۔2014 سے قبل کشمیر کے دانشور حلقوں میں اکثر یہ استدلال سنا جاتا تھا کہ بی جے پی کو پارلیمنٹ میں اکثریت ملی تو مسٔلہ کشمیر حل ہوجائے گا۔ یہ تاثر اس قدر قوی تھا کہ مزاحمتی قیادت کا ایک حلقہ کانگریس دور میں بھی واجپائی واجپائی کا راگ الاپنے لگی تھی۔استدلال یہ تھا کہ کانگریس بی جے پی سے ڈرتی ہے ، اس لئے کشمیر پر کوئی دوٹوک فیصلہ لینے سے قاصر ہے، بی جے پی چونکہ خود کو اکثریتی ہندو عوام کی نمائندہ جماعت سمجھتی ہے، لہٰذا وہ ’’بڑا فیصلہ‘‘کرنے کی اہل ہوگی، اور یوں ہمارا کلیان ہوجائے گا۔اُن دِنوں ہم نے بڑی منت سماجت کی تھی کہ بھیا نظریاتی جماعتیں ’’دشمنی‘‘ کے ایندھن سے چلتی ہیں اور بی جے پی کے لئے کشمیر ی ’’دشمن کا دوست‘‘ ہے، اس لئے توقعات کی رسد بچائے رکھیں۔
بعدازاں 2014کے زعفرانی انقلاب نے ملک کو دھر لیا اور اس ہولناک انقلاب کی لپٹوں میں کشمیر گزشتہ تین سال سے چھٹپٹا رہا ہے۔بہرحال، پھر ہمارے یہاں کے نام نہاد ’’مین سٹریم‘‘ حلقوں نے یہ تاثر پھیلانا شروع کردیا کہ ہندوستان بدل چکا ہے، مودی ایک تبدیلی کا نام ہے اور بھارت اپنی شناخت سے متعلق حد درجہ حساس ہے، لہذا اب کی بار نہ کشمیریوں کے ایگو کی مالِش ہوگی اور نہ پاکستان کی خوشنودی ، لہذا اپنا اپنا کونہ لے لیجئے اور جیسے تیسے سیاسی روٹیاں سیک لیجئے ۔ ماضی کے مزاحمت کار اور دانشور حضرات آر ایس ایس کی چھتر چھایا میں پناہ گزیں ہوگئے اور جنوب ایشیا پر اپنا اثر چھوڑنے کی تمنا رکھنے والوں نے بالآخرداڑھی کو چٹیا سے گانٹھ لیا۔
خیر، یہ باتیں اب قدرے پرانی ہوچکی ہیں۔ مسلہ یہ ہے کہ جس طرح کے حالات بن رہے ہیں کیا یہ صرف کشمیریوں، مزاحمتی قیادت یا یہاں کے اقتدار نواز سیاسی خیمے کی بقا کا سوال ہے؟ ۔ اس سارے گیم میں نریندر مودی کی ساکھ بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔وزیراعظم نریندر دامودر مودی کوئی طلسماتی شخصیت نہیں ہیں، وہ ایک برانڈ ہیں جنہیں ایک نظریاتی قوت نے لانچ کیا ہے۔ جنوب ایشیا میں اپنی تنظیموں پر اخلاقی اور سیاسی برتری رکھنے والے بزرگ سیاستدانوں (Statesmen) کا دور کب کا اختتام کو پہنچا ہے۔ جناح مسلم لیگ کا برانڈ نہیں تھے نہ ہی نہرو کانگریس کا۔ بلکہ مسلم لیگ اور کانگریس ان بزرگ سیاستکاروں کے لئے برانڈز تھے جنہیں انہوں نے اپنے اپنے وِژن کی تکمیل کے لئے استعمال کیا۔
مودی کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کی پشت پر بھارت کی قدیم ترین نظریاتی پارٹی آر ایس ایس اور تیزی سے اُبھرتے ہوئے بورژوا کلاس یا کارپوریٹ کی حمایت ہے۔ گویا اقتدار کی لمبی ریس میں ایک چابکدست گھوڑا دوڑایا گیا اور ریس پر داؤ لگانے والے غیبی ہاتھ کسی کو نظر نہیں آئے۔ مودی نے سنگھاسن سنبھالتے ہی سکرپٹ کے عین مطابق پاکستان کو 56انچ کی چھاتی سے للکارا ، بلکہ انتخابی مہم کے دوران یہاں تک کہہ دیا کہ اب پاکستان بھارت کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا۔ وزیراعظم بنے تو خطے کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ اُسوقت کے پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو رسم حلف برداری میں مدعو کردیا۔ پھر بہت کچھ ہوا۔ پٹھان کوٹ، برہان وانی، اُوڑی، جموں وغیرہ۔ اسی ہنگامہ زار میںسرمایہ کا محتاج بھارت کاقومی میڈیا وطن پرستی کی چٹکیلی دھوپ میںتجوریاں گرم کرنے لگا۔مسلم اور دلت اقلیتوں کے خلاف گاؤ کشی اور دیش بھگتی کے نام پر جو کچھ کیا گیا وہ الگ، بی جے پی نے اقتصادی شعبہ میں کئے گئے کئی عاجلانہ فیصلوں سے کھوئی ساکھ بحال کرنے کے لئے پھر ایک بار پاک بیشنگ کا دھنُش بھانڈ اُٹھا لیا ۔ ترکش میں دہشت گردانہ حملوں سے لے کر حافظ سعید اور جیش محمد اور کشمیر میں دراندازی تک سب کچھ لوڈ کردیا گیا۔اس بیچ حریت کا قافیہ تنگ کیا گیا اورپوری دنیا کی حمایت بھی بٹور لی گئی، یہاں تک کہ امریکہ اور سعودی عرب اور فلسطین کو جیب میں ڈالاگیا۔ لیکن ہوا کیا؟
