میر شوکت
جب زمین نے پہلی بار برف اوڑھی تھی، تب شاید وہ وادی کشمیر ہی تھی، جس نے سردی کو دشمن کے بجائے ایک راز جانا۔ پہاڑ سفید سانسوں میں لپٹے تھے، دریا نیند میں منجمد تھے، اور ہوا ایسی سوئی بن گئی تھی جو جسم نہیں، روح میں پیوست ہو جاتی تھی۔ مگر انہی چُبھتی ہواؤں کے بیچ انسان نے اپنی سب سے پہلی اور حسین جیت حاصل کی — حرارت۔
یہ وہ حرارت تھی جو چولہوں سے نہیں، محبتوں سے پیدا ہوتی تھی۔ یہی حرارت آگے چل کر کانگڑی، پھیرن اور حمّام کے روپ میں کشمیر کی تہذیب کا حصہ بنی۔ تینوں گویا اس برف زاد خطّے کے تین مقدس استعارے بن گئے — مٹی، کپڑا اور پتھر، — مگر تینوں کے دل میں ایک ہی آگ دھڑکتی رہی۔
کہتے ہیں، صدیوں پہلے جب کشمیر پر سردی کا پہلا طوفان اُترا، ایک مٹی کار عورت نے اپنے بچے کے نیلے ہوتے ہاتھ دیکھ کر مٹی سے ایک پیالہ بنایا۔ اس میں چند انگارے رکھے اور بید کی باریک شاخوں سے لپیٹ دیا۔ وہ لمحہ دراصل برف پر انسان کی پہلی فتح تھی۔ وہ مٹی کا برتن بعد میں’’کانگڑی‘‘ کہلایا ، مٹی اور آگ کا ایسا حسین سنگم جس نے زندگی کو گرمی کا پہلا نام دیا۔
یہ برتن ایک فلسفہ تھا — کہ زمین کو جلا کر بھی محبت کی خوشبو باقی رہتی ہے۔ کانگڑی میں رکھی چنگاریاں گویا وہی الاؤ تھیں جو سرد ہواؤں کے خلاف انسان کی سانسوں میں جلتی رہیں۔ اس کی خوشبو مٹی، لکڑی اور سانسوں کے امتزاج سے بنی تھی۔ یہ دُھواں چولہے کا نہیں، تاریخ کا دُھواں تھا — بقاء، صبر اور پیار کا ۔وقت کے ساتھ یہ مٹی کا برتن کشمیر کی تہذیب کی نبض بن گیا۔ امیروں کے گھروں میں چاندی کے جالوں سے مزین، غریبوں کے آنگن میں بید کی سادہ لکیروں سے لپٹا، مگر حرارت ایک سی — انسان کی۔ کانگڑی ہاتھوں میں تھم جائے تو لگتا ہے ،جیسے دل کی دھڑکن مٹی کے قالب میں بند ہو گئی ہو۔ کشمیر کا ہر چولہا، ہر آغوش، ہر خواب اس کی گرمی سے روشن رہا۔
یہی وجہ ہے کہ صدیوں بعد بھی کشمیری کہاوت میں کہا جاتا ہے:’’جس کے سینے میں کانگڑی نہیں، اُس کے دل میں زندگی نہیں۔‘‘پھر برف کی گہری راتوں سے ایک اور استعارہ ابھرا —’’پھیرن۔‘‘یہ محض لباس نہیں، وقت کا کمبل ہے جو صدیوں کے قصے اوڑھے ہوئے ہے۔ اس کی ابتداء وسطی ایشیا سے ہوئی، مگر کشمیر نے اسے اپنی دھڑکنوں میں سمو لیا۔ لمبی، ڈھیلی چادر جو جسم نہیں، فضا کو ڈھانپ لیتی ہے۔ پھیرن دراصل برف کے مقابل انسان کی جمالیاتی بغاوت ہے۔ جب برف نے جسموں کو منجمد کرنا چاہا تو انسان نے کپڑے کو دعا بنا لیا۔
پھیرن کے دامن میں حرارت چھپی ہے اور اس کی سلوٹوں میں صدیوں کی کشیدہ کاری۔ دستکاروں کے ہاتھوں سے نکلنے والے دھاگے صرف رنگ نہیں بُنتے، وہ خواب بُنتے ہیں۔ برف کی سفیدی پر جب زربفت دھاگے چمکتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے سردی نے خود کو شرم سے ڈھانپ لیا ہو۔یہ لباس سماجی مساوات کا بھی استعارہ رہا — ،بادشاہ سے مزدور تک، سب نے ایک ہی چادر اوڑھی، فرق صرف نفاست کا نہیں، کہانیوں کا تھا۔ امیروں کے پھیرن پر سنہری کڑھائی، غریبوں کے پھیرن پر لکڑی کے دھوئیں کے دھبّے، مگر اندر کی گرمی ایک سی — دل کی۔پھیرن نے کشمیر کی ثقافت کو جسم سے زیادہ روح دی۔
یہ لباس سردی کا مقابلہ نہیں، موسموں کی شاعری ہے۔ ہر دھاگہ اس دھرتی کے صبر اور نرمی کی علامت ہے، جہاں برف کے ذرے بھی دعا کی طرح گرتے ہیں اور جب کانگڑی اور پھیرن نے زندگی کو حرارت دی، تب آیا تعمیر کا معجزہ ’’حمّام۔‘‘
