شیخ ولی محمد
حکیم الامت علامہ اقبال کا مضمون ’’ بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ پہلی باررسالہ مخزن جنوری ۱۹۰۲میں دوسری بار اسی رسالے میں ۱۹۱۷ کو شائع ہوا ۔ ازاں بعد سید عبد الواحد معینی نے مقالات اقبال مئی ۱۹۶۳ میں شامل اشاعت کیا۔ بعد میں یہ مضمون ماہنامہ’’ عالمی ترجمان القرآن‘‘ لاہور اپریل ۲۰۱۷میں بھی شائع ہوا۔ابتدائی تعلیم کے حوالے سے مضمون کی اہمیت اور ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں پر اختصار کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے ۔
ا۔ پہلی بات جو ہر مطالعہ کرنے والے کو صاف دکھائی دیتی ہے یہ ہے کہ بچوں میں ایک قسم کی اضطراری حرکت کا میلان ہوتا ہے جو نہ صرف انسان کے ساتھ ہی خاص ہے بلکہ ہر حیوان میں پائی جاتی ہے۔ انیسویں صدی کے مشہور حکما اس اضطراری جوش کی بچے کی نشو و نما کے لیے ضروری جزوخیال کرتے ہیں کیوں کہ اس حالتِ اضطرار میں اس کے اعضا حرکت میں آنے کے لیے کسی بیرونی محرک کے محتاج نہیں ہوتے ۔ بچوں میں اعصابی قوت کی ایک زائد مقدار ہوتی ہے جو کسی نہ کسی راہ سے صرف ہوکراُن کی خوشی کا موجب ٹھیرتی ہے ۔ بعض دفعہ اعصابی قوت کو یہ زائد مقدار رونے چلانے میں صرف ہوجاتی ہے ، بعض دفعہ بے تحاشا ہنسنے اور کھیلنے کودنے میں ۔ پس جو لوگ بچوں کے رونے سے تنگ آتے ہیں اُن کو یاد رہے کہ یہ بھی اُن کے جسمانی اور روحانی نمو ( ترقی یا بڑھوتری) کے لیے ایک ضروری جزو ہے ۔ اس کے علاوہ اس قوت کے صرف ہونے کی اور بھی راہیں ہیں ۔ من جملہ ان کے ایک یہ ہے کہ بچے کے حواس خود بخود حرکت میں آتے ہیں جس کی وجہ سے اسے خارجی اشیا کا رفتہ رفتہ علم ہوتا جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بچہ ایک متعلّم ہستی نہیں بلکہ سراپا ایک متحرک ہستی ہے ، جس کی ہر طفلانہ حرکت سے کوئی نہ کوئی تعلیمی فائدہ اُٹھانا چاہیے ، مثلا اینٹوں کے گھر بنانا ، لڑی میں منکے پرونا ، گانا وغیرہ ۔وہ زائد اعصابی قوت جو رونے اور بے جا شورکرنے میں صرف ہوتی ہے ، ایک باقاعدہ شور یاراگ میں آسانی سے منتقل ہوسکتی ہے اور وہ قوت جو ضرررساں اشیا کے چھونے اور دیگر چیزوں کو ادھر اُدھر پھینکنے میںصرف ہوتی ہے ، اینٹوں کے گھر بنانے میں سہولت سے صرف ہوسکتی ہے ۔
۲۔ بچپن کا ایک اور خاصہ یہ ہے کہ اس عمر میں کسی شے پر مسلسل توجہ نہیں ہوسکتی ۔ جس طرح اس کے جسمانی قوا کو ایک جگہ قرار نہیں ہوسکتا اسی طرح اُس کے قوائے عقلیہ بھی ایک نکتے پر عرصے کے لیے قرار پذیر نہیں رہ سکتے ۔ لہذا، ہر طریق تعلیم میں اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہیے کہ سبق طویل نہ ہوں اور چھوٹے چھوٹے حصوں پر منقسم ہوں ،تاکہ پڑھتے وقت بچوں کے مختلف قوا کو تحریک ہو ۔ اس کے علاوہ یہ بھی لازم ہے کہ ہر سبق میں ایک خاص مشترک بات ہو ، تاکہ ایک خاص مقام پر توجہ لگانے کی عادت بھی ترقی کرتی جائے ۔
