حمیرا فاروق۔ شوپیان
دنیا میں ایسے بہت سارے لوگوں ہیں جو جاہلانہ نظریہ رکھتے ہیں ۔ اکثریت انہی کی پائی جاتی ہیں جو زندگی کو صحیح معنوں میں نہیں لیتے بلکہ اپنی سوچ اور اپنی من پسند چیزوں اور طبیعت کے مطابق زندگی ایسے بسر کر رہے ہیں جو کہ انسانیت کا تقاضا نہیں ۔ جہاں پر بھی حق کی بات آتی ہے وہاں سے لوگ بیزار ہوکر منہ پھیر لیتے ہیں، وہ صرف اُن باتوں کو زندگی میں اپنانے کے لیے تیار ہوتے ہیں جو انکے حق میں بہتر اور انکے خواہشات کے مطابق ہو، باقی دوسرے لوگوں کو اس کام سے نفع ہو یا نقصان۔ اُن کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ دراصل ایک انسان اگر خود پر اور خاص کر اپنے وجود پہ تدبر و تفکر نہیںکرتا کہ وہ کس چیز سے اور کس کے لئے پیدا کیا گیا، تب تک وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خاص خیال نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ خود شناسی سے بغیر خدا شناسی ممکن نہیں ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ جس نے خود کو پہچانا، اُس نے اپنے ربّ کو پہچانا اور اپنے ربّ کو پہچاننے والا بندہ کبھی بھی حقوق العباد کو سلب کرنے والا ہو ہی نہیں سکتا ۔ حقوق اللہ کا تعلق تو اللہ سے ہیں، اگر اس میں کوئی کوتاہی ہوجائے، تب اللہ تعالیٰ چاہے تو اپنے بندے کو بخش دے گا۔ لیکن حقوق العباد کے بارے میں قیامت کے روز سخت پوچھ اور پکڑ ہوگی، اور حقوق العباد میں ناانصافی کرنے والا کبھی بھی حسنِ اخلاق والا نہیں ہوگا ۔
حقوق اللہ صرف نماز ،روزہ اور حج ہی نہیںبلکہ اللہ کے سارے احکام و قوانین اور اسکے رسولؐ کی پیروی کو عملی جامہ پہنانا بھی ازبس ضروری ہے۔ ساتھ میں جو اسنے ہمیں دیا، چاہے ہماری جان ہو، وہ بطور امانت ہے۔ اس میں خیانت سے اجتناب کرنے کےساتھ ساتھ اسکے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرناہے ۔ اب رہی بات حقوق العباد کی تو اسمیں لوگوں کے حقوق آتے ہیں،جن میں سب سے بڑھ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر آتا ہے۔ کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’پہنچا دو اگرچہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو ‘‘۔ لہٰذا ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان پہ یہ حق بنتا ہے کہ وہ اسکو سلام کریں، دُعا دے اور اگر اسمیں کوئی خامی دیکھے تو اسکی اصلاح کریں ،کوئی عیب دیکھے تو پردہ پوشی کریں ، اسکی غیبت اور چغلی کھانے سے پرہیز کریں کیونکہ ارشاد ربّانی ہیں کہ غیبت زنا سے بدترین گناہ ہے ۔ غیبت کو اس لئے زِنا سے بڑا اور بدترین گناہ کہا گیا، کیوں زِنا کی تو معافی صرف اللہ سے مانگنی ہے لیکن غیبت تب تک معاف نہیں، جب تک بندہ ہمیں معاف نہ کریں ۔بحیثیت مسلمان اور خاص کر اُمتِ وسط ہونے کے ناطے ہم پر فرض ہے کہ ہم اگر کسی کو غلط کام کرتے ہوئے دیکھیں، تو اسکو ہاتھ سے روک لیں ۔ اگر روک نہ سکے تو کم از کم زبان سے بولنا چاہیے کہ بھئ یہ غلط کام آپکو دوزخ کی جانب لے جائے گی، لہٰذا اسے چھوڑ دے ۔ رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے:’’مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے ،اگر اس میں کوئی خامی ہوتی ہے تو وہ اسکو برابر دکھا تا ہے کہ آپ کہاں پہ غلط ہے ۔‘‘
