زندگی اور وقت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ قدرت نےہمیںزندگی کےجتنے بھی سال عطا کئے ہیں،وہ سب ہماری زندگی کے آزمائش کا حصّہ ہیں۔ ان کا بہترین مصرف وہی ہے جو ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی دلائے۔ پس ہمیں سوچنا ہوگاکہ ہمیں کیا کرنا ہے اور ہم کیا کررہے ہیں؟ذرا غور کریں، کیا ہمارا ہر دن نیک اعمال، علم اور خدمتِ خلق میں گزر رہا ہے؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کر رہے ہیں؟کیونکہ زندگی ایک امتحان ہے اور وقت امتحان کی گھڑیاں۔ جو انسان ’وقت ‘کا سمجھداری کے ساتھ سے استعمال کرتا ہے، وہی کامیابی حاصل کرتا ہے۔کیونکہ انسان ہی کائنات کی سب سے پیچیدہ اور شعور رکھنے والی مخلوق ہے، جس پریہ ذمّہ داری بھی ڈالی گئی کہ وہ یہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرے کہ وہ یہاں کیوں ہیں اور اُسے زندگی کو کیسے گزارنا ہے۔ اگر انسان اپنی اجتماعی ذمّہ داریوں سے غافل ہو جائے تو معاشرہ بگڑ جاتا ہے۔ فطرت ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر فرد کی اہمیت ہے اور ہر فرد کی کوشش ایک بڑے نظام کا حصّہ ہے اور زندگی کی یہی ترتیب اور تنظیم اس کے انمول ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔در حقیقت زندگی رویوں کا ہی مجموعہ ہے اور ہر انسان اپنے رویوں کے ذریعے اپنی تقدیر کا تعین کرتا ہے۔ مثبت رویے زندگی کو سنوارتے ہیں، اسے خوشگوار اور بامقصد بناتے ہیں، جب کہ منفی رویے زندگی کو زوال کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ رویے دراصل ہمارے خیالات، تجربات اور ماحول کا نتیجہ ہوتے ہیں اور جو لوگ محبت، صبر اور خوش اخلاقی کو اپناتے ہیں، وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بناتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ نفرت، تکبر اور ظلم جیسے رویے، انسان کو خود بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور معاشرے میں بھی بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔مثبت لوگ مثبت ماحول میں سکون پاتے ہیں جب کہ منفی لوگ اپنے جیسے رویے رکھنے والوں میں جا ملتے ہیں۔ کیونکہ فطرت کا اصول یہی ہے کہ ہم وہی بن جاتے ہیں جس کے قریب رہتے ہیں۔سچ تو یہ بھی ہےکہ آج بھی ہمارے معاشرے کے اکثر لوگ ہر روز، ہر وقت ،ہر لمحہ اس بات کا انتخاب کرتے رہتے ہیںکہ ہم کس راستے پر چلیں،کن رویوں کو اپنائیں اور کس طرح اپنی زندگی کا رُخ متعین کریں۔لیکن بدقسمتی سے جدید دور کی موجودہ ٹیکنالوجی خصوصاً موبائل فون نے اُنہیں جہاں دنیا سے جوڑدیا ہے،وہیں اُنہیں اپنے آپ سے بھی دور کردیا ہےجبکہ بے مقصد وقت گزاری کے لئے سوشل میڈیا کی غیر ضروری مصروفیات نے اُنہیں اپنی ذات اور حقیقت سے غافل کر دیا ہے۔جس کے نتیجے میں اُن میں مثبت رویوںکی سوچ معدوم ہورہی ہے۔حالانکہ یہ طے ہے کہ جو لوگ شعوری طور پر مثبت رویے اپناتے ہیں، وہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی ایک مثال بن جاتے ہیں۔ گویازندگی کا حسن اِسی میں ہے کہ ہم اپنے رویوں پر غور کریں، ان میں بہتری لائیں اور اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی مثبت بنائیں۔کیونکہ ہماری زندگی کا منتقی انجام ہمارے رویوں کا ہی عکس ہوتا ہے،جبکہ دُرست رویوں کا شعور —مذہب سے لگائو، حصول ِتعلیم اور محاسبہ نفس سے پیدا ہوتا ہے۔ مذہب اخلاقیات، اچھے و بُرے کی تمیز اور زندگی کے مقصد کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ تعلیم شعور پیدا کرتی ہے، دنیا کے تجربات و علم سے جوڑتی ہے اور رویوں کے اثرات کا ادراک دیتی ہےاور محاسبہ نفس یہ جانچنے کا موقع دیتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، ہمارے اندر کون سے رویے موجود ہیں اور کیا ہمیں بہتری کی ضرورت ہے۔یاد رکھیں کہ اچھائی اوربُرائی کا پیمانہ انسان کے اندر فطری طور پر ضمیر کی صورت میں موجود ہے جو صحیح اور غلط کی پہچان کرواتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم خود کو وقت دیں، اپنے رویوں پر غور کریں تو یہ پیمانہ زیادہ واضح انداز میں کام کرے گااور یہ سوچنے پر مجبور کرے گا کہ مثبت رویے اور اچھے اخلاق ہی لوگوں کے دل جیتنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے، خدمت ِ خلق کے جذبے کا رویہ ہمیں دوسروں کے لیے فائدہ مند اور اپنی زندگی کو بامقصد بنانے میں مدد دیتا ہے۔اللہ کی رحمت کے قریب لاتاہے ،روحانی سکون عطاء کرتا ہےاور ہماری زندگی کوخوبصورت بنا دیتاہے۔اس لئے لازم ہے کہ ہم خود کا محاسبہ کریںاور ہمیشہ ہرمسئلہ اور ہر معاملے میں اچھے رویے اپنانے کی کوشش کریں۔