آج جب عید الاضحی کا سورج طلوع ہوا توبساطِ ارضی کے ہر گوشے میں اُمت مسلمہ کے قلوبِ مضطر میں مسرت و طمانیت کی لہریںموجزن ہوئیں ۔خاکدان ِعرب میں ملت مغموم سے وابستہ لاکھوں بندگان ِخدا قافلہ در قافلہ وفور ِشوق میں گرمی کی شدت ، سفر کی صعوبت ،معمولات کا الٹ پلٹ سہتے ہوئے حرمِ کعبہ کے گرد مستانہ وار چکر لگاتے نظر آرہے ہیں ، منیٰ،عرفات اور مزدلفہ اُن کی دعاؤں اور مناجات میں جھوم رہے ہیں۔احرام کی دو چادروں میں ملبوس مسافران ِ راہِ حق عجب سودا سروں میں سمائے دنیا و ما فیا سے بے خبر بس خالقِ کون و مکان کو اپنی بپتا سنانے اور اُسے منانے میں بچشم گریاں محو ومصروف ہیں ۔قربانیاں تو انہوں نے بھی دیں اور قربانیاں دنیا کے ہر گوشے میں مقیم صاحب ِاستعداد دے ہی دے گا ، مگر جوبات قابل غور ہے وہ یہی کہ یہ سارا عمل آخر ہے کیا؟اور اس دوڈ دھوپ اور جذب و شوق کی انتہا ئوں کا پس منظر ہے کیا؟ جریدۂ عالم کی تاریخ کھولئے تو نظر آئے گا کہ اللہ کا ایک چنیدہ وبرگزیدہ بندہ کوئی پانچ ہزار برس پہلے عراق کے شہر’ اُر‘میں پیدا ہوا ۔ایک بُت گر ،بُت ساز و بُت پرست کے گھر میں ہی نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے خانوادے میں جو وقت کے جبار اور متکبر بادشاہ کی مجلس ِوزارت کا اہم ترین رُکن بھی تھا ،اُسے سرکاری پرٹوکول بھی حاصل تھا اور زندگی کی ساری آسائشیں بھی میسر تھیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ نت نئی بُت سازی اور بُت گری نے اُسے مذہبی حلقوں میں بھی نمایاں مقام بخش دیا تھا ۔رہی بات بادشاہ کی تو وہ صرف عملاً ہی خدائیت کا دعوے دار ہی نہیں تھا بلکہ قولاً بھی اپنے تئیں الوہیت کا زعم باطل تھاجیسے موسیٰ ؑ کا مقابلہ کرنے کے لئے فرعون نے اعلان کیا تھا۔ ’’اناربکم الاعلیٰ ‘ (میں ہی ہوں تم لوگوں کا رب اعلیٰ و بالا ) اورر عیت کی زندگی اور موت کا فیصلہ میری مٹھی میں بندہے ۔ نمرودی ملک کامشرکا نہ نظام اُ س ’’رب الارباب ‘‘کے نام کی مالا جپتا تھا اور قدم قدم پر بتوں کے آگے انسان کی سجدہ ریزی سے جبینِ انسانیت داغ داغ تھی،مادہ و دولت مقصد زندگی اور عیش و نشاط قلب ونظر کا کلی ہدف تھا ۔انہی ناگفتہ بہ حالات میں جب 5000معبودانِ باطل پوجے جارہے تھے اور ساتھ ہی نمرود کی ’’خدائی‘‘کا دَم بھی بھرا جارہا تھا ،اُر کے بت گر و بت ساز اور بادشاہ کے قریبی ہم نشین ومصاحب کے گھر میں ایک ایسے مبارک بچے نے جنم لیا جو سن ِشعور کو کیا پہنچا کہ آسمان و زمین ،نجوم و کوا کب، آ فتاب و ماہتاب اور موسموں کا تغیر و تبدل اُسے گھنٹوں یہ سوچنے پر آمادہ کرتے رہے کہ آخر کون ہے جو ان ساری اشیاء اور سیاروں کا خالق ہے ؟ کون اس کائنات ارضی کا کارساز ہے ؟ان اجرام ِسماویہ کا عروج و زوال دیکھ کر جنہیں یہ قوم خدا جان کر پوج رہی تھی ،اُس نے خود سے کہا کہ یہ خدا نہیں ہوسکتے قطعی نہیں ہوسکتے کہ غروب ہونا بھی ان کی خدائیت کی نفی ہے ۔اور پھر اس ابدی وناقابل تردید حقیقت کا اعلان اپنے انجام سے بے خبر ہوکر جب وا لد، قوم اور مغرور بادشاہ کے سامنے برملا کر تے ہوئے کہا کہ سر وری فقط اُسی ذات ِبے ہمتا کو حاصل ہے جو ازل و ابد کا مالک اور عرش و فرش کا خالق ہے ، حکمران اک وہی ہے باقی بتان ِ ساحری، یہ انسانوں ،بتوں اور دیگر باطل وفساد عقائد کی شکل میں پوجے جانے والے اصنام سبھی بتانِ وہم وگمان ہیںاور کچھ نہیں۔ظاہر ہے کہ صدیوں سے شرکیات کی غلاظتوں میں لت پت یہ قوم ٹھنڈے پیٹوں یہ اعلان ِحق کیسے سن پاتی ؟بادشاہی دربار سے ہزار رعایتیں لینے والے باپ کا زنگ آلودہ دِل بھلا یکتا مولا ئے جہاںکو وہا ں کیسے بسا دیتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نشہ ٔ پندار میں مست مطلق العنان حکمران اس حق گوئی کو اور اُس کے محلات پر گرنے والی حق کی یہ بجلیاں کیسے برداشت کرلیتا ؟قرآن نے تو ان سبھی واقعات کی خوب صراحت کی ہے کہ دین خداوندی کا نام سن کر باپ بپھراُٹھا ، بادشاہ آگ بگولہ ہوا ،قوم سنگسار کرنے پر اُتر آئی اور نمرود نے جوروظلم کے حدود ہی پار کرلئے ۔اللہ کے اس فرستادے کا قصہ ٔ تمام کرنے کے لئے خدا کے اس باغی نے ایک بھیانک آگ سلگائی جو آتش نمرود کے نام سے بھی موسوم ہے ۔ چشم ِفلک یہ دیکھ رہی تھی کہ ربِ جلیل کا چنیدہ خلیل اللہ علیہ السلام اس صبر آزما گھڑی میں کیا کرتا ہے ؟ کیاکسی مصلحت سے اپنے سر پہ آئی بلا کو ٹالے گا؟ کسی من مانی تاویل کا سہارا لے کر یا کسی خفیہ Dealکے نتیجہ میں اپنی سلامتی کا پٹہ حاصل کرے گا لیکن ارض و سماوات کے خالق سے عہد و وفا باندھنے والے اس بطل جلیل نے منصب ِپیغمبری کو تا بندگی بخشی ، حق وصداقت پر کوئی آنچ نہ آئے ،اس کے لئے بے خطر سلگتی بھڑکتی آگ میں کود گیا ،زمین دنگ ،آسمان متحیر ،فرشتے مبہوت ، چرند و پرند دم بخود مگرتسلیم و رضا کے اس مظاہرے سے پہلی زد نمرود کی خدائی پر پڑی۔۔۔اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ آتش نمرود یکایک ربِ کریم کے حکم سے رشک ِارم بن گئی ۔حق اب سر چڑھ کر بول رہا تھا ۔