۲۱؍ دسمبر تک ہم کعبہ شریف کے ایک نزدیکی ہوٹل میں مقیم رہے ۔یہ ایام انتہائی خوش کن اور خوش گوار یادوں کو سمیٹتے ہوئے اختتام پذیر ہوئے ۔۳۰؍دسمبر کو ہم نے فجر نماز مسجد حرام میں ادا کی اور واپس ہوٹل پر آئے ۔آج خانہ کعبہ سے وداع لینا تھی ۔صبح ناشتہ کرنے کے بعد ہم سے کہا گیا کہ مدینہ شریف جانے کے لئے ہوٹل کے باہر بس کھڑی ہونے والی ہے ،لہٰذا ہم اپنا اپنا سامان گراونڈ فلور پر لائیں۔اسی دوران بس ہوٹل کے باہر کھڑی ہوگئی ،ہم سب کا سامان اس کی ڈکی میں رکھا گیا ۔اب زائرین بس میں سوار ہوکر بڑے شوق اور اشتیاق کے ساتھ دیا ر ِحبیب ؐ کی طرف روانہ ہوئے۔مکہ سے مدینہ تک ایک لمبا سفر طے کرنا ہوتا ہے ۔گھنٹوں تک سفر کا سلسلہ جاری رہ کر طے ہوتا ہے ۔ مدینے کا سفر اسی مصروف شاہراہ سے گزر کر اختتام ہوتا ہے جہاں سے نبی ٔ اکرم صلی ا للہ علیہ وسلم نے ہجرت کا سفر اختیار کیا تھا۔ ہمیں سفر کے ابتدائی مرحلے کو چھوڑ کر آگے شاذ ونادر ہی کہیں کہیں پر رہائشی بستی دیکھنے کو ملی ۔یہ سڑک زیادہ تر پہاڑوں اور ویرانوں کو چیرکر گزرتی ہے لیکن شاہراہ قابل دید اور شاندار ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ مکہ مدینہ کی سڑکوں کی دیکھ ریکھ انتہائی اعلیٰ طریقے سے کی جاتی ہے ،ان کی صفائی ستھرائی کا یہ حال ہے کہ یہ اپنی مثال آپ ہیں۔اکثر 120اور 125کلومیٹر کی رفتار سے چھوٹی بڑی گاڑیاں چلتی ہیں اور مسافروں کو یہ اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ڈرائیور اتنی تیز رفتار ی سے گاڑی چلارہا ہے ۔اس سفر کے دوران مجھے اچانک شہر طائف کا وہ تاریخی اور درد ناک واقعہ یاد آیا جب ہمارے پیارے نبی ؐ مکہ میں مشرکین وکفار کی مخالفتوں اور دشمنیوں کی فضا میں یہاں تبلیغ ِ دین کی غرض سے تشریف لے گئے ۔ طائف کے ظالموں نے آپ ؐ کے پیغام کو رد ہی نہ کیا بلکہ اوباش لڑکے پیچھے دوڑائے جنہوں نے آپ ؐ پر پتھروں کی ایسی بارش کی کہ آپ ؐ کا بدن ِمبارک اتنا لہو لہاں ہوگیا کہ نعلین آپؐ کے مقدس خون سے بھر گئے ۔اگر آپؐ چاہتے تو یہ ساری بستی ایک بددعا سے ملیا میٹ ہوجاتی لیکن اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی آپؐ نے خیر طلبی کا دامن نہ چھو ڑا ۔ دروان ِسفریہ سارا واقعہ جب میری آنکھوں کے سامنے رقصاں ہوا تو بے تحاشا آنسو چھلک آئے ۔ کچھ دیر بعد اپنے جذبات پر قابو پاکر میں نے ٹور آپریٹر سے پوچھا کہ کیا اس سفر کے دوران ہم دور یا نزدیک سے طائف شہر دیکھ سکتے ہیں۔انہوں نے کہا نہیں،وہ شہر دوسری طرف پڑتا ہے، ہمیں اُس طرف سے گزرنا ہی نہیں ہے ۔خیر ہماری آرام دہ بس آگے بڑ ھ رہی تھی کہ ایک مقام سے گزر تے ہوئے ہمیں غزوہ بدر کا محل وقوع دیکھنے کو ملا۔