’’ الفاظ کی تخلیق و ترتیب شاعر اور ادیب کا پیشہ ہے ، لیکن زندگی میں بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب یہ قدرتِ کلام جواب دے جاتی ہے ۔۔ ۔ آج عجزِ بیان کا ایسا ہی مرحلہ مجھے درپیش ہے‘‘ ۔
یہ ہیں فیض احمد فیض ؔکی اُس تاریخی تقریر کے ابتدائی جملے جو انہوں نے ماسکو میں لینن امن انعام کی تقریب کے موقع پر اردو زبان میں کی ۔ میں فیض احمد فیض ہوں نہ اُن جیسی اظہار کی دسترس کا مالک ۔پر کیا کروں کہ بی بی سی اردو کے وقار احمد کی رحلت مجھے ایک ایسی کیفیت سے دوچار کر گئی جہاں رہ رہ کر ایک ہی خیال آتا ہے کہ ’’وہی ہر روز کے مضموں میں لکنت خالی جگہوں کی‘‘ ۔ بدھ کی شام اس سانحے پر میرے تاثرات نشر کرنے کے لیے شفیع نقی جامعی نے لندن سے کال کی تو میں بخار میں مبتلا تھا ، سو چند لمحوں کے لیے میری آزمائش ٹل گئی ، لیکن رات بھیگنے کی دیر تھی کہ ؎
وہ در کھلا میرے غم کدے کا
وہ آ گئے میرے ملنے والے
وہ آگئی شام ، اپنی راہوں میں
فرشِ افسردگی بچھانے
ای میل اور سوشل میڈیا کے توسط سے اول نمبر پہ سید راشد اشرف آئے اور آتے ہی کہنے لگے : ’’مدہم مدہم لہجے میں دنیا دکھانے والا جادو گر‘‘ ۔ اتنا کہا اور پھر دوبارہ گویا ہوئے ’’ذرا دیر کو آنکھ بند کرکے اُس دنیا میں چلے جائیے جس میں نہ فیس بک ہے نہ ٹیلی وژن کے سینکڑوں چینل ۔ ٹیلی فون اٹھا کر باہر کے ملکوں سے بات کرنے کی سہولتیں بھی نہیں ۔تو ہے کیا؟ بس یہ کہ آپ کا قومی ریڈیو سٹیشن ہے اور باہر کے کچھ ریڈیو سٹیشن ہیں (جو) شارٹ ویو پہ دنیا کے حالات بتانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ ہر شہرمیں پان والوں کی دکانوں کے سامنے لوگوں کے ہجوم ہیں ۔ ۔ ۔ یہ ہجوم سیربین سننے کے لئے جمع ہوا ہے ، بی بی سی اردو سروس کے شام آٹھ بجے والے حالات حاضرہ کے پروگرام سیربین کو سننے کے لئے ، جس کو پیش کرنے والے کا نام ہے وقار احمد ‘‘ ۔سید راشد اشرف نے اتنا کہا اور پھر ’’گویا دبستاں کھل گیا ‘‘ ۔ میرے بی بی سی کے بڑوں میں رضا علی عابدی ، آصف جیلانی اور علی احمد آئے ، ہم عصروں میں شفیع جامعی ، للت موہن جوشی اور انور سین رائے تھے ، نو عمر ساتھیوں میں عباس ناصر ، حارث خلیق اور ثقلین امام پرسہ دینے والوں میں شامل تھے ۔ ہمدمِ دیرینہ عبید صدیقی نے البتہ چند لفظوں میں دل کی بات کہہ دی :’’ ریڈیو کے سامعین جن لوگوں کو پابندی اور تواتر سے سنتے ہیں اُن کی آواز کی مدد سے اُن کا ایک خاکہ ذہن میں بنا لیتے ہیں ، جو کبھی کبھی اُن کے خاکے سے ملتا جلتا نکلتا ہے اور کبھی یکسر مختلف ۔میں نے بھی لندن جانے سے پہلے وقار بھائی کا جو خاکہ ذہن میں بنایا تھا ، لندن پہنچ کر انہیں ویسا ہی پایا ۔ مَیں جب لندن پہنچا تو وقار صاحب اور سیربین دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تھے‘‘ ۔اس تعارف کے بعد عبید صدیقی نے دو جملے اور کہے ’’یوں لگتا تھا کہ اُن کی کھرجدار آواز جس میں خفیف سی کپکپاہٹ تھی ، (ایک مشفقانہ سی لرزش) حالاتِ حاضرہ کے اِس مقبولِ عام پروگرام کے لئے ہی بنی ہے ۔ جب اُن کی آواز برصغیر کے دوردراز علاقوں میں پھیلے ہوئے اندھیرے سے ڈوبتی ابھرتی ہوئی سامعین کی سماعتوں کو سیراب کرتی تو لوگ مبہوت اور مسحور ہو جاتے تھے‘‘ ۔عبید نے ایک ذاتی حوالہ ایسا بھی دیا جس نے مجھے بھی وقار صاحب والی قائمتہ الزاویہ مثلث کا تیسرا زاویہ بنا دیا : ’’وقار بھائی تمباکو کے رسیا تھے اور اپنی طلب بجھانے کے لئے پائپ پیا کرتے تھے ۔ اردو سروس میں اُن کے علاوہ شاہد ملک غالباً پاکستان ہی سے پائپ پیتے ہوئے لندن آئے تھے ۔مجھے وقار بھائی نے سگریٹ نوشی ترک کرکے پائپ پینے پہ آمادہ کیا اور یہ بھی بتایا کہ انشورنس ایجنٹ پائپ پینے والوں کو تمباکو نوش تصور نہیں کرتے ‘‘۔یوں بیمہ کرا لینا تو آسان تھا ، لیکن میری پائپ نوشی وقار بھائی سے مماثلت کے باعث سید اطہر علی کی جملہ بازی کا ہدف ضرور بنتی رہی ۔ منجھے ہوئے صحافی اطہر علی کا منصب بحیثیت سینئر پروڈیوسر سب سے ایک درجہ اوپر تھا ۔ چنانچہ پروگرام آرگنائزر ڈاکٹر ڈیوڈ پیج کی غیرموجودگی میں اطہر صاحب سیکشن کے سربراہ ہوتے ۔سلجھے ہوئے دل و دماغ والے ڈیوڈ پیج ایڈورڈ کالج پشاور میں پڑھا چکے تھے ، اس لیے ہر کسی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا اور اُس کے طبعی میلان کے مطابق کام لینے کی عادت اُن کی پہچان تھی ۔ خود اطہر صاحب کی قوتِ تحریر ، پر اعتماد لہجے اور ادارتی پرکھ کا ایک زمانہ قائل تھا ،پر تھے سیف زبان آدمی ۔ چنانچہ ایک دن میرے کزن اور معروف صحافی خالد حسن کا نام لے کر فرمایا ’’ پائپ پینے والوں کی وفاداری مشکوک ہوتی ہے ۔ یہ خالد کہتا ہے ، مَیں نہیں کہہ رہا‘‘ ۔اس کے برعکس ، شیعہ کالج لکھنوء ، علیگڑھ اور لندن یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اور جامعہ کراچی میں یورپین ہسٹری کے استاد وقار احمد ۔ بس یوں لگتا کہ شہد کا ایک دریا ہے اور دھیرے دھیرے بہہ رہا ہے ۔ رات کی ڈیوٹیاں شروع ہوئیں تو ایک نوزائیدہ براڈ کاسٹ جرنلسٹ کے طور پر خبروں کے بلیٹن کی ترتیب و ترجمہ کے لئے مجھے نیوز روم میں بیٹھ کر کام کرنا ہوتا ۔ اِس دوران ’جہاں نما‘ کا پیش کار ریکارڈ شدہ اور تازہ مراسلوں اور رپورٹوں کو حتمی شکل دے لیتا ۔
راشد اشرف تو میرے لئے براڈ کاسٹ جرنلسٹ کا پروٹوٹائپ تھے ہی اور آج تک ہیں ۔ آصف جیلانی کی یہ ترجیحات بھی کمال تھیں کہ تازہ ترین خبر ہر قیمت پہ پروگرام کا حصہ بنے اور زبان اتنی سہل کہ ہر سننے والے کی سمجھ میں آ جائے مصروفیت کے باوجود ٹرانسمیشن سے پہلے ان دونوں بزرگوں کے ساتھ کچھ ذاتی گپ شپ کا وقت بھی مل جایا کرتا جو زیادہ تر پروگرام کی ترتیب اور پیش کاری کے بارے میں ہوتی ۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بی بی سی اردو کے اِس منظر نامے میں وقار بھائی کہاں چلے گئے ۔ پنجابی دنگل کی زبان برتی جائے تو وقار صاحب ذرا بڑے جوڑوں میں تھے ، یعنی رات کی ڈیوٹی نہیں بلکہ فلیگ شپ پروگرام’ ’سیربین‘‘ جس کا سیاق و سباق آپ پڑھ چکے ہیں ۔ لیکن ٹھہریئے ،’’ سیربین ‘‘کی تیاری میں پاکستانی حساب سے ایک’ ’چھوٹے‘ ‘کا کردار بھی اہم ہوتا ہے ۔