بجائے اس کے کہ یہ معجزہ نمائی دیکھ کر ہر انسانی سر خدائے واحد کے آگے سجدہ ریز ہوتا ،اللہ کے اس فرستادے کے پیغام ِ وحدانیت پربے چوں وچراں ایمان لایا جاتا ، پیغمبرانہ دلائل و براہین کے سامنے سر خم تسلیم کیا جاتا لیکن شرک کے دلدادوں اور بتوں کے پیادوںکے دل مقفل ، آنکھیں بند ہوگئیں ،عقل اندھی ، شعور اپاہچ اور وجدان مفلوج ہو نے کے سبب وہ ضد م ضدا اور ہٹ دھرمی میں توحید کے دشمن اور شرک کے یارِ جانی بن گئے ۔ یہ کبر ونخوت کی انتہا تھی، اس لئے دل کی آنکھ کو نہ کھلنا تھا نہ کھلی ،کور نصیب تھے کہ خدا کے یہ باغی کہ شرک پر اصرار سے عذابِ خداوندی کے مستحق ٹھہرے۔ اُدھربادشاہِ وقت نشۂ قوت میں مست و مدہوش اپنی خدائیت کا نفع بخش دھنداچلاتا رہا ۔ تاریخ کا بے غبار سچ یہ ہے کہ اقتدار و اختیار کا یہ دو آتشہ ایک انسان کو کس قدر اندھا بنا دیتا ہے کہ آفتاب افق عالم پر چمک دمک بھی رہا ہو، پھر بھی اس قماش کے کور دماغ لوگ آفتاب کے وجود کی دلیل مانگتے پھرتے ہیں،نہیں جانتے کہ ع آفتاب آمد دلیل ِ آفتاب اور قاعدہ کلیہ یہی ہے کہ ؎
گر نہ بیند بروز شب پرچشم چشم چشمۂ آفتاب را چہ گناہ
اگر چمگادڑ کو دن کی پوری روشنی میں آ فتاب دکھائی نہیں دیتا تو قصور وار آفتاب ٹھہرے گا ؟نہیں قطعاً نہیں۔روشنی کا ادراک کرنے سے چمگادڑ کی آنکھیں ہی اگر معذور ہیں اور وہ اگر حقائق کا انکار کرے تو کیا حقیقتیں بدل جاتی ہیں؟خلیل اللہ ؑ سلامتی کے ساتھ فرحاں و شاداں آتش ِنمرود سے نکل آیا تو نمرودی اقتدار کی جبین پر بَل پڑگئے ،نمرود بوکھلا گیا ۔ بجائے اس کے کہ وہ راہ ِ ہدایت کی جانب لپکتا،اُس نے ہلاکت کے راستے پر گامزن ہونا تھا، سو ہوگیا ۔ وقت کے پیغمبر کے خلاف اس کادست ِتظلم دراز ہوتا رہا کیوں کہ سیاسی سطوت اور عسکری قوت نے اُسے باؤلا بنا دیا تھا ،اوپر اپنی شقاوت قلبی کے سبب ذلت ورسوائی مقدر تھی، سو قیامت تک اس کے نام سے یہ چپکی رہے گی۔ تاریخِ دنیا کا مسلمہ یہی بتاتا ہے کہ اقوام کی حکمرانی کی باگیں جب الٰہی احکام سے روگردانی کرنے والوں کے ہاتھ میں آجاتی ہیں تو پھر بساطِ ارضی پر شرو فساد رونما ہوتا ہے کہ انصاف ،انسانیت اور عدل بس گردآلودہ لغات تک محدود ر ہتے ہیں ،یہاں تک کہ عذا بِ الٰہی کے کوڑے خدا کے باغیوں اور سر کشوں کوصفحۂ ہستی سے حرف غلط کی طرح نہیںمٹا دیتے بلکہ اُن کے کے چیلے چانٹے، بغل بچے اورجی حضوری بھی ناسیاً منسیا ہوکر رہ جاتے ہیں۔ نمرود ہو ،فرعون ہو،ہامان ہو، چنگیز ہو ، ہٹلر ہو ، مسولینی ہو ،اسٹالین ہو، حق وعدل کی تاریخ میں ان کا نام ذلت ونفرین کی علامتیں بن کے رہ جاتی ہیں ۔