5مارچ کو نائب وزیردفاع سبھاش بھامرے نے راجیہ سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں اعتراف کیا کہ رواں سال میں اب تک کے دو ماہ میںپاکستان نے 351مرتبہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ان میں سے 142خلاف ورزیاں 21فروری سے 4مارچ یعنی صرف گیارہ روزہ عرصہ میں کی گئیں۔گزشتہ برس ان خلاف ورزیوں کی تعداد 860بتائی گئی جو 2003میں ہوئے سیز فائر معاہدے کے بعد سب سے زیادہ ہے۔حالیہ دنوں فدائی حملوں کا سلسلہ بھی چل پڑا، اور کنٹرول لائن پر بیٹ ایکشن کی خبریں بھی آئیں۔
نریندر مودی اور ان کی حکومت نے ہندوعوام کو باور کرایا تھا کہ پاکستان کو سبق سکھایا جائے گا۔ نہ صرف سرحدوں پر بلکہ کشمیر کے اندر بھی۔ نہ سرحدیں ٹھنڈی ہوپائیں اور نہ کشمیر۔سرجکل سٹرائیک سے جب مسئلہ حل نہ ہوا تو سرحدوں کو گرمایا گیا۔
اب تو بھارتی کے اکثر دانشور نریندر مودی کی یہ کہہ کر تنقید کرنے لگے ہیںکہ وہ محدود فوجی طاقت کا استعمال کرکے ایک سیاسی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیںاور اس مقصد کیلئے ہزاروں لوگ بے گھر ہورہے ہیں اور درجنوں مارے جارہے ہیں۔یہ باتیں بھی ہونے لگی ہیں کہ مودی نے ملکی مفاد پر پارٹی مفاد پر ترجیح دے کر ملک کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے۔سرحدوں پر سرکار کے طفیلی میڈیا کی نظروں کے سامنے جو کچھ ہورہا ہے اس سے بی جے پی یا مودی کو سیاسی فائدہ ملے نہ ملے، لیکن مبصرین کہتے ہیں کہ ساری کی ساری صورتحال پاکستان کے حق میں جارہی ہے۔چونکہ بھارت کشمیر کی سرحد کو خفیہ رکھتا آیا ہے، بارڈر شیلنگ کے نتیجہ میں پاکستان نے عالمی میڈیا کو سرحد کی سیر کرادی ہے، اور اس طرح کشمیر پھر ایک بار انٹرنیشنلائز کرنے اور ایل او سی کو دنیا کی خطرناک ترین سرحد کے طور پروجیکٹ کرنے کا سنہری موقعہ مل گیا ہے۔
اس کے علاوہ خود بھارتی جنرلوں کے مطابق شیلنگ کے دوران مسلح دراندازی آسان ہوجاتی ہے۔ سب سے بڑی بات تو قومی سیکورٹی کونسل کے سابق مشیر اور سٹریٹیجک سٹڈیز پروگرام نامی تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر پرکاش مینن نے لکھی ہے۔ 7مارچ کو انڈین ایکسپریس میں شایع ایک مضمون میں انہوں نے پاکستان کو حاصل ان فوائد کا اجمالی تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکومت نے سرحد کا درجہ حرارت بڑھا کر ’’جوابی دراندازی‘‘ کے عمل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہ اپنے آپ میںبہت بڑا اعتراف ہے۔
ظاہر ہے آر ایس ایس نے اپنے نئے برانڈ نریندر مودی کے ذریعہ تفریق، نفرت، مخاصمت اور مظاہرۂ قوت کے جن چار ستونوں پر اپنی نئی سیاست کا محل تعمیر کیا تھا وہ چاروں لڑکھڑا رہے ہیں۔ مسلم دشمنی کی وجہ سے ملک کا دلت، لبرل اور مسلم حلقہ متحدہ ہورہا ہے اور پاکستان کو سبق سکھانے کے بلند بانگ دعوے سراب ثابت ہورہے ہیں۔لہٰذا آئندہ برس ہونے والے انتخابات میں مودی کے پاس بیچنے کے لئے کچھ نہیں ہوگا اور یہی اس نئی سیاست کا تکلیف دہ امتحان ہے۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر