۔آیت،۲۷۔۳۰) ان آیات کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی پہلی بیوی ساراؑ تھی جو کہ شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ بھی عمر میں تقریباً سو سال کی تھی ،ان سے ابرہیم علیہ السلام کو کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی ۔ لیکن ابراہیمؑ نے کبھی بھی اللہ سے دعا کرنا نہ چھوڑی ، ربّ سے مسلسل التجا کرتے رہے۔ حالانکہ الله نے ان کو اپنی دوسری بیوی ہاجرہ علیہ السلام سے نیک اولاد حضرت اسماعیل علیہ السلام عطا کیا تھا ۔جب ابراہیم علیہ السلام کے گھر فرشتوں کی آمد ہوتی ہے اور وہ ابراہیم علیہ السلام کو اولاد(اسحاق علیہ السلام) کی بشارت دیتے ہیں تو ان کی بیوی بھی یہ خبر سن لیتی ہے۔ تو وہ فرشتوں سے مخاطب ہوتے ہوئے دو الفاظ بیان کرتی ہیں کہ ‘ایسا کیسے ہو سکتا۔ میں تو عجوز ہوں اور عقیم ہوں۔ عجوز ‘عجز کو کہتے ہیں یعنی جس میں کسی چیز کی طاقت نہ ہو، مثلاً کوئی شخص کھڑے ہونے سے عاجز ہوتا ہے، دوسرا عقیم جس میں شروع سے بچہ جننے کی صلاحیت نہ ہو ،یعنی بانجھ۔ تو اس پر فرشتے جواب دیتے ہیں کہ بالکل ایسا ہی ہوگا، یعنی آپ (سارہ علیہ السلام) اسحاق علیہ السلام کو جنم دے گی اور آیت کے اختتام پر ‘حکیم العلیم کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں یعنی بے شک اللہ تعالیٰ حکمت والے ہیں اور سب سے زیادہ خبردار ۔ (سورہ ذاریات ،آیت۲۷۔۳۰)
پوری دنیا میں تقریباً 60 سے 80 ملین خواتین ایسی ہیں جو کبھی بھی بچہ نہیں جن سکتی ہیں،جن میں 13 فیصد اُن عورتوں کی ہے جن کی عمر 20 سے 30 سال کے عمر کی تھی جبکہ 30 سے 40 فیصد اُن خواتین کی ہے ،جن کی عمر 30 سے چالیس سال ہے۔کچھ تحقیقی مقالات جو 70۔60 سال کی عمر کی خواتین پر کی گئی ہے، جو بچہ نہ پیدا کر سکی اور ان سے دریافت کیا گیا کہ اُن پر اِس محرومی کا کیا اثر رہا تو مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوئی :
۱۔ جو عورت بچہ نہ جن سکتی ہو، وہ ڈپریشن اور anxiety کا شکار ہو جاتی ہے۔
۲۔ اس میں خود کو کم تر سمجھنے کے احساسات ستر سے اسی فیصد زیادہ ہوتے ہیں ۔ ان میں سے اکثر اس اشکال کا شکار ہوتی ہے کہ اس نے اپنے شوہر کا حق ادا نہ کیا۔شاید میرے اندر کچھ خامی ہے۔
۳۔ میرا مقصد جو تھا میں وہ پورا نہ کر سکی، وغیرہ وغیرہ۔ اور احساس کمتری Inferiority complex کی وجہ سے اُسےسب پر غصہ آنا شروع ہوتا ہے۔ اکثر غصہ میں رہتی ہیں۔
ایک ایکسپیریمنٹ کے مطابق وار زون ایریا میں 500 خواتین کو ایک ہی سوال پوچھا گیا کہ آپ کا سب سے زیادہ traumatic experience کیا رہا ہے اور جواب چونکا دینے والا تھا کہ بچہ نہ ہو سکا، گویا کہ اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کا بچہ نہ جننا اُن کے لیے کتنی بڑی محرومی ہے اور اس کے کس قدر منفی اثرات ہیں۔سارہ علیہ السلام کے قصے کا تذکرہ کرتے ہیں جو جوانی میں بچہ نہ جن سکی اورادھیڑ عمر میںآپ سے اللہ تعالی کیا کام لینا چاہتے ہیں، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کہ فرض کریں کسی کو فرضی کیس (fake case) میں بیس سال جیل میں رکھا گیا اور پھر اچانک ایک دن اس سے کہا جائے کہ اب تمہیں رہا کیا جا رہا ہےتو اس کا Reaction کیا ہوگا،انسان تو کمزور ہی پیدا کیا گیا ہے۔(القرآن)
محرومی کا خیال آنا فطری ہےتاہم اگر انسان کو اللہ کی علیم و خبیر صفت یاد رہتی، بندہ یہ جانتا کہ اس کی حکمتوں کا تو ہم احاطہ نہیں کر سکتے، لیکن جس تکلیف ومصیبت اور رنج سے ہم گزرتے ہیں، اس کا رب العزت کو خوب علم بھی ہے ،اور علم بھی رکھتے ہیںکہ ہماری زندگی پُرسکون اور پروقار کیسے ہوتی ہے۔
سارہ علیہ السلام کی ذریت سے تو اللہ رب العزت کو بہت پیغمبرلانے تھے (اسحاق ؑ،یعقوب ؑ،یوسف ؑ،عیسیٰ ؑ)
حدیث میں آیا ہے کہ بنی اسرائیل میں تو ایک کے بعد دوسرے نبی آتے گئے، سارہ ؑ کو اس چیز کا علم نہیں تھا کہ وہ کس کس کی ماں بننے والی ہے،ذکریا ؑ، ، یحییٰ ؑ اور مریم ؑ وغیرہ جس مصیبت سے گزرے تھے، اُس کا فائدہ تو ان کے جانے کے ہزار وںسال بعد بھی چلتا رہا اور اُن کے لیے مفید توشۂ آخرت ثابت ہوا۔ اس لئے ہم سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نہ تو یہ دنیا infinite اور نہ ہی اس کے مسائل۔ اگر ہم شکر، صبر واستقلال سے کام لیں تو ہم دونوں جہانوں میں فلاح پاسکتے ہیں۔
اس دنیا کی کوئی بھی چیز پائیدار نہیں۔جن خواتین کے بچے نہیں ہوسکتے، اگر وہ اسی چیز کو اللہ تعالی کی رضا و حکمت جان کر تسلیم کریں تو زندگی بہت خوبصورت اور آسان بنے گی، جیسا کہ ہمیں قرآن میں متعدد مثالیں موجود ہیں کہ بہت سے والدین کو بچے ہونے کے باوجود بھی اُن کو کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا۔ مثلا ًنوح علیہ السلام کی مثال سورہ کہف ( آیت نمبر ۔۸۰)میں بھی اس کا تذکرہ ہے اور اپنے ارد گرد بہت ساری مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ اس کےبرعکس عام طور پر انسان چاہتا ہےکہ اس کا نام اس کے جانے کے بعد بھی باقی رہے۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ایسی شخصیتیں اس دنیا میں موجود ہیں، جن کے نام لینے والے کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، مثلاً حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا، لہٰذا ہمیں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے، اور یہ جان لینا چاہیے کہ اللہ علیم و خبیر ہے۔
تقدير کے لکھے پر کبھی شکوہ نہ کرنا اے انسان
تو اتنا عقل مند نہیں کہ رب کے راز سمجھ سکے
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)