آج سید نا ابراہی علیہ السلام کی راست بازی اور ایثار و فتح مندی کا ڈنکا تو بج رہا ہے لیکن نمرود کا نام سننا بھی دنیا میں کسی اہل حق کو گوارا نہیں ۔سیدنا مو سیٰ علیہ السلام کی عظمتوں اور پیغمبرانہ شان کو آج بھی خشک و تر میں سلام بھیجا جارہا ہے لیکن فرعون کا نام سننا بھی زندہ ضمیر لوگ پسند نہیں کرتے ۔سیدنا ابراہیم ؑکو خاتمی مرتبت صلی ا للہ علیہ وسلم نے اس ملت و اُمت کا معنوی باپ فرمایا ہے اور اس باپ کے بیٹوں نے اُس کی آمد کے ہزاروں سال بعد بھی مشعل حق یوں جلائے رکھی کہ اس کی روشنیوں میں براہیمی ؑپَر تو رقصاں نظر آئے ۔ روشنیوں کے یہ سفیر ستائے گئے ،مارے گئے ،کاٹے گئے ،بے وطن کئے گئے ، گھسیٹے گئے ،زینت ِزندان بنائے گئے لیکن یہ ماں کے لعل ایمان،ا یثار اور استقامت کے ہمالہ بنے توحید و نظام عدل کی مشعل اپنے لہو اور عرقِ عطر بیز سے فروزاں کر تے رہے کہ ملت ابراہیمی ؑسر بلند ہوگئی ۔ اُنہیںحق سے باز آنے کے صلے میں مراعات ، لذات ، اقتدار و اختیار کی پیش کشیں کی گئیں ، مگران فاقہ مستوں کے منہ سے رال نہیں ٹپکی ، ان پیش کشوں کوپائے حقارت سے ٹھکرادیاور اللہ اور اُس کے رسول محترم ؐ سے باندھے اپنے عہد ِوفا کیناقابل فراموش یاد گارمثالیں قائم کیں۔ان اہلِ عزیمت میں سے تو ایک مثال حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ کی ہے ۔شام کے نصرانیوں نے انہیں قید کرکے قیصر روم کے دربار میں لایا ۔قیصر نے نصرانی مذہب قبول کرنے کو کہا ، تبدیلی ٔدین کے بدلے میں اپنی شہزادی نکاح میں دینے اور اپنی بادشاہت میں شریک کرنے کی زرق وبرق پیش کش کر دی۔اللہ کے اس بندے نے گو شِ حق نیوش سے بات سنی اور جواب میں فرمایا :’’جو دولت و سلطنت تمہاری مِلک میں ہے اور وہ سب کچھ جو پورے عالم عرب میں ہے ،اگر وہ سب مجھے دی جائیں تب بھی میں پلک جھپکنے کے مقدار کے برابر اللہ کے دین سے نہیں پلٹوں گا‘‘ یہ سن کربادشاہ سیخ پا ہوا اور جان لینے پر آمادہ ہوا ،قتل کی دھمکی دے ڈالی ،انتہائی سزا کے علاوہ اور دے بھی کیا سکتا تھا؟عبداللہ ؓ پورے قد سیت کھڑے ہوکربولے جو تیری مرضی ہے کر گذر!ایک دم حکم شاہی جاری ہوا کہ سولی پر لٹکائو ،اسے اور اس کے ہاتھ ،پائوں کے قریب تیر اندازی کرو ،اس دوران وہ انہیںعیسائیت کی دعوت دیتے رہے مگر یہ بندۂ جلیل سراپا انکار بنا رہا ،سولی سے اُتار ا گیا ۔دیگ میں تانبے کو جوش دے کر پگھلادیا گیا پھر مسلمان قیدیوں کو اُس کی آنکھوں کے سامنے اس میں ڈ ا لا جاتا رہا، یوں اُن کا رواںرواں جھلس گیا اور اپنے متاع ِایمان کی حفاظت میں ان کا وجود شہادت کے لبادے میں حیاتِ جاوداں پاگیا۔