برصغیر کے روشن خیال مفکرین اور مصلحین میں سرسید احمد خان کی شخصیت مثل آفتاب ہے ۔سرسید صرف ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک عہد اور ایک رجحان ساز تحریک کانام ہے‘ جسے سرسید تحریک یا علی گڑھ تحریک بھی کہا جاتا ہے۔اگر سرسید کی عہد ساز شخصیت کا مختصر احاطہ کیا جائے تو علّامہ اقبالؔ کے مشہورشعر کا اعادہ کافی ہوگا۔ ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ویسے بھی علّامہ اقبالؔ اپنی نظم ’’سید کی لوحِ تربت ‘‘میں سرسید کی شخصیت اور مشن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ؎
مدعا تیرا اگر دنیا میں ہے تعلیم ِدین
ترکِ دنیا قوم کو اپنی نہ سکھلانا کہیں
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لئے اپنی زباں
چُھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامۂ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ کوئی دل نہ دکھ جائے تری تقریر سے
جب سرسید کو بطور’’ دیدہ ور‘‘ (Visionary) پیش کیا جائے تو اس کے لئے ان کی تعلیم و تربیت‘ فکری ارتقاء‘مذہبی افکار‘روایت شکن تصورات‘جدت پسند خیالات ‘سیاسی نظریہ‘ اصلاحی شعوراورتعلیمی وادبی تصورات وغیر جیسے فکری و عملی موضوعات و اقدمات کاپیش نظر رکھنا لازمی بن جاتا ہے ‘لیکن زیر نظر تحریر کامقصد چونکہ سرسید کے تصور تعلیم وتربیت کو ہی موضوعِ گفتگو بنانا ہے تو اس تعلق سے بھی چند بنیادی باتوں پر ہی ارتکاز کرنے کی گنجائش نظر آتی ہے‘نہیں تو یہ موضوع ایک مبسوط مقالے کا تقاضا کرتا ہے۔
سرسید تحریک پر بات کرنے کے لئے ۱۸۵۷ء کی سیاسی وسماجی صورتحال کا پیش نظر رہنا ضروری بن جاتا ہے کیونکہ اسی سال مغلیہ سلطنت کے شاندار ماضی کا سورج غروب ہوا۔چونکہ انگریزوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہی تخت چھینا تھا اس لئے مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان دشمنی کی ایک ایسی سخت دیوار کھڑی ہوچکی تھی کہ انگریز سرعام کہتے تھے کہ انہیں ہندوستان میں مسلمانوں کے سوا کسی سے ڈرنہیں لگتا ہے اور اگر وہ مسلمانوں کو کچلنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ ہند پر بڑی آسانی سے حکومت کرسکتے ہیں۔
The English frankly say that they fear no one but Muslims in India and that if they crush the Musalmans they shall rule with a care-free heart. (Muslim Narratives And The Discourse of English…P.26)
اب جبکہ ایک طرف مسلمان اقتدار سے بے دخل ہوچکے تھے تو دوسری جانب حکمران طبقے کے لئے آشوبِ چشم بن چکے تھے ۔ اس اندوہناک صورتحال میں پوری قوم ذہنی تناؤ (Mental Tention)کی شکار ہوکرمستقبل سے مایوس دکھائی دیتی تھی۔ اس تناؤ شدہ ماحول میں سرسید احمد خان نے کمربستہ ہوکر اصلاحی کام کا بیڑا اٹھایا۔اُس وقت یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ مسلمان نہ صرف انگریز کو اپنا دشمن سمجھتے تھے بلکہ انگریزی تعلیم سے بھی نفرت کرتے تھے۔ اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں سرسید ایک مشعل بردار (Torch bearer)بن کر سامنے آئے اورلوگوں کو فکری طورپر تعلیمی ضرورت و اہمیت کے لئے بیدار کرنے لگے۔اس طرح سے انہوں نے مجموعی طور پر قوم کو نفسی سماجی بحران(Psycho-social crisis) سے نکالنے کاواحد ذریعہ حصول تعلیم قرار دیا۔اس تناظر میں دیکھیں تو سرسید کی تحریر و تقریر کا وافِر علمی سرمایہ موجود ہیں‘جو ان کے تصور تعلیم وتربیت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے۔جیسے: ’’سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ اول فہمیدہ فہمیدہ‘ذی علم اور ذی عقل لوگ جمع ہوں اور بعد بحث و گفتگو کے یہ بات قراردیں کہ اب سلسلہ ٔتعلیم بہ نظرِ حالات ِزمانہ اور بہ لحاظِ علوم و فنونِ جدید کے کس پر قائم ہونا چاہئے اور ہماری پرانی اور دقیانوسی تعلیم کے سلسلے میں کیا کیا تبدیلی کرنی چاہئے ۔۔۔۔‘‘(رسالہ تہذیب الاخلاق)
