فکرو فہم
مختار احمد قریشی
بیٹی گھر کی رونق ہے۔ بیٹی کے بغیر گھر ادھورا ہے۔ وہ پیار، احساس اور قربانی کی علامت ہے۔ بیٹی ہی ماں بنتی ہے، بہن بنتی ہے، بیوی بنتی ہے اور ایک خاندان کو مکمل کرتی ہے۔ مگر افسوس کہ آج بھی کچھ ذہنوں میں بیٹی کے لیے وہی پرانی سوچ باقی ہے، جو بیٹی کو بوجھ سمجھتی ہے۔ہر مرد پر لازم ہے کہ عورت کی عزت کرے۔ چاہے وہ بیٹی ہو، بہن ہو، ماں ہو یا بیوی۔ یہی وہ رشتے ہیں جن سے انسانیت قائم ہے۔ اللہ نے مرد اور عورت دونوں کو ایک دوسرے کا سہارا بنایا ہے۔ عورت کے بغیر زندگی ادھوری ہے۔ وہ صرف رشتوں کا نہیں بلکہ احساسات کا مرکز ہے۔ بیٹی کے چہرے پر مسکراہٹ گھر کی خوشبو ہے، اور اس کے آنسو باپ کے دل کو جلا دیتے ہیں۔بیٹی جب پیدا ہوتی ہے تو والدین کے گھر میں خوشیاں لاتی ہے۔ وہ ننھی ہنسی جب گونجتی ہے تو دلوں کو راحت ملتی ہے۔ مگر جب وہ بڑی ہوتی ہے تو باپ کے دل میں فکر بڑھتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اس کے لیے کوئی ایسا شریکِ حیات ملے جو اس کی قدر کرے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں آج بھی بہت سے ایسے گھرانے ہیں جہاں بہو کو عزت نہیں ملتی۔جب ایک بیٹی شادی کے بعد سسرال جاتی ہے تو وہاں اسے اپنائیت اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر اکثر وہ وہاں غلامی جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ وہی بیٹی جو اپنے والدین کے لیے آنکھوں کا تارا تھی، وہاں جا کر رونے لگتی ہے۔ اس کے خواب بکھر جاتے ہیں کیونکہ اسے سمجھا نہیں جاتا، بلکہ تذلیل کی جاتی ہے۔ایسے میں باپ کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ شخص جس نے اپنی بیٹی کو خونِ جگر سے پالا ہوتا ہے، جب وہ کبھی بیٹی کے گھر مجبوری میں جاتا ہے تو بعض اوقات اس کے آنے پر ناگواری ظاہر کی جاتی ہے۔ وہی انسان جو اپنی جگر کا ٹکڑا کسی اور کے حوالے کرتا ہے، اسے اجنبی سا محسوس کرایا جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جو کسی باپ کے دل کو چیر کر رکھ دیتا ہے۔یہ ہماری سماجی گراوٹ کی سب سے بڑی مثال ہے۔ ہمیں اپنی سوچ بدلنی ہوگی۔ ہمیں بیٹیوں کو بوجھ نہیں بلکہ رحمت سمجھنا ہوگا۔ ہمیں ان کی قدر کرنی ہوگی۔ بیٹی صرف ایک فرد نہیں، وہ برکت ہے، وہ دعا ہے، وہ امانت ہے۔
اسلام نے بیٹی کو سب سے بلند مقام دیا ہے۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا، ’’جس نے دو بیٹیوں کو اچھے طریقے سے پالا، ان کی شادی کی، وہ جنت کا مستحق ہوگا۔‘‘ یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ بیٹی کا وجود باعثِ رحمت ہے۔ مگر افسوس کہ ہم اس رحمت کی قدر نہیں کرتے۔
بیٹی کسی بھی خاندان کی پہچان ہے۔ اگر بیٹی کو عزت ملے گی تو معاشرہ مہذب ہوگا۔ اگر اس کی تذلیل ہوگی تو معاشرہ تباہی کی طرف بڑھے گا۔ عزت اور محبت دینا ہی اصل دین ہے۔ جو انسان اپنی بیٹی، بہن، ماں یا بیوی کی عزت نہیں کرتا وہ انسانیت کے درجے سے گر جاتا ہے۔بیٹیوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہر باپ، شوہر اور بھائی کی ذمہ داری ہے۔ ان کی بات سننا، ان کے جذبات کو سمجھنا، ان کے دکھ بانٹنا ہمارا فریضہ ہے۔ معاشرے کو ترقی اسی وقت ملے گی جب عورت محفوظ اور مطمئن ہوگی۔بیٹی گھر کی خوشبو ہے۔ اس کی مسکراہٹ سے دلوں میں روشنی آتی ہے۔ وہ خلوص اور محبت کا دریا ہے۔ اگر ہم اس کی قدر نہیں کریں گے تو ہمارا معاشرہ اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔اللہ تعالیٰ سب بیٹیوں کو خوش رکھے، انہیں عزت دے اور ان کے والدین کو صبر و سکون عطا کرے۔ جو لوگ بیٹیوں کی قدر کرتے ہیں، اللہ ان کے گھروں میں ہمیشہ رحمتیں نازل کرتا ہے۔بیٹی کو کبھی کمزور نہ سمجھو۔ وہی تمہاری طاقت ہے، تمہاری دعاؤں کا اثر ہے۔ وہی تمہارے نام کو عزت دیتی ہے۔ بیٹی کے بغیر گھر صرف دیواریں ہیں، مگر بیٹی کے ساتھ وہ جنت بن جاتا ہے۔لہٰذا آج عہد کرو کہ بیٹی کو عزت دو، احترام دو، محبت دو۔ اس کی دعا سے ہی تمہاری دنیا اور آخرت سنورے گی۔اللہ تعالیٰ تمام بیٹی والوں کو عزت دے، رحمت دے اور بہترین بدلہ دے تاکہ لوگ بیٹی کو بوجھ نہیں بلکہ برکت سمجھیں۔
