بلال فرقانی
سرینگر//جموں و کشمیر میں جہاں اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے وزراء اور اراکینِ اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں دوگنا اضافہ تجویز کیا ہے، وہیں سماجی تحفظ سکیموں کے تحت بزرگوں، بیواؤں اور معذور افراد کیلئے سرکار کے پاس فنڈس کی کمی ہے۔حکومت نے اپنے انتخابی منشور میں ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کیلئے بڑے بڑے دعوے کئے تھے لیکن صرف امتحانات اکتوبر سیشن میں کرنے ، خواتین کیلئے مفت سواری اور اب دربار مو کی بحالی کے بغیر کوئی بھی بنیادی وعدہ پورا نہیں کیا گیا ہے۔انتخابی منشور میں بزرگوں، بیواؤں اور معذور افراد کیلئے فی کس 3000روپے دینے کیا وعدہ کیا گیا تھا لیکن صرف 250 روپے کا اضافہ کیا گیا جو بڑے وعدے کیے تھے، ان کے مقابلے میں یہ اضافہ ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ ڈالنے کے مترادف ہے۔لیکن اسکے برعکس قانون ساز اسمبلی کے سپیکر عبد الرحیم راتھر کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہاؤس کمیٹی نے اراکین اسمبلی اور وزراء کی تنخواہوں اور مراعات میں نمایاں اضافہ تجویز کیا ہے۔ اراکین اسمبلی کی ماہانہ تنخواہ ڈیڑھ لاکھ روپے سے بڑھا کر تین لاکھ روپے کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ اس کے ساتھ رہائشی قرضہ، گاڑی کیلئے ایڈوانس، پنشن اور دیگر الاؤنس میں بھی خاطر خواہ اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔
یہ تجویز اس وقت سامنے آئی ہے جب نیشنل کانفرنس (این سی) حکومت کے فلاحی وعدوں کی تکمیل پر پہلے ہی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔کمیٹی کی سفارشات کے مطابق اراکین اسمبلی کی بنیادی تنخواہ 60 ہزار سے بڑھا کر 80 ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے، جب کہ حلقہ انتخاب الاؤنس 1.10 لاکھ روپے مقرر کرنے کی بات کی گئی ہے۔ دیگر مراعات میں ٹیلی فون اور اخراجات کی مد میں 30، 30 ہزار روپے، طبی معاونت کے لیے 20 ہزار روپے اور سیکریٹریٹ اخراجات کیلئے 30 ہزار روپے شامل ہیں۔ اس طرح ایک رکن اسمبلی کو کل ملا کر 3 لاکھ روپے ماہانہ ملنے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ رہائشی قرضہ 10 لاکھ سے بڑھا کر 75 لاکھ روپے، گاڑی ایڈوانس 10 لاکھ سے 25 لاکھ روپے، اور پرسنل اسسٹنٹ کی تنخواہ 12 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کرنے کی سفارش کی گئی ہے، جبکہ سابق اراکین اسمبلی کی پنشن ایک لاکھ دس ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ این سی حکومت نے رواں سال اپریل میں نیشنل سوشل اسسٹنس پروگرام (این ایس اے پی ) اور انٹیگریٹڈ سوشل سکیورٹی سکیم (آئی ایس ایس ایس) کے تحت بزرگ شہریوں، بیواؤں اور معذور افراد کی پنشن میں اضافہ کیا تھا۔ نئی شرحوں کے مطابق 60 سے 79 برس کے بزرگ شہریوں کی پنشن 1000 سے بڑھا کر 1500 روپے، جب کہ 80 سال سے زائد عمر کے افراد کے لیے 2000 روپے کی گئی تھی۔ بیوہ اور معذور افراد کے لیے 1000سے بڑھا کر 1250روپے کردی گئی۔دوسری جانب، اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں دوگنا اضافہ عوامی سطح پر شدید تنقید کا باعث بنا ہے، خصوصاً اس وقت جب حکومت کے بیشتر انتخابی وعدے ابھی تک پورے نہیں ہوئے ہیں۔ نیشنل کانفرنس نے 2024 کے اپنے منشور میں خواتین سربراہ خاندانوں کو 5000 روپے ماہانہ مالی امداد، اور بزرگوں و بیواؤں کی پنشن 3000 روپے تک بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔جسمانی طور پر معذور افراد کی ایسوسی ایشن کا کہنا ہے ’’حکومت کے پاس اراکین اسمبلی کی تنخواہیں دوگنا کرنے کے لیے تو فنڈز ہیں، مگر غریبوں کی پنشن کیلئے فنڈز نہیں۔‘‘ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پی ڈی پی حکومت میں 2016 میں بھی سماجی بہبود سکیموں کے تحت پنشن میں اضافہ کیا گیا تھا، جس میں رقم 400 سے بڑھا کر 1000 روپے کر دی گئی تھی۔لیکن تب بھی اراکین اسمبلی کی تنخواہیں دگنا کی گئی تھیں۔2016 میںماہانہ تنخواہ 80,000سے بڑھا کر 1,60,000 روپے کیا گیا تھا۔اسکے علاوہ سابق قانون سازوں کے لیے پنشن میں 28,000سے اضافہ کر کے اسے 50000روپے کردیا گیا۔اسکے علاوہوزیر اعلیٰ، وزرا، اور وزرائے مملکت کی تنخواہ میں میں اسی شرح سے اضافہ کیا گیا۔اگر یہ مجوزہ ترامیم اسمبلی سے منظور ہو جاتی ہیں تو اراکین اسمبلی ملک کے سب سے زیادہ معاوضہ پانے والے قانون سازوں میں شمار ہوں گے۔