عبداللہ بن حذافہ ؓ کو اس ہوش رُباعمل سے گزارنے کے لئے ایک چرخی (Bobbin)میں رکھا گیا، تو آپ رونے لگے۔ اس پر قیصر کو یہ آس بندھی کہ چلو یہ گھبرا گیا اوراستقامت و ثبات کا خمار اُتر گیا۔پھر ایک بار تبدیلی ٔ دین کی صلاح دے ڈالی، جواب میں عبداللہ ؓ نے فرمایا :’’میں تو اس لئے رورہا ہوں کہ یہ صرف ایک جان ہے ،میری تمنا تو یہ ہے کہ میرے وجود کے ہر روئیں کے برابر میری جانیں ہوتیںاور میں یکے بعد دیگرے اللہ کی راہ میں انہیں قربان کرتا ۔ایک اور روایت ہے کہ اُنہیں جیل میں ڈال دیا گیا ،ایک عرصہ تک کھانا پینا بند کردیا گیا ،پھر قید سے نکال کر اُن کے سامنے شراب اور سور کا گوشت رکھ دیا گیا،اُس جانب فاقہ مست صحابہ ؓ نے نگاہ بھی نہ اٹھائی ،اس پر قیصر نے بلاکر پوچھا کہ تم نے ان چیزوںسے جان بچانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ جواب دیا:’’سانسوں کو بچانے کی حد تک ہماری شریعت میں حرام چیزوں سے استفادہ تو جائز ہے لیکن ایسا کرکے میں تمہیں خوش کرنے کا موقع فراہم نہیں کروں گا‘‘ ۔قیصر نے کہا میری پیشانی پر بوسہ دو ،آزاد کردوں گا ،تو اللہ کے اس مخلص بندے نے یہ شرط اس شرط کے ساتھ قبول کی کہ کیا بدلے میں میرے تمام ساتھیوں کو رہا کردوگے؟قیصر نے کہا کہ شرط منظور ہے ۔ حضرت عبداللہ ؓ نے قیصر کی پیشانی پر بوسہ دے کر اپنے ساتھیوں کو رہا کروایا ۔لوٹ کر امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم ؓ کے پاس آئے ،سارا واقعہ سنایا ۔اس ایمان افروز عزم و حوصلہ کی داد سیدنا عمرؓ نے یہ حکم دے کر دی کہ ’’ہر مسلمان پرلازم ہے کہ عبداللہ بن حذافہؓ کی پیشانی کو بوسہ دے اور میں خود ابتدا ء کرتا ہوں اور پھر بوسہ دینے والوں کی قطار لگ گئی۔یوں ملت ِ خلیلی سے وابستہ اس بطل جلیل نے ایمان ،ایثار اور اخلاص کی تابندہ مثال قائم کرکے دنیا پر واضح کردیا کہ لذتِ ایمان سے سرشار قلوب کو تن وتوش کی کوئی فکر نہیں ہوتی ،اقتدار و اختیار کا لالچ اُن کے پائے ثبات میں کوئی ڈگمگاہٹ پیدا نہیں کرتی ، باطل حکمرانوں کی خوشنودی میں وہ اپنے ضمیروں کا سودا نہیں کرتے ،اللہ سے کئے گئے عہد بندگی کو مفادات کے لئے نہیں توڑتے ،مراعات اور مناصب کے عوض اپنے ایمان کا سودا نہیں کرتے ۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ ہاں مسلم ہونا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ، یہ قدم قدم بلائیں اور ڈگر ڈگر مصائب سے دودوہاتھ کرنا ہے ۔ سیدنا ابراہیم ؑ کے مولا نے قرآن کی زبان میں اآپ ؑ سے عہد لیا تھا ’’جب اُس کے رب نے اُس سے کہا کہ جھک جاؤ تو اُس نے کہا کہ میں اللہ رب العالمین کے لئے جھک گیا ‘‘پھر ایک اِلہ کے آگے اپنا سر مبارک جھکانے کا بھرم قائم رکھنے میں کو ن سے پاپڑ ہیں جو آپ ؑ نے نہیں بیلے ،سب جانتے ہیں ۔ انہی اسباق ِخلیلیت ؑ کا ہرسال عیدا الاضحٰی کی صورت میں اعادہ کیا جاتا ہے تاکہ اُمت مسلمہ اپنے ایمان پر سب کچھ نچھاور کر نے سے غافل نہ رہے۔ سوال یہ ہے کہ ابدی سرخ روئی اہل حق کو کیسے نصیب ہوتی ہے؟ جواب سادہ اور مختصر ہے کہ صرف اس لئے کہ انہیں بس اپنا مولا جی جان سے عزیز ہوتا ہے ، اُس کی مرضی میںاپنی مرضی کو فنا کرکے ہی وہ تابندہ وپائندہ ہو جاتے ہیں ۔آج پھر منیٰ عرفات،مزدلفہ و منیٰ ،مقام ابراہیم و صفا مرواہ اور کعبہ و حرم میں ہماری توجہ اُسی سراپا ایثار و اخلاص ابوالملت کی حیات ِ مبارکہ کی جانب پھیر دیتے ہیں جس نے مولا سے اپنی محبتوں کی انتہا اس انداز میں کی کہ عرش معلیٰ سے آنے والی یہ صدا ہمیشہ فرشِ زمین پر سنا ئی دے گی ’’اور ابراہیم نے وفا کردی‘‘۔آج عشرہ ذوالحجہ میں بالخصوص اُس مرد حق کی یاد یں تازہ ہوتی ہیں جس کی ملت سے وابستگی ہمارا تمغۂ افتخار ہے جس نے شرکیات کی گنگھور گھٹائوں میں نعرہ توحید لگاکر ظلمتوں کا سینہ چیر کے رکھ دیا ۔مگر ہائے یہ اُمت و ملت! آج اپنی منصبی اور مِلی ذمہ داریوں سے یکسر غافل کہاں ایک دوسرے سے دست گریباں نہیںہے۔اعدائے دین ہماری صفوں میں انتشار پیدا کرنے کی سازشوںمیں کامیابی پر گھی کے چراغ جلا رہے ہیں ،عرب و عجم میں ہمیںلسانی ،طبقاتی اور مسلکی خانوں میں بانٹ کر ہمارے شیرازے کو منتشر کرکے رکھ دیا گیا ہے ۔ہماری باہمی اخوت کے بخیے ا ڑا دئے گئے ہیں ۔ اسلامی دنیا کی سرزمیں کو ہم خود ایک دوسرے کے خون سے لالہ زار بنا رہے ہیں شا م و فلسطین ،لبنان و مصر ،یمن و ترکی ، پاکستان و افغانستان، کہاں ہماری ہوا اُکھڑ نہیں گئی ہے اور کہاں ہم ایک دوسرے کی گردنیں نہیں ماررہے ہیں ،خود ہم جس وادیٔ مینو سواد کے مکین ہیں ،ہم پربھی عرصہ سے قہر و ستم کی یورش ہے ،ذرہ ذرہ لہو رنگ ہے ،حریضوں سے کیا گلہ مختلف ادوار میں اس حال تک پہنچانے کے لئے کچھ اپنوں کا کردار بھی کتنا گھناونا رہا ،کسی کی اندھی عقیدت اُسے حق گوئی سے رو کے تو روکے لیکن تاریخ کسی کا پاس و لحاظ نہیں کرتی ہے ۔ حقائق کا ہر زمانے میں چرچا کرتی رہے گی آج بھی ہمارے تشخص وحدت اور سالمیت کے انکچر پنکچر ڈھیلے کرنے کے در کھولدئے گئے ہیں ۔آسمان سر پر اٹھانے والوں میں کون کون شامل نہیں ،اہل بصیرت اس حوالہ سے بھی ہر ایک کے کردار سے واقف ہیں۔