۳۔ بچوں کو اشیا کے غور سے دیکھنے اور بالخصوص ان کے چھونے میں لطف آتا ہے ۔ تین مہینے کی عمر کا بچہ ہو اور اُس کی توجہ روشنی کی طرف منتقل ہوجائے تو ہاتھ پھیلاتا ہے اور شمع کے شعلے کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے ۔ نظر کے فعل سے اُس کی تسلی نہیں ہوتی ، حس لامسہ ( چھونے کی حس ) سے بھی مدد طلب کرتا ہے کیوں کہ اُسے قدرتاً اشیا خارجی کے چھونے میں مزا آتا ہے ۔ یہ بات ہر شخص کے تجربے میں آئی ہوگی کہ جب بچے کو نظر دیوار کی کسی تصویر پر جا پڑے تو بے اختیار چلانے لگتا ہے ا ور چاہتا ہے کہ تصویر اُتار کر اُس کے ہاتھوں میں دے دی جائے ۔ چلانے سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹے میاں اب چپ ہونے میں نہیں آئیں گے ، مگر جب مطلوبہ شے سامنے رکھ دی جائے تو چپ ہو جاتا ، تو ایک طرف بعض اوقات آپ کی ہنسی بھی نکل جاتی ہے ۔ پس جس شے کے متعلق سبق دو ، اس کو بچے کے سامنے رکھو اور جب سبق ختم ہوجائے تو شے مذکور اُس کے ہاتھ میں دے دو ۔ مشاہدے سے حسِ بصر( دیکھنے کی صلاحیت ) کی تربیت ہوتی ہے ۔ چھونے سے قوتِ لمس معتدبہ فروغ پاتی ہے ۔ اس طرح لمس اور بصر کے متحدہ استعمال سے بچے کو صورتِ شے کا ادراک ہوجاتا جائے گا ۔
۴۔بچے کی توجہ صورتِ شے سے زیادہ رنگ ِ شے کی طرف لگتی ہے ۔ جن اشیا کا رنگ شوخ ہو اُس کا دھیان زیادہ تراُنہی کی طرف رہتا ہے ۔ کسی اعلیٰ درجے کے مصوّر کی بنائی ہوئی تصویر اُس کے سامنے رکھ دو ۔ اگر اُس کا رنگ شوخ اور چمکیلا نہیں تو اسے اس کی پروا بھی نہیں ہوگی ۔ برخلاف اس کے اپنی چھوٹی سی کتاب کی رنگین تصویروں پر جان دیتا ہے ۔ بول چال میں ملا حظ کیجئے : لفظ سرخ ، نیل وغیرہ تو پہلے سیکھ جاتا ہے اور لفظ مربع ، تکون وغیرہ کہیں بعد میں جاکر۔ اس سے یہ اصول قائم ہوا کہ بچے کے ابتدائی سبق رنگین اشیا کے متعلق ہونے چاہیے ۔
۵۔بچے میں بڑوں کی مدد کرنے کا مادّہ خصوصیت سے زیادہ ہوتا ہے ۔ ماں ہنستی ہے تو خود بھی بے اختیار ہنس پڑتا ہے ۔ باپ کوئی لفظ بولے تو اُس کی آواز کی نقل اُتارے بغیر نہیں رہتا ۔ ذرا بڑا ہوجاتا ہے اور کچھ باتیں بھی سیکھ جاتا ہے تو اپنے ہم جولیوں کو کہتا ہے : ’’ آؤ بھئی! ہم مولوی بنتے ہیں ، تم شاگر د بنو‘‘ ۔ کبھی بازار کے دکان داروں کی طرح سودا سلف بیچتا ہے ۔ کبھی پھر پھر کر اُونچی آواز دیتا ہے کہ : ’’ چلے آؤ! انار سستے لگادیے‘‘ ۔ اس وقت میں بڑا ضروری ہے کہ استاد اپنی مثال بچے کے سامنے پیش کرے ، تاکہ اُسے اُس کے ہر فعل کی نقل کرنے کی تحریک ہو ۔