وہ میدان دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی جہاں ۳۱۳صحابہ کرام رضی ا للہ تعالیٰ عنہم اجمعین کو بے سروسامانی کے ساتھ مسلح ومنظم کافروںکے ساتھ دوبدو جنگ لڑنا پڑی ۔ بدر میں اسلحہ اور سامان ِ حرب وضرب سے سرتا پالیس کافروں کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔اس میدان کے ساتھ ہی ایک اونچا اور وسیع پہاڑ کھڑا ہے ۔ ہمارے ساتھ ایک نوجوان زائر واگورہ چاڈورہ کے شکیل احمد ڈار نے شوقیہ اس پہاڑ پر چڑھ کر کچھ تصویریں لینا چاہیں لیکن اُس کے پائوں ریت میں دھنستے گئے اور ناکام ہوکر واپس لوٹ آیا ۔سفر کے دوران ہی ہم نے ظہر اور عصر نمازیں ادا کیں۔ چلتے چلتے مغرب کے وقت اُس منزل پر پہنچ گئے جس کے دیدارکی تمنا برس ہا برس دلوں میں انگڑائیاں لیتی رہی ہے ۔مسجد نبویؐ کے بالکل قریب ہمارا ہوٹل واقع تھا ۔کعبہ شریف میں ہمیں حرم پاک تک پہنچنے میں زیادہ سے زیادہ پانچ سات منٹ کا وقت لگتا لیکن مدینہ پاک میں ہمارا قیام جس ہوٹل میںتھا ، وہ مسجد نبویؐ کے صحن کے بغل میں واقع تھا۔یہ ہوٹل کافی اونچا اور کشادہ ہی نہیں بلکہ زائرین کے لئے ہر طرح کی سہولیات اور خدمات میسر تھیں۔ کمرے میں داخل ہوکر سبوں نے پہلی فرصت میں وضو بنایا، نئے کپڑے زیب تن کئے، عطر مل لی اور بڑی بے تابی کے ساتھ مسجد نبوی ؐ میں حاضری دینے نکلے۔مسجد نبویؐ میں مغرب نماز ادا کرنے کے بعد عشاء کے انتظار میں ہم یہی بیٹھے رہے ۔ مدینہ پاک میں بحیثیت مجموعی ہمارا وہی معمول رہا جو کعبہ شریف میں رہا تھا، یعنی بہت سویرے جاگ کر مسجد نبوی ؐ روانہ ہونا ، نمازتہجد ادا کرنا، اذان ِ فجرکے انتظار میں سننے کے بعد نماز فجر ادا کرنا ۔ اس دوران تمام زائرین قرآن خوانیوں، تسبیحات و تہلیلات اور در ود وسلام میں مشغول رہتے ہیں ۔ فجر نماز جماعت کے ساتھ ادا کرکے ہم واپس ہوٹل آتے۔چونکہ ابھی چائے ناشتے کا وقت نہیں ہوتا تھا، لہٰذا ہم سیدھے کچھ دیر نیند کی جستجو میں لگے رہتے ۔ مجھ سے چونکہ نیند روٹھی ہوئی تھی ،اس لئے بس بیڈ پر دراز ر ہے چھت کو تاکتا رہتا ۔ ناشتہ چائے وغیرہ کے لئے ہماری چار نفری ٹولی ہمیشہ ایک ساتھ ڈائنگ ہال چلے جاتے ، ساتھیوں کی خیریت وعافیت پوچھتے اورتھوڑی سے گپ شپ بھی لگاتے۔ یہاںیہ بھی بتاتا چلوں کہ مدینہ پاک میں وارد ہونے کے دوسرے روز نماز عصر ادا کرنے کے فوراً بعد فدا صاحب مجھے روضۂ اطہر پر لے آئے۔ یوںمیری زندگی کا وہ حسین خواب پورا ہورہا تھا جو برسوں ہراُمتی کوتڑپا تا ہے ۔ ایک طرف میں خوشیوں اور مسرتوں کی اتھاہ سمندر میں غوطہ زن تھا ،دوسری طرف اس خیال سے تھر تھر کانپ اُٹھتا تھا کہ میں گناہ گار اورروسیاہ اُمتی کیسے اپنے پیارے نبی ؐ کے روبرو کھڑا ہوسکوں۔ اُمید اور ناامیدی کی کشمکش میں محسن ِ کشمیر شاہ ہمدان حضرت میر سید علی ہمدانی ؒکی’’ اوراد فتحیہ‘‘ میں درج سلام کا ورد کرکے تھر تھراتے کپکپاتے روضۂ اقدس کے سامنے سے میں گذر گیا ۔۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیںروضہ ٔ رسول صلی اللہ علیہ و سلم پرسیدنا ومولانا محمد الرسول ا للہ کو سلام کہنے، دورو کی ڈالی پیش کر نے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سلام عقیدت پیش کر نے کے فضل سے نوازا۔
