شبیر احمد بٹ
آج سے قریباً پانچ سال قبل جب وبائی بیماری کووڈ 19 نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر بڑے پیمانے پرجانی و مالی نقصان سے دوچار کرایا اور بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں اقتصادی بحران میں مبتلا کردیا تو وہیںاُس وبائی صورت حال نےجموں و کشمیر میں بھی تباہی مچادی ،خصوصاًوادیٔ کشمیر کے لئے وباء کی یہ صورت حال کسی جنگ سے کم نہیں تھی،کیونکہ اس سے قبل ہی ایک طویل عرصے سےکشمیرجن نامساعد حالات سے گزرتی چلی آرہی تھی ،وہ کسی بھی فردِ بشر سے پوشیدہ نہیں اور پھر وبائی بیماری نے وادی ٔ کشمیر کو بھی اقتصادی طور پرجس نقصان سے دوچار کردیا ،اُس کا خمیازہ ہم آج تک مختلف صورتوں میں بھگت رہے ہیں ۔ وادی کشمیر کو پیروار بھی کہا جاتا ہے ۔مگر نوے کی دہائی سے ہی وادی کی صورت حال یکسر بدلنے لگی، نہ صرف یہاں کی تہذیب ،یہاں کے اقدار بلکہ یہاں کی زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں تبدیلیاں ہوناشروع ہوگئ تھیں،جو نمایاں طور آج بھی نظر آرہی ہیں ۔بقول شاعر ؎
تبدیلی جب آتی ہے موسم کی اداوں میں
کسی کا یوں بدل جانا بہت ہی یاد آتا ہے
ان تبدیلیوں میں برق رفتار تیزی کی ایک خاص وجہ سمارٹ فون بھی رہا ہے ۔کووڈ۔۱۹ نے جونہی وادی کے دَر پہ دستک دی تو ایک طرف جہاں مالی اور جانی نقصان سے دوچار ہونا پڑا، وہیں اس بیماری نے سمارٹ فون کو ہمارے گھروں کا ایک لازمی حصہ بنا دیا ۔اگرچہ سمارٹ فون کووڈ ۔۱۹سے پہلے بھی یہاں موجود تھا مگر کووڈ19 کے دوران اس کی اہمیت اور افادیت کا اتنا بول بالا ہوا کہ اس کا استعمال گھر گھر میں گویا واجب سا ٹھہرا ۔ یہاں تک کہ اسکولی بچوں کے لئے بھی یہ سمارٹ فون نصاب کا ایک لازمی حصہ گرداننا پڑا ۔نابالغ بچوں سے لے کر عمر رسیدہ بزرگوں کے ہاتھوں جب سمارٹ فون آیا توانٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے اپنی گرفت اتنی مضبوط کر ڈالی کہ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ بدلنے لگا ۔
نئے نئے حکیم،ڈاکٹر، لیڈر، ادیب، شاعر، عالم، جرنلسٹ، مولوی،تاجر اور وغیرہ وغیرہ ، سوشل میڈیا کے افق پر نمودار ہونے لگے ۔ جھوٹ جس کےکسی زمانے میں پَر نہیں ہوتے تھے،اب نہ صرف دوڑنے لگا بلکہ اُڑنے لگا ۔ لوگوں کی توجہ کا مرکز بننے کے لئے آداب واخلاق اور شرم و حیاء کو تار تار کیا گیا ۔کسی زمانے میں گھر میں بوڑھے بزرگ افراد خانہ کی تربیت کے لئے اخلاقی کہانیاں سنایا کرتے تھے ۔اپنے تجربات اور مشاہدات سے افراد خانہ کو حوصلہ اور ہمت دیتے تھے مگر اب ہر فرد کے ہاتھ میں سمارٹ فون ہے اور یہ بوڑھے بزرگ بھی اس کی دنیا میں اتنے کھو گئے ہیں کہ اب کسی کو کچھ کہنے کی نہ فرصت ہے اور نہ کوئی سننے کا خواہاں ہے ۔طالب علموں نے کتاب کو چھوڑ کر موبائل کی فحاشیت اور عریانیت کو اپنا نصاب سمجھا ۔ ٹی وی سیریلز،شادی بیاہ کی تقاریب،آرائش و زیبائش کے ساز و سامان اور دیگر رسوم و بدعات کو گھر کے کچن میں ہی دیکھنا ماں بہنوں کا معمول بن گیا ۔ جن حادثوں،المیہ اور تخریبی وارداتوں یا جنسی درندگیوں کے بارے میں برسوں بعد پتہ چلتا تھا یا پھر لوگوں کا ایک چھوٹا سا طبقہ ہی ان واقعات کو دیکھتا اور سنتا تھا تو دل دہل جاتے تھے مگر اس سمارٹ فون نے انھیں ہر گھر کے کچن میں پہنچا دیا اور گھر کا ہر فرد اسے دیکھ لیتا ہے، جس کے منفی اور بُرے اثرات گھر،خاندان اور پوری سوسائٹی پر پڑنا لازمی ہے۔ مسخرے پن اور بے وجہ کے قہقہوں کو entertainment کا نام دیا گیا۔ بے حیائی اور بے شرمی کی باتیں سن کر اور دیکھ کر باپ بیٹے اور ماں بیٹی کے درمیان جو شرم و حیاء کا پردہ حائل رہتا تھا، وہ بھی تار تار ہوگیا ۔
جو بات کبھی ہونٹوں پر لانے کی مجال نہیں ہوتی تھی، ان کو اب رشتے ناتوں والے وٹزاَپ گروپس میں share کرنے میں بڑائی سمجھی جاتی ہے ۔اب شام کو والدین ،بچوں کے ساتھ اور بچے والدین کے ساتھ وہی سب کچھ سنتے سناتے ہیں جو دن بھر ان کے فیس بک اور وٹزاَپ پہ لگا رہتا ہے ۔غرض انتشار،فتنہ،تخریبی قصے کہانیاں فیشن اور جھوٹ جو اس سوشل میڈیا کا بہٹ بڑا حصہ بن چکاہے، اب کثیر لوگوں کےلئے خوراک جیسی صورت اختیار کرچکا ہے ۔ خاص کر مرد و زن کے اس طبقے سے جو سمارٹ فون،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے علم سے واقف نہیں ہیں۔ وہ لوگ جس اس کے مکروفن کے جھانسے میں آجاتے ہیں یا شارٹ کٹ میں کروڈ پتی بننے کی لالچ میں عمر بھر کی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ،مختلف Scams کا شکار ہو جاتے ہیں ۔یہاں تک کہ کچھ لوگ لاعلمی اور بھولے پن کی وجہ سے اپنی آن تک گنوا دیتے ہیں ۔اب انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر جو اس طرح سے لوگوں کو مختلف طریقوں سے لوٹ رہے ہیں یا اپنے مسخرے پن اور دوسرے غیر شائستہ حرکتوں سے اپنا اُلو سیدھا کر رہے ہیں، وہ تو آئے روز اس پر فعال ہوتے جارہے ہیں اور ہوتے رہیں گے ۔سمارٹ فون کا استعمال کرنے والوں کو ہی ہوش کے ناخن چبانے ہونگے تاکہ اس پُرفتن زمانے میں اپنی آن بآن اور شان محفوظ رکھ سکیں !
خوش تھا کہ ہوگیا ہوں موبائل کی طرح
لیکن اس نے مجھ کو زمین پر گرا دیا
(عثمانیہ کالونی ،باغ مہتاب۔رابطہ۔ 7889894120)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)