۶۔قوتِ متخیلہ یا واہمہ بھی بچوں میں بڑی نمایا ں ہوتی ہے ۔ شام ہوئی اور لگاستانے اپنی ماں کو : ’’ اماں جان ! کوئی کہانی تو کہہ دو‘‘ ۔ ماں چڑیا یا کوّے کی کہانی سناتی ہے تو خوشی کے مار ے لوٹ جاتا ہے ذرا بڑا ہو ا ، اور پڑھنا سیکھ گیا تو ناولوں اور افسانوں کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ استاد کو چاہیے کہ قوتِ واہمہ کی نمو ( اَن دیکھی چیزوں کو تصویر میں لانے کے اضافے ) کی طرف بالخصوص خیال رکھے ۔ایسا نہ ہو کہ یہ قوت بے قاعدہ طور پر بڑھ جائے اور اس سے قواے عقلیہ کی ترقی میں نقص پیدا ہو ۔ بعض حکما کی رائے ہے کہ اس قوت کی تربیت کی اتنی ضرورت نہیں ، جس قدر کہ اُسے مناسب حدود کے اندر رکھنے کی ہے ۔ بچے کی اس خصوصیت سے بے انتہا تعلیمی فائدہ ہوسکتا ہے ۔ اکثر مکتبوں میں لڑکے کاغذ کی کشتیاں دن رات بنایا کرتے ہیں ۔قوتِ واہمہ کے لیے یہ اچھی مشق ہے ۔
۷۔بچوں میں ہمدردی کی علامات بھی ظاہر ہوتی ہیں ۔ جن سے بچے کی اخلاقی تعلیم میں ایک نمایاں فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے ۔ کسی کو ہنستا دیکھے تو خود بھی ہنستا ہے۔ ماں باپ غمگین نظر آئیں تو خود بھی ویسی ہی صورت بنالیتا ہے ۔ تجربے اور مشق سے یہ جبلی قوت بڑھتی جاتی ہے ۔ ابتدا میں اوروں کے غم سے متاثر ہوتا معلوم ہوتا ہے ۔ اُستاد کو چاہیے کہ اُسے ہمدردی کے متعلق عمدہ عمدہ کہانیاںسنائے اور یاد کرائے ۔ جس حیوان کے متعلق اسے سبق دینا ہو اُس کے ساتھ اچھا سلوک کرے ، تاکہ بچے کے لیے ایک عمدہ مثال تقلید کرنے کے لیے قائم ہوجائے ۔
۸۔ الفاظ یاد رکھنے کے لیے بچے کا حافظہ حیرت ناک ہے ۔ اپنی مادری زبان کی پیچیدگیاں کس طرح آسانی سے دیکھ جاتا ہے اور یاد کرلیتا ہے۔ معلّم کو لازم ہے کہ اپنے شاگردوں کو عمدہ عمدہ شعار اور نظمیں یاد کرائے اور پڑھے ہوئے سبقوں کے مضامین کی طرف باربار اشارہ کرے ۔
۹۔ اس عمر میں قوتِ متمیزہ[ تمیز اور فرق کرنے کی صلاحیت] کمزور ہوتی ہے ۔ اشیا کے باریک باریک فرق تو معلوم نہیں کرسکتا ہاں بڑے ظاہر اور نمایاں اختلافات ، مثلاً اختلافاتِ صُور اشیا [ مختلف چیزوں کی صور ت میں فرق] معلوم کرلیتا ہے ۔ لہذا ابتدا میں ظاہر اختلافات کی طرف اُسے توجہ دلانی چاہیے ،
