شجاعت بخار ی پر کچھ لکھنے کے لئے آئی پیڈ ہاتھ میں اٹھایا ہے تو اس مخمصے میں ہوں کہ بات کہاں سے شروع کروں۔ تین دہائیوں پر پھیلے ہوئے تعلقات کو ایک مضمون میں کیسے اور کیوں کر سمیٹوں اور اس کے بہیمانہ اور سفاکانہ قتل پر کھل کر بات کروں تو کیسے،جب کہ ہر چہار سو فاشسٹ جنونیوں ، سنگدل قاتلوں،نفرت کے پجاریوں اور انتہائی خسیس قسم کے سرکاری و غیر سرکاری صاحبان اقتدار و اختیار کا راج ہے،جن کا اپنا خود ساختہ سچ ، خودپسند دلیل اور من پسند تاویل ہے، جن کی چوکھٹ پر سبھی دوسری سچائیاں اور دلیلیں دم توڑ بیٹھتی ہیں۔شجاعت اب اس دنیا میں نہیں اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اگلی باری کس کی ہے، تاہم مجھے یہ کہنے میں ذرا بھر بھی ہچکچاہٹ نہیں کہ میرے دل و دماغ کے کسی گوشے میں یہ بات گھر کر گئی تھی کہ شجاعت اب ہمارے درمیان ذیادہ دیر ٹکنے والا نہیں۔وہ سر پٹ دوڑ رہا تھا، مسلسل دوڑے ہی جا رہا تھا اور اس برق رفتاری میں سرخ لکیر کو جانے انجانے میں پار کر گیا،جسے ہندی میں لکھشمن ریکھا اور انگریزی والے ریڈ لائن کہتے ہیں۔چند ماہ پہلے کی بات ہے میرے واٹس آپ پر ایک میسیج نمودار ہوئی،جو شجاعت کے بارے میں تھی،جس کا لیکھا جو کھا یہ تھا کہ وہ بھارتی خفیہ اداروں سے ملا ہوا ہے اور ان کی ایما پر کشمیر کی تحریک آزادی خاص کر عسکریت کے خلاف کشمیر ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی فورموں میں بھی سرگرم ہے۔میں نے شجاعت کا نمبر ملایا تو حسب روایت اس نے ہنسی مذاق میں گفتگو شروع کر دی تاہم میرے یخ بستہ اور قدرے تلخ لہجے نے اسے چوکنا کردیا اور پوچھا خیریت تو ہے۔میں نے جواب دیا آپ نے واٹس آپ پہ جو آرہا ہے ،دیکھا ہے یا نہیں۔شجاعت نے زور زور سے ہنستے ہوئے کہا: جناب یہ سلسلہ تو کئی دنوں سے چل رہا ہے۔کئی لوگ پہلے ہی بلاوجہ مجھ سے خار کھائے بیٹھے تھے اور وہ مجھے بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔اب دبئی کانفرنس میں میری شرکت کو لےکر بھائی لوگوںکے کانوں میں زہر بھر رہئے ہیں،لگتا ہے یہ نیک بخت مجھے ٹھکانے لگوا کر ہی پیچھا چھوڑیں گے۔‘‘میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس نے اپنے طور پر کیا پیش بندی کی ہے تو اس کا جواب تھا:آپ جانتے ہیں کہ میں ایک صحافی ہوں،بڑی محنت سے ایک ادارہ کھڑا کیا ہے،ایک سماجی کارکن ہوں،کشمیری زبان و ثقافت سے متعلق سرگرمیوں سے جڑا ہوں،آپ ہی بتائیں کیا میں بند کمرے میں ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاؤں اور میرے ساتھ وابستہ جو اتنا بڑا عیال(سٹاف) ہے وہ کہاں جائے گا؟کیا میں ان سب کو چھوڑ کر چوہوں کی طرح بل میں گھس جاؤں اور اپنے لئےعافیت کی راہ تلاش کر لوں؟آپ میرے اخبار کو دیکھ لیں، کیا میں نے سرکار یا اس کے کسی بھی ادارے کی طرف سے روا رکھی گئی کسی بھی زیادتی پر کبھی چپ سادھی ہے؟