’’ میں تعلیم کی ترقی کو اور صرف تعلیم ہی کو ذریعہ ‘قوم کی ترقی کا سمجھتا ہوں۔ہماری قوم کو اس وقت بجز ترقی تعلیم کے اور کسی چیز پر کوشش کرنے کی ضرورت نہین ہے۔اگر ہماری قوم میں تعلیم کی کافی ترقی ہوجائے گی تو ہم کو وہی کافی ذریعہ تنزل کی حالت سے نکلنے کا ہوگا۔‘‘
( مجموعہ لکچرزواسپیچز‘مرتبہ محمد امام الدّین :ص ۲۵۰)
’’میں اپنی قوم کی خاتونوں کی تعلیم سے بے پروا نہیں ہوں ۔میں دل سے ان کی ترقی ٔ تعلیم کا خواہاں ہوں۔‘‘
( مجموعہ لکچرزواسپیچز‘مرتبہ محمد امام الدّین :ص۳۴۳)
سرسید کے زیر غورکثیرالجہت تعلیمی مشن (Multi dimensional literary mission) تھا۔ایک طرف وہ سمجھتے تھے کہ اب روایتی علوم کا اکتساب ہی ترقی کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ علم جدید کا حصول ملت کی ترقی کے لئے بے حد ضروری ہے۔دوسری جانب انہوں نے اس مشن کی آبیاری کے لئے عملی طور پرکئی ایسے تعلیم وتربیت کے ادارے کھولے جن کی بدولت مسلمانوں کی سیاسی و سماجی زندگی میں انقلاب برپا ہوا۔ ان اداروں میں گلشن اسکول (مراد آباد)‘وکٹوریہ اسکول (غازی آباد)‘سائنٹفک سوسائٹی(غازی پور)محمڈن اینگلو اورینٹل کالج جس کوبعد میں توسیع دیکر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا دیا گیا‘شامل ہیں۔علاوہ ازیں ان کے قائم کردہ ادارے ’’محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس‘‘نے بھی تعلیمی سرگرمیوں کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔اس ادارے کے زیر اثر لاہور میں اسلامیہ کالج‘کراچی میں سندھ مدرستہ الاسلام‘پشاور میں اسلامیہ کالج اور کانپور میں حلیم کالج وغیرہ جیسے تواریخی تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں آیا۔
اب اگر اردو وزبان ادب کی ارتقاء اور فروغ کے تعلق سے سرسید احمد خان کے فکری‘علمی اور ادبی خدمات پر اجمالی روشنی ڈالی جائے تو سرسید کو’’جدید اردو نثر کا بانی‘‘بھی کہا جاتا ہے ‘اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی نثر مقفیٰ‘مسجع ‘ مفرس اور دقیق الفاظ اور دورازکار تشبیہات و خیالات کے برعکس آسان اسلوب اور قابل فہم الفاظ و معنی کا دلکش نمونہ ہے۔ قدیم طرز نگارش کی بجائے اپنے آسان طرز اسلوب کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ہم نے نامی یورپ کے عالموں ایڈیسن اور اسٹیل کے مضامین کو بھی اپنے طرز اور اپنی زبان میں لکھا اوراپنی قوم کو دکھا یا ہے کہ مضمون لکھنے کا طرز کیا ہے۔‘‘
(مقالات سرسید)
سرسید کی اردو نثر کا ایک غور طلب پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں ادبی لوازمات کے ساتھ ساتھ اصلاحی فکر کا جذبہ جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ چونکہ وہ ادب برائے مقصد کے قائل تھے اس لئے ان کی بیشتر تحریرات میں مقصدی پہلو نمایاں طور پر نظر آتا ہے یعنی وہ سلیس اسلوب میں عصری سماجی مسائل و موضوعات پر مثبت اور تعمیری سوچ کے تحت اظہار خیال کرتے رہتے تھے‘ بقول ڈاکٹر سید عبداللہ:
’’سرسید کے کارناموں کی فہرست طویل ہے۔۔۔۔۔انہوں نے نہ صرف اردو زبان کی حفاظت کی بلکہ اس کو غیر معمولی ترقی دے کراردو ادب کے نشو وارتقاء میں بھی نمایاں حصہ لیا۔اس سلسلے میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے نثر اردوکواجتماعی مقاصد سے روشناس کیا اوراس کوسہل اور سلیس بنا کرعام اجتماعی زندگی کا ترجمان اور علمی مطالب کے اظہار کا وسیلہ بنایا۔‘‘ (سرسید احمد خان اور ان کے نامور رُفقا)