فیس بک پر اپنی پوسٹ میں عباس ناصر نے ، جو اردو سروس اور بی بی سی ساؤتھ ایشیا کے سربراہ اور بعد ازاں روزنامہ’’ ڈان‘‘ کے ایڈیٹر رہے ، اس کی مختصر سی جھلک یوں دکھائی ہے :’’جب میںاول اول بی بی سی سے وابستہ ہوا تو وقار احمد ہفتہ کے دن سیربین کیا کرتے تھے اور کنٹی نیوٹی اناوئنسمنٹ کی ڈیوٹی میں اُن کی مدد کیا کرتا ۔ وقار بھائی میرے اُن مہذب ترین سینئرز میں سے ایک تھے جنہوں نے سینیارٹی کا رعب گانٹھنے کی کوشش کبھی نہ کی‘‘ ۔
عباس ناصر کے مشاہدے کی تصدیق مجھ سمیت ہر وہ کارکن کرے گا جسے بی بی سی اردو میں شامل ہوتے ہی وقار احمد کا ’’چھوٹا‘ ‘بننے کا اعزاز حاصل ہو ا ۔ خاص طور پہ اُس زمانے میں جب وقار بھائی کی باضابطہ ریٹائر منٹ ہو جانے پر اُن کے ایامِ کار محدود نہیں ہوئے تھے بلکہ ہفتے میں کچھ نہیں تو چار دن’’ سیربین ‘‘کی ترتیب و پیش کش انہی کی ذمہ داری ہوتی ۔ یہاں تک تو آپ مجھ سے متفق ہیں ، لیکن مَیں مکمل احترام اور خلوص سے کام لیتے ہوئے بھی اب تھوڑی سی گڑبڑ کرنے لگا ہوں ۔ سب سے بڑی رُکاوٹ تھی میرے حق میں وقار بھائی کی حد سے بڑھی ہوئی وضع داری ۔ جی ہاں ، مہذب آدمی کی وضع داری بھی فاصلے بڑھا دیتی ہے ۔ اب دیکھئے نا ، عمر میں مجھ سے بائیس سال بڑے ، مگر ابتدائی دو برس میں ہمارا مکالمہ اس سے آگے کبھی نہ گیا کہ ’’شاہد ملک صاحب ! یہ ایک ڈسپیچ اور کر دیجئے ‘‘ ۔اور پھر کوئی بیس منٹ گزرنے پر پہلے سے زیادہ شائستہ لہجے میں ’’جی ، بہت شکریہ‘‘۔کم آمیزی کا یہ قرینہ مجھے اس لئے کھَلتا کہ وقار بھائی تو اطہر علی کو بھی سینئر عہدے اور اُن کی طرف سے صیغہ ٔ تکریمی کے استعمال کے باوجود جوابی طور پہ صرف ’’اطہر‘‘ کہہ کے مخاطب کیا کرتے تھے ۔
خود وقار احمد صاحب کا حساب تو تھا ہی کمزور ، خالص متن کے آدمی تھے ۔ 1970 ء اور 1980ء کے عشروں میں انہوں نے کئی موقعوں پہ’ ’سیربین‘ ‘کے معرکتہ الآرا ایڈیشن پیش کئے ۔ اپنے تحقیقی و تدریسی تجربے کو کام میں لاتے ہوئے ہر بار ضرورت سے زیادہ مواد تیار کر لیتے ۔ چنانچہ شاید ہی کوئی پروگرام ایسا ہو جس کے دو تین آئٹم نشر ہونے سے نہ رہ گئے ہوں ۔راشد اشرف ، آصف جیلانی اور رضا علی عابدی کے ساتھ ایسا نہ ہوتا اور اُن کے ہوتے ہوئے مَیں اسٹوڈیو میں زیادہ پر اعتماد محسوس کرتا ۔ طریقہ یہ تھا کہ پروگرام پیش کرنے والے کو ، جو خود ہی پروڈیوسر اور ایڈیٹر بھی ہوتا ، وقت کی اکائی میں الفاظ کی اوسط تعداد کا پیشگی اندازہ ہو ۔پھر مسودے میں آپشنل کٹ لگا لئے جائیں تاکہ بحالت مجبوری یہ پیرا گراف حذف ۔ ایک کارآمد نسخہ ’’ریورس ٹائمنگ‘ ‘کا بھی ہوتا ، یعنی اُلٹی زمانی ترتیب کا حساب کہ دو منٹ رہ گئے ہیں ، اب ایک منٹ رہ گیا ، اب اٹھائیس سیکنڈ ۔ ۔ ۔ چلیں بجوا دیں سگنیچر ٹیون ۔یہی وہ مقام تھا جس سے کچھ پہلے وقار بھائی کی قیادت میں ہماری دھرپد موسیقی خیال کی گائیکی میں بدلنے لگتی ، جس میں کرِیز چھوڑ کر کھیلا جاتا ہے ۔ اب کے ہماری سگنیچر ٹیون یوں کٹی ہے کہ بچنے والا کوئی پیس آئندہ پروگرام میں استعمال نہیں ہو سکے گا ۔ رہے نام اللہ کا ۔