عام کہاوت یہی ہے کہ ٹی وی اور بیوی میں کوئی خاص فرق نہیں کہ دونوں ہی بغیر دیکھے ، سنے اور سمجھے بہت بولتے ہیں۔ تا ہم اگر ہم اس اجمال کا تفصیلا جائزہ لیں تو بہت سی دلچسپ او ر متضاد چیزیں نظر آتی ہیں۔ مثلا: ٹی وی میں تصویر کے ساتھ آواز بھی آتی ہے اور آواز کم زیادہ کرنے کا بٹن بھی ہوتا ہے، مگر بیوی میں صرف ایف ایم کی سی ہی آواز آتی ہے تصویر نہیں او ر نہ ہی آواز کم زیادہ کرنے کا کوئی بٹن ہوتا ہے۔ لہٰذا پورے محلے میں بغیر اسپیکر کے اس کی آواز صاف سنائی دی جا سکتی ہے۔ محلے کے اگر کئی گھروں میں ایک ساتھ کئی ٹی وی اور بیوی (یاں) اکٹھے کھول (منہ) دیے جائیں تو ایسا لگے گا کہ حضرت اسرائیلؑ صور پھونکنے آگئے ہیں۔ پہلے زمانے میں ٹی وی جب نیا نیا آیا تھا تو پورے محلے میں ایک ہی ٹی وی ہوتا تھا اور سب لوگ با جماعت بڑے ذوق و شوق سے اسے ایسے دیکھتے تھے جیسے نئی نویلی دلہن کو۔ تاہم اب گھر کے ہر کمرے میں ٹی وی ہوتا ہے، مگر بیوی صرف ایک ہی ہوتی ہے ۔ میرا اس مسئلے پر اپنے دوستوں سے اکثر اختلاف رہتا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ یار یہ ہمارے صبر کا امتحان ہے کہ تا حیات ایک ہی بیوی ۔ کیا خیال ہے آپ کا؟ پچھلے دنوں ایک جھوٹا سچا واٹس ایپ آیا تھا کہ کسی افریقی ملک میں عورتیں زیادہ اورآدمی کم ہیں اور ایک ایک بندے کے ساتھ درجن درجن عورتیں چپکی پڑی تھیں، تو بھائی حکومت والو! وہیں سے عورتیں امپورٹ کردو ۔ ورنہ ہم بھی دیں دھرنا!!! کیونکہ آج کل ہو یہی رہا ہے کہ کسی کا طوطا یا بلی بھی گم ہوجائے یا بیوی ناراض ہو جائے تو دھرنا سب سے بڑا ہتھیا ر ہے۔ ہاں تو جناب بات ہورہی تھی ٹی وی اور بیوی کی، پہلے زمانے کا ٹی وی ایک بکسے کی مانند ہوتا تھا اور باقا عدہ آگے سے بند کر نے کے لیے کھڑکی بھی لگی ہوتی تھی کہ جب چاہا بند کر دیا ، مگر بیوی اگر ایک بار شروع ہو جائے تو اسے بند کر نے کا کوئی بٹن یا کھڑکی نہیں ہوتی۔تاہم کچھ کیسس میں چپیڑ یا جتی کام کر جاتی ہے۔ ویسے آجکل کے ٹی وی ریموٹ کے اشارے پر چلتے اور ناچتے ہیں ، مگر بی وی صرف زیور کے اشاریے سے چلتی اور میاں کو اشاروں پر نچاتی ہے۔ ٹی وی بہت سے رنگ، سائز اور ماڈل میں دستیاب ہوتا ہے، چوائس ہوتی ہے اور تبدیل بھی ہو جاتا ہے ، مگر بیوی کا جو کلر ، سائز اور ماڈل مائیں بہنیں چوز کر لیں عموماً وہ ناقابلِ تبدل ہوتا ہے ۔ ٹی وی پر اگر کوئی پروگرام پسند نہ آئے تو بندہ فوراً چینل بدل دیا مگر بیوی میں ایسا کوئی سسٹم نہیں ہوتا۔ ٹی وی کی گارنٹی ہوتی ہے بیوی کی کوئی گارنٹی نہیں کہ پہلے ہی دن پھڈا کر بیٹھے۔ ٹی وی وزن میں ہلکا پھلکا ہونے پر ایک بندے سے بھی اٹھایا جا سکتا ہے، مگر بیوی کو اٹھانے کے لیے (بعض صورتوں میں؟؟) کرین کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ ٹی وی دیکھ اور سن کر آدمی بہت کچھ سیکھتا اور سمجھتا ہے، بیوی کو دیکھ کر اورا س کی اوٹ پٹانگ سنک کررہی سہی سمجھ اور عقل بھی دفع دور ہو جاتی ہے۔ ٹی وی ایک بار لے کرکم از کم پانچ سال کو ئی خرچہ نہیں، بیوی کے خرچے روزِ اول سے روزِ آخرت تک بلکہ مرنے کے بعد بھی چالیسویں تک لگوا جاتی ہے۔ ٹی وی خراب ہوجائے تو ٹھیک کرا لیا جاتا ہے، مگر بیوی کے تمام پرزہ جات ، بالخصوص دماغ شریف ناقابلِ مرمت ہوتا ہے اور اس کاکوئی مکینک بھی دنیا میں دستیاب نہیں ۔ ٹی وی بھی اگرچہ نان سٹاپ بولتا ہے، مگر کبھی کبھار بیوی بولنے میں ٹی وی کو بھی مات دے دیتی ہے۔ اگر ٹی وی پرانا ہوجائے تو تبدیل ہو کر نیا آ جاتا ہے مگر بیوی جتنی پرانی ہوجائے اتنا ہی گِچی میں عذاب بن جاتی ہے۔ ٹی وی بے چارا جیسے لاؤ ویسے ہی رہتا ہے ۔پر بیوی لاؤ سولہ کلو کی تو چند سال بعد وزن بڑھنا لازمی ہے۔ پچھلے دنوں ایک خاتون کو شادی کے بعد دیکھنے کا اتفاق ہوا تو یقین نہ آیا کہ ان کے لیٹنے کے لیے ان کے میاں صاحب نے ایک سپیشل آٹھ بائی سولہ کی چارپائی بنوائی ہے۔ لگ بھگ اسی مرحومہ موٹی مصری عورت ایمان کے سائز کی تھی کہ جسے سپیشل جہاز چارٹر کر کے مصر سے انڈیا لے جاکر آپریٹ کروایا گیا تھا مگر وہ اللہ کو پیاری ہوگئی۔آج کل سائنسدان ٹی وی میں موڈیفیکیشن کر کے نیا ماڈل لے آتے ہیں،پہلے ٹی وی، ایل سی ڈی، ایل ای ڈی وغیرہ، مگر بیوی میں اس طرح کا آپشن نا پید ہو تا ہے۔ٹی وی دیکھتے ہوئے دورانِ پروگرام وقفہ آجاتا ہے اور بندہ سائی کڈھ لیتا ہے، تا ہم بیوی اگر شروع ہو جائے تو نان سٹاپ بولتی ہے ،سائی نہیں کڈھنے دیتی (مطلب آرام)۔ اس کے علاو ہ لو ڈ شیڈنگ کے زمانے میں بجلی چلی جائے تو ٹی وی خود بخود بند ہو جاتا ہے، تا ہم بیوی کی بولتی بند کرنے کی کوئی چیز ایجاد نہیں ہوئی۔ ٹی وی دیکھتے بندہ تھک جائے تو اسے بند کر دیتا ہے، بیوی کو نان سٹاپ سن سن کر اور سہہ سہہ کر کانوں اور دل کے ڈاکٹر کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ٹی وی اگر چودہ انچ کا لیا جائے تو تاحیات چودہ انچ کا ہی رہتا ہے۔ٹی و ی اگر دھول مٹی میں اٹ کر میلا ہو جائے تو کپڑا شپڑا مار کر صاف کر لیا جاتا ہے، بیوی اگر میک اپ شیک سے اَٹی ہو اور کپڑا مار دیا جائے تو الٹی آنے کو ہوتی ہے۔آجکل ٹی وی پر ایک سو سے زیادہ چینل دیکھے جارہے ہیں ، تا ہم بیوی کے صرف تین ہی چینل چلتے ہیں، ڈھیروں باتیں، برائیاں اور ناشکری۔ٹی وی بجلی سے چلتا ہے ، بیوی بغیر بجلی کے بھی ٹنا ٹن چلتی ہے۔ ٹی وی بیچارہ بے زبان ،انسان کی ہر بات مانتا ہے،پر کچھ بیویاں اتنی ضدی اور ہٹ دھرم ہوتی ہے کہ لات اوپر رکھ کر اور گلے پر انگوٹھا رکھ کر یا ٹسوے بہا کر اپنی ہی بات منواتی ہے۔ ٹی وی میں کیبل یا ڈش لگاؤ تو چینل آتے ہیں، بیوی بغیر کسی کیبل یا انٹینا کے چلتی ہے اور دنیا بھر کی نیوز دیتی ہے۔ٹی وی کی نشریات میں خلل واقع ہو جائے تو جلد ہی خود بخود دور ہو جاتا ہے، بیوی کے دماغ میں اگر خلل واقع ہو جائے تو ہفتوں نہیں جاتا جس کی وجہ سے میاں کے دماغ میں بھی اکثر خلل واقع ہو جاتا ہے، پھراس کااختتام کبھی کبھار چھترول اور لترول پر بھی ہوتا ہے۔ الغرض۔۔۔۔۔ٹی و ی اور بیوی میں بہت کچھ متضاد ہو تا ہے۔آج کل گھر گھر میں ٹی وی ہونے کی وجہ سے ٹی وی ، بیوی ، سٹار پلس اور دیگر چینلز لازم و ملزوم ہوتے جارہے ہیں۔ ڈراموں کی لت پڑی بیٹی کو جب تلک جہیز میں ایک عدد اسی انچ رنگین ایل ای ڈی ٹی وی نہ دیا جائے وہ بھی رخصتی اور گھر کی دہلیز پار کرنے سے انکار کر دیتی ہے بلکہ ایک نکاح نامے کی شرائط میں تو بطورِ خا ص اسی انچ کا ایل ای ڈی ٹی وی نام لے کر لکھوایا گیا،کیونکہ اگر گھر میں ٹی وی نہ ہو تو بیوی ہر روز شام کو پڑوسیوں ہاں ڈرامہ دیکھتی پائی جائے گی ، میاں بچوں کے پمپر بدلی کر رہا ہوگااور کھانا ہوٹل سے لانا ہوگا ۔ آج کل کی بیویاں ٹی وی کی اتنی شوقین ہوتی ہیں کہ چھِلے کے پورے نو ماہ بجائے اس کے کہ اﷲ اﷲ کر یں کہ بچہ بھی نیک پیدا ہو، ناساز ئ طبیعت کا بہانہ کر کے سارا ٹائم ٹی وی کے آگے لیٹی رہتی ہے ، پھر نتیجہ میں آج کل کے جیسے ٹی وی کے شوقین بچے پیدا ہوتے ہیں کہ جنہیں دودھ پلانے ، کھانا کھلانے اور بہلانے کے لیے بھی ٹی وی دکھانا پڑتا ہے۔
بیوی کے ٹی وی دیکھنے کے اور بھی بہت سے نقصانات ہیں مشلاًٹی وی کے ڈراموں میں دکھائے جانے والے نت نئے ڈیزائن کے کپڑوں، گھروں کی بناوٹ سجاوٹ ، بچوں کی نئی نئی چیزیں دیکھ کر گھر کے خرچے میں اضافہ۔ کوکنگ شو دیکھ کر نت نئے کھانے پکا نے کے تجر بات کرکے میاں کی جیب کا بیڑا غرق کر کے کچن کے خرچے میں اضافہ ، سہییلوں سے فون پر ٹی وی پر دیکھے گئے نت نئے ڈیزائنوں پر گھنٹوں تبصرے ، فون کے بل میں اٖضافہ، غرض یہ کہ خرچہ ہی خرچہ۔ بیوی ٹی وی کے کسی پسندیدہ ڈرامے میں مستغرق ہواور بچے شور کردیں تو بھی پھڈا شروع ہوجاتا ہے۔ کبھی کبھار تو شوہر اور بچوں کو دخل در معقولات کی وجہ سے کمرہ بدر بھی ہونا پڑتا ہے۔اتفاق سے اگر کبھی ٹی وی خراب ہو جائے تو بیوی کا موڈ اور منہ بھینس کی طرح ٹی وی ٹھیک ہونے تک لٹکا ہی رہتا ہے۔ اگر کہیں مہمان بن کر جائیں اور میزبان کے ہاں ٹی وی نہ پایا جائے تو انہیں ہر شام بیوی کو ٹی وی والے گھر کی یاترا کو بھی لے جانا پڑتا ہے کہ ڈرامے کی کوئی قسط مِس نہ ہو جائے ۔ اگر کہیں کسی ہوٹل میں اسٹے کرنا ہو تو بیوی کی ٹی وی کی فرمائش پہلے آجاتی ہے کہ ایسے ہوٹل میں اسٹے کریں جہاں ٹی وی ڈِش کی سہولت کے ساتھ دستیاب ہو ۔ ان ٹی وی کی شوقین بیویوں کا بس نہیں چلتا کہ مرنے کے بعد قبر میں بھی ٹی وی لگوالیں کہ روزِ آخرت تک کا فارغ ٹائم اچھا گزرے گا اور فرشتے بھی ان کی باتوں سے تنگ آکر انہیں قبر میں ٹی وی کی اجازت دے دیں گے ! ایسے ہی بیوی اور ٹی وی کے ستائے ایک شوہر نے ایک بار غصہ میں ٹی وی ہی توڑ دیا ، اگلے ہی روز بیوی رشتہ توڑ کر بمع بچوں کے ابا کے گھر جا بیٹھی اور پھر بھری پنچایت میں نیا ٹی وی لانے کے حلف نامے پر دستخط کرا کر منیوا ہوا۔ ایک دوسرے صاحب روز روز بی وی کے ڈرامے دیکھنے سے اتنے تنگ تھے کہ شدید غصہ میں آکر ٹی وی اور بیوی دونوں کو توڑ بیٹھے، خو د آج کل جیل میں پتھر توڑتے ہیں اور بچے بےچارے میاں ، بیوی اور ٹی وی تینوں کو کوستے ہیں۔ایک بچے کے روز روز دیر سے اسکول آنے اور اچانک بچے کے لنچ بکس میں ٹیڑھا میڑا ناشتہ اور پاپے دیکھ کر ٹیچر نے وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ ان کی ماما رات گئے تک ٹی وی دیکھنے کی وجہ سے صبح جلد نہیں اٹھ سکتیں اور ناشتے میں ان کے پاپا چائے سے پاپا کھلاتے ہیں اور دو چار پاپے لنچ بکس میں رکھ دیتے ہیں کہ اسکول میں کھا لینا۔بہت سی بیویاں تو اجتماعی ڈرامے دیکھنے کی شوقین ہوتی ہیں، اگر کوئی خاص قسط آنی ہو تو محلے بھر کی خواتین یا اپنے ہی گھر کے بچوں کو آلے دوالے بٹھا کر ڈرامہ دیکھا جارہا ہوتا ہے۔ دورانِ ڈرامہ بچوں پر ان کے آرڈر بھی دیکھنے والے ہوتے ہیں کہ منی پانی لاؤ، منی روٹی لاؤ، منی چھوٹے منے کا جانگیہ بدلی کرو، منی ٹیبل پر کپڑا مارو، منی فلاں کام کرو ، وغیرہ ، وغیرہ ۔یوں منی بے چاری چھوٹی سی عمر میں ہی ماسی بنی ہوتی ہے۔
تو جناب! مذکورہ واقعات اور آج کل کے روز مرہ کے حالات سے اگر چہ واقعی لگتا ہے کہ بیوی اور ٹی وی دونوں ہی نقصان سے بھر پور ہیں مگر اتنے ہی ضروری بھی ہیں۔ ایک گھریلو حالات کے ستائے اور ناچاقی کا رونا رو تے ایک صاحب دعا کے لیے ایک بزرگ کے پاس گئے تو محترم بزرگ نے تمام حالات سننے کے بعد صرف ایک صائب مشورہ دیاکہ گھر سے ٹی وی فورا اٹھا دو سب معاملات ٹھیک ہو جا ئیں گے۔ لہٰذا اگر آپ بھی اپنے گھریلو اخراجات ،ناچاقی ، روز روز کے پھڈے اور دیگر امور خانہ داری کی وجہ سے پریشان ہیں تو بیوی نہیں ٹی وی کو نکال باہر کیجئے اور سکھی رہیے۔ ویسے بائی دا وے کیا آج کل کے دور میں یہ ممکن ہے ؟؟؟