دہلی میں سابق انڈین ریوینو سروس آفیسر(IRS) اور‘’عام آدمی پارٹی‘ ‘کے رہنما اروند کیجریوال کی سرکارہے۔اروند کیجریوال نے سال 2010 ء میں’ جن لوک پال تحریک ‘کے نام سے رشوت کے خلاف ایک مہم شروع کی جس نے ملکی سطح پر کافی پزیرائی حاصل کی تھی۔ اس مہم کے ٹھیک دو سال بعد 2012 ء میں کیجریوال نے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ کے نام سے ایک سیاسی پارٹی کا قیام عمل میں لایا۔ پارٹی کے قیام کے روزِ اول سے ہی کیجریوال ہندوستان کے سیاسی اُفق پر چھا نے لگے اورانتہائی قلیل وقت میں دہلی کے چیف منسٹرشپ کا اہم عہدہ حاصل کیا۔فروری2015 ء کے دہلی اسمبلی انتخابات میں کیجریوال کی عام آدمی پارٹی نے 70 میں سے 67اسمبلی نشستوں پر قبضہ کر کے بی جے پی کو قراری شکست دے کر اپنی سرکار بنائی۔ شہر دہلی میں آٹورکشہ پر مختلف علاقوں میں ہماری آمد و رفت کے دوران آٹو ڈرائیوروں سے کیجریوال سرکار کے متعلق باتیں ہوئیں اور ہم نے پایا کہ وہ کیجریوال اور اُس کی سرکار کے قصیدہ گو ہیں۔وہ کیجریوال کے کام سے مطمئن ہیں اور مزید اچھے کاموں کی توقع بھی کرتے ہیں۔اُنھوں نے اس بات پر فخر کا اظہار کیا کہ انتخابات میں’ آٹو ڈرائیور یونین‘ نے کیجریوال کی جم کر حمایت کی اور کیجریوال کی جیت میں مرکزی کردار ادا کیا۔
دہلی میں اپنے قیام کے دوران ہم نے کچھ روز جامعہ ہمدرد یونیورسٹی کے گیسٹ ہائوس میںبھی گزارے ۔ یونیورسٹی کے رجسٹرا ر جناب فردوس وانی صاحب سے ہماری ملاقات کرائی گئی جو کہ کشمیر ی الاصل ہیں اور گذشتہ کئی سالوں سے دہلی میں کام کر رہے ہیں۔ملاقات کے دوران موصوف نے ہماری تعلیمی سرگرمیوں اورکیرئر کے حوالے سے کئی مشورے دیے۔ راقم اور گروپ میں شامل دیگر طلاب نے موصوف کی توجہ کشمیر کی سیاسی بے یقینی صورتحال کی طرف کرائی اور گذشتہ سال کے ابتر حالات پر کئی سوالات پوچھے۔موصوف نے جواب میں ہمیں اپنے کیریر کی فکر کرنے اور کشمیر سے باہر ہندوستان کے مختلف شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا ۔ موصوف نے کشمیر میںپے درپے ہورہی ہڑتالوں،احتجاجی کلینڈروںاور جلسے جلوسوں کو ’’رومانیت‘‘(Romanticism )سے تعبیر کرکے کشمیر میں جاری تحریک آزادی کو ’’ شاعری‘‘ قرار دیا۔ علاوہ ازیں موصوف نے حریت پسندوں کو بھی ہدف ِتنقید بنایا۔
دہلی میں ہم جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی گئے جہاں کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر طلعت حسین ہیں جو کہ ہماری جامعہ (کشمیر یونیورسٹی) کے سابق وائس چانسلر تھے۔ یونیورسٹی میںہم نے اُن سے ملاقات کرنے کی کوشش کی لیکن ذمہ داروں کے بقول وہ کسی اہم نشست میں مصروف تھے۔ البتہ یونیورسٹی کے شعبۂ سماجی بہبود DSW کی ذمہ دار پروفیسرتسنیم مینائی سے ہماری ملاقات ہوئی جنھوں نے ہمارا استقبال کرنے کے علاوہ اختصار ًا اپنے شعبہ کا تعارف بھی کرایا۔ ہم نے یونیورسٹی کی سینٹرل لائبری بھی دیکھی جو کہ جدید سہولیات سے لیس اور کئی حصوں میں منقسم تھی۔ گروپ میں شامل اُردوکے ہم تین طلبہ یونیورسٹی کے شعبۂ اُردوگئے جہاں ہماری ملاقات شعبہ کے سینئر استاد پروفیسر شہزاد انجم سے ہوئی۔ پروفیسر شہزاد نے اپنے شعبہ کا تعارف دینے کے علاوہ اُردو ادب کے موجودہ منظر نامہ پر بھی اپنے خیالات سے نوازا۔ موصوف نے اپنے شعبہ کی جانب سے رابندر ناتھ ٹیگور پر ہوئی ریسرچ پر مبنی کتابوں کا ایک ایک مجموعہ ہمیں عنایت کیا۔ یونیورسٹی میں کشمیری طلبہ کی ایک کثیر تعداد زیر تعلیم ہے۔ کئی ایسے طلبہ سے ہماری ملاقات ہوئی جنھوں نے ہمیں بتایا کہ گذشتہ سال کے کشمیر کے خراب حالات کے سبب کئی شعبوں کی کشمیریوں کے لئے مخصوص نشستیں خالی رہیں۔ یونیورسٹی کے متعدد شعبوں میں کشمیر طلباء کے لئے نشستیں مختص کی گئی ہیں۔
اگلے روز صبح ۴ بجے ہم آگرہ کی عالمی شہرت یافتہ عمارت تاج محل دیکھنے کے لئے روانہ ہوئے۔ موسم خوشگوار تھا، سورج طلوع ہونے کے بعد سے ہی گرمی میں برابر اضافہ ہونے لگا۔ ساڑھے 9 بجے ہم ہریانہ کی ڈسٹرکٹ راول کی تحصیل ہوڈل پہنچے جہاںسڑک کے کنارے پر ایک ڈھابہ میں ہم چائے پینے کے لئے بس سے اُترے۔ ڈھابہ والے نے ہماری کشمیری شناخت کا اندازہ کر کے کہا کہ اِس ڈھابہ میں کشمیری نمکین چائے بھی بنتی ہے ۔ یہ سننا ہی تھا کہ ہم میں سے اکثر طلاب کی آنکھوں میں چمک آ گئی کہ کئی دنوں کے بعد آج کشمیری چائے سے لطف اندوز ہونا نصیب ہوگا ۔ چنانچہ ہم نے ڈھابے والے کو کشمیر ی چائے بنانے کو کہا۔لیکن چائے کی ایک چُسکی لی ہی تھی کہ معلوم ہوا گویا ہم کوئی کڑوی دواپی رہے ہیں۔لہٰذا ہم نے ڈھابے والے سے چائے کے کپ واپس لینے کو کہا اورمابعد شکر والی چائے پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ ڈھابے پر اسلام نامی ایک دودھ والے سے ہماری مختصر بات چیت ہوئی۔ کشمیر کے حوالے سے اس نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں ظلم ہو رہا ہے اور وہاں کے باشندوں کو ہجرت کر کے کسی دوسری جگہ چلے جانا چاہیے۔
ہریانہ کی سڑکوں سے گذرتے ہوئے گائے بھینسیں، سر سبز و شاداب کھیت اورکھیتوں میں لوگ کھیتی باڑی کرتے ہوئے نظر آئے۔6 گھنٹے مسلسل سفر طے کر کے ہم ریاست اُترپردیش کے آگرہ علاقے میںدن کے 12 بجے پہنچے۔ آ گرہ پہنچے ہی تھے کہ تاج محل تک ہماری رہنمائی کرنے کے لئے بس میں ایک گائڈ سوار ہوا جو ہمیں تاج محل اور شہرِ آگرہ سے جڑی کئی معلومات بتاتا رہا۔ قریب 1 بجے ہم تاج محل کے وسیع و عریض احاطے میں داخل ہوئے۔ تاج محل کے بارے میں جو سنا تھا آج وہ بالکل سامنے تھا۔ایک بلند قامت قریب 20 فُٹ اونچے چبوترے پر بنی یہ سفید عمارت ،یقینا جاذب نظر اور دلکشی کا نظارہ پیش کر رہی تھی۔ وہاں موجود دنیا کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے سیلانی اِس عجیب و غریب عمارت کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔ عمارت میں سیکورٹی کا بھی سخت انتظام تھا اور اندر قدم قدم پر رضاکار ڈیوٹی پر معمور تھے۔تاج محل شہر آگرہ میں تعمیر شدہ ایک مقبرہ کا نام ہے جوستارہویں صدی کے مغل بادشاہ شاہجہاں نے اپنی بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کروایا تھا۔سنگ مرمر سے بنی یہ عمارت مغلیہ سلطنت کی عمدہ فن کاری کا ایک زندہ و جاوید نمونہ ہے ۔