۱۰۔قوائے عقلیہ، مثلاً تصدیق اور استدلال کا کمزور ہونا ۔ بچے سے ایسی فہمید ( سمجھ ) کی توقع نہ رکھو جو ابھی تجربے اور علم سے بڑھنی ہے۔ ان قواکے مدارج ترقی کا لحاظ استاد کے لیے نہایت ضروری ہے ۔ وہ عام اشیا اُس کے سامنے رکھو اور ان کے بڑ ے بڑے اختلافات بیان کرو۔ بچے سے ایسے تصورات کے علم کی توقع نہیں رکھنی چاہیے جس کے ضمنی مدرکات ( ذیلی ) کا علم ہی اُس کو نہیں ہے ۔ ایک برس کے بچے کو کیا علم کہ ’’حُبِ وطن‘‘ کس جانور کا نام ہے ؟۔ ہمارے بعض معلم ، بچے کے ہاتھوں میں ایسی ابتدائی کتابیں رکھ دیتے ہیں ، جن کا پہلا با ب مثلاً : خدا کی صفات سے شروع ہوتا ہے مگر انہیں یہ معلوم نہیں کہ خدا ایک ایسا مجرو تصور ہے جو قوائے عقلیہ کی حدِ کمال پر پہنچنے اور بہت سا علم حاصل کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور صفاتِ شے کا اُس شے سے علیحدہ تصور کرنا ایک ایسا فعل ہے ، جو بچے سے کسی صور ت میں ممکن ہی نہیں ہے ۔لہذا اس قسم کا علم دینا ممکن ہے کہ بعض وجود سے اچھا ہو ، مگر علمی اصولوں کی رُو سے بچے کے حافظے پر ایک بے جا اور غیر مفید بوجھ ڈالنے سے زیادہ نہیں ہے
۱۱۔ آخری خاصہ بچے کا یہ ہے کہ اخلاقی محرکات سے یا تو بچہ متاثر ہی نہیں ہوتا یا اگر ہوتا ہے تو نہایت اقل ( تھوڑے یا معمولی ) درجے پر ۔ کیوں کہ اس قسم کی تحریکوں سے متاثر ہونا اور اس اثر کو عملی زندگی کے دائرے میں ظاہر کرنا ، ایک ایسا امر ہے کہ جو اعلیٰ درجے کی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے ۔ معلّموں کا فرض ہے کہ ابتدا سے ہی بچے میں اخلاقی تحریکوں سے متاثر ہونے کی قابلیت پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔ مثلاً شروع سے ہی اُن کو ہمدردی کرنا سکھائیں اور نیز اس امر کی طرف پوری توجہ دیتے رہیں کہ بچہ اپنے سبق کے متعلق ضروری ترتیب کا لحاظ رکھے ، کیوں کہ امن اور صلح کاری کی عادت انہی چھوٹی چھوٹی باتوں سے پیدا ہوتی ہے ۔
مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوگیا ہوگا کہ ایک عمدہ اور مضبوط تعلیمی بنیاد رکھنے کے لیے بچے کے نشوو نما کا مطالعہ کہاں تک ضروری ہے ۔ معلم حقیقت میں قوم کے محافظ ہیں کیوں کہ آیندہ نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک کی خدمت کے قابل بنانا انہی کی قدرت میں ہے ۔ اگرچہ بدقسمتی سے اس ملک میں اس مبارک پیشے کی وہ قدر نہیں جو قدر ہونی چاہیے ۔ معلم کا فرض تمام فرضوں سے زیادہ مشکل اور اہم ہے کیوں کہ تمام قسم کی اخلاقی ، تمدنی اور مذہبی نیکیوں کی کلید اسی کے ہاتھ میں ہے اور تمام تر اعلی ترقی کا سرچشمہ اسی کی محنت ہے۔ پس تعلیم پیشہ اصحاب کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیشے سے تقدس اور بزرگی کے لحاظ سے اپنے طریق تعلیم کو اعلیٰ درجے کے علمی اصولوں پر قائم کریں ، جس کانتیجہ یقینا یہ ہوگا کہ اُن کے دم قدم کی بدولت علم کا ایک سچا عشق پیدا ہوجائے گا جس کی گرمی میں تمدنی اور سیاسی سرسبزی ( سیاسی صحت مندی ) مخفی ہے جس سے قومیں معراجِ کمال تک پہنچ سکتی ہیں ۔