بیٹی وہ نعمت ہے جس کے قدموں تلے جنت بچھائی گئی ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ لیں تو معاشرہ کبھی بھی عورت کی تذلیل نہیں کرے گا۔ بیٹی کا وجود صرف گھر کی زینت نہیں بلکہ خاندان کی عزت ہے۔ وہ رشتہ ہے جو محبت سکھاتا ہے، قربانی کا مفہوم سمجھاتا ہے اور خلوص کی بنیاد رکھتا ہے۔جب کسی گھر میں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو وہ گھر روشنی سے بھر جاتا ہے۔ اس کی معصوم مسکراہٹ سب غموں کو بھلا دیتی ہے۔ مگر جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی ہے، اس کے ساتھ ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، خواب بدل جاتے ہیں، مگر محبت کی شدت کبھی کم نہیں ہوتی۔ وہ باپ کی دعاؤں کا سایہ بن کر جیتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں آج بھی بیٹیوں کو وراثت میں حق نہیں دیا جاتا۔ ان کی رائے کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ان کے جذبات کو کمزور سمجھا جاتا ہے۔ یہ سب رویے اس وقت تک ختم نہیں ہوں گے جب تک ہم اپنی سوچ میں تبدیلی نہیں لاتے۔
اسلام نے بیٹی کو جتنا مقام دیا ہے، شاید کسی اور مذہب نے نہیں دیا۔ نبی کریمؐ کی بیٹیاں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ سیدہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا نے صبر، وقار اور پاکیزگی کی مثال قائم کی۔ وہی کردار ہر بیٹی کے اندر زندہ ہے اگر ہم اسے عزت دیں۔بیٹی صرف اپنے والدین کی نہیں ہوتی، وہ ایک نسل کی معمار بنتی ہے۔ اگر اس کی تربیت محبت سے کی جائے تو وہ آنے والی نسلوں کو سنوار دیتی ہے۔ لیکن اگر اس پر ظلم کیا جائے تو وہ نسلیں بکھر جاتی ہیں۔بیٹی کے ساتھ حسنِ سلوک، اخلاق کی علامت ہے۔ جو مرد اپنی بیٹی سے محبت کرتا ہے، وہ کبھی بھی کسی عورت پر ظلم نہیں کرتا۔ کیونکہ اس نے بیٹی کے چہرے پر ماں، بہن اور بیوی کی جھلک دیکھی ہوتی ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بیٹیوں کا احترام صرف الفاظ میں نہیں بلکہ عمل میں ہونا چاہیے۔ انہیں تعلیم دو، اعتماد دو، بولنے کا حق دو۔ انہیں اپنی رائے ظاہر کرنے کی ہمت دو۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو انہیں مضبوط اور خودمختار بناتی ہیں۔آج کے والدین کو چاہیے کہ بیٹیوں کے خوابوں کو دبانے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ اگر وہ پڑھنا چاہتی ہے تو اسے پڑھنے دو۔ اگر وہ کام کرنا چاہتی ہے تو اس پر فخر کرو۔ کیونکہ کامیاب بیٹیاں کامیاب معاشرے کی بنیاد ہیں۔بیٹی جب ہنستی ہے تو گھر جنت بنتا ہے۔ جب وہ روتی ہے تو دیواریں بھی اشکبار ہو جاتی ہیں۔ اس لیے اپنے گھروں میں کبھی بھی بیٹی کا دل نہ دکھاؤ۔ وہ اللہ کی دی ہوئی سب سے خوبصورت امانت ہے۔بیٹی کی عزت کرو، کیونکہ وہ تمہارے لیے دعا کرتی ہے۔ وہی دعا تمہارے لیے رحمت کا سبب بنتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہر بیٹی کو عزت، امن، خوشی اور عزتِ نفس دے۔ اور ہمیں توفیق دے کہ ہم بیٹی کو اس کے اصل مقام پر دیکھ سکیں۔
(رابطہ۔8082403001)
[email protected]