برمی مسلمانوں پر تازہ مظالم کا جھکڑاتنابھیانک اور دردناک ہے کہ کمزور دل والے تو اس کی تصویریں دیکھ بھی نہیں سکتے۔ برمی مسلمانوں پر یہ ظلم کیوں ہو رہا ہے؟ اس کے پیچھے ایک اندوہنا ک داستان ہے۔یہ مسلمان صدیوں پہلے برما میں آباد ہو گئے ، ان کی یہاں اپنی حکومت تھی اور بڑے امن امان اورخوش حالی سے اراکان کے خطے میں رہ بس رہے تھے ۔ ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھاکہ امن پسند کہلانے والے بدھ بھکشو ایک دن کے ساتھ خون کی ہولی کھیلیں گے۔بدھ بھکشوؤں نے طاقت کے بل پر اراکان پرجبری قبضہ جما یا ،پھر ایسے ایسے ظالمانہ قوانین بنائے کہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ ہوگیا، ان کی جائیدادیں چھین لی گئیں ، ان کے کاروبار پر قبضہ کر لیا گیا،ان سے زور زبردستی سے بیگار لیا جانے لگا،ان کی عورتوں کی بے آبروئی کے واقعات عام ہو ئے ۔ برما میں عرصہ دراز تک فوجی حکومت رہی جس نے مسلمانوں پر اتنے مظالم ڈھائے ان کا ذکر چنگیزوہلا کے دورکی یادیں تازہ ہوتیں۔ نہتوں کے خلاف ان فوجی بر بریت کو کبھی نسلی فسادات کہا گیا ، کبھی برما کا اندرونی معاملہ قرار دیا گیامگر کسی ایک گوشے سے بھی اس بربریت کے خلاف کوئی خفیف آواز بھی نہ اٹھائی گئی۔آج تک روہنگیائی مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے مگر نہ کہیں کینڈل برگیڈ نظر آیا ، نہ کہیں ہیومن رائٹس والوںکاشور وغل سنا گیا ، نہ کہیں مذمتی قراردادیں منظور ہوئیں اور نہ کہیں واویلا مچی۔ اس وقت بھی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی شدومد سے جاری رکھتے ہوئے ان کے بچوں ، خواتین ، بزرگوں، نوجوانوں کو وحشیانہ طریقے پر تہ تیغ کیا جارہاہے ۔ اگر ایسا ظلم وتشددکسی اور قوم کے ساتھ ہو رہا ہوتا تو پورا مغربی میڈیا ، ان کے این جی اوز، ان کی حکومتیں اور مشرق میںا ن کے چیلے چانٹے آسمان سر پر اٹھا دیتے مگر یہاں چونکہ معاملہ مسلمانوں کا درپیش ہے اس لئے یہ سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ افسوس !کہ مسلم ممالک کا میڈیا ناچ نغمے کی کوریج میں اپنی تمام ترتوانائیاں اور وسائل ضائع کرتا ہے مگر برمی مسلمانوں کے خلاف اَہنساوادیوں کی دہشت گردی اس کو نظر ہی نہیںآرہی ۔ حتیٰ کہ اگر یہ لٹے پٹے مسلمان کسی طرح بچتے بچاتے کشتیوں میں سوار ہو کربنگلہ دیش یا کسی دوسرے ملک کے ساحل تک پہنچ بھی جائیںتو انہیں وہاں سے بڑی بے دردی سے ڈوب مرنے کے لئے واپس لہروں کی جانب دھکیلا جاتا ہے۔ یہ صرف ترکی کے صدر رجب طیب اردگان ہیں جن سے برما کے مظلوم مسلمانوں کا ظلم سہا نہیں گیااور برما کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف ۵۷ ؍اسلامی ممالک کے حکمرانوں میں صرف انہیں زبان کھولنے کی توفیق ہوئی ۔ بہر حال اقوام متحدہ سے یہ پوچھنا بے کار ہے کہ اسے یہ ظلم وجبر کیوں نظر نہیں آتا؟ عالمی برادری سے بھی کوئی خیر کی اُمید نہیں ۔ علاج صرف یہ ہے کہ مسلم اُمہ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو تاکہ نہ صرف برمی مسلمانوں کا تحفظ ہو بلکہ ودسری مسلم قومیں اور ممالک اس نوع کی آفات سے بچ جائیں ۔