تاج محل سے لوٹتے وقت ہریانہ میں ایک دُکان پر ہریانہ کی مشہور مٹھائی ’پیٹھا‘دیکھی، ہم میں سے کئی دوستوں نے مٹھائی خریدی۔ چائے کے لئے بھی ہم مختلف جگہوں پر بس سے اُترنے لگے۔ ڈھابوں پر موجود لوگوں سے یوپی کے الیکشن (جہاںبعد میں یوگی ادتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی نے سرکار بنائی )کے حوالے سے بھی بات چیت ہوتی رہی جس کے متعلق یہ لوگ اپنی اپنی آراء سناتے رہے۔رات کے ۱۱ بجے ہم جامعہ ہمدر کے گیسٹ ہائوس میں پہنچے۔
اگلے روز جمعہ تھا۔جامعہ ہمدرد کے بوائز ہوسٹل کی مسجد میں نماز فجرسے دن کا آغاز کیا۔ نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے ہم نے جامع مسجد دہلی کا پروگرام بنایا تھا۔ چنانچہ دن کے ساڑھے بارہ بجے ہم جامع ہمدرد سے ایک آٹو میں سوار ہوئے لیکن جامع مسجد پہنچے ہی تھے کہ معلوم ہوا نماز ہو چُکی ہے۔ لہذا ہم نے مسجد کے متصل ہی ، جہاں ابھی نماز ادا ہونا باقی تھا ، میں نماز جمعہ ادا کی۔ یہ مسجد ایک مدرسہ کی مسجد تھی جس میں بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کیا جاتا ہے۔جامع مسجد دہلی مقبول و معروف مسجد ہے جسے مغل بادشاہ شاہجہاں نے سترہویں صدی میں تعمیر کروایا تھا۔ شاہجہاں نے اپنے دورِ حکومت میں تاج محل، لال قلعہ،جامع مسجد دہلی اور متعدد ایسی ہی عمارتیں اور مساجد تعمیر کروائیں جو آج ہندوستان کے اہم سیاحتی مقامات ہیں۔ نماز جمعہ ادا کر کے ہم جامع مسجد کے وسیع و عریض احاطے میں داخل ہوئے ۔ مسجد میں ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ مسجد کے صحن میں ہم بھی مسجد کے احوال دیکھنے میں مشغول تھے کہ ایک 15-16 سالہ لڑکا ہمارے پاس آیااور ملتجی نگاہوں سے ہم سے فریادی ہوا۔یہ لڑکا یو پی کے مراد آباد کے ایک مدرسے میں زیر تعلیم تھا اور آج دہلی کے جامع مسجد مارکیٹ میں اسلامی کتابیں خریدنے آیا تھا۔ لڑکے نے ہم سے کہا کہ وہ مُراد آباد سے دہلی ایک بس میں آ رہا تھا ، اُس کی جیب میں ۵ ہزار روپے تھے جو کہ بس میں کسی نے چُرا لیے۔ اب واپس جانے کے لیے اُس کے پاس پیسے نہیں تھے۔ وہ لڑکا انتہائی پریشانی کے عالم میں اپنی روداد سنا رہا تھا۔ ہم نے خوب جانچ پڑتال کر کے اُس لڑکے کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اور آپس میں ہی چند پیسے جمع کر کے اُسے دیے ۔ شام کواُس لڑکے کے مدرسے کے ذمہ داروں کی جانب سے فون آیا اور کہا کہ لڑکا صحیح سلامت مدرسہ پہنچ گیا ہے۔ ذمہ داروں نے لڑکے کی مدد کرنے کے لئے ہمارا شکریہ اداکیا۔
جمعہ کی شام کو ہم مغربی دہلی کے مشہور و معروف علاقے حضر ت نظام الدین‘‘ گئے جو کہ کئی حیثیتوں سے توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔تیرہویں صدی کے مشہور و معروف صوفی بزرگ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے نام سے منسوب اِس علاقہ میں’’ بنگلہ والی مسجد‘‘ نامی ایک معروف مسجد واقعہ ہے۔ یہ ہندوستان میں تبلیغی جماعت کا مرکز ہے۔ یہاں دنیا بھر سے متعدد جماعتیں تبلیغی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے آتی ہیں۔ہم مسجد کے اندر گئے اور نمازیں ادا کیں۔ اِس مسجد کے چند ہی فاصلہ پر اُردو کے عالمی شہرت یافتہ شاعر مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کا مزار ہے جہاں حکومت ہندنے 1969ء میں ’’ غالب اکیڈمی‘‘ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ اکیڈمی نے غالبؔ کی شاعری اور حیات سے جڑی باقیات کو ایک عجائب خانہ میں محفوظ کیا ہے ۔ علاوہ ازیں اکیڈمی میں ایک کُتب خانہ بھی تعمیر کیا گیا ہے جس میں غالب کی شاعری اور حیات پر مبنی سینکڑوں کتابیں دستیاب رکھی گئی ہیں۔اکیڈمی کے عجائب خانہ میں ہم نے غالب کی روز مرزہ کی استعمال شدہ چیزیں اوراپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے خطوط بھی دیکھے۔اکیڈمی کے چند ہی فاصلہ پر حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کا آستانہ ہے جہاں پر زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔اِس آستانہ کے احاطہ میںتیرہویں صدی کے فارسی و اُردو شاعر امیر خسرو کی قبر بھی موجود ہے۔نظام الدین میں مغلیہ سلطنت کے دوسرے بادشاہ ہمایوں کا مقبرہ بھی ہے جہاں پر سیاحوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔
اگلے روز ہم مغلیہ سلطنت کے عہد کی تاریخ ساز عمارت لال قلعہ دیکھنے گئے جو کہ مغلیہ سلطنت کی ایک سنہری یاد ہے۔لال قلعہ جسے سترہویں صدی میں مغل بادشاہ شاہجہاں نے تعمیر کرایا تھا، کو قومی سطح پر مرکزیت حا صل ہے اور اِسی عمارت سے وزیر اعظم ہند قومی پرچم کو سلامی پیش کرتا ہے۔ وسیع و عریض احاطہ پر محیط اس قلعہ کے اندر مختلف عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں جسے آج متعدد کاموں کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ قلعہ کے اندر ایک عجائب خانہ بھی تعمیر کیا گیا ہے جس میں مغلیہ سلطنت کے دور کی چند اہم چیزیں محفوظ کی گئی ہیں۔ ہم نے پورے قلعہ کا دورہ کر کے وہاں کی چیزوں کا مشاہدہ کیا اور اِس بلند بانگ عمارت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے۔
دلی میں جن دیگر جگہوں پر ہم گھومے پھرے، اُن میں چاندنی چوک اوردر یاگنج کے علاقے بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں علاقے دراصل تجارتی مراکز ہیں۔ چاندنی چوک میں بجلی اور دیگر الیکٹرانک ساز و سامان آسانی سے مل جاتا ہے جبکہ دریا گنج میںتاریخ ، فلسفہ، ادب، سیاست اور دیگرموضوعات پر کتابوں کے علاوہ سکول ، کالجز اور یونیورسٹیز کی نصابی کتابیں اورتعلیم و تربیت سے جڑاسازو سامان آسانی سے انتہائی قلیل داموں پر مل جاتا ہے۔ اِن دونوں تجارتی مراکز سے ہم نے کئی الیکٹرانک چیزیں اور کتابیں خریدیں۔ دلی میںآٹو رکشہ کے علاوہ ہم نے KAP Auto نامی گاڑی میں بھی سفر کیا۔ یہ جدید گاڑی گوگل میپ پر چلتی ہے اور جدید صلاحیتوں سے لیس اِس کار میں سفر کرنے میں ہمیں بہت لُطف محسوس ہوا۔ دہلی میں ہم نے میٹرو ٹرین کے سفر کا بھی لطف اُٹھایا۔ برق رفتاری سے چلنے والی اس ٹرین کا سفرآسان، سستااور آرام دہ ہے۔دہلی میں ایک ہفتہ گزار کر بالآخر ہم 27 فروری بروزسوم صبح سوویرے چندی گڑھ کے لئے روانہ ہوئے۔ پنجاب اور ہریانہ کی اِس راجدھانی میںہمارا قیام پنجاب یونیورسٹی( چندی گڑھ) کے ہوسٹل میں کیا گیا جہاں ہم دن کے 2 1 بجے پہنچے۔ ہوسٹل کے کمرے اعلیٰ اور جدید سہولیتوں سے لیس تھے ۔یونیورسٹی کا احاطہ وسیع و عریض اور بڑی بڑی عمارتوں پر مشتمل تھا۔ یونیورسٹی میں ہم داخل ہوئے ہی تھے کہ ہم نے دیکھا کہ ABVP اور SFSنامی دو طلبہ تنظیموں کے مابین نعرہ بازی ہو رہی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ہی مزید تیز ہو تی جا رہی تھی۔ دونوں تنظیموں کے افراد کے مابین ہاتھا پائی ہونے ہی والی تھی کہ یکایک وہاں پر پولیس پہنچ گئی اور کئی طلباء کو گرفتار کر کے لے گئی۔پنجاب یونیورسٹی میں طلبہ ایکٹیوزم عام ہے اور طالب علم کسی بھی مسئلہ کو لیکر اظہار خیال کر سکتے ہیں۔ لیکن کشمیر یونیورسٹی میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ کشمیر یونیورسٹی میں طلبہ ایکٹیوزم پر پابندی ہے اور طلبہ کسی تنظیم کے تحت یونیورسٹی میں سرگرمی انجام نہیں دے سکتی۔ پنجا ب یونیورسٹی میں ہماری ملاقات فہیم نامی ایک کشمیری طالب علم سے ہوئی جو کہ وہاں فلسفہ میں ماسٹرس کر رہے تھے۔ موصوف نے ہمیں یونیورسٹی کے نظام اور خدوخال سے آگاہی فراہم کی ۔ اگلے روز نماز فجر ادا کرکے میں یونیورسٹی کی سیر کو نکلا۔ دوڑ تے دوڑتے میں دور تک جا پہنچا ، لیکن یونیورسٹی کی حدود ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ یونیورسٹی کا احاطہ ایک بڑے رقبہ پر محیط ہے۔ دن میں ہم راک گارڈن گئے جہاں پر فن کاروں نے پتھروں کو تراش خراش کر کے پیڑ پودوں اور جانوروں کے پتلے بنائے ہیں۔ یہ باغ دیکھنے کے لائق ہے جہاں پر عجیب غریب پگڈنڈیاں بنائی گئی ہیں جن میں چل کر محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی پہاڑ کی سیر کر رہے ہیں۔ راک گارڈن کے بعد ہم چندی گڑھ کی مشہور جھیل ’سُکھنا جھیل‘ گئے ۔ جھیل کے کنارے ایک بازار بھی قائم کیا گیا ہے جہاں پر کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ کپڑے وغیرہ کی دکانیں بھی سجائی گئی ہیں۔سکھن جھیل میں لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں سوار ہو کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہاں جھیل کے کنارے ہم نے ایک اونٹ کی سواری بھی کی۔زندگی میں پہلی دفعہ اونٹ کی سواری سے بہت لطف اندوز ہوئے۔ ما بعد ہم سارے اپنی بس میںچنڈی گڑھ کے مشہور Elante Mall بھی گئے جو کہ چند ہی سال پہلے تعمیر کیا گیا ہے۔Mallمیں ہر قسم کی چیزیں دستیاب رکھی گئی تھی۔ لیکن چیزوں کے دام اتنے مہنگے تھے کہ ہم میں سے کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ کوئی چیز خریدیں۔ Elante Mallسے لوٹ کر شام کو ہم یونیورسٹی کے شعبہ اُردو اور ہندی کے پروفیسروں سے ملے۔ شعبہ اُردو میں ہم نوجوان استاد پروفیسر علی عباس سے ملے جنھوں نے ہمیں شعبہ کا تعارف دینے کے ساتھ ساتھ پنجاب اور چندی گڑھ میں اُردو کی موجودہ صورتحال سے معلومات فراہم کی۔ ہمیں شعبہ ہندی میں بھی جانے کا موقعہ ملا جو کہ یونیورسٹی کا ایک بڑا اور اہم شعبہ ہے۔وہاں اساتذہ کے علاوہ ہم طلبہ اور اسکالرز سے بھی ملے جن کے ساتھ متعدد موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوا۔کشمیر اور کشمیر کے حالات پر ہم نے اُن کی معلومات سنی ۔ لیکن یہ معلومات سراسر جھوٹ اور فریب پر مبنی تھیں۔اِن طلبہ سے گفتگو کرنے کے بعد ہم نے محسوس کیا کہ یہ حقیقت شناس کم اور کذب بیان زیادہ ہیں۔ چنانچہ ہم نے اُن کی معلومات درست کرنے کی کوشش کی۔