وہ گھر کا کوئی بھی کام نہیں کرتی ہے ۔ صبح سے شام تک صرف ٹیلیویژن دیکھتی رہتی ہے اور جب بجلی چلی جاتی ہے تو موبائل فون پہ گیم کھیلنا شروع کر دیتی ہے ۔ کھانا پکانا بھی اس کو صحیح ڈھنگ سے نہیں آتا ۔ سبزیاں اگانا تو دور کی بات ہے سوئی کے سوراخ میں ڈھاکہ ڑالنا بھی اسے مشکل لگ رہا ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ میں اسے طلاق دے دوں کیونکہ وہ میری عزت اور اطاعت کرنے کے بجائے روز مجھ سے جھگڑتی ہے ۔ معمولی مسئلوں کو اُتار چڑھاؤ کر کے پیش کرنا اس کی عادت بن گئی ہے اور چھوٹی موٹی باتیں بھی اپنے ماں باپ اور بھائیوں کو فون کر کے روز بتاتی ہے ۔
صمد میر اپنی بیوی کے متعلق اپنے دوست سے بات کر رہا ہے ۔
اگلے روز صمد میر کو کسی کام کے لیے شہر جانا پڑا۔ دن بھر بھاری بارش ہوئی ۔ قہرانگیز اور ٹھنڈی ہواؤں نے راہگیروں کو مشکلات میں ڈال دیا ۔ صمد میر کو بھی بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ صبح گھر سے نکلتے وقت کھلی دھوپ تھی اور اس نے ہلکے کپڑے ہی پہنے تھے ، چھتری کے بغیر ہی گھر سے نکلا تھا ۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچتے وقت اس کے سارے کپڑے گیلے ہوئے تھے ۔ دن بھر کی تھکن اور ٹھنڈی ہواؤں سے بھی صمد میر گھر پہنچتے وقت بیمار ہوا ۔ معدے اور پیٹ میں شدید درد اور الٹیوں کی وجہ سے بھی صمد میر کو کافی تکلیف جھیلنی پڑی ۔ تمام گھریلو نسخے استعمال کرنے کے بعد بھی جب صمد میر کو کوئی راحت نہ ملی تو اس کی بیوی نے اس کے لیے کڑوی چائے تیار کرلی۔ خود ہی ڈاکٹر نثار کے پاس گئی، جو ان کے پڑوس میں ہی رہتا تھا اور اپنے میاں کے لیے دوائی لائی اور اسے خود کھلائی ۔ ساتھ میں اس کے لیے کانگڑی تیار کرلی اور اسے آرام کرنے کے لیے کہا ۔ دو گھنٹے بعد صمد میر کے جسم میں نئی جان آگئی۔ اس کا جسم چست اور صحتمند پہلے جیسا دکھنے لگا ۔ اس دوران صمد میر کا بیوی کے سوا کسی نے حال تک نہ پوچھا۔
سوتے وقت جب صمد میر کسی گہری سوچ میں ڑوبا تھا تو بیوی نے وجہ پوچھی ۔۔۔۔۔
’’آج تک میں تم کو ایک بے کار عورت تصور کرتا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ تم نہ میری عزت کرتی ہو نہ فرمانبرداری ۔ اس لئے میں تمہیں طلاق دینے پر آمادہ ہوا تھا لیکن آج تم نے مجھے ایک طرف شرمندہ بھی کیا تو دوسری طرف مجھے کچھ اور ہی سیکھنے کو ملا ۔‘‘