سرینگر//حریت(گ)چیرمین سید علی گیلانی نے ہریانہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم کشمیری طلباء پر حملہ کرنے کی کارروائی پر اپنی گہری تشویش اور فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے ریاست کے اسلامی تنظیموں کے سربراہان اور صاحبِ ثروت لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کشمیری نوجوانوں کو تعلیمی اور پیشہ ورانہ کورسز کی تکمیل کے لیے ریاست جموں کشمیر میں نئی یونیورسٹیاں اور دیگر ٹیکنیکل ادارے قائم کرکے قومی اور انسانی بنیادوں پر معصوم طلباء کی زندگیاں بچانے اور ان کے مستقبل کو محفوظ کرنے میں اپنی ملّی ذمہ داریاں نبھائیں۔تاکہ ہمارے ان معصوم بچوں کو ریاست سے باہر تعلیم کے حصول کے لیے بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرف رُخ نہ کرنا پڑے اور اس سے ان کی زندگیوں کو تحفظ فراہم ہوگا اور یہ یکسوئی اور آزادی کے ساتھ اپنی تعلیم کو جاری وساری رکھ سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جموں کشمیر میں اگر یہ تعلیمی ادارے قائم ہوں گے تو ان سے یہاں روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوجائیں گے اور جس سے ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ذہنی عذاب سے نجات بھی حاصل ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اب کسی بھی طور کشمیریوں کے لیے محفوظ جگہ نہیں رہی ہے اور انہیں یہاں ہر جگہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی زندگیاں اور عزت یہاں زبردست خطرات سے دوچار ہیں۔ گیلانی نے کہا کہ بھارت سے بھی بہت سارے بچے جموں کشمیر میں زیرِ تعلیم ہیں اور انہوں نے یہاں مختلف کورسز کے لیے کئی اداروں میں داخلہ لیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں مزدور پیشہ لوگ بھی یہاں معاش کمانے کے لیے آتے ہیں، جبکہ لاکھوں کی تعداد میں بھارت کی تمام ریاستوں سے لوگ سیروتفریح کے لیے بھی آتے ہیں، البتہ کشمیری عوام ان کا مذہب اور عقیدہ جانے بغیر ان کے ساتھ برادرانہ سلوک روا رکھتے ہیں اور آج تک کبھی بھی ان کو شکایت کا موقعہ نہیں دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں جو کچھ کشمیریوں کے ساتھ ہورہا ہے وہ اس بڑے ملک کے چھوٹے پن کا ایک کھلا ہوا اظہار ہے۔انہوںنے ریاستی انتظامیہ کی بھی اس بات کے لیے کڑی نکتہ چینی کی کہ انہوں نے بھارتی ریاستوں میں کشمیریوں کے تحفظ کو لیکر اگرچہ بڑے بڑے دعوے کئے تھے، البتہ عملاً وہ اس میں ناکام ثابت ہوگئی ہے اور اُس نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں یہ صورتحال ہمارے لیے تکلیف دہ اور پریشان کُن ہے، وہاں اس حوالے سے اس کا سدّباب کرنا ہماری قومی اور ملی ذمہ داری بھی ہے، جس کے لیے پوری قوم کو اجتماعی طور اس پر سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہوگا۔