ہم بکھر چکے ہیں ،بٹ چکے ہیں ،ایک دوسرے سے کٹ چکے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ ہمیں مسلک و مشرب کے نام پر لڑانے کی بھی منصوبہ بندی عروج پر ہے جو پہلے اس انداز میں نہیں تھی ۔اب صاف نظر آرہا ہے کہ تاریں کہاں سے ہِل رہی ہیں اور ہمارے ہی بھائی بند مہرے بن رہے ہیں ،کسی حقیر مفاد کے حصول کے لئے ایسا ہورہا ہے یا یہ سادہ لوحی ہے واللہ اعلم۔گو ہر جانب اندھیرا ہی اندھیرا ہے لیکن یاس و قنوطیت کی اسلام اجازت نہیں دیتا ،ہمیں بھی مایوس نہیں ہونا چاہئے ،ہم آج بھی ابراہیمیؑ کردار کو اپنائیں ،قلب و نظر کو کامِل طور مسلمان بنادیں ،توحید کو ہر زبان کریں ،قرآن و سنت کو ہی اپنا دستور العمل، عملی طور جان لیں اور اپنے حریف ،شاطر کی چالوں کو سمجھ لیں تو کوئی وجہ نہیں ہمیں پھر عظمت ِ رفتہ حاصل نہ ہو ۔ بس ایک ہی شعر میں حکیم الامت نے اس حقیقت کو یوں واضح کیا ہے ۔ ؎
آج بھی ہو جو ابراہیم سا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا
یاد رہے 1427ء سال قبل میدان عرفات میں ایک لاکھ سے زائد قدسیوں کے سامنے حضرت امام کائنات ؐنے جو مقدس اور عظیم خطاب ارشاد فرمایا تھا ،اُس کا لفظ لفظ اور حرف حرف ہمیں ایمان کی ڈوری میں بندھے رہنے کا درس زریں دیتا ہے ۔ارشاد فرمایا :عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت ہے۔کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں ،تم سب آدم کی اولاد ہو ،اور آدم مٹی سے بنائے گئے ۔ سب سے بڑا توشہ اور سبب ِافتخار قیامت کے دن تقویٰ ہوگا ،جسے بھی اور جس زمانے میں بھی یہ دولت حاصل ہوگی وہ فائزالمرام ہوگا ۔
ہم میں لاکھ حامیاں، کوتاہیاں اور نقائص سہی مگر اُمید افزا بات یہ ہے کہ آج پھر منیٰ و عرفات میں خوش نصیب اللہ کو دل وجان سے پکاررہے ہیں، اس سے معافی تلافی کررہے ہیں، اپنی دینی اجتماعیت کا مظاہرہ کررہے ہیں ،تجدید ایمان اور کردار سازی کا عہدو پیمان کر رہے ہیں۔ اسی میں ہماری زندگی مضمر ہے ۔ 1427برس بیت گئے مگر ایمان و اسلام کی کوئی رگ ملت کے جانِ ناتواں میں ضرور پھڑک رہی ہے۔پیرو جواں ،میر و وزیر ، شاہ و گدا سب شہنشاہِ انفس وآ فاق کی دہلیز پر کھڑے ملت مظلوم کی امداد و نصرت کے لئے دست بدعا ہیں، ہر طرف رقت آمیز مناظر ہیں ۔منیٰ و مزدلفہ میں آہ و بکا ہے اور حرمین الشریفین سے بھی دھاڑ یں مار مارکے رونے کی صدائیں آرہی ہیں۔اللہ تعالیٰ اس نالہ و فغاں کو شرف قبولیت بخشے ۔