اب زندگی کی دیگر معاملات ہیں، جن کو پسِ پشت ڈال کر ہم محض نفس کے پیروکار بن گئے ہیں،مثلاً ہم نے صرف جدت کے ساتھ اپنے کھانے پینے میں مغربیت کو اختیار کرلیا ہے، انکی طرز زندگی اپنانا، یعنی عورتوں نے شرم حیا والے لباس کو ترک کرکے چھوٹے و باریک کپڑے پہن کر خود کو modern بنایاہے، اُنہیںکی طرح اپنا رہن سہن بنایا ہے۔اس جدیدیت پر طائرانہ نظر ڈالی جائےتو مجموعی طور پر انسانیت کافی حد تک پامال ہوچکی ہےاور نسلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ ہر ایک دوسرے کو نقصان پہنچانےکے لیل و نہار جدو جہد اور کوشاں میں مگن ہے ۔ جدّت کس چیز میں ہونی چاہیے اور کہاں پہ،ہمیں اس کی ضرورت ہے۔اس چیز سے ہم لوگ عاری اور بےخبر ہیں ۔ اگر زندگی کے دیگر امور میں جدّت ہے تو سب سے پہلے ہماری عقل میں جدّت آنی چاہئے اور جب اسمیں یہ حِس بیدار ہوجائے تو دنیا کے تمام امور امن و سکون سے چلیں گے اور کائنات امن و امان کا گہوارہ بن جائے گی ۔
اس میں کوئی دو رائےنہیں کہ جدیدیت سے انقلاب برپا ہوا، اسے ہمارا وقت اور ہمارے کام بلاشبہ بہت تیز رفتاری کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ لیکن اس کے دوسرے پہلو پر نظر ڈالی جائےتوانسان میں حیوانت آگئی ہےاور انسانیت کا جنازہ نکل گیا کیونکہ انسان کے سوچ میں کوئی مثبت جدت نہیں آئی ۔ جوعلم انسان کے اندر شعور بیدار کرکے جہالت کے اندھیرے کو دور کرتا ہے، وہی علم جب ایک دوسرے کو ہرانے کے لیے استعمال ہوجائے اور ایک دوسرے کی زندگی کے لیے وباء اور تباہی کا ذریعہ بنا یا جائے تو وہ علم نہیں بلکہ جہالت ہے اورجہالت کا یہی علم ہمیںانسانیت کو پامال کرنےاور محبت و اخوت سے کوسوں دور لے جانے کی رہنمائی کرتا ہے،گویا یہ علم ہمیں اُجالے کے بجائے تاریکیوں میں لے جاکر ہمارے لئے روز قیامت کے لیے صدقہ جاریہ کے بجائے رُسوائی کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ چونکہ علم بغیر عمل کے بیکار ہے اور جہالت انسان کو اندھا بنا کر ایک ایسے کنویں میں دھکیل دیتا ہے، جہاں سے انسان کا نکلنا محال ہو جاتا ہے ۔ یہ جہالت زندگی کے آداب و اطوار تک بھلا دیتی ہیں ۔ یاد رکھیں ! جہالت سےانسان کی دُنیا و آخرت دونوں برباد ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ زندگی کے کسی بھی معاملے کو جہالت کی وجہ سے صحیح طور سے استعمال کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے ۔
ظاہر ہے کہ جب آدم علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا تو تب انکو علم کےذریعے چیزوں کے نام سکھائے گئے اور انسان میں جب شعور آگیا تو اپنے جسم کو شعور کی بنا پرچھپانا شروع کیا لیکن آجکل کے لوگ جو خود کو ماڈرن سمجھتے ہیں ،بڑی بڑی ڈگریاں کرکے بھی اُنہیں جینے کا وہ سلیقہ نہیں جو حضرتِ انسان میں ہونا چاہیے۔بھَلا ایسے لوگوں کو علم والا کہنا میرے خیال سے شرم کی بات اور جہالت ہے ۔ جو انسان خود کو حیوانوں کی طرز پر کھانے پینے اور دنیا کی رنگ رلیوں اور عیش و عشرت میں محو ہوجائے تو وہ بھی انسانیت کے دائرے سے خارج ہوجاتا ہے ۔ الغرض زندگی میں اگر ہم واقعی تبدلی لانا چاہتےہیں تواولاًہمیں ہر معاملے میںاپنے آپ کو جدیدیت کی جدّت سے محدود رکھنا چاہئے ۔ غلط اور ٹھیک میں تمیز اور انسانیت کے حقوق اور خاص کر شرم وحیا جو کہ انسان کی اصل زینت ہے، اسکو اپنا کر انسانوں کی طرح زندگی گزارنی چاہیے تاکہ اس زیست کا صحیح مفہوم و مقصود ہمیں سمجھ میں آجائے اور ہم روز قیامت میں سرخ رو ہوکراپنے ربّ کے حضور کھڑا ہوسکیں ۔
[email protected]