ڈوڈہ//ایم ایل اے اندروال غلام محمد سروڑی نے بھلیسہ کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ بھدرواہ کے ساتھ منسلک کرنے کے حکومتی فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے کی منسوخی اور بھلیسہ کو پہاڑی ضلع کا درجہ دلانے کے لئے اہلیانِ بھلیسہ کو ایک منظم تحریک شروع کرنی چاہیے۔اس کے لئے وہ بھلیسہ کے لوگوں کی ہر ممکن مدد کریں گے کیوں کہ اُنہیں معلوم ہے کہ اس غلط فیصلے کے کیا اثرات بھلیسہ کی غریب عوام پر پڑنے والے ہیں۔اندروال اور بھدرواہ کی سرحد پر واقع منوئی گاﺅں میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ موجودہ مخلوط حکومت نے ایک طرف اگر بھدرواہ میں اے ڈی سی کا دفتر قائم کر کے بھدرواہ اور اُس کے مضافاتی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے آسانی پیدا کی ہے تو دوسری طرف اُس نے بھلیسہ سب ڈویژن کو بھدرواہ سے منسلک کر کے 1957ءکی پوزیشن بحال کر دی ہے جب بھلیسہ والوں کو ہر کام کے لئے بھدرواہ جانا پڑتا تھا۔اس موقع پر مقامی سرپنچ اور کانگریس لیڈر مسرت حسین نیائک،الحاج غلام نبی بٹ،الحاج غلام حسین بٹ،الحاج فیروز دین بٹ،سابق سرپنچ پنچائت بٹیاس فیروز دین ملک اور گوجر لیڈر چوہدری عبدالطیف بانیاں سابق سرپنچ کے علاوہ متعدد دیگر معززین بھی موجود تھے۔سروڑی نے کہا کہ بھدرواہ میں اے ڈی سی کے دفتر کا قیام اگرچہ ایک اچھا قدم ہے مگر یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ بھلیسہ والوں کو گندو سے ٹھاٹھری،ٹھاٹھری سے ڈوڈہ اور پھر ڈوڈہ سے بھدرواہ کا سفر کرنے کے لئے مجبور کیا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ کچھ سیاسی لیڈران نے اپنی زبانیں صرف اس لئے بند رکھی ہیں کہ اُن کو خطرہ ہے کہ بھدرواہ کے ووٹران اُن سے ناراض ہوں گے،مگر میں ان چیزوں کی پرواہ کئے بغیر حق بات کہنے اور کرنے کا عادی ہوںاور مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ بھلیسہ والوں کے ساتھ ایسی نا انصافی ہوئی ہے کہ جس کے خلاف اگر اُنہوں نے آواز بلند نہ کی تو نسلوں تک اُنہیں اس خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔اُنہوں نے کہا ہے کہ نا انصافی پر مبنی اس فیصلے کی منسوخی اور بھلیسہ کو پہاڑی ضلع کا درجہ دلوانے کے لئے بھلیسہ والوں کو ہر جائز قدم اُٹھانا چاہیے جس کے لئے وہ اُنہیں بھر پور تعاون فراہم کریں گے۔اُنہوں نے کہا کہ اگر یہاں کے لوگوں کا وفد ریاستی وزیرِ اعلیٰ تک اپنی بات پہنچانے کے لئے جانا چاہتا ہے تو وہ اُن کے ساتھ جائیں گے۔سروڑی نے ریاستی مخلو ط حکومت میں شامل دونوں پارٹیوں پی ڈی پی اور بی جے پی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اُنہوں نے ایجنڈا آف ایلائنس کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور ناگ پور کے ایجنڈے کو پورا کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ کانگریس پارٹی اور بی جے پی دونوں پارٹیوں کے قائدین ہندو ہیں،مگر دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔کانگریس کے ہندو لیڈران سیکولر ہیں اور ہر ہندوستانی کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈران فرقہ پرست ہیں اور مذہب اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں میں نہ صرف تفریق کرتے ہیں بلکہ اُنہیںلڑا کر اپنے حقیر مقاصد کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔اُنہوں نے کہا کہ نریندر مودی اور بی جے پی کے دیگر لیڈران نے لوگوں کو جو سبز باغ دکھائے تھے اور جن اچھے دنوں کے وعدے کئے تھے وہ آج تک کسی کو نظر نہ آئے اور اب لوگوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ یہ سارا جھوٹ اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کے لئے بولا گیا تھا۔اُنہوں نے کہا کہ بی جے پی دفعہ370اور اُس کی ذیلی دفعہ35Aجس کے بارے میں ایجنڈا آف ایلائنس میں طے پایا تھا کہ ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی،کو منسوخ کرنے پر تلی ہوئی ہیں جب کہ پی ڈی پی اس کی راہ ہموار کر رہی ہے۔اُنہوں نے کہا کہ دفعہ 370قائم رہے گا اور ریاست کی خصوصی درجے کو ختم کرنے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔اس موقع پر مقامی لوگوں نے کچھ مطالبات بھی ایم ایل اے کے سامنے رکھے جن میں ہائی اسکول منوئی سے منوئی بالا تک سڑک کی تعمیر،منوئی بالا میں پرائمری اسکول اور ہیلتھ سب سینٹر کا قیام عمل میں لانا،گاﺅں کے بجلی اور پانی کے نظام کو بہتر بنانا وغیرہ شامل ہیں۔ سروڑی نے مقامی لوگوں سے کہا کہ وہ سڑک کی تعمیر کے لئے زمین فراہم کریں اور وہ پچاس لاکھ روپے کا انتظام کریں گے۔اُنہوں نے متعلقہ حکام کو سڑک کی سروے کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ایم ایل اے اپنی سی ڈی ایف میں سے برائڈل پاتھ کے لئے پانچ لاکھ اور حوض کی تعمیر کے لئے تین لاکھ روپے فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا۔اس موقع پر ایک درجن سے زائد سیاسی کارکنان نے کانگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی جن کا ہار پہنا کا خیر مقدم کیا گیا۔