چندی گڑھ میں ہم دو روز رُکے ۔اِ ن دو دنوں میں ہم شہر کی کئی جگہوں میں گھومے ۔ہم نے پایا کہ چندی گڑھ انتہائی خوبصورت اور صاف ستھرا شہر ہے اور دہلی کے مقابلہ میں یہاں کا موحول بھی اچھا ہے۔چندی گڑھ کو یونیوین ٹریٹری کی حیثیت بھی حاصل ہے اور یہ شہر ہندوستان کا پہلا منصوبہ بند طریقے سے آباد کردہ شہر ہے۔ہمارا دورہ اب اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اور صبح سویرے ہمیں جموں کے لیے روانہ ہونا تھا۔
اگلے روز صبح 9 بجے ہم پنجاب یونیورسٹی سے جموں کے لیے روانہ ہوئے۔ چندی گڑھ سے جموں کے اس سفر میں ہم مختلف علاقوں سے گزر ے اور اِن علاقوںکی آب و ہوا اور لہلاتے سر سبز و شاداب کھیتوں کا نظارہ کر کے محظوظ ہوئے۔اس سڑک کو دیکھ کر راقم کے ذہن میں اپنے آبائی علاقہ کشتواڑ کی وہ پر خطر سڑکوں کی یادتازہ ہوئی جن پر سفر کرنے کے دوران ہر وقت ایکسیڈنٹ کا خطرہ سروں پر سوار رہتا ہے اور جس پر اب تک سینکڑو ں حادثات رونما ہو چکے ہیں اور نتیجتاً ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔لیکن آج اس پختہ سڑک پر سفر کرنا میرے لیے آرام دہ ثابت ہو رہا تھا۔دن بھر سفرکرتے ہوئے ہم بالآخر شام کے 6 بجے لکھنوپور کراس کرکے جموں کی حدود میں داخل ہو گئے۔
اگلے روز ہمیں سرینگر کے لیے عازمِ سفر ہونا تھا۔ لیکن جموں کے ہوٹل کالیکا دھام(Kalika Dham) میں ہم نے اپنا سامان رکھا ہی تھا کہ معلوم ہوا رام بن میں پسیاں گر آنے کے سبب جموں کشمیر شاہراہ عارضی طور بند ہو چُکی ہے۔ لہٰذا ہمیں اگلے روزجموں میں ہی قیام کرنا پڑا۔ موقع کو غنیمت جان کرہم نے فیصلہ کیا کہ پورا دن شہر جموں کو دیکھا جائے۔ چنانچہ گروپ میں شامل ہم چند دوست جموں کے گوجر نگر، راجندر بازار، کھٹیکا تالاب، رگوناتھ مارکیٹ، جیول چوک، شہیدی چوک وغیرہ جیسے علاقوں میں گھومے اور کئی چیزوں کا مشاہدہ کیا۔اِن علاقوں میں کشتواڑ کے کئی ہم وطنوں سے میری ملاقات ہوئی جو شہر جموں میں بسلسلہ تعلیم یا ملازمت مقیم ہیں۔اگلے دن ہم صبح سویرے ۵ بجے سرینگر کے لئے روانہ ہوئے۔ راستہ میں ہمیں کئی دفعہ رُکنا پڑا کیونکہ شاہراہ پر بد ترین ٹریفک جام تھا۔کد کے مقام پر ہماری گاڑی رُکی اور کئی طلاب نے کد کی مشہور مٹھائیاں خریدیں۔راقم نے بھی اپنے احباب و عزیزوں کے لئے مٹھائی کے چند ڈبے خریدے۔اب ہولے ہولے ہماری گاڑی پتنی ٹاپ کی اونچائی کی اور بڑھ رہی تھی۔ موسم نے پھر سے اپنا رُخ بدلنا شروع کیا اور ہم جس قدر پتنی ٹاپ سے نیچے آ رہے تھے اُسی قدر سرد ہوائوں کا سلسلہ شروع ہونے لگا۔ یہ گویا وادیٔ کشمیر میں داخل ہونے کی علامت تھی۔ رام بن میں ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا اور شام کو 7 بجے ہم سرینگر کی حدود میں داخل ہوئے۔ آہستہ آہستہ طلبہ و طالبات اپنے ٹھکانوں کی اور کوچ کرنے کے لیے گاڑی سے اُترنے لگے۔ آزاد، بانی عمر اور راقم کو بھی بس ڈرائیور زبیر نے رات کے 9 بجے کشمیر یونیورسٹی کے بوائیز ہوسٹل تک ڈراپ کیااور اس طرح سے شمالی ہندوستان کا یہ ہمارا 17 روزہ دورہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔
رابطہ :متعلم شعبۂ اُردو ، کشمیر یونیورسٹی
9622093275