سرسید تحریک کاایک اہم کارنامہ اصلاح اردوزبان وادب بھی ہے چونکہ وہ خودافادی ادب کے حامی تھے اسی لئے وہ انشا وادب کو تفریح قلب وذہن کے برعکس اصلاح ِفکروذہن کا اہم وسیلہ سمجھتے تھے۔ان کی ہر تحریر میں کسی نہ کسی طرح سے یہی اصلاحی پہلوشامل نظر آتا ہے ۔ مثلاََ ان کے ایک مشہور افسانہ ’’گزرا ہوا زمانہ ‘‘کو دیکھ لیں۔ افسانے کے بین السطور بھی اصلاحی پہلو موجود ہے اور اختتام تو یہ ایک اصلاحی مضمون کی صورت اختیا ر کرجاتا ہے۔:’’پس اے میرے نوجوان ہم وطنو اور اے میری قوم کے بچو! اپنی قوم کی بھلائی پر کوشش کرو تاکہ اخیر وقت میں اس بڑھے کی طرح نہ پچھتاؤ۔‘‘سرسید کی اردو زبان وادب کی خدمات کا ذکر چھیڑیں تو اس پر بے شمار مقالات اور کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور اس مختصر مضمون میں ان کے مضامین اور کتب کی مکمل تفصیل بھی پیش نہیں ہوسکتی ہے ۔بہرحال ان مضامین ‘رسائل اور تصانیف کی مختصر تفصیل یوں ہے۔’روح اور اس کی حقیقت امام غزالی کے نزدیک‘’زمانہ کا اثر مذہب پر‘’آثارالصنادید‘کلمتہ الحق‘تاریخ سرکشی بجنور‘اسباب بغاوت ہند‘رسالہ خیر خواہ مسلمانان‘خطبات احمدیہ‘رسالہ تہذیب الاخلاق وغیرہ اس تفصیل میں رسالہ’’ تہذیب الاخلاق‘‘واقعی قوم کی تعلیم وتربیت اور اخلاق سنوارنے کا موجب بنا۔کیونکہ اس رسالے نے قوم کی ذہن سازی میں تواریخی کردار ادا کیا ہے۔یہ رسالہ ایک طرح سے سرسید تحریک کا آفیشل آرگن تھا۔اس میں ہر قسم کے سیاسی ‘سماجی‘ معاشی‘ اخلاقی ‘تعلیمی اور علمی وادبی مضامین شائع ہوتے رہتے تھے۔اس رسالے کے مقاصد اور اہمیت کے بارے میں سرسید نے پہلے شمارے میں لکھا تھا:
’’اس پرچہ کے اجرا ء سے مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کامل درجے کی سولزیشن(سیولائزیشن) یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جاوے(جائے)‘تاکہ جس حقارت سے سولیزڈیعنی مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں‘وہ رفع ہو اوروہ بھی معززومہذہب قوم کہلاویں۔‘‘
سرسید تحریک کی بدولت اردو شعر وادب ‘تاریخ نویسی ‘انشاپردازی ‘فکشن اور تنقید نگاری میں ایک انقلاب برپا ہوا‘اور اس تحریک کے زیراثر نامورادباء ‘علماء اور فضلاء مثلاََ مولوی نذیر احمد‘نواب محسن الملک‘مولوی چراغ علی‘محمد حسین آزاد‘ الطاف حسین حالیؔ‘شبلی نعمانی وغیرہ نے علم وادب کے موتیوں سے اردو کا خزانہ بھردیا۔مجموعی طور پر سرسید کے علمی وادبی اور اصلاحی کارناموں کا احاطہ کیا جائے تو برصغیر کی علمی وثقافتی تاریخ میں سرسید ایک سرخیل(Pioneer)کی حیثیت رکھتے ہیں ‘ بقول خلیق احمد نظامی:
’’ہندوستان کے مسلمانوں کی گزشتہ ڈیڑہ سو سال کی فکری ‘علمی‘سماجی‘سیاسی اور ادبی تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا گوشہ ہو جس پر سرسید اور علی گڑھ تحریک نے بلا واسطہ یا بالواسطہ اپنے اثرات نہ چھوڑے ہوں۔سرسید اور ان کے رفقاء کے لئے مدرسۃ العلوم ایک تعلیمی درس گاہ‘نئے فکری رجحانات کی ایک علامت اور احیاء ملی کی ایک تحریک کا نام تھا ۔یہاں ’آدم گری‘بھی ہوتی تھی اور تعمیر ملت کا سامان بھی مہیا کیا جاتا تھا۔یہاں وقت کے اشاروں کو سمجھنا بھی سکھایا جاتا تھا اور اس کے دھاروں کو موڑنے کی صلاحیت بھی پیدا کی جاتی تھی۔‘‘
(سر سید اور علی گڑھ تحریک)
وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر193221
cell.7006544358
Email: [email protected]