اسماء جبین فلک
تہذیب کی سب سے بڑی آزمائش یہ رہی ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسل کو طاقت کا استعمال کیسے سکھاتی ہے۔ غلبے کے لئے یا حفاظت کے لئے؟ یہ سوال ہر دور میں گونجتا رہا ہے۔ یہ سوال ہر معاشرے کی اخلاقی سمت کا تعین کرتا ہے۔ حیاتِ انسانی کا صحیفہ جب بھی کھولا جائے، اس کے ہر ورق پر ایک ہی حرفِ زریں دمکتا ہے، تربیت۔ یہ وہ امر ِ عظیم ہے جس کی گہرائی میں قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں پوشیدہ ہیں۔ ہماری گود میں کھیلتے یہ وجود، یہ بیٹا اور بیٹی، محض گوشت پوست کے پیکر نہیں۔ یہ ملت کے مستقبل کی زندہ تعبیریں ہیں۔ جب یہ نفوسِ قدسیہ تہذیب کی بھٹی میں تپ کر کندن بنتے ہیں تو بساطِ حیات پر شاہکار بن کر ابھرتے ہیں۔
مگر صد حیف کہ ایک طویل عرصے سے ہماری اجتماعی فکر کا پیمانہ ایک ہی جانب جھکا ہوا ہے۔ ہم نے یہ گمان کر لیا کہ صنفِ نازک یعنی بیٹی ہی ہماری تمام تر توجہ، نگہداشت اور حفاظت کی واحد مستحق ہے۔ اِسی فکری کجی اور یک رُخی سوچ نے ہماری اجتماعی زندگی میں ایسا عدم توازن پیدا کر دیا ہے جس کی قیمت آج ہم ہر گلی، ہر کوچے، ہر گھر میں چکا رہے ہیں۔ یہ قیمت آنسوؤں میں، خوف میں اور ٹوٹی ہوئی زندگیوں میں ادا ہوتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے سماجی منظرنامے پرعالمی ادارہ?صحت کی رپورٹس ایک لرزہ خیز حقیقت سے پردہ اٹھاتی ہیں۔ یہاں ہر 3 میں سے ایک سے زائد عورت اپنے ہی ساتھی کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہے۔یہ ایک ایسی تہذیبی بیماری کا اعلامیہ ہیں جس کی جڑیں ہمارے تربیتی نظام میں بہت گہرائی تک پیوست ہیں۔ جب ہم اسباب کھوجتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے بیٹی کو چار دیواری کے تقدس اور شرم و حیا کا پیکر بنانے میں اپنی تمام توانائیاں صرف کر دیں۔ ہم نے اسے سکھایا کہ کیسے جھکنا ہے۔ کیسے سہنا ہے۔ کیسے اپنے وجود کو ایک سائبان کے لیے قربان کر دینا ہے۔ مگر اُس سائبان کے محافظ یعنی بیٹے کو، ہم نے ایک آزاد، خود سر اور غیر ذمہ دار ہستی کے طور پر پروان چڑھایااور اسے ہر قید سے آزاد رکھا۔ اسی غفلت کا نتیجہ ہے کہ آج ہم تہذیب کی بلندیوں سے اخلاقی پستی کی عمیق کھائیوں میں گر رہے ہیں۔ یہ غفلت محض والدین کی نہیں، یہ ایک ساختیاتی ناکامی ہے۔ یہ اس پورے نظام کی ناکامی ہے جو مرد کو صرف کمانے والا اور عورت کو محض گھر سنبھالنے والی سمجھتا ہے۔ معاشی بقا کی جدوجہد اتنی شدید ہے کہ والدین کے پاس بچوں کی جذباتی تربیت کے لیے نہ وقت بچتا ہے نہ وسائل۔ بیٹوں کو جلد از جلد ایک ‘کمانے والی مشین’بنانے پر زور دیا جاتا ہے اور اس عمل میں ان کی روح کی تعمیر کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔تربیت محض چند آداب و اخلاق سکھا دینے کا نام نہیں،یہ تو ایک کامل نظامِ حیات ہے۔ ایک روح پرور عمل ہے جو فرد کی ذہنی، روحانی، فکری اور عملی قوتوں کو اعتدال و توازن کی لڑی میں پروتا ہے۔ یہ وہ کیمیا ہے جو انسان کو ‘شیطانِ نفس’کی غلامی سے نکال کر ‘تہذیبِ کمال’کی معراج تک پہنچاتا ہے۔ اِس عمل کا تقاضا ہے کہ فرد کے باطن میں علم کی محبت پیدا ہو۔ حق و باطل میں امتیاز کی صلاحیت بیدار ہو۔ اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر دوسروں کے لیے جینے کا جذبہ پروان چڑھے۔ مگر ہم نے اس کیمیا گری کو صرف بیٹیوں کے لیے مخصوص کر دیا۔ بیٹوں کو خواہشات کے بے لگام گھوڑے پر سوار کر کے زندگی کے میدانِ کارزار میں چھوڑ دیا۔