البتہ میں ایمان کی حد تک اس بات کا قائل ہوں کہ موجودہ عالمی صورت حال کے پس منظر میں گن کلچر ہرگز ہرگز ہمارے حق میں نہیں۔میں نے ا ُسے احتیاط برتنے کےلئے کہا اور فون کاٹ دیا۔ 2مئی کی صبع کو میںدہلی ائر پورٹ کے ٹرمینل تھری سے ائر ایشا کی چھے بجے کی فلائٹ سے سرینگر آرہا تھا،اس لئے ساڑھے تین بجے کے آس پاس ہوائی اڈے پر پہنچ گیا۔ سیکورٹی وغیرہ سے فارغ ہوکر اندر داخل ہوا تو کسی نے مجھے پکارا،دیکھتا کیا ہوں، شجاعت صاحب سامنے کھڑے ہیں۔ہمیشہ کی طرح تبسم زیر لب فقرہ چست کیا: انٹر نیشنل سیلانی آج کس ملک سے تشریف لا رہے ہیں؟ ‘‘ میں نے جواب دیا:ُ کیا سیر وتفریع پر صرف تم پیروں کا ہی حق ہے،ویسے بھی کہیں نہیں گیا تھا،تم اپنی سناؤ ، بولے میں استنبول سے آرہا ہوں،سخت بھوک لگی ہے ،پہلے ناشتہ کر لیتے ہیں۔ اس دوران میں نے سابقہ گفتگو کی روشنی میں بات چھیڑی تو مجھے وہ خاصے سنجیدہ نظر آئے اور بولے کہ لگتا ہے کہ وادی میں تشدد اور گن کلچر کے خاتمے سے متعلق میری تقریر پر بعض حلقے سیخ پا ہیں اور مہربانوں نے بھی آگ میں گھی ڈالنے کا ’’فر ض ‘‘ خوب نبھایا ہے۔کچھ بھی ہو میں وہی کہوں گا جو میری دانست میں کشمیر اور کشمیریوں کے مفاد میں ہوگا۔باقی میں اس بات پر پختہ اور غیر متزلزل یقین رکھتا ہوں کہ موت کیسے آئے گی اور کب آئے گی،یہ طے شدہ امر ہے‘‘۔اور بھی بہت ساری باتیں ہوئیں۔ہم نے ہاتھ ملایا اور ایک دوسرے سے الگ ہونے سے پہلے نہ جانے کیا سوچ کر میں نےدبئی کانفرنس کے حوالے مرحوم لون صاحب کا ذکر چھیڑ دیا اور اُسے یاد دلایا کہ اس میٹنگ میں عبدالغنی لون مرحوم کے علاوہ اس پار سے اور لوگ بھی تھے،جن میں سردار عبدالقیوم مرحوم بھی شامل تھے لیکن۔۔۔وہ میرا اشارہ سمجھ گیا اور میں اپنے متعین گیٹ کی طرف چل دیا۔12؍جون کی شام کو ایک بار پھر ایک دوسرے سے ملے۔میں ابوظہبی میں دو ہفتے گذار کر آیا تھا اور اور وہ بھی لیسبن سے تازہ تازہ لوٹے تھے۔حسب ِروایت نوک جھونک ہوئی۔اسے اتفاق کہیئے کہ کھانے کی میز پر بھی ہم اکٹھا ہی تھے ۔ جسٹس(ر) بلال ناز کی بھی شریک گفتگو تھے۔گفتگو کا محور شوگر کی بیماری تھی۔نا زکی صاحب سے کہنے لگے کہ شوگر کو قابو میں رکھنا کوئی ان سے سیکھے۔کھانے کے بعد سویٹ ڈیش کھانے لگے اور مجھے بھی آمادہ کرلیا۔بولے کھا لو ایک بار کھانے سے کیا ہوگا۔آپ کو جان کچھ ذیادہ ہی پیاری ہے۔نفس پہلے سے ہی تیار بیٹھا تھا،غرض دونوں نے میٹھے پر اچھا خاصا ہاتھ صاف کیا۔اکادمی اور سیاست پر بھی بات ہوئی ۔جاتے جاتے میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ ذاتی معاملے میں کوئی پیش رفت ہوئی تھی۔کہنے لگے کچھ دوستوں سے رابطے میں ہوں،باقی اللہ مالک ہے۔طے پایا کہ عید کے دو تین دن بعد فرصت نکال کر کہیں بیٹھیں گے۔کہاں کا بیٹھنا اور کیسا بیٹھنا!!!!
