عظمیٰ نیوزڈیسک
نیویارک// دہلی میں ہندوستانی اور امریکی حکام کے درمیان تجارتی بات چیت سے پہلے، وائٹ ہاؤس کے تجارتی مشیر پیٹر ناوارو نے کہا کہ ہندوستان، جس پر کسی بھی بڑے ملک کے مقابلے سب سے زیادہ محصولات ہیں، میز پر آ رہا ہے۔ان کے تبصرے ٹرمپ انتظامیہ کے چیف مذاکرات کار برینڈن لنچ کی منگل کے روز مجوزہ ہندوستان-امریکہ دو طرفہ تجارتی معاہدے پر دن بھر کی بات چیت سے پہلے سامنے آئے، جو ہندوستانی اشیا پر امریکہ کی طرف سے 50 فیصد درآمدی محصولات کے نفاذ کے بعد متاثر ہوا تھا۔نوارو نے پیر کوسی این بی سی کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہا،’’ہندوستان میز پر آ رہا ہے… محصولات کا مہاراجہ۔‘‘انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ’بہت مفاہمت آمیز، عمدہ، تعمیری‘ ٹویٹ بھیجا تھا، ’وہ ہندوستان میں جو کچھ بھی کرتے ہیں، اور صدر (ڈونلڈ) ٹرمپ نے اس کا جواب دیا۔‘گزشتہ ہفتے، وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ہندوستان اور امریکہ فطری شراکت دار ہیں اور دونوں طرف کی ٹیمیں دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت کوپایہ تکمیل پہنچانے کیلئے کام کر رہی ہیں۔ ان کی سوشل میڈیا پوسٹ ٹرمپ کے اس ریمارکس کے جواب میں سامنے آئی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان “تجارتی رکاوٹوں” کو دور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ناورا نے کہا،’’ہم دیکھیں گے کہ، یہ اس طرح کام کرتا ہے۔ لیکن ایک عملی معاملے کے طور پر، ہم جانتے ہیں کہ تجارت کے لحاظ سے، ان کے پاس کسی بھی بڑے ملک کے مقابلے سب سے زیادہ ٹیرف ہوتے ہیں۔ ان کے پاس بہت زیادہ نان ٹیرف رکاوٹیں ہیں۔ ہمیں اس سے نمٹنا پڑا جیسے ہم ہر دوسرے ملک کے ساتھ ایسا کرتے ہیں۔‘‘ناوارو، جو اکثر ہندوستان کو روسی تیل کی خریداری پر نشانہ بنا چکے ہیں، نے کہا کہ ملک نے 2022 کے یوکرین پر حملے سے پہلے ایسی سپلائی نہیں خریدی تھی۔ہندوستانی ریفائنرز حملے کے فوراً بعد روسی ریفائنرز کے ساتھ ہوگئے۔یہ پاگل پن ہے کیونکہ وہ غیر منصفانہ تجارت میں ہم سے پیسہ کماتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکی کارکن اس سے متاثر ہوتے ہیں۔پھر وہ اس رقم کو روسی تیل خریدنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور پھر روسی اسے ہتھیار خریدنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور پھر ٹیکس دہندگان کے طور پر ہمیں یوکرین کے دفاع کے لیے زیادہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ اور ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟۔
ناوارو نے گزشتہ ماہ چین کے شہر تیانجن میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کا بھی حوالہ دیا، جہاں پی ایم مودی، روسی صدر ولادیمیر پوتن اور چینی رہنما شی جن پنگ کی ایک ساتھ تصویر کھنچوائی گئی اور ان کے رشتے نے عالمی توجہ مبذول کروائی۔ناورانے کہا،’’مودی کو چین کے ساتھ سٹیج پر دیکھنا، جو اس کا طویل عرصے سے وجود کے لیے خطرہ رہا ہے اور پوتن، یہ ایک دلچسپ سلسلہ تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ (مودی) ایسا کرنے میں آرام محسوس کرتے ہیں۔ہندوستان اور امریکہ مارچ سے دو طرفہ تجارتی معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ اب تک مذاکرات کے پانچ دور مکمل ہو چکے ہیں۔ چھٹا راؤنڈ، جو گزشتہ ماہ طے ہوا تھا، امریکہ کی طرف سے ہندوستانی اشیاء پر 50 فیصد محصولات کے نفاذ کے بعد ملتوی کر دیا گیا تھا۔