کیا یہ ایک تلخ حقیقت نہیں کہ صنفِ ذکور یعنی بیٹا، جو اپنی جبلی ساخت اور معاشرتی حیثیت کے اعتبار سے زندگی کا شہسوار سمجھا جاتا ہے، اسے کہیں زیادہ فکری استحکام اور روحانی بالیدگی کی احتیاج ہے؟ امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن کی تحقیقات بتاتی ہیں کہ ’’روایتی مردانگی‘‘کا تصور مرد کے لیے کتنا نقصان دہ ہے۔ یہ تصور مرد کو ہر دم سخت، بے رحم اور جذبات سے عاری رہنے کا درس دیتا ہے۔ یہ اس کی اپنی نفسیاتی صحت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ جب ایک بچے کے آنسوؤں کو یہ کہہ کر اس کی آنکھوں میں ہی خشک کر دیا جاتا ہے کہ ’’مرد رویا نہیں کرتے‘‘ تو ہم دراصل اس کے اندر سے ہمدردی، نرمی اور شفقت کے سوتے خشک کر دیتے ہیں۔ وہ ایک ایسا فرد بنتا ہے جو دوسروں کے درد کو محسوس کرنے کی صلاحیت سے عاری ہو جاتا ہے۔ یہ نفسیاتی گھٹن اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یہی کھوکھلا پن باہر آ کر جارحیت، غلبے کی ہوس اور تشدد کی صورت اختیار کرتا ہے۔
سوچئے اس نوجوان کے بارے میں جسے بچپن سے سکھایا گیا کہ اس کی قیمت اس کی کمائی اور طاقت سے ہے۔ وہ محبت اور شفقت کو کمزوری سمجھنے لگتا ہے۔ وہ اپنی بیوی سے محبت تو کرنا چاہتا ہے، مگر اسے اظہار کا طریقہ نہیں آتا۔ اس کے اندر کا غصہ اور مایوسی بالآخر تشدد کی شکل میں پھٹ پڑتی ہے۔ یہ صرف ایک فرد کی کہانی نہیں، یہ ہمارے لاکھوں نوجوانوں کی خاموش اذیت ہے۔جب ہم فخر سے تسلیم کرتے ہیں کہ بیٹی کی آغوش میں قوموں کی تقدیر پرورش پاتی ہے، تو یہ امر کیونکر فراموش کر دیتے ہیں کہ اس آغوش کے محافظ یعنی بیٹے کا جہل اور فکری افلاس سے محفوظ رہنا بھی اتنا ہی لازم ہے؟ وہ بیٹے جو معاشرے میں ‘قوام’یعنی نگران و ذمہ دار کی حیثیت رکھتے ہیں، اگر خود ہی بے لگام خواہشات، انا پرستی اور روحانی غربت کا شکار ہوں گے، تو عدل و انصاف کی بنیادیں کیسے قائم رہ سکیں گی؟ ہم نے بیٹے کو دولت کمانے کی مشین سمجھا۔
ہم نے اسے یہ تو سکھایا کہ دنیا کو فتح کیسے کرنا ہے، مگر یہ نہیں سکھایا کہ اپنی ذات کو کیسے مسخر کیا جاتا ہے۔ ہم نے اسے طاقت کا استعمال تو سکھایا مگر یہ نہیں بتایا کہ قوت کا اصل مقصد کمزوروں کی حمایت اور انصاف کا قیام ہے۔اسی ناقص تربیت کا شاخسانہ ہے کہ آج ہمارے معاشروں میں عورت کا احترام ایک روایتی مجبوری تو ہو سکتا ہے، مگر کردار کا لازمہ?انفرادی نہیں بن سکا۔ ہم نے عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے مقدس رشتوں میں تو قید کر دیا، مگر اسے بحیثیت ِ انسان وہ مقام اور وقار دینے میں ناکام رہے جس کی وہ حقدار تھی۔ ہمارا بیٹا اپنی ماں کے پاؤں تو چھوتا ہے، مگر اپنی بیوی کو پاؤں کی جوتی سمجھتا ہے۔ وہ اپنی بہن کی حفاظت کے لیے جان تو دے سکتا ہے، مگر کسی اور کی بہن کی عزت پر حملہ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ یہ دوغلا پن، یہ منافقت، اسی تربیتی خلا کا نتیجہ ہے جس نے اس کے اندر ایک مربوط اخلاقی نظام کو تشکیل ہی نہیں پانے دیا۔ اس منافقت کو ہمارا کمزور قانونی نظام اور پولیس کا روایتی رویہ مزید تقویت دیتا ہے جو مردوں میں استثنیٰ کے احساس کو پختہ کرتا ہے۔ ہمیں اپنے بیٹوں کو سکھانا ہوگا کہ جذباتی ہونا کمزوری نہیں بلکہ انسانیت کی علامت ہے۔ ہمیں انہیں بتانا ہوگا کہ اصل مرد وہ نہیں جو دوسروں کو جھکائے بلکہ وہ ہے جو گرے ہوؤں کو اٹھائے۔
اس کے لیے ایک کثیر الجہتی حکمت عملی درکار ہے۔ اس کا آغاز گھر سے ہوتا ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹوں کو گھریلو کام کاج میں برابر کا شریک کریں۔ انہیں اپنی ماؤں اور بہنوں کے مسائل سننے اور سمجھنے کا موقع دیں۔ اس سے وہ عورت کی محنت اور کردار کا احترام کرنا سیکھیں گے۔ تعلیمی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ نصاب میں سماجی اور جذباتی ذہانت کو شامل کرنا ہوگا۔ تاکہ بچے بچپن سے ہی تنازعات کو پرامن طریقے سے حل کرنا اور باہمی رضامندی کی اہمیت کو سمجھنا سیکھیں۔ ہمیں اپنے روحانی اور مذہبی اداروں کے کردار کو فعال بنانا ہوگا۔ مساجد اور دیگر مذہبی مراکز کو اپنے خطبات اور درس میں مردوں کی ذمہ داریوں پر زور دینا ہوگا۔جب تک ہمارے بیٹے اخلاقی و روحانی بصیرت کے نور سے منور نہیں ہوں گے، ہماری بیٹیاں کسی بھی چار دیواری میں، کسی بھی قلعے میں محفوظ نہیں رہ سکتیں۔
���������������