وہ دنیا کا انسان کامل اور اقوام و اُمم کا رہنما ورہبر صلعم جو 1427برس اسی میدانِ عرفات میں ایستادہ تھے اور اسلام کا کلیدی خطبہ دے رہے تھے،ا للہ کی جانب سے فتح و نصرت جن کی قدم بوسی کرتی تھی ،آج اُسی میدان میں لاکھوں فرزندانِ توحید کھڑے ہیں لیکن کیا ہم اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کر نا چاہیے کہ کیا ہم میں وہی ایثار واستقامت والی ایمانی حرارت موجود ہے ؟ اللہ سے محبت اللہ ہر کام سے جھلکتی ہے ، اُس کے رسول ؐ سے بے پایاں محبت ظاہر ہوتی ہے ، اخوت والفت کی شرینی رگ وپے میں موجزن ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو دلی عید مبارک قبول کیجئے ۔ اگر اللہ نہ کرے جواب نفی میں ہے تو فکر کیجئے کہ ہم اپنی عید میں حقیقت کا خدائی رنگ بھرنے اور براہیمیؑ آہنگ بھر نے کے لئے اپنے ایمان ،اخلاص اور للہیت کی تعمیر میں ابھی سے لگ جائیں ۔ ساتھ ہی ساتھ اس بدیہی حقیقت کو بھی کسی حال نہ بھولئے کہ وطن عزیر سے لے کردیارِ اسلام کے کونے کونے میں جو خون آشام اور گھمبیر حالات پائے جاتے ہیں ان کو دیکھ کر ہماے منہ سے بے ساختہ یہ آہ نکلنی چاہیے ؎
خزاں میں مجھ کو رُلاتی ہے یادِ فصل بہار
خوشی ہو عید کی کیوں کر کہ سوگوار ہوں میں
فون نمبر 9419080306
۔۔۔اور ہماری عید ہے
ہرطرف آہ و بکا ہے ،اور ہماری عید ہے
یورشِ جوروجفاہے، اور ہماری عید ہے
چل رہی ہیں چار سو قہر و ستم کی آندھیاں
ظلم کی یاں انتہا ہے ،اور ہماری عید ہے
آتش و آہن کی بُوہے، قتل وغارت کُو بہ کُو
خونِ مسلم بہہ رہا ہے، اور ہماری عید ہے
نوجوانوں کے جنازے روز اُٹھتے ہیں یہاں
ہر جگہ مقتل سجا ہے ، اور ہماری عید ہے
مائیں اُن کی دم بخودہیں باپ بھی ہیں اشکبار
غم زدہ سب اقرباء ہیں، اور ہماری عید ہے
کھوئے بھائی پہ رورہی ہیں رات دن بہنیں یہاں
آنسوؤں سے تررِدا ہے ، اور ہماری عید ہے
عدل بھی ، انسانیت بھی، جذبہ ٔ انصاف بھی
بس کتابوں میں لکھا ہے، اور ہماری عید ہے
اب نمازوں کے لئے بھی ہے اجازت لازمی
قفل مسجد پر لگاہے ، اور ہماری عید ہے
وہ دفعہ پنتیس اے ہو یا تین سو ستر کہو
خاتمے کا درکھلاہے، اور ہماری عید ہے
حکمران یہ آج کے ہوں یا جن سے کرسی چھن چکی
کھوکھلا سب کردیا ہے، اور ہماری عید ہے
کس نے بیچی کوڑیوں کے دام ،جو الگ پہچان تھی
آستیں میں وہ چھپا ہے ، اور ہماری عید ہے
بجلیاں جو گر رہی ہیں جانتے ہیں اے خدا
اپنے ہاتھوں کا کیا ہے، اور ہماری عید ہے
وقت امداد اے خدائے ذوالمنن ہے المدد
ایک تُو مشکل کشاہے ، اور ہماری عید ہے
ظلمتوں میں سن بشارتؔ کی صدائے دردناک
شورِ محشر یاں بپا ہے ، اور ہماری عید ہے
بشارت بشیر