مسجد نبویؐ کے اندر روضۂ اقدس کی جانب زیارت کے لئے جاتے ہوئے روضۂ اقدس اور منبر شریف کے درمیان بائیں جانب کی جگہ ’’ریاض الجنتہ‘‘کہلاتی ہے ۔اس جگہ کے بارے میں پیارے نبیؐ کا ارشاد ہے کہ ’’میرے گھر اور منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے ‘‘۔اس جگہ مکروہ اوقات کے بغیر ہمیشہ زائرین نمازوں میں مشغول ہوتے ہیں اور جنت کا یہ ٹکڑا ہمیشہ نمازیوں سے کھچا کھچ بھری رہتی ہے ۔ اس پر سبز قالین بچھے ہوئے ہیں،یہ سبز قالین اس جگہ کی نشاندہی کرتے ہیں۔اس جگہ شب وروز اوقاتِ زوال کو چھوڑ کر آگے نمازی نفل یا فرض نمازوں میں مشغول ہوتے ہیں اور پیچھے قطار در قطار لوگ اس تاک میں ہوتے ہیں کہ کہیں تھوڑی سی جگہ نکل آئے ، جونہی تھوڑی سی گنجائش نکلتی ہے ، منتظر زائر وہاں لپک کر نفل نماز ادا کرجاتے ہیںاور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتاہے۔ بہر حال ہم لوگوں کو مدینہ منورہ میں آٹھ دن اور نو راتیں گذارنے کا زریں موقع نصیب ہوا ۔اس دوران میں نے ریاض الجنتہ میں کوئی فرض نماز ادا کرنے کی ٹھان لی تھی، جس میں الحمد اللہ کامیاب ہوا۔دو دفعہ یہاں دو رکعت نفل نماز پڑھنے کی سعادت پائی جب کہ تیسری بار اس غرض سے وہاں گیا ،ابھی سبز قالینوں کے پیچھے دوسرے منتظر لوگوں میں کھڑا تھوڑی سی جگہ کی نگاہیں تلاش میں تھیں کہ میری نظر یں ایک پاکستانی شہری پر پڑ گئیں ۔ اچھا خاصا صحت مند تھا اور اپنی ٹانگیں دائیں بائیں پسارے بیٹھے تھا ۔میں نے ایک دم اُس سے التجا کی براہ ِکرم اپنی ٹانگیں تھوڑا سا سمیٹئے، میں دو رکعت نماز ادا کرکے واپس چلا جائوں گا ۔زہے نصیب! اُس نے خندہ پیشانی سے میرے لئے جگہ بنائی ۔نماز ادا کرنے کے بعد واپس جانے کی سوچنے لگا تو اپنے آگے پیچھے ،دائیں بائیں نمازیوں کو نماز میں مصروف پایا ۔ میں شش و پنج میں پڑگیا کہ اپنا وعدہ کیسے پوار کروں ، مجبوراًاس پاکستانی شہری سے اس بارے میں رائے لی ،بندہ ٔ خدانے کہا ’’نہیں ،نہیں! اب آپ یہاں سے مت نکلئے ۔ظہر کی اذان ابھی ہورہی ہے ،نماز ظہر ادا کرنے کے بعد چلے جائیں‘‘اللہ کاکرنا کہ پھر ایسا ہی ہوا۔دوسرے روز میں نے جنت البقیع پر حاضری دینے کا من بنایا تھا۔ مجھے یہ پتہ چلا تھا کہ یہ مشہور قبرستان جس میں اولولعزم صحابہ کبار ؓ اور بڑی بڑی دینی شخصیات مدفون ہیں ، بعدازفجر و عصر کچھ دیر کھلا ہونے کے علاوہ ہمیشہ تالہ بند رہتا ہے۔ مسجد نبویؐ میں ہر نماز کے بعد کسی نہ کسی میت کا جنازہ پڑھا جاتاہے جن خوش نصیبوںکو اسی قبرستان میں دفنایا جاتا ہے ۔چونکہ اس قبرستان میں قد آور اور جلیل القدر ہستیاں محو آرام ہیں، لیکن یہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ درخشندہ شخصیات کہاں پر آسودہ ٔ خاک ہیں ۔قبرستان کے اندر داخل ہوکر میں نے فاتحہ پڑھی ،کچھ دیر تک اس کے چہار سُو کا جائزہ لیتا رہا ۔مرقدوں کے بیچوں بیچ اپنی سوچوں میں گم تھا کہ ایک بزرگ شخص سے مڈبھیڑ ہوئی ،ان سے پوچھا کہ اس مزار میں جو برگزیدہ اور بلند پایہ شخصیات آرام فرما ہیں، ان کی کوئی نشاندہی ہوسکتی ہے ؟ اس نے کہا کہ یہ معلوم نہیں کہ وہ نامی گرامی ہستیاں کہاں پر آسودہ ہیں ،البتہ مزار میں کہیں کہیں کچھ ایسی نشانیاں پائی جاتی ہیں جن سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہاں پر کوئی بلند پایہ ہستی ابدی نیند میں ہے، لیکن وہ کونسی ہستی ہے ، اس بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ہم اس متبرک مزار سے باہر آئے تو میں نے اس بزرگ شخص سے پوچھا :آپ پاکستانی شہری ہیں؟اُس نے کہا :نہیں ،میں بھارت کے حیدر آباد ضلع سے تعلق رکھتا ہوں۔ اب اس نے مجھ سے پوچھا : کیاآپ پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں ؟میں نے کہا:نہیں،میں نہ تو ہندوستانی ہوں اور نہ پاکستانی بلکہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر سے تعلق رکھتا ہوں۔یہ سن کر حیدر آبادی بزرگ اپنے ہونٹوں پر محبت بھری معنی خیز مسکراہٹ پھیلائی اور دعائیں دے کرمجھ سے وداع ہوا ۔
جتنے دن ہم مدینہ منورہ میں رہے ،ہماری کوشش رہی کہ زیادہ سے زیادہ وقت مسجد نبویؐ میں ہی عبادات میں گزر جائے اور ساتھ ہی نبی اکرم ؐ کے روضۂ اطہر پر بھی وقفہ وقفہ سے بغرض سلام حاضری دیتے رہیں۔اللہ تعالیٰ کا کرم شامل حال رہا کہ ہر لحاظ سے ہمارے دن خوب سے خوب تر گذرتے رہے ۔مکہ اور مدینہ شریف میں ٹھہرنے کے دورا ن موسم انتہائی موافق اور خوشگوار رہا ،نہ زیادہ گرمی تھی اور نہ زیادہ ٹھنڈ رہی ۔مکہ شریف کی نسبت مدینہ منورہ میں موسم کچھ زیادہ ہی دلکش اور سہانا رہا ۔مدینہ پاک میں صبح اور شام ٹھنڈی ہوائیں جسم کو چھوتے ہوئے روح کو بھی تراوت اور تازگی بخشتی تھیں ،یہاں کی وہ خوبصورت اور دلکش شامیں اور روح پرور صبحیں میری یادوں کا گراں قدر اثاثہ ہیں۔ حرمین میں ہمارے ایام کیسے گذرے ، واللہ اس کا پتہ ہی نہ چلا ۔ ہم نے اپنے قیام مدینہ منورہ میں جبل اُحد، مسجد قبا، مسجد قبلتین اور دیگر زیارات پر بھی شوق بھری حاضری دی ۔با لآ ٓخر وہ دن آہی گیا جب مقررہ تاریخ کو ہمارے ٹور آپریٹر محبی کلیم اللہ نے ہماری یاد دہانی کی خاطر ہم سے کہا کہ کل ہم واپس جارہے ہیں، لہٰذا اپنی مصروفیات سمیٹ کر آج شام تک اپنے تمام کام مکمل کریں۔ ہمارے پاس آب زمزم اور عربی کجھوروں کا تبرک تھا، اسے پورے اہتمام کے ساتھ رکھ کر اسی شام ہم سب زائرین بوریا بستر باندھنے میں منہمک ہوگئے ۔ یہ سارا کام نمٹانے کے بعد عشا ء ادا کرنے کے لئے مسجد نبوی ؐ کو گئے ، وہاں سے رخصتی سلام گزاری اور دعائیں کیں اے اللہ پھر سے حرمین کی زیارت کو بار بار بلانا ۔ ہوٹل پہنچے تو کھانے کے ٹیبل سج گئے تھے۔ عشایہ سے فراغت کے بعد گروپ سے وابستہ تمام زائرین جو سرینگر ،چاڈورہ اور چرار شریف سے تعلق رکھتے تھے ،آپسی گپ شپ کر کے اپنے کمروں میں آرام کے لئے چلے گئے ۔دوسرے روز ہم مدینہ پاک کی معطر فضاؤں ، مسجد نبویؐ و گنبد حضریٰ کے روح پرو رنظاروں کو اشکبار الوداع کہہ کر بذریعہ بس جدہ ائر پورٹ کی جانب بس میںروانہ ہوئے۔جدہ سے ہم نے کویت ائرویز کے طیارہ میںسوار ہوکر دہلی کی جانب رات دیر گئے اڑان بھرلی اور صبح سویرے دہلی ائر پورٹ پر اُتر ے ۔ یہاں سے دوسرے طیارے میں بیٹھ کے سرینگر پہنچے۔سرینگر ائر پورٹ مسافروں سے کچھا کھچ بھرا پڑا تھا کیونکہ مسلسل برف باری کی وجہ سے کشمیر کا ہوائی راستہ بھی دو دنوں سے مسدود پڑا ہوا تھا ،اس کے نتیجے میں کچھ اضافی پروازوں کا انتظام کیا گیا تھا،اس لئے طیران گاہ میں مسافروں کا میلہ سا لگا تھا ۔ائر پورٹ سے باہر آنے سے قبل زائرین ایک دوسرے کے ساتھ بغل گیر ہوکر رخصت لیتے رہے ۔اُدھرمیرا بھتیجا عمر پہلے ہی گاڑی لئے ائر پورٹ پر ہمارا منتظر تھا ،اس کی گاڑی ہمارے سامنے کھڑی ہوگئی ، ہمارا گرم جوشانہ استقبال کر کے اس نے ا یک دم ہمارا سامان گاڑی میں ڈال دیا اور ہم ہنسی خوشی گھر کی طرف روانہ تو ہوگئے مگر اند رہی اندر اللہ کے گھر اور آقائے نامدارؐ کے مبارک شہر سے جدا ئی کا کرب درد کی ٹیسیں اُٹھارہاتھا، ہم اپنے گھر کی طرف جسمانی طور سفر کر رہے تھے مگر دل ابھی کبھی مکہ میں اور کبھی مدینہ میں محوسفر تھا۔ میں اس پیچ تاب میں تھا کہ اس جدائی کاسوگ مناؤں یا اپنے عزیزوں سے دوبارہ ملنے کی خوشی مناؤں، اسی بیچ ہمار ا گھر آگیا اور یہ روح پرور یادگار سفر اپنے آخری پڑاؤ سے ہمکنار ہوا مگر ا بھی میں اپنی گھرواپسی کو اپنے سفر محمود کا اختتام کہنے میں پس وپیش محسوس کررہاہوں۔ میری دعا ہے کہ دنیا بھر کے ان تمام مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو جن کے دل میں یہ مبارک سفر کرنے کی تمنا اور خواب پل رہا ہے ، خدا وند کریم اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اُن کی یہ آرزو اور تمنا بہت جلد پوری کرے اور ساتھ ہی مجھ گناہ گار کو اپنے عزیز واقا رب اور دوست احباب سمیت بار بار حرمین الشریفین کی حاضری کی سعادت نصیب کرے۔آمین۔ ( ختم شد )
میر نوشاد رسول،مصطفیٰ آباد ،بمنہ۔،موبائیل9796764784