پندرہویں صدی میں ترک و ایرانی معماروں نے جب پتھروں کے نیچے آگ جلانے کا فن وادی میں لایا، تو کشمیر نے اسے عبادت کی طرح قبول کیا۔ گھروں کے نیچے چونے، سنگِ مرمر اور مٹی کی نالیاں بنائی گئیں جن میں آگ جلتی تھی۔ اس آگ کی گرمی پتھروں میں محفوظ ہو جاتی اور اوپر بیٹھے لوگ دھیرے دھیرے پسینے میں بدل جاتے۔دوسری طرف حمام پانی کو گرم کرتا۔یہ صرف غسل کا مقام نہیں تھا — یہ وقت سے مکالمہ کرنے کی جگہ تھی۔یہاں بزرگ سیاست و شاعری پر گفتگو کرتے، عورتیں اپنی تھکن اور خواب دھوتیں اور بچے بھاپ میں مسکراہٹوں کی پرچھائیاں بن جاتے۔
حمّام کا فلسفہ یہ تھا کہ جب باہر کی دنیا منجمد ہو جائے تو اندر کی آگ کو زندہ رکھا جائے۔پھر رفتہ رفتہ زمانہ بدلا۔ بجلی کے ہیٹر آئے، گیزر نے حمّام کی بھاپ کو دھکیل دیا۔بازاروں میں مشینی حرارت بکنے لگی، مگر مٹی کی گرمی، کپڑے کی خوشبو اور پتھروں کا پسینہ رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا۔لیکن کچھ گھروں میں اب بھی کانگڑی جلتی ہے۔ ان گھروں سے بھاپ اب بھی اٹھتی ہے — جیسے ماضی سانس لے رہا ہو۔وہاں آج بھی سرد راتوں میں لوگ پھیرن اوڑھ کر بیٹھتے ہیں، کانگڑی سینے سے لگاتے ہیں اور دھیرے سے کہتے ہیں:’’یہ مٹی ہماری تاریخ ہے، ہم نے برف کے اندر آگ نہیں، زندگی جلائی ہے۔‘‘
کشمیر کے ہر موسم میں ایک خاموش کہانی بہتی ہے۔سردی جب حد سے بڑھتی ہے، تو درختوں کی سانس بند ہو جاتی ہے۔دریاؤں پر آئینہ جم جاتا ہے اور چاندنی میں برف کا فرش ایسا لگتا ہے، جیسے زمین نے اپنے دکھوں پر سفید کفن ڈال دیا ہو۔مگر اسی فرش کے نیچے کہیں نہ کہیں جلتی ہے — مٹی۔یہ وہی مٹی ہے جو صدیوں سے برف کے خلاف اپنے وجود کی آگ سنبھالے بیٹھی ہے۔وہ مٹی جو کانگڑی بن کر ہاتھوں میں دھڑکتی ہے، پھیرن بن کر جسم پر لہراتی ہے اور حمّام بن کر پتھروں میں سانس لیتی ہے۔یہی کشمیر کی اصل شناخت ہے —۔یہاں کی سردی جسم کو چھوتی ہے مگر دل کو نہیں۔یہاں کی برف ہاتھوں کو نیلا کرتی ہے مگر نگاہوں کو نہیں ۔یہاں کے لوگ آگ نہیں جلاتے، محبت جلاتے ہیں۔
جب سورج وادی کے پہاڑوں کے پیچھے ڈوبتا ہے تو آسمان پر سرخ روشنی پھیل جاتی ہے — جیسے برف خود جلنے لگی ہو۔ہر گھر کی کھڑکی سے کانگڑی کی مدھم لو جھانکتی ہے۔کسی پھیرن کے دامن میں چھپی حرارت، کسی حمّام میں تحلیل ہوتی سانس۔پوری وادی ایک چمکتی سانس بن جاتی ہے، جو برف کے باوجود زندہ ہے۔کشمیر کی ثقافت دراصل انسان کی اس آرزو کی علامت ہے جو سردی کے باوجود حرارت تلاش کرتی ہے۔یہ تہذیب بتاتی ہے کہ مٹی، پتھر اور کپڑا — تینوں بےجان نہیں، اگر انسان ان میں اپنی سانس ڈال دے۔
یہ وادی محض جغرافیہ نہیں، ایک احساس ہے —،ایسا احساس جو سرد موسموں میں بھی گرم لہو رکھتا ہے۔آج بھی جو کشمیری مٹی کی کانگڑی سینے سے لگاتا ہے، وہ گویا اپنی تاریخ کو گلے لگاتا ہے۔جو پھیرن اوڑھتا ہے، وہ صدیوں کے تسلسل میں خود کو لپیٹ لیتا ہےاور جو حمّام میں بیٹھتا ہے، وہ صرف بدن نہیں، اپنی روح کو گرم کرتا ہے۔یہی وہ روح ہے جو برف میں بھی گرم رہتی ہے۔یہی وہ زمین ہے جو جمی نہیں، جلاتی ہے۔یہی وہ فلسفہ ہے جو انسان کو سکھاتا ہے —کہ جب زمانہ برف بن جائے،تو اپنے دل میں ایک چنگاری زندہ رکھو۔وہ چنگاری چاہے مٹی میں چھپی ہو، کپڑے میں یا پتھر میں —،وہی تمہیں زندہ رکھے گی، وہی تمہیں انسان بنائے گی۔کشمیر کی برف حقیقت ہے، مگر اس کی حرارت ایمان ہے۔
یہ وادی وہ درسگاہ ہے جہاں قدرت نے انسان کو بتایا کہ حرارت سورج سے نہیں، دل سے پیدا ہوتی ہے۔