من در چہ خیالم و فلک در چہ خیال
عید سے ایک دن پہلے ہی اب میں ہزاروں بے بس و لاچار سوگواروں کی طرح اس کی میت کے سامنے کھڑا تھا۔جاوید مصطفے میر،محمد اشرف میر اور کئی مقامی باشندے جواں سال شجاعت کو نہلا رہے تھے اور آنکھوں سے خون بہا رہے تھے ،ساتھ میں بشارت بخاری،عمر عبداللہ اور ناصر اسلم وانی غم واندو کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔باہر لوگوں کا ایک اژدھام تھا ،کچھ کلمات معظماتک کا ورد کررہے تھے ، کچھ دھاڑیں مار کر رو رہے تھے اور بعض چپکے سے نیر بہا رہئے تھے۔بات کہاں سےکہا ں سے نکل گئی لیکن لگتا ہے ابھی تو کچھ بھی بیان نہیں کیا۔شجاعت کے ساتھ ذاتی تعلقات کا آموختہ جیسا کہ پہلے کہیں ذکر ہوا بیان کرنے بیٹھوں تو ایک کتاب بن جائے گی ،ایک ایک کرکے کئی واقعات ذہن کے کو اڑ خانے پر دستک دیتے ہیں۔طاہر محی الدین،بشیر منظر،احمد علی فیاض،ریاض مسرور، پرویز مجید وغیرہ کی ہمراہی میں اس کا ہمار ے گاوں شاداب کریوہ کا دورہ کرنا اور اگلے روز ’’ہندو ‘‘جیسے معتبر روزنامے میں اس پر سٹوری کرنا ،تین درجن سے زیادہ صحافیوں کے ساتھ بشیر منظر اور مشرق کے عبدالرشید شاہ صاحب کے اغوا کے بعد ککہ پرے کے دربار میں حاضری اور وہاں میرا پاگل پن کا مظاہرہ ،جس کا شجاعت بعد میں بار بار ذکر کرتا اور اسے سراہتا بھی۔کس کس کا ذکر کروں؟چند سال پہلے کی بات ہے کہ’پکار‘‘کے خصوصی شمیم احمد شمیم نمبر کے اجرا کی تقریب تھی۔ایوان صدارت میں محمد سعید ملک صاحب ،طاہر صاحب وغیرہ تھے اور انکساری کا مجسمہ میرا بھائی، میرا دوست سید شجاعت بخاری فخر سے نظامت کے فرائض انجام دے رہا تھا۔تب کیا معلوم تھا کہ یہ دن بھی دیکھنا پڑے گا کہ سعید صاحب،طاہر صاحب اور مجھے اس کا جنازہ پڑھنا پڑے گا اور اس کےوالد اور بڑے بھائی کو اس کی میت کو کاندھا دینا پڑے گاجب کہ ہفت روزہ ’’پکار ‘‘کو شمیم نمبر ہی کی طرح ’شجاعت نمبر ‘‘نکالنا پڑے گا.شیراز کے اس پہنچے ہوئے بزرگ نے شاید ایسے ہی کسی موقعے کے لئے کہا تھا ؎
عاقبت منزل ما وادی خاموشاں است
حافظا ! غلغلہ در گنبد افلاک انداز
شجاعت پچاس برس کی عمر میں ہی شہادت کے منصب سے سرفراز ہوالیکن اس کم عمر میں وہ کامیابی اور کامرانی کی اتنی سیڑھیاں سر کر گیا کہ بہت سے لمبی عمر کے مالک اس پر رشک کر تے ہیں۔زندگی کی صبع کو کیڑے مکوڑوں کی طرح جی کر اکثر لوگ شام کر لیتے ہیں لیکن ان کی حقیقی کامیابیوں اور فتع مند تجربات کا اندوختہ نہایت ہی کم تر اور حقیر ہوتا ہے جبکہ بعض جواں مرگوں کی چند روزہ وارداتیں اس قدر وافر اور بیش بہا ہوتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔اس نے کیا کیا نہیں پایا اور اپنے پیچھے کیا نہیں چھوڑ گیا۔وہ ایک بشر تھا اور ہر بشر کی اس میں کمیاں اور خامیاں تھیں لیکن بحیثیت ایک اچھا انسان اس کا گراف بہت اونچا تھا۔وہ میری دانست کی حد تک ایک سعید روح تھی اور آخر کا اپنے حسن انجام کو پہنچ گیا۔چند برس قبل جب وہ شدید بیمار ہوکر دہلی کے آل انڈیا میڈیکل انسٹی چیوٹ میں زیر علاج تھا تو میں اس کو اس حالت میں دیکھ کر اپنے پر قابو نہ رکھ پایا۔شجاعت میرا ہاتھ تھامتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولا ۔ یہ فائنل نہیں سیمی فائنل تھا،جو کہ میں جیت گیالیکن بھائی مبارک ہو تم تو فائنل بھی جیت گئے۔رمضان کی آخری شب جمعہ کو تمہاری روح قفس عنصری سے آزاد ہوئی ، جمعتہ الوداع کو خاکی بدن اپنی اصل سے جا ملا۔ہزاروں لوگوں نے حاضر وغائب جنازے پڑھے۔وہ بھی رو پڑے جو کسی مذہب کو نہیں مانتےاور سب سے بڑی کامیابی یہ کہ تیرا قاتل سامنے آنے سے کتراگیا۔یہی تمہاری جیت ہے اور اس کی ہار۔تم میری دانست میں ایک اچھے انسان اور کشمیر کے سچے عاشق تھے۔کشمیر اور اہل کشمیر کی محبت تمہاری رگوں میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔تم بلاشبہ ایک سعادت مند بیٹے ،تابع فرماں بھائی،اور رفیق و شفیق شوہر تھے اور آخری بات دوستوں کے دوست تھے۔ہم سبوں کو آج نہیں تو کل اپنی باری پہ جانا ہے لیکن وہ بھی کوئی جانا ہوا۔جانا تو تمہارا تھا۔معاف کرنا مجھے تو اب تیرے کم ظرف اور کم سواد دشمنوں پر ترس سا آرہا ہے۔